یوم مزدور- ان کے گھر بھی کوئی شمع جلائے

عابد انور

Thumb

2010میں یوم مزدور کے موقع پر لکھا گیا تھا جو ریڈیو پر نشر ہونے کے ساتھ راشٹریہ سہارا کے امنگ میں پورے صفحے پر شائع ہوا تھا۔
صنعتی انقلاب سے جہاں لوگوں کو وسیع پیمانے پر روزگار نصیب ہوا ہے وہیں صنعتی انقلاب کے کل پرزے اور صنعت کو پروان چڑھانے اور اس کے زلف خمیدہ کو سنوارنے میں مزدورں کا خون و پسینہ شامل ہوتا ہے۔ صنعت اور مزدور ایک دوسرے کے لئے لازم ملزوم ہیں۔مزدورں نے اپنی شب و روز کی جدوجہد اور اور انتھک محنت سے کمپنی کی عمارت تعمیر کرنے اور کھڑا کرنے اور اسے استحکام عطا کرنے میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر سطح پر انہوں نے اپنی محنت کے ساتھ خود کو بھی داؤ پر لگادیا۔ لیکن جہاں صنعت اور کمپنیاں ترقی کرتی گئیں وہیں سے مزدوروں کا استحصال کا سلسلہ شروع ہوگیا۔یہاں تک کہ جہاں مزدورں سے12 سے 18گھنٹے کام لئے جانے لگے وہیں ان کی بنیادی ضروریات کو پوری طرح نظر انداز کردیا گیا۔ نہ ان کی صحت کی پروا کی گئی اور نہ ہی ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کیا گیا اور نہ رات گزارنے کے لئے انہیں گھردیا گیا اور نہ دیگر سہولتیں۔ اس استحصال نے مزدوروں میں بے چنیاں پیدا کیں اوربے چیینیاں اور اضطراب بڑھتے ہو ئے انقلاب کی دہلیز تک جا پہنچیں اور مزدوروں نے اپنے حقوق کی بازیابی اور حصول کے لئے انقلاب اور احتجاج کی راہ اپنائی اور ان کا احتجاج رنگ لایا۔آج پوری دنیا میں یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر نہایت تزک و احتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ 
مزدوروں نے اپنے استحصال کے خلاف اور حقوق حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلی بار آواز۴۳۸۱ میں نیویارک میں اٹھائی تھی جہاں مزدوروں سے 18، 18 گھنٹے کام لئے جاتے تھے جب کہ ان کا مطالبہ تھا کہ آٹھ گھنٹے سے دس گھنٹے تک کام لئے جائیں۔اس کے بعد آسٹریلیا میں 1856 میں اس استحصال کے خلاف آواز اٹھائی گئی تھی۔ اس کے بعد مزدوروں کی روح فرسا چینخیں مختلف ممالک میں گاہے بگاہے سنائی دیتی رہیں۔ لیکن باضابطہ تحریک چلانے کا سہرا امریکہ کے مزدوروں کو جاتا ہے جہاں ان لوگوں نے15-18 گھنٹے کام کرنے کے خلاف مورچہ نکالا۔ احتجاج کیا۔ نیویارک میں 5 ستمبر 1882 کو مزدوروں نے احتجاجی ریلی نکالی تھی جس میں 20 ہزار مزدوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس پریڈ میں مزدوروں کے اپنے مطالبات منانے کے لئے کئی طرح کے بینر اٹھا رکھے تھے۔ جس میں لکھا تھا کہ آٹھ گھنٹے کام کے لئے، آٹھ گھنٹے آرام کے لئے اور آٹھ گھنٹے  RECREATIONکے لئے۔ اس کے بعد مزدوروں نے اپنا حقوق کے مطالبے کو جاری رکھا لیکن مزدوروں کو اپنی جانیں بھی گنوانی پڑیں شکاگو کے ہائی مارکیٹ اسکوائر پر مزدوروں کے احتجاج کرنے پر انہیں گولیاں ماری گئیں جس میں کئی مزدور ہلاک ہوگئے۔ لیکن ان کا خون رائے گاں نہیں گیا۔ اس کے بعد کناڈا اور فرانس میں بھی مزدورں نے اپنے کام کے اوقات اور دیگر مطالبات کو پورا کرنے کے لئے احتجاجی سلسلہ شروع کیا۔ 1889 میں فرانس مزدورں ایک ز بردست احتجاجی میٹنگ کی جس میں کئی قراردادیں پاس کیں۔ یہ بھی طے کیا گیا کہ مزدوراپنے حقوق کی لڑائی کے لئے مختلف جگہ مظاہرے کریں گے اور دھرنے دیں گے۔ اس طرح 1890 سے یوم مزدور منانے کا سلسلہ شروع ہوا اور مزدوروں نے اس دن کو اپنے حق کی حصولیابی کے لئے منانا شروع کیا جوآگے چل مزدوروں کے بین الاقوامی احتجاج کا دن ہوگیا اور یکم مئی کو یوم مزدور کے طور منایا جانے لگا۔
مزدورں کے حقوق کے تحفظ کے لئے 1919 میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزشن کا قیام عمل میں آیا۔ ہندوستان اس تنظیم کا رکن اساسی ہے۔ اس تنظیم کا مقصد مزدوروں کی فلاح بہبود، ان کے حقوق کی پاسداری،ان کے مسائل کو حل کرنااور ان کا استحصال وغیرہ روکنا ہے۔ اس تنظیم کو نیشن آف لیگ کا حصہ بننے پر بھی فخر ہے۔  

05-2004کے سروے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 45 کروڑ 90 لاکھ مزدور کام کرتے ہیں۔ ان میں دو کروڑ60 لاکھ مزدور منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں جب کہ غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد43 کروڑ30 لاکھ ہے۔ 43 کروڑ30 مزدورں میں سے 26 کروڑ90 لاکھ مزدور زرعی سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ دو کروڑ 60 لاکھ مزدور تعمیراتی شعبہ سے منسلک ہیں۔ باقی مزدور مختلف شعبوں میں جیسے بیڑی، موم بتی بنانے کے کا رخانے، اگربتی صنعت،  پاپڑ صنعت، سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری میں کام کرتے ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی، تعلیمی اور معاشرتی حالت کیا ہے بہت کمیشنوں اور کمیٹیوں نے ظاہر کردیا ہے۔ ہندوستان میں سب سے زیادہ مزودر مسلمان ہیں وہ بھی اس شعبہ میں ہیں جہاں ان کے لئے کوئی بنیادی سہولت نہیں ہے۔ غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہی ہے۔ 
انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کام کرنے والے ایک ارب40 کروڑ افراد یومیہ  2 ڈالر بھی نہیں کماتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ ان میں سے 55 کروڑ یا40 فیصد افراد وہ ہیں جن کی آمدنی ایک ڈالر سے بھی کم ہے۔ اس کے علاوہ 20  فیصد وہ افراد ہیں جن کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہے۔ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں مزدوروں کے حالات بہت دگرگوں ہے مہنگائی آسمان چھو رہی ہے ادنی سا چاول اورا ٓٹا بھی 20 روپے فی کلو سے کم میں نہیں ملتا لیکن یہاں 20 کروڑ ایسے افراد ہیں جن کی یومیہ آمدنی صرف  بیس (20) روپے ہیں۔ ان کے اخراجات کے پورے ہونے کاصرف تصور ہی کیا جاسکتا ہے۔ ان کے حالات کی سنگینی کا صحیح معنوں میں ہم اندازہ بھی نہیں لگاسکتے۔ پورے ملک کو جانے دیں صرف دہلی میں ہی سرد راتوں میں 10 ہزار خواتین سڑکوں پر سوتی ہیں۔ خواتین کا سرد راتوں میں سڑکوں پر سونا سننے میں عجیب سا لگتا ہے۔ مردوں کی تعداد تو کئی گنا زیادہ ہوگی۔ مغربی بنگال جہاں مسلمانوں کی آبادی 25 فیصد ہے اور وہاں مزدورں کے حقوق کے علمبردارکمیونسٹ پارٹی کی حکومت گزشتہ کئی دہائیوں سے ہے وہاں مسلما نوں کی حالت بہت خراب ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانو کا تناسب  2.5 فیصد ہے بہت سے مزدور کام نہ ملنے کی وجہ بھوکوں مرجاتے ہیں۔ اس کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ہے لیکن بھوکوں پیٹ مرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً سات سو سالانہ ہے۔ 
ہندوستان میں ریڑھ کی ہڈی کہا جانے والا غیر منظم سیکٹر ہے جو اس ملک کی معیشت کی نمو میں نمایاں رول ادا کرتا ہے لیکن خود ان کی حالت دگرگوں ہوتی ہے۔ یہ وہ مزدور ہوتے ہیں کاشتکاری سے لے کر تعمیر اتی کاموں، روڈ اور پل کی تعمیرمیں نمایاں خدمات انجام دے کر ہندوستان کے مستقبل کو جتنا محفوظ کرتے ہیں ان کا مستقل اتنا ہی غیر محفوظ ہوجاتا ہے کیوں کہ ان کے لئے کسی طرح کی سہولت نہیں ہے نہ ہی ان کو کسی طرح رعایت ملتی ہے نہ ہی ہفتہ وار چھٹی اور کسی طرح کی طبی سہولیات اور نہ ہی بچوں کی تعلیم کے لئے کسی طرح مدد۔ اس کے باوجود یہ مزدور رات دن ایک کرکے ملک کی تعمیرو ترقی میں قابل قدر حصہ دے رہے ہیں لیکن افسوسناک پہلو یہ ہے کہ سب سے زیادہ استحصال ان ہی مزدوروں کا ہوتا ہے۔ ملک میں بیڑی مزددوروں کی تعداد تقریباً 50 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں خواتین بیڑی مزدوروں کی تعداد36.42لاکھ ہے۔ یہ سیکٹر بھی استحصال کا شکار ہے۔ بیڑی مزدور آج مختلف مسائل سے دوچار ہیں خاص طور پر صحت کے مسائل سے۔ 

حکومت نے کم از کم اجرت بھی مقرر کردی ہے لیکن کام کرانے والے خاص طور پر زرعی اور تعمیراتی سیکٹر میں مزدوروں کی صحیح مزدوری نہیں دیتے۔ دہلی میں جہاں 1985 میں کم از کم مزدوری 35 روپے یومیہ تھی وہیں 1991میں اسے بڑھاکر 40 روپے کرد ی گئی تھی، 1999 میں پچاس روپے، 2004 میں 66 روپے،2007 میں 80 روپے کردی گئی تھی۔ دہلی میں اس وقت کم از کم مزدوری 135 روپے ہے جو پورے ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ 
گلوبلائزیشن کا عمل تیز ہونے کے ساتھ ہی مزدوروں کے عدم تحفظ کا احساس بڑھنے اور ان کے لئے سماجی تحفظ کا کوئی پختہ انتظام کرنے کی گاہے بگانے آواز اٹھتی رہی ہے۔ 40 ویں مزدور کنونشن میں اور دیگر عالمی مزدور تنظیموں کے فورموں کی میٹنگ میں ایک بار پھر غیر منظم سیکٹر کے مزدوروں کی سماجی تحفظ کا انتظام کرنے کے سلسلے میں فکر ابھر کر سامنے آئی۔ ہندوستان میں مجموعی مزدوروں کی تعداد میں سے تقریباً 93 فیصد مزدور غیر منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔ ان میں تقریبا 62 فیصد زرعی سیکٹر میں،11  فیصد صنعت میں اور تقریباً 27 فیصد خدمات کے شعبہ کام کرتے ہیں۔ ملک میں رزوگار کی صورت حال اس طرح ہے کہ مستقبل تنخواہ پانے والے مزدوروں کی شرح صرف16 فیصد ہے۔ زیادہ تر مزدور خودروزگار کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ان کی تعداد میں تقریباً 53 فیصد ہے اس کے علاوہ تقریباً 31 فیصد مزدور یومیہ مزدوری کے طور پر کام کرتے ہیں جو نہ صرف بکھرے ہوئے بلکہ کام کی تلاش میں نقل مکانی بھی کرتے ہیں۔ خواتین کی مزدوروں میں سے96 فیصد خواتین غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں غیر منظم سیکٹر میں کا م کرنے والے مزدوروں صورت حال منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کے مقابلہ کہیں زیادہ خراب ہے اس سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کو ہفتہ واری چھٹی ملتی ہے اور نہ ہی کوئی مدد، بیمار پڑنے یا دوران کام کوئی نقصان پہنچنے پر کوئی طبی مدد یا۔ان کی صورت تو یہ ہوتی ہے کہ روز کنواں کھودو اور پانی پیو۔ اسی کے ساتھ ان کے ساتھ غیر انسانی رویہ برتا جاتاہے یہاں تک کے خواتین مزدور جنسی استحصال کا شکار بھی ہوجاتی ہیں۔
غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدورں کے سماجی تحفظ کے لئے مرکزی حکومت نے کئی طرح کے اقدامات کئے ہیں۔ صحت بیمہ، زچہ بچہ کے لئے، لائف انشورنس، پنشن جیسی سہولت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر منظم سیکٹر قومی آمدنی میں تقریباً ۵۴ فیصد حصہ ادا کرتا ہے اور اس میں کام کرنے والے30 کروڑ مزدوروں پر جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم کے اس خرچ کو پوری طرح منصفانہ بتایا جارہا ہے جب کہ اونٹ میں زیرہ ڈالنے کے مترادف ہے۔30 کرڑو مزدوروں کے لئے یہ سہولت اگلے پانچ برسوں میں مرحلہ وار طریقے سے نافذ کرنے کی بات کہی جارہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر برس چھ کروڑ نئے مزدوروں کو اس منصوبہ کے دائرے میں شامل کیا جائے گا۔ اس مطلب ہے کہ حکومت کو پہلے سال میں 4512کروڑ  روپے خرچ کرنے ہوں گے اور رفتہ رفتہ یہ خرچ بڑھ کر پانچویں سال سے4512 کروڑ روپے فی برس کے سطح پر پہنچ جائے گا۔ مرکزی حکومت نے غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کے لئے ”سماجی تحفظ ایکٹ 2008“ پاس کیا تھا۔ اس ایکٹ کا نفاذ  16مئی2009 سے عمل میں آیا۔ اس ایکٹ کے تحت غیر منظم سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی رجسٹریشن کی گنجائش ہے تاکہ مخصوص پیشوں کے لئے سماجی تحفظ کی اسکیمیں وضع کی جائیں۔ آج کل اس سیکٹر کے مزدوروں اور ان کے کنبوں کے لئے راشٹریہ سواتھ بیمہ یوجنا (قومی صحت بیمہ پالیسی) کے تحت اسمارٹ کارڈ جاری کئے جاتے ہیں۔ 20 اپریل2010 تک ایک کروڑ 44 لاکھ اسمارٹ کارڈ جاری کئے جاچکے تھے۔ 
ملک کے شہری اور دیہی علاقوں روزگار اور بیروزگاری پر حکومت کے ذریعہ کرائے گئے علامتی سروے میں شہری علاقوں کے مقابلے میں دیہی علاقوں میں روزگار سے وابستہ لوگوں کی تعداد زیادہ پائی گئی۔ اسی طرح اس سروے میں یہ بات بھی ابھر کر سامنے آئی کہ شہری علاقوں میں یومیہ مزدور خواتین کی یومیہ مزدوری مرد مزدور کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ سروے کے مطابق ملک کی سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیرا نتظام علاقوں کے  4755 گاؤں، 2669 شہری بلاکوں کے 59159 گھروں کے تین لاکھ تین ہزار 828 افراد کو شامل کیا کیا تھا۔اس سروے میں پایا گیا کہ دیہی علاقوں کے مزدور طبقے میں سبھی عمر کے مردوں میں 62 فیصد جب کہ شہری علاقوں میں 80 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے اور خواتین میں بالترتیب43 اور68 پایا گیا۔ دیہی علاقوں میں 44 فیصد مزدور ہیں جب کہ شہری علاقوں میں 37 فیصد مزدور ہیں۔ دیہی اور شہری دونوی علاقوں میں مردوں کے زمرہ میں 54 فیصد کہیں نہ کہیں روزگار سے وابستہ تھے جب کہ خواتین کے زمرہ میں دیہات میں 32 فیصد اور شہری علاقوں میں 15 فیصد خواتین ہی روزگار سے وابستہ تھیں۔ اسی طرح خودروزگار کے سیکٹر میں دیہی علاقوں میں 57 فیصد مرد اور62 فیصد خواتین اپنی زندگی کی گاڑی چلارہی ہیں جب کہ شہری علاقوں میں خودروزگار کے وابستہ افراد میں مردوں کی شرح 44 اور خواتین کی 45 فیصدتھی۔ سروے میں پایا گیا ہے کہ شہری علاقوں یومیہ مزدوروں کے زمرہ میں مردوں کے مقابلہ خواتین کی فیصد زیادہ ہے۔ سروے میں بات بھی سامنے آئی ہے کہ دیہی علاقوں میں یومیہ مزدوروں میں مردوں کی آمدنی 56.53روپے اور یومیہ مزدور خواتین کی آمدنی 36.15 روپے یومیہ مزدوری تھی۔ شہری علاقوں میں مردوں اور عورتوں کے یومیہ مزدووں کی آمدنی نمایاں فرق پایا گیا ہے۔ جہاں مرد مزدور کی یومیہ آمدنی 75.15 روپے کے مقابلے خواتین مزدور کی آمدنی صرف44.28  روپے ہی ہے۔ 
ملک میں مجموعی طور کمانے والے مزدوروں میں 13 کروڑ ایسے مزدور ہیں جو کمر توڑ محنت کے باوجود ہر صرف ۰۸ روپے ہی کما پاتے ہیں۔ اگرآئی آئی ایم ایس ڈاٹا ورکس کی بات تسلیم کریں تو یہی وہ طبقہ ہے جو سب سے زیادہ قرض لیتا ہے۔ قرض لینے کی بڑی وجہ مالی بحران یا صحت سے متعلق مسائل ہوتے ہیں۔ اس ادارہ کے مطابق اس طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہر پانچ میں سے چار شخص کی قرض کی ضرورت مہاجن ہی پوری کرتے ہیں۔لیکن اس کے لئے یہ 36 سے لیکر72 فیصد تک سود  ادا کرتے ہیں۔ مزددور مندرجہ ذیل ضرورتوں کے لئے قرض لیتے ہیں۔
مالی بحران کے لئے37.86 فیصد، صحت سے متعلق25.31 فیصد، کاشتکاری کے لئے۔114.12 فیصد، سماجی امور کی انجام دہی کے لئے12.45 فیصد مکان یا زمین خریدنے کے لئے10.6 فیصد، روزگار کے لئے 9.81، گھریلواخراجات کے لئے 6.93 فیصد فریج یا ٹی وی خریدنے کے لئے 5.98 فیصد، تعلیم کے لئے3.37 فیصد گاڑی خریدنے کے لئے1.6 فیصد اور دیگر ضرورتوں کے لئے 2.48 فیصد قرض لیتے ہیں۔ ان قرضوں میں سے سب سے زیادہ مہاجن سے 39.25 فیصد قرض لیتے ہیں اس کے بعد دوستوں اور رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے۔ 

یہ مجموعی طور پر مزدور کا جائزہ لیا گیا جن میں تمام مذاہب کے افراد شامل ہیں لیکن اگر مسلمانوں اور مسلم مزدور کی بات کریں تو ان کی حالت اور بھی خستہ ہے۔ ہر سطح پر برتے جانے والے تعصبات نے مسلم مزدوروں کو مزید پستی میں دھکیل دیا ہے۔ آج مسلم مزدوروں کی حالت یہ ہے کہ جس طرح عام مسلمان تمام شعبہائے حیات میں پسماندگی کا شکار ہیں اسی طرح مسلم مزدور بھی قعر مذلت میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسلم مزدور کم پیسے کماتے ہیں، ہندو مزدوروں کے مقابلے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں جہاں ان کے کوئی بنیادی سہولت نہیں ہوتی۔ سب سے زیادہ مسلم مزدور غیر منظم سیکٹر میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں کسی طرح کا کوئی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ انہیں اپنا پیٹ پالنا ہی مشکل ہوتا ہے تو وہ بچوں کی اچھی پرورش کیسے کریں۔
ابھی بھی کاشتکاری کے بعد سب سے زیادہ لوگوں کو ہینڈلوم اور پاور لوم سے روزگار ملتا ہے جہاں کام کرنے والے تقریباً سبھی مسلمان ہوتے ہیں۔ جو بنارس اپنی بنارسی ساڑیوں کے لئے دنیا بھر میں مشہور تھا وہ آج خودکشی کے لئے بدنام ہورہا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہزاروں بنکر روزگار کی تلاش میں نقل مکانی کرنے کو مجبو ر ہیں اورروزگار کی تلاش میں بنگلور، چننئی اور ملک کے دیگر مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔بنارسی ساڑی کے نام پر اس سے سستی ساڑیاں بنگلور اور دیگر شہروں میں بڑی پونجی والے بنارہے ہیں۔ اس وجہ سے پروانچل کے بنکروں کی مالی حالت اس قدر خراب ہوگئی ہے کہ بنکر خاندان کے لوگ اپنا خون بیچ کر ڈیڑھ سو دو سو لاتے ہیں تو گھر میں چولہا جلتا ہے۔ ضلع انتظامیہ کا یہ حال ہے کہ اس طرح کے واقعات کو وہ بھکمری کو تسلیم نہیں کرتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بنکروں کا طبقہ نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔اسی بنارس میں جہاں بنکر آج خودکشی کر رہے ہیں 1857 میں انگریزوں کوکھڈیڑ کھڈیڑ کر پیٹا تھا۔ انگریزوں نے بنکروں کو تباہ کرنے کے لئے بنکروں کے انگوٹھے کٹوائے تھے اور ان کی بستیوں پر بلڈزور چلوایا تھا۔ عالم کاری کے اس دور میں گھریلو صنعت سے وابستہ افراد کے روزگار چھینے جارہے ہیں۔یہ ایک منظم منصوبہ کے تحت مسلم مزدور یا مسلمان جس صنعت سے وابستہ ہیں ان کی ترقی کے دروازے بند کئے جارہے ہیں۔ تاکہ مسلمان کسی طرح پنپ نہ سکیں اوروہ زندگی بھر دیگر قوم کی خدمت کرتے رہیں۔ سائکل،موٹر سائکل ٹھیک کرنے والے اور پنکچر لگانے والے بیشتر مسلمان ہیں۔ ان کے پاس ہنر تو لیکن انہیں ان کی قیمت نہیں دی جاتی۔ 
یوم مزدور کی اہمیت صرف یکم مئی تک سمٹ کر نہیں رہ جانی چاہئے۔ حالات بدلے، صنعت میں اور بھی انقلاب آیا ہاتھوں کی جگہ مشینوں نے مورچہ سنبھالا لیکن انسانی مزدور کی جگہ کوئی بھی نہیں لے سکا کیوں کہ ان مشینوں کوچلانے والا انسان تو چاہئیے ہی۔مزدوروں کی فلاح و بہود اور حقوق کے لئے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک مزدوروں کی محنت کے بل پر ہی چل رہا ہے۔ جس دن پورے ملک میں مزدور ہڑتال کردیں گے تو اس دن حکومت کی سانس رک جائے گی اور صنعت کار حالت نزع میں پہنچ جائیں گے۔  
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com

Comments