کیا احیائے خلافت کے لئے دنیا کو تیار کیا جارہا ہے؟

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

Thumb

کرونا وائرس کی وجہ سے عالمی لاک ڈائون نے جہاں دنیا کی معیشت تہہ و بالا کردیا ہے وہیں جدید معاشرت کے ساتھ نئے سماج پر بھی گفتگو کا آغاز ہوچکا ہے۔آئندہ مہینوں میں جب بتدریج لاک ڈائون کا خاتمہ ہوگا تو دنیا جس معاشی بحران میں مبتلا ہوگئی ہے اس سے زیادہ معاشرتی و سماجی بحران کا شکار ہوچکی ہوگی۔نفسا نفسی کے عالم میںجہاںسرمایہ دارانہ نظام(Capitalism) دم توڑ دے گا وہیںاشتراکیت (Socialism)اس بات کی کوشش کرے گا کہ دبے پائوں اپنی ساکھ دوبارہ قائم کرے اور نئے عالمی نظام میں ان لوگوں کا ساتھ دے جو نیو ورلڈ آرڈر قائم کرنا ہی اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے ہیں۔ایسے میں ان جھڑپوں کا آغاز ہوگا جس کے بارے میں مختلف روایات منقول ہیں۔السنن الواردۃ فی الفتن کی وہ روایت جس میں بحر شرقی کی ناکہ بندی کر دئے جانےاور پھر جنگوں کا آغاز ہوجانے کی بات کہی گئی ہے تمام کے علم میں ہے ۔واضح رہے کہ بحیرہ شرقی چین کے مشرق میں ایک مختتم بحیرہ ہےجسے بحر الکاہل کا ہی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے جو 1249000 مربع کلومیٹر (482،000 مربع میل) کے علاقے پر محیط ہے۔
کرونا وائرس کے پھیلائو پرچین و امریکہ کی ایک دوسرے پر الزام تراشی کے دوران دونوں ملکوں کی معاشی جد و جہد کا جائزہ لینے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس لڑائی میں جہاں امریکہ اپنی ساکھ گنوا بیٹھے گا وہیں نئے آب و تاب کے ساتھ چین پیر پسارے گا۔چین و امریکہ تجارتی معاہدہ ختم ہو یا نہ ہو لیکن صیہونی مقتدرہ کا بیجنگ پر مضبوط گرفت ہی ہے کہ بھارت نے امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کردیا ہے۔سائوتھ ایسٹ ایشیا پر صیہونی مقتدرہ کئی برسوں سے کام کرتا رہا ہے۔میانمار میں مسلمانوں کی نسل کشی کو اگر اس نظریے سے دیکھیں تو شاید حقیقت تک پہنچنے میں زیادہ آسانی ہو۔یکم اپریل 1950؁ کو بھارت نے جس طرح غیر کمیونسٹ حکومت ہوتے ہوئے بھی چین سے سیاسی رشتے استوار کئے تھے اور’’ہندی چینی بھائی بھائی ‘‘کا نعرہ لگوایا تھا ممکن ہے کہ عنقریب یہ نعرہ دوبارہ سنائی دے ۔لیکن اس نعرے کی گونج میں بھارت کا مسلمان جس کرب کا شکار ہوگا اس کی تعبیر بعید از قیاس ہے۔ملک گیر لاک ڈائون کے دوران سنگھ پریوار کے ذریعہ چلائی جانے والی مسلم مخالف مہم جس میں میڈیا کلیدی کردار ادا کررہا ہے شاید اسی طوفان کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
لیکن ان تمام تر ہولناکیوں میںاطمینان ان کے لئے ہے جو اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیںاور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ ہی کائنات کا مالک اوربہترین چال چلنے والا ہے۔سورہ انفال آيت ۳۰ میں اللہ تعالی کا یہ ارشاد کہ ’’وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے جبکہ منکرینِ حق تیرے خلاف تدبیریں سوچ رہے تھے کہ تجھے قید کر دیں یا قتل کر ڈالیں یا جلا وطن کر دیں وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے‘‘۔ان لوگوں کو سکون عطا کرتا ہے جو اللہ کے دین کو اس دنیا پر غالب دیکھنا چاہتے ہیں۔
البتہ اس سکون کے ساتھ ان کے اوپر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ بڑی اہم ہے ۔ہم یہ جانتے ہیں کہ دنیا اس کربناک صورتحال سے بہت جلد نکلنا چاہتی ہے ۔اللہ رب العزت بھی اپنے بندوں کو اتنا ہی آزماتا ہے جتنی کہ اس کے اندر سکت ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے ہر دور میں رہنمائی فرمانے والا بھیجا ہے ۔سنن ابودائود میں ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ’’ میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالی اس امت کے لئے ہر سو سال کے بعد کوئی ایسا شخص پیدا فرماتا رہے گا جو اس کے لئے دین کی تجدید کرے‘‘۔1924؁ میں خلافت کے خاتمہ کے بعد دنیا جس فکری رہنمائی سے محروم رہی ہے شاید ۱۰۰ برس پورے ہونے کے بعد ہم دوبارہ کسی ایسی شخصیت سے متعارف ہوجائیں جو ہماری ہر طرح رہنمائی کرسکے۔
اور یہی وہ رہنمائی ہے جو ہمیں خلافت کی نوید سناتی ہے۔مسند احمد میں موجود حدیث کے مطابق حضورﷺ نے پانچ ادوار کا ذکر فرمایا۔پہلے دور میں انہوں نے کہا کہ ’’تمہارے اندر نبوت کا دور رہے گا جب تک اللہ چاہے گا پھر اللہ اسے اٹھالے گا جب اٹھانا چاہے گاپھر خلافت علٰی منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔ یہ (دوسرا دور بھی) جاری رہے گا جب تک اللہ چاہے گا کہ رہے، پھر اللہ جب چاہے گا اسے بھی اٹھا لے گا۔اس کے بعدتیسرا دور’’ کاٹ کھانے والی حکومت ‘‘کا دور آئے گا۔یہ دور بھی رہے گا جب تک اللہ چاہے گا، پھر اللہ جب چاہے گا اسے بھی ختم فرما دے گا۔پھرچوتھا دور ’’جابرانہ بادشاہت کا آئے گاپھرپانچواں دَوریعنی خلافت علیٰ منہاج النبوۃ قائم ہو گی۔
ممکن ہے کہ اس حدیث کی روشنی میں ہم چوتھے دور میں داخل ہوچکے ہوں جہاں جمہوریت ختم ہو ا چاہتی ہے اور ایک عالمی بادشاہت کے سامنے سب لوگ سرنگوں ہوا چاہتے ہوں۔کفر و شرک اپنی تمامتر خباثتوں کے ساتھ اپنا ہر رنگ دکھانے پر آمادہ ہے۔حز ب اللہ کے بالمقابل حز ب الشیطان صف بندی کرچکا ہے۔ایک طرف انسانیت ہے اور دوسری طرف انسانیت کوختم کرنے والے ۔یعنی ایک طرف ہابیل کو چاہنے والے ہیں تو دوسری طرف قابیل کی اولادیں۔شاید اسی دور میں تطہیری عمل کا آغاز ہو اور فدایان اسلام کی صف بندی کرلی جائے لہذا ایسے وقت میں کوشش یہ کی جانی چاہئے کہ ایمان کی سلامتی کے لئے ہر اس اسلامی عمل کو فروغ دیا جائے جسے کلعدم قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
24جولائی 1923کو سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزان (Lausanne)میں جنگ عظیم اول کے اتحادیوں اور ترکی کے درمیان طے پانے والا معاہدہ لوزان(Lausanne) بھی اب ختم ہوا چاہتا ہے۔جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اسلامی خلافت ختم کرکے سیکولر ریاست قائم کی جائے گی۔لہذا اس معاہدے کے خاتمے سے قبل ہی پوری دنیا کی مقتدر قوتوں میں جن بحثوں کا آغاز ہوچکا ہے وہ یہی ہے کہ کہیں دنیا دوبارہ خلافت کی طرف تو نہیں چلی جائے گی؟ 
لاک ڈائون کے درمیان ایک تیاری تو ان لوگوں نے کی ہے جو نظام عالم کو ایک خاص سانچے میں ڈھالنا چاہتے ہیں جبکہ دوسری تیاری اپنے بندوں کی وہ رب کائنات کررہا ہے جس کے قبضہ قدرت میں نظام عالم ہےاب اس تیاری میں کون کس کے ساتھ جائے گا وہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ہر مومن یہ صدا ضرور لگائے گا کہ 
تا خلافت کی بنا دنیا میں ہو پھر استوار
لا کہیں سے ڈھونڈھ کر اسلاف کا قلب و جگر
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Comments