مسلمان کب تک شر پسندوں کو صفائی دیتے رہیں گے؟

غلام غوث، بنگلور

Thumb

     آج آپ کسی بھی با شعور مسلمان سے حالات حاضرہ پر بات کیجیے وہ آپکو پریشان ملے گا کیونکہ تمام میڈیا (ٹی وی چینلس، اخبار، واٹس اپ) سب کے سب  ملک میں ہر مسلہ اور پریشانی کے لئے  مسلمانوں ہی کو ذمہ دار ٹہرا رہے ہیں گویا تمام تر مصیبتیں جو ملک پر نازل ہو رہی ہیں وہ سب مسلمانوں ہی کی بدولت نازل ہو رہی ہیں۔ملک میں سیاسی بحران مسلمان ذمہ دار،کوئی پارٹی الیکشن ہارتی ہے مسلمان ذمہ دار، کوئی قدرتی آفت نازل ہوتی ہے مسلمان ذمہ دار، پڑوسی ملک کوئی شرارت کر تا ہے مسلمان ذمہ دار، سی یے یے اور ین سی آر کی سب مل کر مخالفت کر تے ہیں تب بھی مسلمان ذمہ دار، فرقہ وارانہ فسادات ہو تے ہیں تو بھی مسلمان ذمہ دار، اگر کوئی اپنا مذہب تبدیل کر لے تو بھی مسلمان ذمہ دار۔ یہ سب الزام کون لگا رہے ہیں؟  صرف گنتی کے چند لاکھ افراد  جنکے ہاتھ میں سارا میڈیا، فیس بک،واٹس اپ اور ای میل ہے۔ یہ  لوگ حالانکہ چند لاکھ ہیں مگر ہیں بڑے  vocal  گلا پھاڑ کر بولنے والے شعبدہ بازجبکہ ملک کے قریباً   129 کروڑ عوام خاموش ہیں اور صرف تماشائی ہیں۔ کچھ شرارتی  لوگ مسلمانوں کے بھیس میں ایسے غلط کام کر رہے ہیں جن سے مسلمانوں کی بدنامی ہو۔ کچھ کو ہماری پولیس نے پکڑ بھی لیا ہے۔ وہ اگر چند لاکھ ہیں تو ملک میں امن و امان بحال رکھنے اور ملک کی سالمیت کے خواہاں کروڑوں میں ہیں اور ان میں سے چند گلا پھاڑ کر بولنے والے   vocal بھی ہیں۔ ایسے میں اقلیتوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی لوگ اقلیتوں کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے اور ملک کی سالمیت کی حفاظت بھی کریں گے۔اقلیتوں کو ان پر لگائے گئے من گڑھت الزامات کا نہ تو جواب دینے کی ضرورت ہے اور نہ تو خود کو بے یار و مددگار سمجھنے کی۔ایک غلطی ہم اقلیتوں سے ضرور ہو رہی ہے اور وہ یہ کہ ہم ان کے بچھائے  ہوے جال میں پھنس رہے ہیں اور ان کے الزامات کے جواب میں مدافعانہ انداز اپنا رہے ہیں۔ ہم کیوں نہیں سمجھتے کہ وہ ہمارے حاکم نہیں ہیں جن کے سامنے ہم اپنی صفائی پیش کریں۔مگر ہو کیارہا ہے؟ کسی بھی اردو اخبار کو اٹھائیے مضمون پر مضمون لکھے جا رہے ہیں ہماری مظلومیت پر اور ان کے الزامات پر اور ہر کوئی ہر محفل میں کہہ رہا ہے کہ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہو رہا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، ہم ویسے نہیں ہیں جیسے وہ ہمیں سمجھ رہے ہیں۔بھائی آخر ہم انہیں صفائی کیوں دے رہے ہیں؟در اصل یہ چند شر پسند لوگوں کی جانب سے ایک نفسیاتی جنگ ہے جس کا جواب ہمیں نفسیاتی مدافعت سے نہیں بلکہ نفسیاتی پلٹ حملہ سے دینا ہے اور انہیں مدافعانہ انداز اختیار کر نے پر مجبور کر نا ہو گا۔ یہی طریقہ میڈیا کے ساتھ بھی کر نا ہو گا۔ ہمیں بتا نا ہو گا کہ ہم مسلمان، عیسای، سکھ، دلت اور بچھڑے طبقات ہی اس ملک کے سچے اور مقامی شہری ہیں جبکہ منو وادی اور برہمن وادی باہر کے ممالک سے آئے ہوے آرین ہیں جو دوسروں کو برابری کا درجہ نہیں دیتے اور ہمیں شودر کا درجہ دیتے تھے اور ہمیں اپنے غلام سمجھتے تھے۔ہم وہ ہیں جنہوں نے منو واد اور برہمن واد کو چھوڑ کر اپنی پسند کا مذہب اختیار کر چکے۔ اگر وہ ہم پر الزام لگائیں کہ ہم اس ملک کے وفادار نہیں ہیں تو جواباً کہنا ہو گا کہ تم اس ملک کے دشمن ہو جو دوسروں پر الزام لگا کر خود کی بے وفائی کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہو۔یہ بھی کہنا ہو گا کہ تم جس مذہب سے تعلق رکھنے والے خود کو بتا رہے ہو تم تو اس مذہب کے بھی وفادار نہیں ہو کیونکہ تم نے اپنے مذہب کی مقدس کتاب  ویداس کا مطالعہ نہیں کیا جو بھگوان کی وحدانیت کا ذکر کرتی ہے  اور حکم دیتی ہے کہ دوسروں کو برا بھلا نہ کہیں،  غلط الزامات نہ لگائیں، دوسروں پر ظلم نہ کریں اور دوسروں کے مذاہب پر کیچڑ نہ اچھالیں، خود بھی امن سے رہیں اور دوسروں کو بھی امن سے رہنے دیں۔ چونکہ تم چند لوگ ان احکامات پر چل نہیں رہے ہو اس لئے تم اس مذہب کے پیروکار نہیں ہو سکتے۔تم تو وہ ہو جو نہ خود کے مذہب کے وفادار ہو اور نہ ہی اپنے وطن کے۔تم تو نفرت پھیلاکر ملک میں خانہ جنگی کر وانا چاہتے ہو اور اس ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو۔ہر کوئی جانتا ہے کہ تاریخ میں جو ہو چکا وہ ہو چکا جسے اب کوئی بدل نہیں سکتا اور انتقامی کاروائی بھی نہیں کر سکتا۔ اگر وہ چند لوگ جو دوسروں پو الزامات لگا رہے ہیں  وہ اگر وہ دیش بھگت ہو تے تو امن و امان کی باتیں کر تے، انتقامی کاروائیاں نہیں کر تے اور چاروں طرف محبت، انصاف اور بھائی چارگی قائم کر تے۔انہیں یہ بھی جتانا ہو گا کہ مسلمان بادشاہوں کے سات سو سالہ دور حکومت میں رعایا کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاو نہیں ہوا،کسی پر الزام نہیں لگایا گیا، حکومت مذہب کی بنیاد پر نہیں کی گئی اور ہر جگہ امن و امان اور خوشحالی تھی، ملک کی دولت ملک ہی میں رکھی ہوی تھی  اور  دنیا بھر میں ہندوستان کو سونے کی چڑیا کہا جانے لگا تھا۔ ہم مسلمانوں کو معلوم ہو نا چاہیے کہ ہندوستان کی  90 فیصد آبادی ہماری ہمخیال ہے اور ان چند لاکھ شر پسندوں کی مخالفت میں کھڑی ہوی ہے۔ وہ شخص سچا ہندو نہیں ہو سکتا جو ویداس کے احکامات کی خلاف ورزی کر تا ہو، لوگوں میں نفرت پیداکر تا ہو، دوسروں پر غلط الزام لگاتاہو، ظلم روا رکھتا ہو وغیرہ۔  ایسے شرپسندوں کے مکر و فریب سے بچنے کے لئے مظلومیت اور مدافعت نہیں بلکہ سورہ آل عمران کی  54 ویں آیت پر نظر ڈالنا ہو گا۔ (اور منکروں نے بڑی کاروائیاں کیں اور اللہ نے جوابی کاروائیاں کیں اور اللہ کا داو سب سے بہتر اور کامیاب ہو تا ہے۔)  اْن کے مکر اور سازش کا جواب اْن سے بہتر انداز میں دینا ہو گا۔ایک مشورہ جو مسٹر فراز زائی، ایک کالج کے پرنسپل نے دیا وہ یہ کہ ہر اْس شریر اور سازشی کے خلاف مقدمے ڈاخل کریں جو بغیر کسی ثبوت کے نازیبا باتیں کر تا ہے اور الزامات لگا تا ہے۔اگر ہر ایسی بات کرنے والے  پر مقدمے داخل کر تے رہے تو نتیجہ کچھ بھی ہو وہ عدالت کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جائیں گے اور شر پسندی سے باز آ جائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مالدار حضرات اس کام کے لئے آگے آئیں گے؟جان ہے تو جہاں ہے، عزت ہے تو سب کچھ ہے ورنہ یہ ہماری عالیشان اور شاندار مسجدیں اور مدرسے کس کام کے۔قوم اگر طاقتور ہو گئی تو ہم دوسرا سب کچھ کر سکتے ہیں ورنہ سب کچھ بیکار ہے۔ہم مسلمانوں کو  چاہیے کہ خود اپنا محاسبہ کریں اور اپنی غلطیوں کو سدھاریں۔ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہم "ویژن کرناٹکا" ادارے کی طرح ہر بی جے پی کے یم یل یے اور یم پی کو اور شرارتی لوگوں کو اور ہر  ٹی وی چینل کے اینکر کو ہماری قائم کردہ جنتا کی عدالت میں بلائیں اور سوال و جواب کے ذریع انہیں سمجھائیں اور انکی سوچ میں بدلاو لائیں۔ڈبیٹ کسی کو غلط ثابت کر نے کے لئے نہ ہوبلکہ ان کے خیالات میں تبدیلی لانے کے لئے  ہو۔ ان تمام اقداموں کے لئے جس بات کی زیادہ ضرورت ہے وہ ایک پانچ رکنی موثر لیڈر شپ کی جیسی کرناٹک میں قائم کی گئی ہے۔ یہ  لیڈر شپ طئے کرے گی کہ کونسا کام کس طریقہ سے کرنا ہے۔ہم مسلمانوں کو یہ  بات ذہین میں رکھنا ہو گا کہ سیکولرازم صرف   2013 تک تھا مگر بعد اب    Majoritariasm  اکثریت کا راج آ گیا ہے اور عملی طور پر ہندوستان ہندو راشٹر بن چکا ہے۔ صرف سرکاری طور پر نام دینا باقی ہے۔ اگر ایسا ہے تو فائیدہ یہ ہو گا کہ اقلیتوں کے حقوق واضع ہو جائیں گے۔جہاں تک ہو سکے مذہبی حضرات کو ٹی وی ڈبیٹ میں نہیں جانا چاہیے کیونکہ شرارتی اینکر انہیں مزاق بنا دیں گے۔   16.4.2020 کو سورنا ٹی وی نے دو ایسے مسلمانوں کو بلا کر ڈبیٹ میں انہیں مذاق کا موضوع بنا دیا کیونکہ دونوں اْس اینکر کی چالوں کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ہم مسلمانوں کو ٹی وی ڈبیٹس میں جہاں تک ہو سکے  جانا نہیں چاہیے۔ ہم کو تاریخ کا یہ سبق یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے ساتھ جو کچھ آج ہو رہا ہے وہ ہر دور میں ہر قوم کے ساتھ ہوا ہے اور وہی قوم کامیاب رہی  جس نے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور صبر سے کام لیا۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں آگے کیا کر نا ہے۔ہمارے بچوں کے ہاتھ میں کاغذ اور قلم تھمانا ہو گا  اور انہیں ایسے قابل اور ماہر بنانا ہو گا کہ وہ اس ملک کے عظیم ڈاکٹر، انجنیر، سیاستدان، سائنٹسٹ،قلمکار،پروفیسر، اینکر، ماہر قانون اور ہر میدان کے شہسوار بن جائیں
 فون:9980827221

Comments