سماجی مساوات اور ڈاکٹر امبیڈکر موجود پس منظر میں

Thumb
 
سماجی مساوات ہندوستان کی شناخت،ہندوستان کا وقار اور ہندوستان کے دل میں بستا ہے۔ یہاں دنیاکی تمام قوموں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ کسی کے مذہب سے چھیڑچھاڑ کرنے کی روایت نہیں رہی ہے اور ہر دور میں سماجی مصلح پیداہوتے رہے جنہوں نے سماج میں پھیلی برائیوں، عدم مساوات اور امتیاز کے خلاف جنگ کی۔ان میں حالیہ صدیوں میں جیوتی باپھولے، پیریار اور ڈاکٹر امبیڈکر کے نام خاص طور پر لئے جاسکتے ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگی سماجی عدم مساوات کو ختم کرنے میں صرف کردی۔ امبیڈکر نہ صر ف آئین کے خالق تھے بلکہ مفکر، فلسفی،دانش ور، عالم اور سماجی مصلح بھی تھے۔
امبیڈکر کی پیدائش 14 اپریل 1891 کو برطانوی ہندستان کے وسط ہندوستانی صوبہ (اب مدھیہ پردیش) میں واقع مہونگر فوجی چھاؤنی میں ہوئی تھی وہ رام جی مالوجی سکپال اور بھیمابا کی 14 ویں اور آخری اولاد تھے۔ ان کا خاندان کبیر پنت کو ماننے والا مراٹھی موول کا تھا اور وہ موجودہ مہاراشٹر کے رتناگری ضلع میں امیبڈوے گاؤں کا رہائشی تھا۔ وہ ہندو مہار ذات سے تعلق رکھتے تھے، جسے اچھوت کہا جاتا تھااور اس وجہ سے انہیں سماجی اور اقتصادی طور پر گہرا  بھید باؤ اورامتیاز برداشت کرنا پڑتا تھا۔ بھیم راؤ امبیڈکر کے آباء اجداد طویل وقت سے برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں ملازم تھے اور ان کے والد رام جی سکپال، ہندوستانی فوج کی مہو نگر چھاؤنی میں خدمت پر مامور تھے اور یہاں کام کرتے ہوئے وہ صوبیدار کے عہدے تک پہنچے تھے۔ انہوں نے مراٹھی اور انگریزی میں رسمی تعلیم حاصل کی تھی۔

دلت ہونے کی وجہ سے بچہ بھیم کو سماجی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا اسکولی تعلیم میں تیز اور قابل ہونے کے باوجود طالب علم بھیم راؤ کو امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔  7 نومبر 1900 کو رام جی سکپال نے ستارا کے گورنمنٹ اسکول میں اپنے بیٹے بھیم راؤ کا نام بھیوا رام جی امبیڈویکر ر درج کرایا۔ بھیواان کے بچپن کا نام تھا۔ امبیڈکرکی اصل عرفیت سکپال کی بجائے امبیڈویکر لکھوایا تھا جو کہ ان کے امبیڈوے گاؤں سے متعلق تھا۔ کیونکہ کوکن صوبے کے لوگ اپنی عرفیت گاؤں کے نام سے رکھتے تھے، لہذا امبیڈکر کے امبیڈوے گاؤں  سے تعلق ہونے کی وجہ سے امبیڈویکر عرفیت اسکول میں درج کروائی گھی لیکن ایک دیورکھے برہمن استاذ کرشنا مہادیو امبیڈکر سے بھیم راؤ کو خاص لگاؤ تھا اور بھیم راؤ ان کے نام پر اپنا عرفی نام امبیڈویکر سے امبیڈکر کرلیا۔اس کے بعد سے آج تک وہ امبیڈکر نام سے جانے جاتے ہیں۔اس کے بعد امبیڈکر کا خاندان گاؤں سے بمبئی اب ممبئی منتقل ہوگیاجہاں انہوں نے ایلفسٹون روڈ پر واقع گورنمنٹ ہائی اسکول میں آگے کہ تعلیم حاصل کی۔ اپریل 1906 میں، جب بھیم راؤ تقریبا 15 سال عمر کے تھے تو نو سالہ لڑکی رمابائی سے ان کی شادی کرائی گئی تھی۔ تب وہ پانچویں کلاس (انگریزی)میں پڑھ رہے تھے۔ ان دنوں بچہ شادی کا چلن تھا۔ 
امبیڈکر نے ستارا شہر میں راجواڑا چوک پر واقع گورنمنٹ ہائی اسکول (اب پرتاپ سنگھ ہائی اسکول) میں 7 نومبر 1900 کو انگریزی کی پہلی کلاس میں داخلہ لیا۔ اسی دن سے ان کی تعلیمی زندگی کا آغاز ہوا تھا، لہذا 7 نومبر کو مہاراشٹر میں یوم طلبہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس وقت انہیں ’بھیوا‘کہہ کر بلایا جاتا تھا۔ اسکول میں اس وقت ’بھیوا رام جی امبیڈویکر‘ کے نام سے ان کا نام حاضری رجسٹر میں - 1914 نمبر پر درج تھا۔ جب انہوں نے انگریزی کی چوتھی جماعت کا امتحان پاس کیا، تب یہ اچھوتوں میں یہ غیر معمولی بات تھی، لہذا بھیم راؤ کی اس کامیابی کو اچھوتوں کے درمیان عوامی تقریب کے طور پرمنایا گیااور ان کے خاندان کے دوست اور مصنف داداکیلوکسر  کی لکھی ’بدھ کی سوانح عمری‘ان کو ہدیہ میں دی گئی۔ اسے پڑھ کر انہوں نے پہلی بار گوتم بدھ اور بدھ مت کو جانا اور ان کی تعلیم سے متاثر ہوئے۔ 1907 میں، انہوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور اگلے سال انہوں نے ایلفسٹن کالج میں داخلہ لیا، جو بمبئی یونیورسٹی سے ملحق تھا۔اس سطح پر تعلیم حاصل کرنے والے اپنی کمیونٹی سے وہ پہلے شخص تھے۔1912 تک، انہوں نے بمبئی یونیورسٹی سے معاشیات اور پولٹیکل سائنس میں بیچلر آف آرٹس (بی اے) کی ڈگری حاصل کی اور بڑودہ اسٹیٹ حکومت کے ساتھ کام کرنے لگے۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی بیوی بھی ساتھ رہنے لگی۔ اسی دوران وہ اپنے بیمار والد کو دیکھنے کے لئے ممبئی واپس آئے جن کا 2 فروری 1913 کو انتقال ہو گیا۔
1913 میں امبیڈکر 22 سال کی عمر میں امریکہ چلے گئے جہاں انہیں سایاجی راؤ گائیکواڑسوم (بڑودہ کے گائیکواڑ) کی طرف سے قائم ایک منصوبہ کے تحت پوسٹ گریجویٹ سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے 11.50 ڈالر فی مہینہ بڑودہ ریاست کی اسکالر شپ پر نیو یارک شہر میں واقع کولمبیا یونیورسٹی میں چلے گئے۔ یہ اسکالرشپ تین سال کے لئے تھی۔ وہاں پہنچنے کے بعد وہ لونگسٹن ہال میں پارسی دوست نول بھاتینا کے ساتھ رچ بس گئے۔ جون 1915 میں انہوں نے ایم اے کا امتحان پاس کیا جن میں معاشیات اہم موضوع، اور سوشیالوجی، تاریخ، فلسفہ اور ہیومن سائنس دیگر موضوعات تھے۔ انہوں نے ماسٹرز کے لئے ایشنٹ ا نڈینس کامرس کے موضوع پر تحقیقی کام پیش کیا۔ امبیڈکر جان ڈیوی اور جمہوریت پر بھاتینا کے کام سے بہت متاثر تھے۔
1916 میں، انہیں اپنا دوسرا تحقیقی کام، نیشنل ڈیونڈنٹ آف انڈیا۔ اے ہسٹورک اینڈ اینالٹیکل اسٹڈی کے لئے دوسری گریجویٹ کی ڈگری فراہم کی گئی۔ اس کے بعد انہوں نے لندن کی راہ لی۔ 1916 میں تیسرا تحقیقی کام ایوولیوشن آف پروونشیئل فنانس ان برٹش انڈیا کے لئے انہیں معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری دی گئی۔ اپنا تحقیقی کام شائع کرنے کے بعد 1927 میں باضابطہ طور پر امبیڈکرکو پی ایچ کی ڈگری ڈی گئی۔  9 مئی کوہیومن سائنس داں الیگزینڈر گولڈ ن ویزرکی طرف سے منعقد ہ ایک سیمینار میں ہندوستان میں ذاتیں: ان کے نظام، نکلنے اور ترقی نامی موضوع پر، انہوں نے ایک تحقیق مقالہ پیش کیا، جو ان کا پہلا مطبوعہ مقالہ تھا۔ 3 سال تک کی مدت کے لئے ملنے والی اسکالر شپ کا استعمال انہوں نے صرف دو سال میں امریکہ میں کورس مکمل کرکے کرلیا۔

بھیم راؤ امبیڈکر اکتوبر 1916 میں لندن چلے گئے اور وہاں انہوں نے گریزان بیرسٹر کورس (طریقہ مطالعہ) میں داخلہ لیا اور ساتھ ہی لندن اسکول آف اکونومکس میں بھی داخلہ لیا جہاں انہوں نے معاشیات کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کے لئے ریسرچ شروع کی۔ جون 1917 میں، مجبور ہوکر انہیں اپنا مطالعہ عارضی طور درمیان میں ہی چھوڑ کر ہندوستان آنا پڑا کیونکہ بڑودہ ریاست سے ان کی اسکالرشپ ختم ہو گئی تھی۔ لوٹتے وقت ان کی کتابوں کو اس جہاز سے الگ جہاز میں بھیجا گیا تھا جسے جرمن آبدوز کے تارپیڈو کی طرف ڈبو دیا گیا۔ یہ پہلی جنگ عظیم کا دور تھا۔انہیں چار سال کے اندر اندر اپنا مقالہ مکمل کرنے کے لئے لندن واپس آنے کی اجازت ملی۔ برباطانیہ سے واپسی کے بعد بڑودہ ریاست کی فوج کے  سکریٹری کے طور پر کام کرنے لگے۔ اس دوران انہیں اپنی زندگی میں پھر سے ہونے والے بھید بھاؤ اور امتیاز کا سامنا کرنا پڑا جس سے ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر مایوس ہو گئے اور بڑوڈہ ریاست کی نوکری چھوڑکر ایک نجی ٹیوٹر اور اکاؤنٹنٹ کے طور پر کام کرنے لگے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مشاورت کا کاروبار بھی شروع کیا جو ان کی سماجی حیثیت کی وجہ سے ناکام رہا۔ اپنے ایک انگریز جاننے والے اورممبئی کے سابق گورنر لارڈ سڈنیم کی وجہ سے انہیں ممبئی کے سڈنیم کالج آف کامرس اینڈ اکونومکس میں سیاسی معیاشیات کے پروفیسر کے طور پر نوکری مل گئی۔1920 میں کولہاپور کے شاہو مہاراج، اپنے پارسی دوست کے تعاون اور کچھ نجی بچت کے تعاون سے وہ ایک بار پھر انگلینڈ واپس جانے میں کامیاب ہو پائے اور 1921 میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔اس کے بعد انہوں نے ’پرووینشیئل ڈی سینٹرلائزیشن آف امپیریل فائنس ان برٹش انڈیا‘ کے موضوع پر ریسرچ پیش کیا۔اس کے بعد ان کوان کی زندگی اور بعد میں ایک درجن سے زائد ڈاکٹریٹ کی اعزاری ڈگری دی گئی تھی۔
ڈاکٹر بھیم راؤ رام جی امبیڈکر ایک بہوجن سیاسی رہنما اور ایک بدھ مذہب کے ماننے والے رہنما تھے جن کے بعد بدھسٹ میں ایک انقلاب پربا ہوا۔  انہیں باباصاحب کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ امبیڈکر نے اپنی ساری زندگی ہندومت نظام اور ہندوستانی سماج میں ہر جگہ پھیلے ذات پات کے نظام کے خلاف جدوجہد میں گزار دی۔ ان کے سر بدھ مت اور دلت تحریک کو شروع کرنے کاسہرا بھی جاتا ہے۔ امبیڈکر کو بھارت رتن سے بھی نوازا گیا ہے جوہندوستان کا سب سے بڑا اعلی شہری ایوارڈ ہے۔ اہم کامیابیوں اور ملک کی انمول خدمت کے نتیجے ڈاکٹر امبیڈکر کو جدید دور کا انسان کہہ کر بھی نوازا گیا۔
 امبیڈکر نے بڑودہ کی ریاست کے وظیفے پر تعلیم حاصل کی تھی لہذا ان کی خدمت کرنے کے لئے پابند تھے۔ انہیں مہاراجہ گائیکواڑ کا فوجی سیکرٹری مقرر کیا گیا، لیکن ذات پات امتیاز کی وجہ سے کچھ ہی وقت میں انہیں یہ کام چھوڑناپڑا۔ انہوں نے اس واقعہ کو اپنی سوانح عمری، ویٹنگ فار اے ویزا پر بیان کیا ہے۔اس کے بعد، انہوں نے اپنے بڑھتے خاندان کے لئے رزق تلاش کرنے کی دوبارہ کوشش کی۔ جس کے لئے انہوں نے اکاؤنٹنٹ کے طور پر اور ایک نجی استاذ کے طور پر بھی کام کیا۔انہوں نے ایک سرمایہ کاری مشاورت کا کام بھی شروع کیا لیکن یہ تمام کوششیں تب ناکام ہوگئیں جب ان کے گاہکوں نے جانا کہ یہ اچھوت ہیں اور اس بنیاد پر کوئی ان سے کام نہیں کرانا چاہتا تھا۔ 1918 میں، یہ ممبئی میں سڈینم کالج آف کامرس اینڈ اکونومکس میں سیاسی معاشیات کے پروفیسر بنے۔ اگرچہ وہ طالب علموں کے ساتھ کامیاب اور مقبول ہوئے، پھر بھی دیگر پروفیسروں نے ان کے ساتھ پانی پینے کے برتن کے اشتراک پر مخالفت کی۔یہاں بھی ان کو زبردست امتیاز اور بھید بھاؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ 
اندین گونمنٹ ایکٹ1919، تیار کرنے والی ساؤتھ برو کمیٹی کے سامنے ہندوستان کے ایک اہم عالم کے طور پر امبیڈکر کو ثبوت پیش کرنے دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔اس سماعت کے دوران، امبیڈکر نے دلتوں اور دیگر مذہبی کمیونٹیز کے لئے الگ الگ انتخابی نظام اورریزرویشن دینے کی وکالت کی۔1920 میں، بمبئی سے، انہوں نے ہفتہ وار موکنائک کی اشاعت کا آغاز کیا۔ یہ اشاعت جلد ہی قارئین میں مقبول ہوگئی، تب امبیڈکر نے اس کا استعمال قدامت پسند ہندو سیاستدانوں اور نسلی امتیاز سے لڑنے کے تئیں ہندوستانی سیاسی کمیونٹی کی ہچکچاہٹ پر تنقید کرنے کے لئے کیا۔ ان کی دلت طبقے کی ایک کانفرنس کے دوران کی گئی تقریر نے کولہاپور ریاست کے مقامی حکمران شاہو چہارم کو بہت متاثر کیا، جن کا امبیڈکر کے ساتھ کھانا کھانا قدامت پسند معاشرے میں ہلچل مچاگیا۔
بامبے ہائی کورٹ میں وکالت کی پریکٹس کرتے ہوئے، انہوں نے اچھوتوں کی تعلیم کو فروغ دینے اور انہیں بلند کرنے کی کوشش کی۔ ان کی پہلی منظم کوشش بہش کرت ہت کارنی سبھا تھی۔ جس کا مقصد تعلیم اور سماجی و اقتصادی بہتری کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ محروم طبقوں کے طور پر ’بائیکاٹ‘ کے گئے لوگوں کی فلاح و بہبود کرنا تھا۔ دلت حقوق کی حفاظت کے لئے، انہوں نے موکنائک، بہش کرت بھارت،،سمانتا، پربدھ بھارت اورجنتا  جیسے پانچ رسائل نکالے۔سن 1925 میں، انہیں بمبئی ریزیڈنسی کمیٹی میں تمام یورپی ارکان والے سائمن کمیشن میں کام کرنے کے لئے مقرر کیا گیا۔اس کمیشن کی مخالفت میں ہندوستان بھر میں احتجاج ہوئے۔جہاں اس رپورٹ کو زیادہ تر ہندوستانیوں کی طرف سے نظر انداز کردیا گیا، امبیڈکر نے الگ سے مستقبل کی آئینی اصلاحات کے لیے سفارش لکھ کر ارسال کی۔
سن 1927 تک، ڈاکٹر امبیڈکر نے چھوا چھوت کے خلاف ایک وسیع اور فعال تحریک آغاز کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے عوامی تحریکوں، ستیہ گرہوں اور جلوسو ں کے توسط سے  پینے کے پانی کے عوامی وسائل معاشرے کے تمام طبقات کے لیے کھلوانے کے ساتھ ہی انہوں نے اچھوتوں کو بھی ہندو مندروں میں داخل ہونے کا حق دلانے کے لئے جدوجہد کی۔ انہوں نے مہاڈ شہر میں اچھوت کمیونٹی کو بھی شہر کی چودار تالاب سے پانی لینے کا حق دلانے کے لیے ستیہ گرہ کیا۔1927 کے آخر میں کانفرنس میں، امبیڈکر نے ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک اور ”چھواچھوت“ کو نظریاتی طور پر منصفانہ بنانے کے لئے، قدیم ہندو پاٹھ، منوسمرتی، جس  میں زیادہ تر عہدے، کھل کر نسلی امتیاز اور نسل پرستی کی حمایت کی گئی ہے، کی عوامی طور پر مذمت کی اور انہوں نے باضابطہ طور پر پراچین پاٹھ (قدیم متن)کی کاپیاں جلائیں۔25 دسمبر 1927 کو، انہوں نے ہزاروں پیروکاروں کے ساتھ منوسمرتی کی کاپیوں کو جلایا۔ اس کی یاد میں ہر سال 25 دسمبر کو’منوسمرتی دہن‘ (جلانے) دن کے طور پر امبیڈکروادیو اور دلتوں کی طرف سے منایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ”جب تک آپ سیاسی آزادی حاصل نہیں کرلیتے، قانون میں جو آزادی دی گئی ہے وہ آپ کے لئے بے معنی ہے“۔  اس لئے انہوں نے سماجی بیداری کو اپنا ہتھیار بنایا۔
1930 میں، امبیڈکر نے تین ماہ کی تیاری کے بعد کالارام مندر ستیہ گرہ شروع کیا۔ کالارام مندر تحریک میں تقریبا 15000 رضاکار جمع ہوئے، جس سے ’ناشک‘کا سب سے بڑا عمل ہوا۔ جلوس کی قیادت ایک فوجی بینڈ نے کی تھی،ا سکاؤٹس کے ایک بیچ، خواتین اور مرد پہلی بار بھگوان (مورتی) کو دیکھنے کے لئے نظم و ضبط، حکم اور عہد کے ساتھ چلے۔ جب وہ دروازے تک پہنچے تو دروازے برہمن حکام کی طرف سے بند کر دیے گئے۔
دوسری آنگل مراٹھا جنگ کے تحت یکم جنوری 1818 کو  ہونے والی لڑائی کے دوران مارے گئے ہندوستانی مہار فوجیوں کے اعزاز میں امبیڈکر نے یکم جنوری 1927 کو کوریگاوں فتح یادگار میں ایک تقریب منعقد کی۔ یہاں مہار کمیونٹی سے متعلق فوجیوں کے نام ماربل کی ایک تختی پرکندہ کروائے گئے تھے اورکوریگاوں  دلت افتخار کی علامت بن گیا۔
امبیڈکر کے بارے میں شاہ غازی الدین  نے، اپنی کتاب  ڈاکٹر امبیڈکر حیات اورکارنامے میں لکھا ہے کہ 
ڈاکٹر امبیڈکر ایک ممتاز مفکر، مصلح، قانون داں ذہین اور علمی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک اچھوت اور پس ماندہ پچھڑی ہوئی قوم میں پیدا ہوئے۔ جس کو اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے ہزاروں سال سے ذلت اور جانوروں سے زیادہ کہیں بدتر زندگی گزارنے پر مجبور کررکھا تھا۔ ان افراد کو ذلت اور جہالت سے نکال کر ان کو انسانی اور دستوری حق دلوانا ڈاکٹر امبیڈکر کا عظیم کارنامہ ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اس اچھوت اورپسماندہ طبقہ کو بیدار کرکے منظم کیا، ان کو اپنے حقوق حاصل کرنے، اس کے لیے لڑنے اورآگے بڑھ کر چھین لینے کی تعلیم دی۔ یہ کام موصوف نے فرد واحد کی حیثیت سے انجام دیا ہے جس کی مثال بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ڈاکٹر امبیڈکر صاحب کی کوششوں اور کاوشوں کا مرکز اور محور اچھوت اور دلت طبقہ تھا ان کے لیے وہ مسیحا اور مصلح بن کر ان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں اور مثالی کارنامہ انجام دیا۔ اس کام کے لیے موصوف نے ہرطرح کا ایثار کیا اور قربانیاں دیں وہ بہت نڈراور بے باک تھے۔ڈاکٹر صاحب نے اچھوت اور دلت قوم میں نئی روح پھونکنے کے لیے بدھ مذہب کا سہارا لیا جو موصوف کا طے شدہ پروگرام تھا۔ گاندھی جی سے دوران گفتگو انھوں نے کہا تھا کہ ”ہمارا اختلاف اپنی جگہ مگر جو بھی قدم اٹھانا ہوگا، اس بات کی پوری کوشش کی جائے گی کہ ملک کو کم سے کم نقصان پہنچے، اسی لیے وہ بدھ مذہب اختیار کرکے اس ملک کے مفاد کی حفاظت کررہے ہیں۔“ (ڈاکٹر امبیڈکر حیات اورکارنامے از شاہ غازی الدین،ص:۳۶۱)
امبیڈکر نے کہا تھا ”چھواچھوت غلامی سے بھی بدتر“ ہے۔ اس کا سامنا انہیں ہر موقع پر کرنا پڑا تھا۔ اس لئے انہوں نے کہاکہ ایک مرتبہ کہا تھا  ”ہند و دھرم میں ضمیر، وجہ اور آزادی کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے“۔ اس لئے انہوں نے اپنی زندگی اس کے خلاف لڑنے اور دلت قوم کو جگانے اور بیدار کرنے میں صرف کردیا۔ انہوں نے ہندو مذہب میں تفریق سے بیزار ہوکر بدھ مذہب اختیار کرلیا تھا۔ انہوں نے مذہب کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہئے کہا تھا کہ ”میں ایسے مذہب کو پسند کرتاہوں جس میں آزدی، مساوات  اور ایک برادری ہو“.
سماجی عدم مساوات، بھید بھاؤ، امتیازی سلوک اور معاشرتی نابراری پر حملہ کرتے ہوئے ڈاکٹر امبیڈ کر نے کہا تھا کہ”منواد کو جڑ سے ختم کرنا میری زندگی کا پہلا مقصد ہے“۔
باباصاحب عام سیاست دانوں کی طرح نہیں تھے جس کا مقصد سماجی خدمت کے بجائے اپنی اور خاندان کی خدمت ہوتا ہے۔ وہ کس طرح سیاست کو اپنے لوگوں کی خدمت کا ذریعہ سمجھتے تھے اس کااندازہ ان کے اس بات سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے سیاست کے بارے میں کہا تھا کہ ”میں سیاست میں عیش کرنے نہیں بلکہ اپنے سبھی دبے کچلے بھائیوں کو ان کا حق دلانے آیا ہوں“۔
جب انہوں نے آئین کی تخلیق کی تھی تو دلت ہونے کی وجہ سے ان پر طرح طرح کے سوالات کئے گئے اور ان پر ایک طبقہ کے لئے کام کرنے کا الزام بھی لگایا گیا تو ڈاکٹر امبیڈکر نے کہا تھا کہ ”میں کسی ایک ذات یا کسی ایک سماج کے لئے کام نہیں کیا ہے جس کو مجھ پر بھروسہ نہیں وہ آئین کو پڑھ لے“۔ پھر انہوں نے کہاکہ آگے کہا تھا ”کچھ بری طاقتوں نے مجھے محدود کرنے کی کوشش کی ہے“۔ انہوں نے آئین کے غلط استعمال کے بارے میں  ایک بار کہا تھا کہ ”اگر مجھے لگا کہ آئین کا بے جا استعمال کیا جارہاہے میں آئین کو سب سے پہلے جلاؤں گا“۔
ڈاکٹرامبیڈکر نے جو سماجی تحریک شروع کی تھی ایسے ہی تحریک کی موجودہ دور میں بھی ضرورت ہے کیوں کہ سماج میں اس وقت مختلف خانوں میں تقسیم ہے۔ دلتوں کو اب بھی ملک کے کچھ حصوں میں شادی کے لئے گھوڑی پر چڑھنے کی اجازت نہیں ہے، ابھی بھی دلتوں اور کمزور طبقوں کو سماجی، معاشی، تعلیمی اور سیاسی امتیاز کا سامنا ہے۔ اسکول سے لیکر یونیورسٹی تک دلتوں کو اسی طرح کی تکلیف اور امتیاز سے گزرنا پڑتا ہے جس طرح وہ پہلے گزرتے تھے۔ ابھی حالیہ دنوں میں ممبئی کے ڈاکٹر پائل تاڑوی کوخودکشی پر مجبور ہونا ہے۔ حیدرآباد میں  روہت ویمولاکی خودکشی اور دیگر یونیورسٹوں میں بعض دلت طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اس لئے ڈاکٹر امبیڈکر کی سماجی تحریک کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کو زندہ کیا جائے تاکہ ملک میں سماجی انصاف کا نظام مستحکم ہوسکے اور سب کو یکساں تعلیمی، معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق مل سکے۔
یہ مضمون 2019میں آل انڈیا ریڈیو پر ڈاکٹر امبیڈکر کے یوم وفات کے موقع پر نشر گیا تھا۔سرکاری مضمون
D- 64/10, Abul Fazal Enclave I, Jamia Nagar, Okhla, New Delhi- 110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335

Comments