کورونا وائرس کے آئینے میں مغرب کا بھیانک چہرہ

شاہنواز فاروقی

Thumb

وائٹ ہاؤس امریکہ کے اقتدار کی طاقت اور تہذیب کی علامت ہے، اور اس وقت وائٹ ہاؤس میں یہ سوچا جارہا ہے کہ امریکی معیشت کو بچانے کے لیے اگر بوڑھوں اور بیماروں کو ٹھکانے لگانا پڑے تو ایسا کر گزرنا چاہیے
امریکہ، یورپ اور سابق سوویت یونین میں خدا اور مذہب کی اتنی توہین ہوئی اور ان قوتوں نے مسلمانوں سمیت پوری انسانیت پر اتنے مظالم ڈھائے تھے کہ آج سے 30 سال پہلے بھی اگر کوئی آکر ہمیں بتاتا کہ امریکہ، یورپ اور سوویت یونین میں زلزلہ آگیا ہے اور یہ تینوں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے ہیں تو ہمیں ان کے جرائم کے تناظر میں اس اطلاع پر رتی برابر حیرت نہ ہوتی۔ خدا کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ خدا فرد، گروہ، قوموں اور تہذیبوں کو مہلتِ عمل دیتا ہے۔ وہ اس بات کا انتظار کرتا ہے کہ انسان کب اپنے جرائم کا اعتراف کرکے اس کی طرف پلٹتا ہے۔ انسان اور قومیں پلٹ جائیں تو خدا کا عذاب ٹل جاتا ہے، ورنہ مہلتِ عمل کے ختم ہوتے ہی خدا فرعونوں اور نمرودوں کو پکڑ لیتا ہے۔
مسلمانوں کے روحانی، اخلاقی اور علمی زوال کی انتہا یہ ہے کہ وہ قرآن کے فرعون اور نمرود کو تو پہچانتے ہیں مگر اپنے زمانے کے فرعونوں اور نمرودوں کو فرعون اور نمرود ہی نہیں سمجھتے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا فرعون ایک ’’مقامی فرعون‘‘ تھا۔ قرآن کا نمرود ایک ’’مقامی نمرود‘‘ تھا۔ اس کے برعکس امریکہ ایک عالمگیر فرعون ہے۔ سوویت یونین ایک عالمگیر نمرود تھا۔ اسی طرح یورپ کل بھی ایک عالمگیر ابرہہ تھا اور آج بھی ایک عالمگیر ابرہہ ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک “Common Sense” کی بات ہے کہ جب خدا نے مقامی فرعون، مقامی نمرود اور مقامی ابرہہ کو نیست و نابود کردیا تو وہ عالمگیر فرعون، عالمگیر نمرود اور عالمگیر ابرہہ کو کیوں سزا نہیں دے گا؟ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ فرعون، نمرود اور ابرہہ کی تباہی سے قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ قوتیں صفحۂ ہستی سے مٹنے والی ہیں۔ سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ کسی اور کو کیا امریکی سی آئی اے اور روس کی بدنام زمانہ کے جی بی کو بھی سوویت یونین اور کمیونزم کے خاتمے سے ایک ماہ قبل تک معلوم نہیں تھا کہ ان کا دھڑن تختہ ہونے والا ہے۔ عالمِ اسلام میں اللہ تعالیٰ نے صرف مولانا مودودیؒ کو یہ بصیرت دی تھی کہ انہوں نے کمیونزم کے خاتمے سے تقریباً پچاس سال پہلے بتادیا تھا کہ ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم کو ماسکو میں پناہ نہیں ملے گی۔ کیا آج مسلم دنیا میں کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ مستقبل کی دنیا میں امریکہ اور یورپ ہی نہیں، چین اور روس بھی بالادست نہیں ہوں گے؟ لیکن یہ تو ایک طویل جملۂ معترضہ تھا۔ آج کا موضوع تو کورونا وائرس کے آئینے میں مغرب کے بھیانک چہرے کا ’’دیدار‘‘ ہے۔
مغرب ہمیشہ سے ’’نسل پرست‘‘ ہے۔ مغرب کی نسل پرستی کی انتہا یہ ہے کہ اُس نے حضرت عیسیٰؑ جیسے جلیل القدر پیغمبر کو بھی نہیں بخشا۔ بائبل کی شہادت یہ ہے کہ حضرت عیسیٰؑ سفید فام اور نیلی آنکھوں والے نہیں تھے۔ امریکہ کے ممتاز اداکار میل گبسن نے حضرت عیسیٰؑ پر “Passion of the christ” کے عنوان سے فلم بنائی تو حضرت عیسیٰؑ کا کردار ادا کرنے والے اداکار کی نیلی آنکھوں کو اس نے Digital ٹیکنالوجی کی مدد سے بھورا بنایا۔ مگر مغرب میں بننے والی حضرت عیسیٰؑ کی ہر تصویر میں حضرت عیسیٰؑ ’’سفید فام‘‘ نظر آتے ہیں اور ان کی آنکھیں یورپی باشندوں کی طرح نیلی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح اہلِ مغرب حضرت موسیٰؑ کو بھی سفید فام باور کرانے پر تلے رہتے ہیں، حالانکہ مسند امام احمد میں موجود حدیث نمبر3365 بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰؑ سیاہ فام تھے۔
مغرب کی نسل پرستی کا یہ سلسلہ کورونا وائرس کے سلسلے میں بھی ظاہر ہوا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا کو ’’چینی وائرس‘‘ قرار دیا۔ امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اسے ووہان کی رعایت سے ’’ووہان وائرس‘‘ قرار دیا۔ مگر خود امریکی یہ بھول گئے کہ انہوں نے دنیا کو ایک نہیں کئی بیماریوں کے ’’تحفے‘‘ دیے ہیں۔ اس کی ایک ٹھوس شہادت امریکہ کے ممتاز اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والا آئن بروما کا مضمون ہے۔ اس مضمون میں آئن بروما نے لکھا:۔
’’یورپی حملہ آور مقامی امریکیوں (یعنی ریڈ انڈینز) کے لیے چیچک، ہیضہ اور ٹائفس جیسی بیماریاں لے کر آئے، مقامی باشندوں میں ان بیماریوں کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں پائی جاتی تھی۔‘‘ (نیویارک ٹائمز۔ 28مارچ 2020ء)۔
مغرب اپنے آپ کو ’’مہذب‘‘ کہتا ہے، مگر تہذیب کا ایک معیار مولانا رومؒ کی اصطلاح میں ’’احترامِ آدمیت‘‘ ہے، اور مغرب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مغربی لوگوں کے سوا کسی کو آدمی یا انسان نہیں سمجھتا۔ برطانیہ کے نوبیل انعام یافتہ ادیب رڈیارڈ کپلنگ نے اپنی ایک نظم میں پورے مشرق کو “Half Child Half Satan” یعنی آدھا بچہ اور آدھا شیطان قرار دیا ہے۔ اہلِ مغرب کے نزدیک مشرق بچہ اس لیے ہے کہ اُس کے پاس یا تو عقل ہے ہی نہیں، یا وہ ’’ترقی یافتہ عقل‘‘ نہیں رکھتا۔ مغربی دانش وروں کے مطابق مشرق کے عقل سے محروم ہونے کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اُس کے پاس فلسفے کی روایت نہیں ہے۔ کپلنگ نے مشرق کو شیطان اس لیے قرار دیا کیونکہ مشرق ’’عیسائی‘‘ نہیں ہے۔ لیکن جب سے مغرب میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہے، مغرب خود اپنے سفید فام بوڑھوں اور بیماروں کے لیے بھی ’’مہذب‘‘ نہیں رہا۔ ذرا دیکھیے تو آئن بروما امریکہ کے ممتاز اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کیا لکھ رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا:۔
’’امریکہ جیسے جمہوری ملک میں معاملات ابھی تک اس نہج پر نہیں پہنچے مگر وہائٹ ہائوس میں ڈارون کی پیروی کرتے ہوئے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں کہ امریکی معیشت کی خاطر موجودہ بحران میں ہمیں اپنے بوڑھوں اور اپنے بیماروں کی قربانی دے دینی چاہیے۔ اس کی بدترین صورت یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ اپنے ناقدین اور سیاسی مخالفین کو بے ہودہ اور بیمار کہہ کر یکسر مسترد کرنے کے خبط میں مبتلا ہیں‘‘۔ (نیویارک ٹائمز۔ 28 مارچ 2020ء)۔
نیویارک ٹائمز کا یہ مضمون بتارہا ہے کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی وبا نے امریکیوں کی سفاکی کو پوری طرح مشتہر کردیا ہے۔ وائٹ ہائوس امریکہ کے اقتدار کی طاقت اور تہذیب کی علامت ہے، اور اس وقت وائٹ ہائوس میں یہ سوچا جارہا ہے کہ امریکی معیشت کو بچانے کے لیے اگر بوڑھوں اور بیماروں کو ٹھکانے لگانا پڑے تو ایسا کر گزرنا چاہیے۔ اتفاق سے یہ صرف نیویارک ٹائمز کی اطلاع نہیں، امریکہ میں رہائش پذیر کئی لوگوں کے توسط سے یہ بات ہم تک پہنچی ہے کہ اس وقت امریکہ میں اگر کوئی 60 سال سے زیادہ عمر کا آدمی کورونا کا شکار اسپتال میں داخل ہوتا ہے تو امریکی ڈاکٹر اُسے نظرانداز کرتے ہیں۔ البتہ 40 سال سے کم عمر بیماروں پر توجہ دی جارہی ہے۔ روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہونے والی ایک حالیہ خبر کے مطابق اٹلی کے کئی “Old Houses” میں کئی درجن بوڑھے کورونا وائرس سے ہلاک پائے گئے ہیں۔ یعنی اٹلی کی حکومت نے ان بوڑھوں کو مرنے کے لیے چھوڑ رکھا تھا۔ انسانوں، معاشروں اور تہذیبوں کی ’’تہذیب‘‘ کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ وہ معاشی، سماجی اور جسمانی اعتبار سے کمزور لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے امریکہ اور اٹلی نے کورونا وائرس کی وبا میں اپنے کمزوروں کو مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ مغرب کی جمہوریت بھی جعلی ہے، آزادی بھی جعلی ہے، مساوات بھی جعلی ہے، امن بھی جعلی ہے۔ مگر مذکورہ بالا حقائق سے معلوم ہورہا ہے کہ اس کا ’’انسانی حقوق‘‘ کا تصور کیا، اس کی ’’نسل پرستی‘‘ بھی جعلی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مغرب کی تہذیب کو ’’جعلی تہذیب‘‘ کہنا غلط نہ ہوگا۔ بدقسمتی سے مسلم دنیا کے کروڑوں سیکولر، لبرل اور مذہبی لوگ مغرب کی ’’جعلی تہذیب‘‘ کو ’’حیرت‘‘ اور ’’ہیبت‘‘ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ جو تہذیب ایک مشکل وقت میں اپنے کمزور اور ناتواں لوگوں کو مارنے کے لیے کوشاں ہو، وہ دوسری اقوام کے لوگوں کے ساتھ کتنی سفاکی کے ساتھ پیش آتی رہی ہوگی اور آر ہی ہوگی۔ ’’دوسرے لوگوں‘‘ کے ساتھ مغرب کے سفاکانہ سلوک کا تازہ ترین ٹھوس ثبوت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکیوں کے لیے ایک بہت ہی بڑے اقتصادی پیکیج کا اعلان کرتے ہوئے صاف کہا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن اس پیکیج سے ہرگز مستفید نہ ہوسکیں گے۔ امریکی گلوکارہ میڈونا نے ابھی حال ہی میں کہا تھا کہ کورونا وائرس نے غریب اور امیر کی تفریق مٹادی ہے۔ مگر امریکہ کا صدر کہہ رہا ہے کہ امداد کے حوالے سے مقامی اور غیر مقامی، امیر اور غریب میں فرق ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک جانب وہائٹ ہائوس میں بوڑھوں اور بیماروں سے جان چھڑانے کی باتیں ہورہی ہیں، اور دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ وبا میں بھی امداد کے حوالے سے مقامی اور غیر مقامی، قانونی اور غیر قانونی کا سوال اٹھا رہے ہیں۔ امریکہ سے یہ اطلاع بھی آچکی ہے کہ امریکہ کے کئی مقامات پر لوگ ہتھیار خریدنے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق 30کروڑ آبادی کے ملک امریکہ میں 39 کروڑ سے زیادہ بندوقیں یا دوسرے ہتھیار ہیں۔ اس کے باوجود کورونا کے بعد امریکہ میں اسلحہ خریدنے کا جنون انتہا کو پہنچا ہوا ہے۔ خبر کے مطابق 21 فروری 2020ء سے یکم مارچ 2020ء تک 797221 افراد نے اسلحہ کی خریداری میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ اوکلاہوما میں بندوقوں کی دکان کے مالک ڈیوڈ اسٹون نے کہاکہ کورونا کے باعث گھر میں رہنے کے حکم کے بعد میرے گاہکوں میں 800 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ ایلی نائے پولیس اسٹیشن کے اسلحہ سے متعلق نگراں نے بتایا کہ اسے 13مارچ سے 18 مارچ تک اسلحہ کے سلسلے میں 18980 انکوائریاں موصول ہوئی ہیں۔ (دنیا سنڈے میگزین۔ 5 اپریل 2020ء)۔
اسلحہ خریدنے والے افراد کو اندیشہ ہے کہ اقتصادی حالات مزید خراب ہوئے تو لوگ لوٹ مار کے لیے گھروں اور بازاروں پر حملے کریں گے۔ مگر امریکہ تو ’’اقتصادی سپر پاور‘‘ بھی ہے، ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور ’’مہذب‘‘ بھی… تو پھر امریکہ کے ’’مہذب‘‘ اور ’’تعلیم یافتہ‘‘ شہری لوٹ مار پر کیوں آمادہ ہوں گے؟ تجزیہ کیا جائے تو اس صورتِ حال نے امریکی معاشرے کی تہذیب ہی کا نہیں، اس کی ’’خوشحالی‘‘ اور ’’معاشی ترقی‘‘ کا بھی پول کھول دیا ہے۔ امریکی معاشرہ ڈھائی سو سال سے پُرامن بھی ہے، قانون پسند بھی اور خوشحال بھی… مگر آزمائش کو جذب کرنے کی اس کی صلاحیت اتنی محدود ہے کہ ایک وبا نے پورے معاشرے کو لوٹ مار کے خوف میں مبتلا کردیا ہے۔
تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ مشکل میں افراد اور قوموں کا مزاج نرم پڑ جاتا ہے، اور کچھ دنوں کے لیے سہی، افراد اور قومیں بہتر انسانی رویوں کا مظاہرہ کرنے لگتی ہیں۔ مگر اہلِ مغرب پر کورونا جیسی وبا بھی اثرانداز نہیں ہوئی۔ اس کی ایک شہادت روزنامہ ڈان کراچی میں شائع ہونے والی خبر ہے۔ اس خبر کے مطابق فرانس کے دو ممتاز سائنس دانوں نے ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں کہاکہ ہمیں کورونا کی ویکسین کا تجربہ افریقہ کے افراد پر کرنا چاہیے۔ کیونکہ افریقہ میں نہ کوئی علاج ہے، نہ انتہائی نگہداشت کی سہولت ہے، نہ وہاں Masks ہیں۔ (ڈان کراچی۔ 4 اپریل 2020ء)۔
اس خبر سے ہمیں ہیرٹ اے واشنگٹن کی تصنیف “Medical Apartheid” یا ’’طبی امتیاز‘‘ یاد آگئی۔ اس کتاب کے ایک اقتباس کا ترجمہ یہ ہے:۔
۔’’امریکہ میں طبی ماہرین سیاہ فام امریکیوں کے جسموں کے استحصال کے عمل میں شریکِ کار تھے۔ تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں سیاہ فام باشندوں کو طبی طور پر نظرانداز کیا جاتا تھا اور انہیں مسخ (Abuse) کرنے کی صورت بھی نکالی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کمزور تھے اور قانونی راڈار پر نظر نہیں آتے تھے۔ امریکی عدالتوں کو سیاہ فام غلاموں کی صحت اور تحفظ سے کوئی دلچسپی ہی نہ تھی‘‘۔
(Medical Apartheid By Harriet A. Washington Page-29)
اس سلسلے میں وکی پیڈیا پر بھی خاصا مواد موجود ہے۔ اس مواد کے مطابق جرمنی کے ماہرین نے 1800ء سے 1910ء کے دوران جنوبی مغربی افریقہ کے لوگوں پر ’’نس بندی‘‘ یا انہیں نامرد بنانے کے لیے تجربات کیے۔ ڈاکٹر یوجین فشر نے افریقی خواتین کو تجربات کے لیے استعمال کیا۔ مغرب کے ماہرین نے 1980-81ء میں افریقی خواتین پر Birth Control کے سلسلے میں تجربات کیے۔ بعدازاں ان تجربات پر ان کے ضرر کی وجہ سے پابندی لگادی گئی۔ 1990ء میں مغرب کے ایک دواساز ادارے نے نائیجیریا میں Trovcin کا تجربہ کیا، اس سے 11 بچے ہلاک ہوگئے، بہت سے بچے اندھے اور بہرے ہوگئے اور بعض کے دماغوں کو نقصان پہنچا۔ مغرب کے دواساز ادارے نے اس سلسلے میں نائیجیریا کی حکومت سے اجازت لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ امریکہ نے 1990ء میں افریقہ کی 17000 خواتین پر Aids کے سلسلے میں تجربات کیے۔ ان خواتین کو نہ تو تجربے کے طریقے کے بارے میں کچھ بتایا گیا، اور نہ ہی انہیں تجربات کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کیا گیا۔ اب مغرب میں کورونا کی وبا پھیلی ہے تو فرانس کے دو سائنس دانوں کو کورونا ویکسین کو افریقی باشندوں پر آزمانے کا خیال آیا ہے، اور انہوں نے یہ بات ٹیلی وژن پر بیٹھ کر پوری دنیا کے سامنے کہی ہے۔
مغرب میں خاندانی نظام بکھر چکا ہے اور خواتین کی آزادی کی تحریک نے ہر گھر میں شوہر اور بیوی کو ایک دوسرے کے مقابلے پر لاکھڑا کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں کورونا سے ہونے والے لاک ڈائون نے مغربی معاشرے میں خانگی زندگی کو میدانِ جنگ بنادیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق گھروں میں قید شوہروں اور بیویوں کے درمیان گھریلو جھگڑوں میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ جہاں خواتین پہلے مدد کے لیے خال خال فون کرتی تھیں، اب وہاں تواتر کے ساتھ مدد کے لیے فون موصول ہورہے ہیں۔ وینکوور میں جہاں پہلے گھریلو تشدد کے حوالے سے مہینے میں ایک آدھ فون کال موصول ہوتی تھی، وہاں اب ایک دن میں 100خواتین گھریلو تشدد کی شکایت کررہی ہیں۔ وینکوور میں ایک ادارے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینجلا میری میکڈوگل نے المیے کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ’’کورونا وائرس سے گھر گھر سماجی المیہ جنم لے رہا ہے۔ اس کی شدت کا اندازہ وائرس کے خاتمے کے بعد ہی کیا جاسکے گا۔‘‘
مغرب میں گھریلو تشدد اتنا عام ہوگیا ہے کہ اب حکومتیں اور پولیس بھی اپنی پالیسیاں بدل رہی ہیں۔ ایک تبدیلی یہ ہے کہ گھریلو تشدد کا شکار عورت کو لاک ڈائون توڑنے کی اجازت مل گئی ہے۔ فرانس نے وائرس سے ہونے والے گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے 11 لاکھ ڈالر کا خصوصی فنڈ قائم کردیا ہے۔ خواتین کی مدد کے لیے سپر مارکیٹوں اور میڈیکل اسٹوروں میں بھی ہیلپ لائنیں قائم کردی گئی ہیں۔ (روزنامہ دنیا۔ 3 اپریل 2020ء)۔
امریکہ دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی قوت ہے۔ اس کا جنگی بجٹ 700 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ امریکہ کے پاس 6 ہزار ایٹم بم ہیں۔ دنیا بھر میں اس کے 500 فوجی اڈے ہیں۔ اس نے عراق اور افغانستان کی جنگ پر 3 ہزار ارب ڈالر صرف کیے ہیں۔ مگر امریکہ کے Health Care نظام کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے 2 کروڑ 70 لاکھ شہریوں کا کورونا ٹیسٹ ہوہی نہیں سکے گا۔ امریکہ کی جان ہاپکنز یونیورسٹی کے مطابق امریکہ میں وبا شروع ہونے سے قبل ایک لاکھ 68 ہزار 900 وینٹی لیٹر تھے، جبکہ امریکہ کو 7 لاکھ 40 ہزار وینٹی لیٹر کی ضرورت تھی۔ امریکہ میں ایک ہزار افراد کے لیے اسپتال کے صرف 2.4 بستر دستیاب ہیں۔ اٹلی میں دستیاب بستروں کی تعداد فی ہزار 3.2 ہے۔ برطانیہ جنگی بجٹ پر سالانہ 40 ارب پائونڈ خرچ کرتا ہے، اس کا ’’حال‘‘ یہ ہے کہ اسے 20 ہزار وینٹی لیٹر کی ضرورت ہے، جبکہ برطانیہ میں 5 ہزار وینٹی لیٹر ہیں۔ (دی نیوز، 24مارچ 2020ء)۔
ان حقائق کو دیکھا جائے تو مغربی ممالک کے معاشی فلاحی ریاست ہونے کے تصور کے پرخچے اڑ گئے ہیں۔ یہ وہ مغربی معاشرے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کی دولت لوٹ کر خود کو امیر سے امیر تر بنایا ہے، یہ وہ مغربی ممالک ہیں جو دنیا کو فلاحی ریاست کے حوالے سے لیکچرز دیتے پھرتے ہیں، یہ وہ مغربی معاشرے ہیں جنہوں نے پوری دنیا کی معیشتوں کو کنٹرول کیا ہوا ہے، یہ وہ معاشرے ہیں جہاں دولت کی فراوانی ہے، یہ وہ معاشرے ہیں جہاں ’’عوام‘‘ کے تصور کو پوجا جاتا ہے، یہ وہ معاشرے ہیں جنہیں مسلم دنیا کے سیکولر اور لبرل عناصر ’’مثال‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ذرا روزنامہ جنگ میں وجاہت مسعود کے کالم کی یہ سطریں تو ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں:۔
’’جمہوریت میں تمام شہریوں کے لیے صحت، تعلیم، روزگار اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے علاوہ انسانی آزادیوں اور خوشیوں کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے‘‘۔ (روزنامہ جنگ۔ 23 مارچ 2020ء)۔
مغربی ریاستیں اپنے شہریوں کی ’’صحت‘‘ اور اپنے بوڑھوں کے ’’علاج‘‘ پر جتنی توجہ دے رہی ہیں وہ ظاہر ہے۔ ابھی تو کورونا وبا کا آغاز ہے۔ یہ وبا مغرب میں مزید پھیلی تو مغرب کی ’’تہذیب‘‘ اور اس کا تصورِ ’’فلاح‘‘ مزید سامنے آئے گا۔
مسلم معاشروں بالخصوص پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور اور کالم نگار مغرب کے ’’پالتو کتے‘‘ ہیں۔ ان کے پاس نہ حقیقی علم ہے نہ ذہانت۔ اس پہ دروغ گوئی کو انہوں نے وتیرہ بنایا ہوا ہے۔ ان دانش وروں میں سے ایک شخص پرویز ہود بھوئے بھی ہے۔ اس شخص کی بدباطنی اور جھوٹ کا یہ عالم ہے کہ اس نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ دین اور سیاست کی یکجائی کا جو تصور مولانا مودودی نے پیش کیا ہے، ماضی کے علما مثلاًامام غزالی اور ابن خلدون دین سیاست کی یکجائی کے قائل نہ تھے۔ ہم نے اس کے جواب میں تاریخی مثالوں سے ثابت کیاکہ امام غزالیؒ نے ’’احیاء العلوم‘‘ میں صاف لکھا ہے کہ دین اور سیاست ایک چیز ہیں۔ اسی طرح ابن خلدون نے اپنے مقدمے میں لکھا ہے کہ اسلام میں سیاست دین کے تابع ہے۔ اب کورونا وائرس کے حوالے سے پرویز ہود بھوئے نے ایک نیا جھوٹ گھڑا ہے، اس نے ڈان میں لکھا ہے کہ پوپ فرانسس نے دنیا سے کہا ہے کہ وہ کورونا وائرس یا Covid-19 کو یکجہتی کے لیے ایک امتحان کے طور پر دیکھے۔ پرویز ہود بھوئے نے مزید لکھا کہ چرچ نے بالآخر تین سو سال بعد طاعون اور قدرتی آفات کو آسمانی سزا کے طور پر دیکھنا بند کردیا ہے (ڈان، 4 اپریل 2020ء)۔ ہم نے ’الجزیرہ‘ کی ویب سائٹ پر پوپ کی پوری تقریر دیکھی، اس میں انہوں نے نہ یہ فرمایا کہ کورونا سزا ہے، نہ یہ فرمایا کہ یہ سزا نہیں ہے۔ البتہ پوپ نے اپنی “Service” کو وبا کے دور میں کی جانے والی ’’دعا‘‘ قرار دیا۔ دعا ایک مذہبی تصور ہے، اور دعا صرف خدا سے کی جاتی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ بیماری بھی خدا کی طرف سے ہوتی ہے اور صحت بھی خدا ہی دیتا ہے۔ پوپ نے اپنی تقریر میں ایک اور اہم بات کہی۔ انہوں نے کہا کہ وبا نے ان جھوٹے اور غیر ضروری تیقّنات (Certainities) کو مسمار کردیا ہے جو ہم نے اپنے معمولات کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ پرویز ہود بھوئے نے اپنے کالم میں چارلس ڈارون کا بھی ذکر کیا، اور کورونا وائرس کو ڈارون کے تصور ’’فطری انتخاب‘‘ یا Natural Selection کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ وہی چارلس ڈارون ہے جو انسان کو بندر کی اولاد کہتا ہے۔ ہم ڈان میں پرویز ہود بھوئے کی تصویر دیکھتے اور کالم پڑھتے ہیں تو ہمیں بھی یہ خیال آنے لگتا ہے کہ ممکن ہے بعض لوگ واقعتاً بندر کی اولاد ہوں۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ پرویز ہود بھوئے کو کورونا ڈارون کے “Natural Selection” کا نتیجہ نظر آتا ہے۔ آیئے اس سلسلے میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے مضمون سے ایک اقتباس ملاحظہ کرتے ہیں:۔
۔’’اس نے (یعنی ڈارون نے) نیچرل سلیکشن تھیوری کے ایک ناقد ولیم گراہم کو خط میں لکھا کہ میں آپ کو اس بات کا ثبوت دے سکتا ہوں کہ نیچرل سلیکشن تھیوری پر ہونے والی بحث نے انسانی تہذیب کی ترقی اور فروغ میں آپ کی سوچ اور اعتراف سے زیادہ اچھا کردار ادا کیا ہے۔ مجھے وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا جب پوری دنیا سے کمتر نسلوں کی بڑی تعداد کو زیادہ مہذب نسلیں نیست و نابود کردیں گی۔‘‘ (نیویارک ٹائمز۔ 28 مارچ 2020ء)۔
ڈارون کے خط کے اس اقتباس سے ثابت ہے کہ ڈارون ایک سفید فام نسل پرست تھا۔ اس سے ثابت ہواکہ ہود بھوئے بھی نسل پرست ہیں۔ چونکہ کورونا وائرس کو ہود بھوئے نے Natural Selection کا نتیجہ قرار دیا ہے، چنانچہ اصولی اعتبار سے اس وائرس کو صرف ایشیا اور افریقہ کی کمتر نسلوں کے لوگوں پر اثرانداز ہونا چاہیے تھا، مگر اب تک کی کہانی یہ ہے کہ کورونا وائرس اعلیٰ اور ادنیٰ نسل کے درمیان کوئی تفریق نہیں کررہا، بلکہ کورونا کا اثر اب تک امریکہ اور یورپ میں زیادہ نظر آرہا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ کورونا وائرس نے نہ ڈارون کو پڑھا ہوا ہے، نہ بدقسمتی سے کورونا وائرس ڈان میں پرویز ہود بھوئے کے کالم پڑھتا ہے۔ مسلم دنیا کے عام لوگ کیا، دانش ور بھی یہ بات نہیں جانتے کہ ڈارون نے مغرب کی فکر پر جتنا اثر ڈالا ہے کسی اور مفکر کا مغربی فکر پر اتنا اثر نہیں۔ ڈارون سائنس کا آدمی تھا مگر اُس کے تصورِ ارتقا نے تاریخ اور عمرانیات سمیت ہر علم پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ اس کے باوجود ڈارون کی جہالت کا یہ عالم ہے کہ وہ Natural Selection کے عمل کو بھی ’’نسل پرستی‘‘ کے تابع سمجھتا تھا، اسی لیے اُس کا خیال تھا کہ برتر نسل یعنی مغربی نسلیں باقی رہیں گی اور باقی نسلیں فنا ہوجائیں گی۔ ڈارون کی یہ پیشگوئی بھی بظاہر غلط ثابت ہوتی نظر آرہی ہے، اس لیے کہ مغرب کی سفید فام نسلیں تیزی کے ساتھ فنا ہورہی ہیں۔ مغرب میں شادی کا ادارہ منہدم ہوچکا ہے۔ مغرب کے لوگ اپنی پُرتعیش زندگی کو جاری رکھنے کے لیے بچے پیدا نہیں کررہے۔ چنانچہ اس وقت یہ صورتِ حال ہے کہ مغرب کے اکثر ملکوں میں شرح پیدائش کہیں ایک فیصد ہے، کہیں ڈیڑھ فیصد ہے، کہیں پونے دو فیصد ہے، حالانکہ ایک معاشرے کو زندہ رکھنے کے لیے آبادی میں کم از کم دو فیصد سالانہ اضافے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ پرویز ہود بھوئے جیسے مغرب کے پالتو کتے ڈارون کے Natural Selection کو بھی مانتے ہیں اور مرد و زن کی مساوات کی بھی بات کرتے ہیں، حالانکہ نیچرل سلیکشن میں مساواتِ مرد و زن ممکن ہی نہیں۔اس لیے کے Natural Selection ڈارون کے مطابق طاقت ور کو غالب رکھتا ہے اور مرد و عورت کے دائرے میں مرد طاقت ور اور عورت کمزور، چنانچہ مغرب یا اس کے پالتو کتوں کو ڈارون کے نظریے کے مطابق مساوات مرد و زن کا نعرہ بلند نہیں کرنا چاہیے۔
شاہد بھاءی بحرین کے واٹسپ سے شکریہ کے ساتھ

Comments