کیاعالمی حکومت کے قیام کی پیش بندی ہو چکی ہے؟

دانش ریاض،معیشت ،ممبئی

Thumb

میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن برائون کی عالمی لیڈران سے جز وقتی عالمی حکومت قائم کرنے کی اپیل پر تاثرات کا انتظار کررہا تھا لیکن ہفتہ گذرجانے کے باوجود کسی طرف سے بھی اس پر کوئی خاص رد عمل سنائی نہیں دیا۔شاید اس کی ایک وجہ یہ ہو کہ صیہونی مقتدرہ اب انہیں متنازعہ شخصیت شمار کرتا ہے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے ان کے جوش کو وقتی قرار دیتا ہے۔لیکن ان کی اپیل سے ایک بات تو صاف سمجھ میں آتی ہے کہ عالمی حکومت کے قیام کے لئے ابتدائی تیاریاں مکمل کی جاچکی ہیں۔
ورلڈ بینک،انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن،اقوام متحدہ جیسے اداروں کےساتھ ملٹی نیشنل کارپوریٹ کمپنیوں کا قیام ہی اس مقصد کے تحت ہوا ہے کہ وہ صیہونی مقتدرہ کو تقویت پہنچانے کے لئے ان وسائل کو بروئے کار لانے کا سبب بنیں جو عالمی حکومت کے قیام میں معین و مددگار ثابت ہو۔بھارت پر انٹر نیشنل مانیٹری فنڈ کی خاص عنایتیں ہیں یہی وجہ ہے کہ اس کی چیف اکانومنسٹ گیتا گوپی ناتھ ہندوستان سے ہی تعلق رکھتی ہیں۔
پوری دنیا میں لاک ڈائون کے خاتمہ کے بعد جس معاشی مہاماری کی پیش گوئی کی جارہی ہے اس کے اثرات سے جہاں گلوبل شیئر مارکیٹ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگا وہیں بیشتر اسٹاک ایکسچینج بھی دھڑام سے زمین پر آگریں گے ایسے میں ایک ایسے کرنسی کی ضرورت ہوگی جو از سر نو معاشی تقاضوں پر پورا اترے لیکن گولڈ یعنی سونا سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔صیہونی مقتدرہ سونے کے بالمقابل ایسی عالمی کرنسی متعارف کرانا چاہتا ہے جس کی نکیل صرف اس کے پاس ہو۔الجزیرہ نے امریکی اسٹاک ایکسچینج کے حوالہ سے جو خبر دی ہے اس کا بین السطور کم از کم یہی ہے کیونکہ سرمایہ کار ڈالر نہیں اس کرنسی کی طرف دیکھ رہے ہیں جو ان کے سرمایہ کو محفوظ رکھ سکے اور شاید یہی وہ ’’وـن ورلڈ کرنسی ‘‘ہےجس کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ملٹی نیشنل کارپوریٹ کمپنیاں کام کررہی ہیں۔ممکن ہے کہ کرپٹو کرنسی اور بٹ کوائن بھی اسی کا حصہ ہوں لیکن میں نے اس پر بہت کچھ پڑھا نہیں ہے لہذا وثوق سے کچھ کہنا میرے لئے ممکن نہیں ہے جو لوگ اس پر لکھتے رہے ہیں اگر ان کی تحریریں دیکھی جائیں تو کسی حد تک اس امکان کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔
دی ویک میں میتھیو والتھر نے جس عالمی حکومت پر گذشتہ روز فلسفیانہ گفتگو کی ہے وہ ان لوگوں کے لئے قابل مطالعہ ہے جو اسے محض مفروضہ نہیں مانتے ۔Coronavirus and the case for one-world government پر لکھتے ہوئے وہ ان نکات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کرتا ہے جس کی پیش بندی کی جارہی ہے۔ بین السطور میں ہی سہی وہ آئی ایم ایف،اقوام متحدہ اور ڈبلیو ایچ او کے کردار کی ترجمانی بھی کردیتا ہے۔لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے فلسفیانہ مضمون پر اظہار خیال کرنے والے بہت کم ہیں۔
اس وقت جو بڑی ریس چل پڑی ہے وہ ’’ورلڈلیڈر‘‘ بننے کی ہے۔میں کئی روز سے ان لیڈروں کا مطالعہ کررہا ہوں جو اس وقت عالمی شہرت رکھتے ہیں ۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ،روس کے قد آور لیڈر ولادیمیر پوتین، عوامی جمہوریہ چین کے سربراہ شی جن پنگ (Xi Jinping)،جرمنی چانسلر انگیلا میرکل،اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو،سعودی عرب میں سیاہ و سفید کے مالک محمد بن سلمان بن عبد العزيز آل سعود،پاکستانی وزیر اعظم عمران خان، شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن ،ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان،ایران کے صدر حسن روحانی،فرانس کے صدر ایمینوئل میکخواں،اٹلی کے صدر سیرگیو ماٹریلا وغیرہ کے ساتھ آپ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا نام بھی شامل کرلیں اور ان تمام لیڈران کے تعلق سے جو خبریں نیشنل یا انٹرنیشنل میڈیا نشر کررہا ہے اس کا تجزیہ کریں تو خود ہی محسوس کر لیںگے کہ کون لوگ ہیں جو انسانیت کی خدمت پر آمادہ ہیں اور کون لوگ ہیں جو دنیا کو کسی ایسی طاقت کے حوالہ کردینا چاہتے ہیں جہاں انسانیت دم توڑتی نظر آتی ہے۔یہ تو محض چند سربراہوں کےنام ہیں جن کی شہرت کی وجہ سے یہاں درج کیا گیا ہے ورنہ آپ سرچ کرکے مختلف سربراہوں کی تگ و دو کو انسانیت کے ترازوپر تول لیں تو خود سمجھ جائیں گے کہ ان کا تعلق کس جماعت سے ہے۔  
ایک عالمی حکومت A Global Government ،اس کا ایک سربراہ Global Leader،اس کی ایک کرنسی A Global Currencyکے ساتھ اس کا ایک ہی مذہب  Global Religionدراصل پورے تگ و دو کا کلائمکس ہے۔ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کے ذریعہ جو کوشش کی جارہی ہے اور ممکن ہے کہ لاک ڈائون کے خاتمہ کے بعد اس پر شد و مد سے عمل آوری شروع ہوجائے وہ یہی ہے کہ بھارت اس پورے دوڑ میں سب سے آگے رہنا چاہتا ہے۔راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے آئیڈیا لاگ راکیش سنہا نے لاک ڈائون سے ایک روز قبل پارلیمنٹ میں جس بل کو متعارف کرایا تھا وہ تقریباً اسی رخ کا تھا۔وزیر اعظم نریندر مودی کی تالی ،تھالی اور دیا جلانے کے عمل کو اگر اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو شاید بات اور واضح سمجھ میں آئے گی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ایک ایسے دور میںمسلمانوں کی رہنمائی کس طور پر کی گئی ہے۔شعب الایمان میں حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’اسلام کی کڑیاں ضرور ایک ایک کر کے ٹوٹیں گی۔ جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ اس کے بعد والی کڑی کو پکڑ لیں گے۔ اس میں سب سے پہلے جو کڑی ٹوٹے گی وہ اسلامی نظام عدالت (خلافت) کی کڑی ہو گی اور سب سے آخری کڑی نماز ہو گی ۔یہ بات ہم تمام جانتے ہیں کہ مصطفٰی کمال اتاترک نے 23 اپریل 1920ء کو انقرہ میں "مجلس کبیر ملی" کے قیام کا اعلان کرکے جہاں عملی طور پر خلافت کو کلعدم قرار دے دیا وہیں چند ماہ بعد 3 مارچ 1924ء کو خلافت کے خاتمے کاباضابطہ اعلان کر دیا ۔اب سو برس بعد کرونا وائرس کی آڑ میں پوری دنیا میں اقامت صلاۃ پر پابندی عائد ہے اور لوگ چھپ چھپا کر نماز ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔1920 ؁ اور 2020  ؁ کے اس سو سالہ سفر کی روشنی میں اب دنیایقینی طور پر خلافت علی منہاج النبوہ ﷺ کی طرف جانے کے لئے پر تول رہی ہے لیکن اس سے پہلے ایک ایسی عالمی حکومت جسے کاٹ کھانے والی حکومت سے تعبیر کیا گیا ہے ضرور برپا ہوگی جہاں انسانیت بلبلا اٹھے گی اور یہی وہ دور ہے جہاں اسلام کی چھوٹی چھوٹی بنیاد پر عمل کرنا افضل جہاد قرار پائے گا۔وما توفیقی الا باللہ
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں

Comments