مسلم میڈیا ہاؤس کا قیام وقت کی اہم ترین ضرورت

عابد انور

Thumb

یہ مضمون 2012میں لکھا گیا تھا اور 2015میں اس پر نظر ثانی کی گئی تھی۔ تبلیغی جماعت پر میڈیا کے حملے کے سبب مسلم میڈیا ہاؤس کی ضرورت ایک بار پھر محسوس کی جانے لگی ہے۔ مسلمانوں پر میڈیا کا یکطرفہ حملہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلمانوں نے اس کی ضرورت تو ہمیشہ محسوس کی لیکن کبھی اس سلسلے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیااورنہ ہی مسلمانوں کے لئے کام کرنے والوں کی ہمت افزائی کی جس کی وجہ سے مسلم صحافی حضرات کی دلچسپی اپنی نوکری کی حفاظت تک محدود ہوگئی۔
میڈیاکو ہر دور میں کسی نہ کسی شکل میں اہم مقام حاصل رہا ہے۔ آج اسی قوم کو نقطہ عروج حاصل ہے جس نے اس کا دامن مضبوطی سے تھام رکھا ہے اور وہ جس کی گرفت میں ہے۔ وہ قوم پسماندگی کا شکار رہتی ہے جواس دولت سے محروم رہتی ہے۔ مسلمانوں کے پاس آج بڑے بڑے ادارے ہیں لیکن کوئی بڑا میڈیا ہاؤس نہیں ہے۔ یہی وجہ سے ہر معاملے ان کی آواز صدا بصحرا ثات ہوتی ہے۔ کوئی میڈیا خواہ وہ قومی میڈیا ہو یا ہندی میڈیا یا کوئی اور اس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ یہ بات بھی نہیں ہے کہ مسلمان آج اس شعبہ میں نہیں ہیں ہر چینل، اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ میں مسلمان اچھی خاصی تعداد مل جائیں گے لیکن پھر بھی وہ اپنا اثر چھوڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ بات یہ بھی نہیں ہے مسلمان ان میڈیا ہاؤس میں کسی بڑے عہدے پر نہیں ہیں۔ مسلمان کسی نیوز چینل میں گروپ ایڈیٹر ہیں، توکسی میں نیوز ڈائرکٹر، توکسی میں ایڈیٹر یا دیگر میں کسی اعلی عہدہ پر،لیکن پھر بھی مسلمانوں کے متعلق صرف منفی خبریں ہی کیوں جگہ پاتی ہیں۔ ان کے مسائل ان چینلوں، اخبارات اور دوسرے ذرائع ابلاغ میں کیوں نہیں جگہ پاتے۔ اس کا باریک توکیا سرسری بھی جائزہ لیا جائے تو یہ باتیں ابھر کر سامنے آتی ہیں اول یہ کہ وہ عملاً اتنے بااختیار نہیں ہوتے کہ مسلمانوں کے مسائل یا ان کے خلاف ہونے والے مظالم کو اس میں جگہ دیں،دوم وہ اتنے بیدار یا حساس نہیں ہوتے کہ وہ مسلم مسائل کو اٹھائیں ااورن کی ان میں کوئی دلپچسی بھی نہیں ہوتی۔بعض ان میں سے ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ مسلم مسائل اٹھانے سے گریز کرتے ہیں کیوں کہ مسلم لیڈروں کی طرح انہیں بھی یہ خوف رہتا ہے کہ اگر انہوں نے مسلم مسائل تو جہ دی تو ان سے سیکولر ہونے کانام نہاد تمغہ چھن جائے گا۔ ان کی سوچ اور سرگرمی بھی جام پیالوں تک محدود ہوکر رہ جاتی ہے۔چند لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر ایک دو پیگ لینے کے بعد خودکو حرف اول اور حرف آخر تصور کرنے لگتے ہیں۔

آج مسلمانوں کے علاوہ سب کے پاس بڑے بڑے میڈیا ہاؤس ہیں۔ جنوبی ہند کو دیکھیں توتقریباً ہر قابل ذکر پارٹی کے پاس اپنا نیوز چینل ہے جو ان کے شبیہ کو بہتر بنانے اور ان کے پیغامات عوام تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔مسلمانوں کے پاس اپنا میڈیا ہاؤس نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنا پیغام، اپنے مسائل، اپنے اوپر ہونے والے مظالم، ایوان اقتدارتک توکیا یہاں کے عوام تک بھی نہیں پہنچا سکتے۔ ایک عرصہ سے مسلمان انگریزی میڈیا کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کرتے رہے ہیں لیکن عملاً اس میدان میں کوئی کام نہیں ہوا۔ جمعےۃ علماء ہند نے بھی اس سلسلے میں چندہ اکھٹا کیا تھا اس کے بعد سید حامد نے اس میدان میں قدم آگے بڑھاتے ہوئے مسلمانوں سے چندہ کی اپیل کی تھی لیکن دونوں کوششیں صرف حصول چندہ تک محدود رہیں اور انگریزی اخبار کا خواب پورا نہیں ہوا۔ اس کے بعد پھر اس ضمن میں کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ البتہ مسلمانوں کے ہفت روزہ اور پندرہ انگریزی اخبارات ضرور منظر عام پر آئے لیکن اس سے مسلمانوں کی انگریزی میڈیا کی ضرورت و اہمیت پوری نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ مسلمانوں کی آواز بن سکے۔ ان میں بعض اچھے بھی ہیں لیکن دائرہ محدود ہونے کی وجہ سے وہ افادیت نہیں ہے جس کی آج ضرورت ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں کے پاس سرمایہ کی کمی ہے بعض تنظیمیں صرف اخبارات میں اشتہارات، صحافیوں کو تحائف دینے یا اپنے پروگرام کو راست ٹیلی کاسٹ کرانے میں جتنی بڑی رقم خرچ کرتی ہیں اس سے ایک سال تک اردو کا ایک بڑا اخبار نکل سکتا ہے لیکن جب بھی اس سلسلے میں بات کی جائے گی تو ان کا جواب ہوگا یہ پیسے عوامی فلاح وبہبود کے لئے ہیں۔ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ اخبارات اور صحافیوں کو خبریں شائع کرانے کے لئے خطیر رقم دینے اور اپنے پروگراموں کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرانے میں کون سا مسلمانوں کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس ضمن میں زکوۃ و صدقات کی رقم کا استعمال کہاں تک درست ہے۔ اس کے بارے میں علماء کرام اور مفتیان عظام ہی فرمائیں گے۔
آندھرا پردیش کے وجے واڑہ کے ایک میڈیا گریجویٹ نے گزشتہ دنوں اس سلسلے میں پہل کی تھی اس پر کام پر وہ کافی عرصہ سے لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا اپنے تاثرات کے اظہار میں کہا کہ یہ میٹنگ کرنے میں مجھے چالیس سال لگ گئے۔ اس میٹنگ میں انگریزی اخبار کے مسائل اور امکانات پر شرکاء نے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ سب سے بڑا مسئلہ اخبار نکالنے میں سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسٹر شیخ عبدالرحمان نے اس مسئلے کو ختم کرتے ہوئے کہا کہ سرمایہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے جتنا بھی لگے گا لگایا جائے گا۔ صرف اس کے امکانات اور مسائل پر غور کریں۔ میٹنگ کے شرکاء کا متفقہ خیال تھا کہ انگریزی میڈیا کی ہمیں سخت ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہمارے بڑے بڑے پروگرام ہوتے ہیں لیکن انگریزی یا ہندی کے اخبارات میں اس کو جگہ نہیں دی جاتی۔ شرکاء نے 2011میں رام لیلا پروگرام کا ذکر کیا جس میں تقریباً دو لاکھ کا مجمع تھا اور بڑے بڑے لوگ بھی آئے تھے لیکن اردو میڈیا کے علاوہ کسی نے اس پروگرام کو کوریج نہیں کیا۔ کسی نے جگہ دی تو صرف چند لیڈروں کے بیان پر ہی محدود رکھا۔جس نے پروگرام کرایا تھا اور اس کا موضوع کیا تھا۔ اس پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔اس حصول انصاف کانفرنس کے بارے میں کسی چینل میں کوئی خبر نشر نہیں کی گئی۔ مسٹر شیخ کا اخبار قومی نہ رہ کر صرف وجے واڑہ تک محدود رہ گیا۔
ہندوستانی میڈیا یا دوسرے لفظوں میں ہندوتو میڈیا بھی کہہ سکتے ہیں اس کا شکارصرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ مسلمان یا سیکولر زم کے حق میں بولنے والوں کو بھی پریشان کیا جاتا ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی خاتون مورچہ کی کارکنوں نے مشہور مصنفہ ارون دھتی رائے کے گھر کے باہرآدھے گھنٹے تک نعرے بازی اور توڑ پھوڑ کیاتھا۔ ان کے گھر میں حملہ اس وقت ہوا جب میڈیا پہلے سے موجود تھا اس کے علاوہ کچھ عرصہ قبل جب دو موٹر سائیکل پر سوار نے ان کے گھر پر پتھر پھینکے تھے تو اس وقت بھی میڈیا پہلے سے موجود تھا۔ اگر میڈیا موقع پر پہلے سے موجود رہتاہے اس کا واضح مطلب ہوتا ہے کہ وہ بھی ان شرپسندوں کا حصہ ہے اور ہندوتوا کے علمبرداروں کے پیغام کو پوری دنیا تک پہنچانے کے لئے اپنے فرائض سے پہلو تہی کر رہا ہے۔ ارون دھتی نے سوال کیا کہ میڈیا اور ایسے گروپوں کے درمیان کس قسم کی رضامندی ہے؟۔میڈیا کے منفی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اس مصنفہ نے کہا کہ کچھ ٹی وی چینل اور اخبار ان کے خلاف غصہ دلانے والے گروپوں کو بھڑکانے میں شامل ہو رہے ہیں۔سنسنی خیز صحافت کے اس دور میں خبر کی رپورٹنگ اور خبر بنانے کے درمیان کی جو لکیر ہے، وہ دھندلی ہوتی جا رہی ہیں۔بقول اچاریہ اوشو رجنیش ”یہ ملک دو ہزار سال تک غلامی میں رہا ہے۔ اس وجہ سے لوگوں میں روحانی غلامی پیدا ہو گئی ہے۔اگرچہ سیاسی اعتبار سے ہم آزاد ہیں لیکن ذہنی طور پر ہم تمام ابھی بھی غلام ہیں“ صحافت مغرب کی پیدائش ہے اور وہاں جو بھی ہوتا رہتا ہے، اس کی ہم نقل کرتے رہتے ہیں اور نقل کرتے وقت ہماری عقل گھاس چرنے چلی جاتی ہے۔ 
ہندوستان میں میڈیا صنعت دنیا کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔ یہاں تقریباً ساڑھے تین سو ٹی وی چیلز ہیں اور پچاس ہزارسے زائد اافراد اخبارات کام کررہے ہیں۔ اخبارات اورٹی وی چینیلوں کو زیادہ تر کثیر ملکی کمپنیاں چلارہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2015تک دنیا کی انٹرٹیٹمنٹ انڈسٹری 108کھرب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔آج پاکستان میں سو سے زائد چینل ہیں۔ صنعت و تجارت میڈیا میں اس قدر حاوی ہوگیا ہے کہ خبریں کم اشتہارات زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ اخبارات،رسائل اور ٹی وی پر بسا اوقات نامنا سب اور فحش اشتہارات میڈیا کے منفی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔اس ضمن میں صرف اسے صرف قصور وارقرارنہیں دیا جاسکتا مجبوری بھی ہوتی ہے۔ تنخواہ دینے کے لئے رقم کہاں سے آئے گی۔لیکن توازن ضرور قائم ہونا چاہئے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کو اکثر بیشتر مشرق وسطی میں قیام پذیر مسلمانوں کی شبیہ کو داغدار کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ تشدد کے واقعات کو شہ سرخیوں میں جگہ ملتی ہے لیکن عدمِ تشدد پر مبنی اور عوام کی سطح پر کی جانے والی امن کی کوششوں کو بھی میڈیا نظر انداز کردیتا ہے۔
پریس کونسل آف انڈیا کے سابق چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے عہدہ سنبھالنے کے بعد میڈیا کی جانبداری، تعصب، لاپروائی اور امتیازی رویہ کے خلاف اظہار خیال کرتے ہوئے انہیں سخت قوانین و ضوابط پر عمل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ جس پر میڈیا کا ایک طبقہ چراغ پا ہوگیا تھا۔ ایک رپورٹ ملاحظہ فرمائیں اس سے اندازہ ہوجائے گا ہندوستانی میڈیا خبروں کے سلسلے میں کس طرح تعصب اور امتیازی سلوک کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جسٹس کاٹجو نے کہا تھا کہ ممبئی، دہلی یا بنگلور میں ہونے والے بم دھماکے، دھماکوں کے چند گھنٹوں بعدتقریباہر ٹی وی چینیل ای میل یا ایس ایم ایس دکھانے لگتے ہیں، جس میں انڈین مجاہدین یا کسی اور تنظیم نے واقعے کی ذمے داری قبول کرنے کی بات کہی جاتی ہے۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ کوئی بھی شخص شرارت کے طور پر یہ ای میل یا ایس ایم ایس بھیج سکتا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹی وی پر دکھائے جانے کے بعد پرنٹ میڈیا بھی بغیر تصدیق کے اسے شائع کر دیتا ہے۔میڈیا یہ پیغام دینے کی کوشش کرتا ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد اور بم پھینکنے والے ہیں "۔ صحافت زریں اصول یہ ہے کہ وہ نشر کرنے سے خبر کی تصدیق کرلے اور دونوں فریق کی بات توازن کے ساتھ پیش کرے۔لیکن وہ ہندوتوا کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے یکطرفہ اور من گھڑت خبریں شائع کرتا ہے اور ایسی اشتعال انگیز خبریں نشریا شائع کرتا ہے جس کا نتیجہ کسی طبقے کے استحصال پر منتج ہوتا ہے۔ 
ہندوستانی میڈیا کا جانبدارانہ رویہ اس وقت بھی کھل سامنے آیا جب ایک رپورٹ کے مطابق 24 اگست کو کانپور میں ایک نجی ہوسٹل کے اندر زور دار دھماکہ ہوا۔ دو افراد کے پرخچے اڑگئے۔ کئی زخمی ہوئے۔ پولیس نے گولہ بارود اور بم بنانے کا دوسرا سامان بڑی مقدار میں برآمد کیا۔ یہ بھی بتایا کہ یہ لوگ شہر میں تشدد اور تخریب کاری کی کوئی بڑی کارروائی کرنے والے تھے۔ اب پورا میڈیا یعنی درجنوں ٹی وی چینل اور ہندی انگریزی کے بیسیوں اخبارات سخت آزمائش میں پڑگئے کہ اس واقعہ کے ساتھ کیاسلوک کیا جائے۔ کیونکہ واقعہ انتہائی اہم ہونے کے باوجود میڈیا کی دلچسپی کا نہ تھا۔ مشکل یہ تھی کہ اگر اس کی خبر من وعن دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف میڈیا کی پسندیدہ اور اختیار کردہ لائن کے خلاف ہوگا بلکہ اس سے حالیہ عرصہ میں ہونے والے واقعات کی رپورٹنگ پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا۔ واقعہ اتنا اچانک رونما ہوا اور آس پاس کے لوگوں کے علم میں بھی آگیا کہ ”کسی“ کو اسے فی الفور دبا کر کوئی نئی اور روایتی کہانی گھڑنے کاموقع نہیں ملا۔ ہلاک ہونے والوں کے نام ''راجیو مشرا اور بھوپندر سنگھ'' معلوم ہوگئے تھے۔ ہوسٹل کے مالک کا نام شیوسرن مشرا تھا۔ میڈیا نے سارے اصول و ضوابط کوبالائے طاق رکھ کر اپنے کاروباری مفاد اور سیاسی جھکاؤ کو ترجیح دی اور خبر کا مکمل بلیک آؤٹ کردیا۔ چینل بالکل خاموش تھے۔ 25اگست کے ٹائمز آف انڈیا، انڈین ایکسپریس، دی ہندو، دی اسٹیٹس مین اور دوسرے بہت سے بڑے اخباروں میں یہ خبر یکسر تھی ہی نہیں۔ ہندوستان ٹائمز نے اندرونی صفحہ پر ایک مختصر خبر بے دلی کے ساتھ دے دی تھی۔ پانیئر نے قدرے تفصیل بتائی مگر رنگ آمیزی بھی کی۔ البتہ دینک جاگرن اور آج نے ضروری تفصیل اور تصویر کے ساتھ دی۔ باقی بیشتر اخبارات اس طرح خاموش رہے کہ گویا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔ اس کے برعکس یہ ہوا کہ چینلوں اور اخباروں میں سیمی پر پابندی اور اس کے مبینہ کارکنوں کی خطرناک سرگرمیوں کی سنسنی خیز رپورٹنگ کا سلسلہ اچانک تیز ہوگیا۔ 25 اگست کے ”جرنلزم آف کریج“ یعنی انڈین ایکسپریس نے اپنی پہلی بڑی خبر سیمی پر پابندی میں توسیع اور لکھنؤ کے شہباز کی گرفتاری کی بنائی تاکہ کانپور اْبھر نہ سکے۔میڈیا کی اس جانبدارانہ رویہ کے بارے میں ملک میں صحیح سوچ رکھنے والے صحافیوں نے بھی زبردست تنقید کی تھی۔ مصنف اور کالم نگار تولین سنگھ کے خیال میں نیوز میڈیا کا معیار بہت خراب ہے۔آج کل کی متعدد ٹی وی نیوز ویسی ہی ہے جیسے ٹیوئیٹر کے پیغامات، ٹیلیویڑن ٹوئیٹر جیسا ہوگیا ہے۔اسٹار نیوز کی سابق صدر سنیتا راج کوہلی کے مطابق اس کی وجہ زیادہ تر رپورٹرز کو مناسب تربیت فراہم نہ کرنا ہے۔
ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمان میڈیا ٹرائل کے شکار ہیں۔دیماپور میں سید شریف الدین کو میڈیا اور پولیس نے پہلے انہیں بنگلہ دیشی قرار دیکران کے قتل کو جائز ٹھہرانے کی بھرپورناپاک کوشش کی۔ناگالینڈ حکومت نے اپنی رپورٹ مرکز ی حکومت کو پیش کردی ہے جس واضح کیا گیا ہے آبروریزی کا کوئی معاملہ نہیں تھااور نہ وہ بنگلہ دیشی تھا اس کے باوجود سب سے تیز چینل ہونے کا دعوی کرنے والا ایک نیوز چینل نے اپنے پروگرام میں اب تک اسے بنگلہ دیشی کہہ رہا ہے جبکہ مقتول کے والد،بھائی اور دوسرے افراد فوج میں۔کیا اس چینل اور اس کے رپورٹر پر قتل کامقدمہ نہیں چلایا جانا چاہئے۔ا س کے جھوٹے پروپیگنڈہ کی وجہ سے سید شریف الدین کی جان گئی ہے۔س طرح کے واقعات پیش آتے ہیں اس کے پس پشت مسلمانوں کے خلاف میڈیا کی منفی مہم کار فرما ہوتی ہے جس میں میڈیا مسلمانوں کے متعلق منفی خبروں کو نمک مرچ لگاکر پیش کیا جاتاہے اور محض پولیس کے بیان کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے مشتبہ ملزم کو مجرم قرار دے دیتا ہے۔ 82۔1980 میں اسی طرح کا ایک واقعہ آسٹریلیا میں پیش آیا تھا۔ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے ایک شخص کو اپنی بچی کے قتل کے الزام میں سزا دی گئی تھی اورنئے شواہد سامنے آئے تھے جس کی وجہ سے اسے 1986 میں رہا کردیا گیا تھا۔ہندوستان میں مالیگاؤں بم دھماکہ کے الزام میں گرفتار مسلم نوجوانوں کی رہائی اور اکشر دھام مندر پر حملہ کے معاملے میں مسلمانوں کی بری ہونا تازہ مثال ہے ان دونوں معاملے میں میڈنے قدر مسلمانوں کے خلاف زبردست طریقے سے زہر اگل رہا تھا۔ اسی طرح کی حرکت میڈیا نے سمجھوتہ ایکسپریس، مکہ مسجد، اجمیراور دیگر دھماکوں کے بارے میں بھی کی تھی۔ اگر اس طرح کی رپورٹنگ کو عدالت میں پیش کیا جائے اور میڈیا قوانین پر عمل کیا جائے تو ہندوستان میں 99 فیصد نیوز چینل پر مقدمہ چلے گا اور اس طرح کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔ ان تمام حالات کے پیش نظر مسلمانوں کا میڈیا ہاؤس اور ٹی وی نیوز چینل کا قیام بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ صاحب ثروت حضرات کو اس سلسلے میں پہل کرنی چاہئے۔
ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10، ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni@gmail.com
9810372335

Comments