عابد انور
دنیا میں ہر سال 15اکتوبر کو عالمی یوم دیہی خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 18دسمبر 2007کو 15اکتوبر کو ہر سال عالمی یوم دیہی خواتین منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کا مقٖصد دیہی خواتین کو اعزاز بخشنا تھا کیوں کہ دیہی خواتین کا کہیں کوئی قابل ذکر جگہ میں نام نہیں لیا جاتا ہے جب کہ یہ خواتین گھریلو صنعت سے لیکر زرعی پیداوار میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کا مقٖصد یہ بھی تھا کہ زرعی ترقی، غذائی تحفظ، دیہی ترقی اور دیہی غریبی کو ختم کرنے میں دیہی خواتین کی اہمیت کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اگر ایک خاتون کو خود کفیل بنایا جائے تو وہ اپنے بول بوتے پر پورے خاندان کو خود کفیل بناسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مکمل ترقی کا ہدف جیسے غریبی، بھکمری،غذائی تحفظ اور خواتین کے حقوق کے طور پر نافذ کیا جاسکتا ہے اور اس دن کو دیہی خواتین کے کردار اور ان کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے منایاجانا ہے تاکہ خواتین کے تئیں لوگوں میں نظریہ میں بدلے اور ان کے تئیں احترام کا جذبہ پیدا ہو۔
ترقی پذیر ممالک میں 43 فیصد خواتین زرعی مزدور کے طور پر کام کرتی ہیں۔ جب کہ غیر منظم سیکٹر میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں ایک ارب سے زائد افراد خط افلاس سے نیچے ناقابل برداشت حد تک دیہی علاقے میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ملازمت پیشہ خواتین ہوں یا گھریلو خواتین، صنعتی اداروں میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرنے والی مزدور خواتین ہوں یا بڑے عْہدوں پر کام کرنے والی عورتیں، انہیں برابری حاصل نہیں ہے۔ دوسری جانب، خواتین پر تشدّد کم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ معاشرے میں ناہم واری بہت ہے۔ جب ریاست، عام آدمی کو اس کے حقوق نہ دے رہی ہو، تو صنفی حوالے سے حالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔ عورتوں کے حقوق کی بات تو ہوتی ہے، لیکن ہمارے اپنے عام گھرانوں میں کیا صْورتِ حال ہے،آپ وہی دیکھ لیں۔حقوقِ نسواں کی جدوجہد کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں شعور بیدار ہوا، خواتین میں یہ سوچ بیدار ہوئی کہ وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔ ہمارا معاشرہ، بنیادی طور پر مَردوں کا معاشرہ ہے جس میں دراڑ پڑچکی ہے اور خواتین بھی اہم کردار ادا کر رہی ہیں اور خاص طور پر دیہی خواتین نے ملک میں پنچایتی راج کے نفاذ میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ وہ گرام پردھان، مکھیا، سرپنچ، وارڈ کے ممبر، ضلع پارشد اور یہاں کی تک کی چیرمین بھی بن رہی ہیں۔ یہ بہت ہی خوش آئندہ ہے۔ گرچہ بہت سی جگہوں پر عورت کی جگہ اس کا شوہر ہی کام کا دیکھ کرتا ہے اور یہاں تک کہ میٹنگ بھی میں شرکت کرتا ہے لیکن اس میں اب تبدیلی آرہی ہے۔
ملک میں دیہی خواتین اپنی زندگی کا بیشتر حصہ تین چیزوں پر صرف کرتی ہیں، ایک پانی لانا، خواہ انہیں اس کے لئے کئی میل کا سفر کیوں نہ کرنا پڑے اور سر پر بغل میں پانی کا برتن لئے تکلیف مرحلے سے گزرتی ہیں۔ دوسرا ایندھن جمع کرنا جس میں گھاس وپھونس، لکڑیاں اور دیگر چیزیں شامل ہیں۔ یہ خواتین ہی کی ذمہ داری ہوتی ہیں وہ کھانا بنانے کے لئے ایندھن جمع کرے،تیسرا اہم کام جانوروں کے چارہ لانا بھی خواتین ہی انجام دیتی ہیں کیوں کہ لاکھوں دیہی خاندانوں کی معیشت ان کی محنت پر زیادہ تر منحصر ہے۔گزشتہ دو دہائیوں کے دوران، ان خواتین کو دیہی ہندوستان کے بنیادی اور اکثر بے رحم تبدیلی کا سا،منا کرنا پڑا ہے کیونکہ لاکھوں لوگوں کو گاؤں سے نقل مکانی کرنا پڑا ہے یا پھر کھیتی چھوڑنی پڑی ہے، اس لئے ان کے کام کا بوجھ بھی بڑھا ہے۔خواتین اور مرد دونوں ہی نقل مکانی کر رہے ہیں، لیکن اس میں مردوں کی تعداد زیادہ ہے۔ زراعت میں بھی 1990 کی دہائی تک، کھیتوں میں بیج ڈالنے والوں میں 76 فیصد تعداد خواتین کی تھیں، جبکہ دھان کے پودوں کو ایک جگہ سے اکھاڑ کر دوسری جگہ لگانے والوں میں 90 فیصد خواتین شامل تھیں۔ کھیتوں سے گھروں تک فصل کاٹ کر لے جانے میں خواتین کی حصہ داری 82 فیصد تھی، کھیتی کرکے فصل تیار کرنے کے کام میں 32 فیصد اور دودھ کے کاروبار میں 69 فیصد خواتین شامل تھیں۔ اب ان کے کام کا بوجھ بھی بڑھ گیا ہے۔
اقوام متحدہ نے 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کے بین الاقوامی دن کا اعلان کیا ہے اور 17 اکتوبر کو غربت کے خاتمے کے بین الاقوامی دن، انہوں نے 2014 میں خاندانی زراعت کے بین الاقوامی سال بھی کہا۔ ہندوستان میں، لاکھوں دیہی خواتین ان ’خاندان فارموں‘ پر کام کرتے ہیں لیکن جب ملکیت کا سوال آتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ وہ ’خاندان‘ کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کا نام شدید طور پر میدان کے مالک کے طور پر لکھا ہے اور بڑی تعداد میں دیہی خواتین غریبوں کے غریبوں کی حیثیت سے شمار کرتی ہیں۔
یہ تمام ’سنگ میلیں‘ میڈیا کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے لئے، یہ سامنے آ گیا، جب فوربیس ایشیا نے اپنی فہرست 20 اکتوبر کو شائع کی۔ وہ بھی تب جب فوربس ایشیا نے ہندوستان کے 100 سب سے امیر لوگوں کی فہرست شائع کی، جس میں اس نے اعلان کیا کہ یہ سبھی ڈالر میں کروڑ پتی ہیں لیکن میں کسی دیہی خواتین پر کوئی کور اسٹوری نہیں تھی۔ زبردستی بے گھر افراد نے زیادہ تر خواتین کو متاثر کیا ہے۔ یہ 1990 کے دہائی سے دیہی ہندوستان میں ایک عام عمل ہے، جس نے لاکھوں لوگوں کی زندگی برباد کردی ہے۔یہاں تک کہ سب سے زیادہ کامیاب کسانوں کو بے گھر ہونے سے ڈر لگتا ہے، کیونکہ اوڈیشا کے گوجری موہنتی پان کی کھتی کرتی تھی اور خوش حال تھیں لیکن انہیں 70 سال کی عمر میں نقل مکانی کا خوف ہے کیوں کہ اس کی زمین اسٹیل کی بڑی کمپنی پوسکونے لے لی ہے۔
امریکہ میں بیماریوں سے بچاؤ اور روک تھام سے متعلق ایک حکومتی ایجنسی کی جانب سے تیار کی گئی رپورٹ کی مطابق زیادتی کا شکار نصف خواتین کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے موجودہ یا سابق ساتھی یا شوہر نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ امریکہ میں جنسی زیادتی سے مراد نشے کی حالت میں یا جبراً جنسی تعلق قائم کرنے کو قرار دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہر سات میں سے ایک مرد بھی اپنے ساتھی کے ہاتھوں شدید نوعیت کے جسمانی تشدد کا شکار ہوا۔یہ رپورٹ سال دو ہزار دس کے دوران امریکہ کے اٹھارہ ہزار سے زائد مرد اور خواتین سے حاصل کردہ اعداوشمار سے تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ایک منٹ کے دوران پچیس لوگ جنسی زیادتی، تشدد یا تعاقب کا نشانہ بنتے ہیں۔ ”جو لوگ جنسی تشدد، تعاقب یا اپنے ہی ساتھی کی جانب سے تشدد کا سامنا کرتے ہیں ان کی تمام زندگی پر اس کے اثرات رہتے ہیں۔“
جنوبی ایشیا میں آج بھی خواتین کو بنیادی حقوق کے حوالے سے بنیادی مسائل کا سامنا ہے۔ افغانستان میں جبری شادی، پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل، بھارت میں حمل گرانا اور نیپال میں خواتین کی خرید و فروخت ابھی تک جاری ہے۔جنوبی ایشیا میں ہیومن رائٹس واچ کی سربراہ میناکشی گنگولی کا کہنا تھا، ”یہ سچ ہے کہ جنوبی ایشیا میں لڑکوں کی نسبت لڑکیوں کو کم اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت میں جنسی تناسب بگڑتا جا رہا ہے۔“تھوماس روئٹرز فاؤنڈیشن کی ایک نیوز سروس TrustLaw کے سروے کے مطابق بھارت، افغانستان اور پاکستان خواتین کے حقوق کے حوالے سے دنیا کے پانچ خطرناک ترین ممالک میں شامل ہیں۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں خواتین کے بنیادی حقوق کے حوالے سے بہتری بھی آ رہی ہے۔بھارت میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ بھارت کے تازہ ترین نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق40 فیصد سے زائد عورتوں نے یہ بات تسلیم کی کہ انہیں زندگی میں کبھی نہ کبھی اپنے شوہروں کے ہاتھوں مار کھانی پڑی ہے۔یہ سروے ملک کے 28 ریاستوں میں کیا گیا جس میں 1.25لاکھ سے زائدخواتین سے سوالات پوچھے گئے تھے۔سروے کے مطابق جن 75000 ہزار مردوں سے سوالات پوچھے گئے ان میں سے 51 فیصد سے زائد نے کہا کہ انہیں اپنی بیویوں کو مارنے پیٹنے میں کوئی خرابی یا قباحت محسوس نہیں ہوتی ہے۔
کانگو میں خواتین اب بھی محفوظ نہیں ہیں۔ رات ہو جانے کے بعد وہ اپنی چھت تلے، اپنے بستروں میں محفوظ نہیں ہیں‘۔ خیال رہے کہ پناہ گزینوں کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ کانگو میں اوسطاً روزانہ چودہ عورتیں جنسی زیادتی کا شکار ہوتی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق رواں برس کے ابتدائی تین ماہ میں کانگو میں ایک ہزار دو سو چوالیس خواتین سے جنسی زیادتی کی گئی ہے جبکہ گزشتہ چودہ برس کے دوران کانگو میں جنسی زیادتی کے دو لاکھ واقعات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں نیپال میں گھریلو تشدد کے خاتمے اور روزگار کی جگہوں پر خواتین کے لیے مساوی حقوق سے متعلق کی گئی قانون سازی کم از کم علاقائی سطح پر دیگر ریاستوں کے لیے بہترین مثال ہے۔کٹھمنڈو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بات عالمی ادارے کی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے جس کا عنوان ہے، ’دنیا کی خواتین کے لیے ترقی: انصاف کی تلاش میں۔‘ اس رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کی سابقہ ہندو بادشاہت اور نئی جمہوریہ نیپال اور جنوبی ایشیا کی ایک اور چھوٹی سی بادشاہت بھوٹان دو ایسے ملک ہیں، جو اپنے ہاں عام شہریوں کی طرف سے ان کی ازدواجی زندگی میں تشدد کو واضح طور پر باقاعدہ جرم قرار دے چکے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق ترقی پذیر مْمالک کے ایک تجزیے کے مطابق، مَردوں کے زیرِ اثر معاشرے میں ایسی خواتین، جو قدرتی طور پر بانجھ پَن کی بیماری میں مبتلا ہوتی ہیں، سب سے زیادہ استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ اس صْورتِ حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ ان معاملات میں دخل اندازی کرنا اور اپنی رائے کا اظہار کرنا خاندان تو خاندان، پورا معاشرہ اپنا بنیادی حق سمجھتا ہے۔ اس کی مثال کچھ اس طرح مزید واضح ہو جاتی ہے کہ ایک نیا شادی شدہ جوڑا، جب حال ہی میں ہنی مون سے واپس لَوٹا، تو خاتون سے”بچّے کب ہوں گے… ہم منّے کا چہرہ کب دیکھیں گے…کیا تم لوگ فیملی پلاننگ کر رہے ہو…اب کس بات کا انتظار ہے، تین مہینے تو پہلے ہی گزر چکے ہیں،“ جیسے سوالات کیے گئے، جب کہ اْس کے شوہر کو اس طرح کے سوالات سے ایک طرح کا استثنا دے دیا گیا۔ عورت کے لیے اولاد نہ ہونا، اْس وقت انتہائی اذیت کا باعث بن جاتا ہے، جب اْسے بغیر کسی طبّی وجہ کے اپنے طور پر ہی”بانجھ“ کے خطاب سے نواز دیا جائے، ہمارے معاشرے میں ایسی عورت کو ناکارہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مَردوں اور عورتوں میں بانجھ پَن کا تناسب، 60اور40 فی صد ہے۔ یہ صْورتِ حال عورت کو مختلف نفسیاتی مسائل سے دوچار کرتی ہے، تو اس کے ازدواجی تعلق پر بھی منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ مَرد کی حکمرانی والے معاشرے میں، شادی شدہ خاتون کا اولاد سے محروم رہنا عورت کے لیے سب سے بڑی مشکل ہے۔ اولاد نہ ہونے کی بڑی وجہ چاہے خود مَرد ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی عورت ہی کو ہر طرح کے علاج اور گھریلو ٹوٹکوں کے عمل سے گزارا جاتا ہے، جب کہ یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے کہ جسمانی نظام، ذہنی دباؤ میں ایسے ہارمونز پیدا کرتا ہے، جو دماغ کو یہ سگنلز بھیجتے ہیں کہ”اس وقت ایک نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے جسمانی نظام سازگار نہیں“ یہ ہارمونز،آگے چل کر بانجھ پَن کو بڑھاوا دیتے ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ توجّہ ہے کہ عورت کی مشکلات اولاد کے پیدا ہونے کے بعد بھی ختم نہیں ہوتیں، کیوں کہ خاندان والے بچّے کو گود میں لے کر پیار بَھری باتوں کے علاوہ، بچّے کے خدوخال پر تنقید کے نشتر برسانے سے بھی باز نہیں آتے۔ہمیں یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ حوّا کی ہر بیٹی ہی بے مثال ہے اور صرف ماں ہونا ہی اس کی واحد خْوبی نہیں ہونی چاہیے۔ جب تک ہم اپنی محدود سوچ سے باہر نہیں آئیں گے، بے شمار خواتین، جو کسی نہ کسی وجہ سے ماں نہیں بن پاتیں، احساسِ کم تَری، مختلف ذہنی دباؤ اور نفسیاتی مسائل کا شکار رہیں گی۔
پاکستان نے گذشتہ چند برسوں کے دوران خواتین کی بااختیاری،تحفظ اور حقوق کی فراہمی کیلئے اہم پیش رفت کی ہے۔ یہ مثبت طرزِ فکر ایسے معاشروں کو زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی متحرک شرکت کے فوائد سے مستفید کرتی ہے۔اس امر کا مشاہدہ انتہائی اہم ہے کہ آج خواتین اپنے کردار، ہستی اور حقوق سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگاہ ہیں۔فیصلہ سازی میں خواتین کو شریک کرنے کیلئے ضلعی حکومت میں خواتین کو یونین کونسل تحصیل / شہر اور ضلع کی سطح پر 33 فیصد نمائندگی،قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور سینٹ میں نشستیں مخصوص کرنا احسن اقدامات ہیں۔
دیہی خواتین کو بھی اس دن کی اہمیت کے حوالے سے باشعور کرنا چاہیے کیونکہ خواتین کا ایک بڑا اور اہم حصہ دیہاتوں میں رہتا ہے جہاں وہ تنگ نظر سوچ کے حامل افراد کے ظلم سہنے پر مجبور ہیں ان کو تو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو کس طرح سے روک سکتی ہیں۔لہذا ہمیں شہری اور دیہی دونوں خواتین کو باشعور کرنا ہے اور سماجی تنظیمیں اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ خواتین کو برابری کے حقوق دئیے جائیں اور صرف زبانی جمع خرچ کی بجائے ان کے مسائل اور مصائب کو روکا جائے کیونکہ یہ بات طے ہے کہ دنیا میں کوئی بھی قوم خواتین کی شمولیت کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ہندوستان میں جی ایس ٹی اور نوٹ کی منسوخی کی وجہ سے سب سے زیادہ ہندوستان میں دیہی خواتین متاثر ہوئی ہیں اور ان کی کمر ہی ٹوٹ گئی۔ دیہی خواتین سب سے زیادہ غیر منظم سیکٹر سے وابستہ ہیں جو ہندوستان تقریباً تباہ ہوچکا ہے اور آخری سانس لے رہا ہے رہی سہی کسر کساد بازاری نے پوری کردی ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور دیہی خواتین پر پڑتا ہے۔
D-64 Flat No. 10, Abul Fazal Enclave, Jamia Nagar, New Delhi-110025
abidanwaruni@gmail.com
9810372335
Comments
Post a Comment