آبروریزی کا بڑھتا گراف: معاشرتی بے حسی اور قانونی امتیاز کا نتیجہ

عابد انور

Thumb

انسان اس وقت تک جرم نہیں کرتا جب تک اسے خوف رہتا ہے کہ اگر اس نے یہ جرم کیا تو اسے یقینا سزا ملے گی لیکن جیسے ہی خوف ختم ہوجاتا ہے وہ جرم کرنا شروع کردیتا ہے۔ ہندوستان میں چوں کہ اب تک قانون کا نفاذ صرف لاچاروں، بے بسوں، بے کسوں، دلتوں اور مسلمانوں پر ہی ہو اہے اس لئے عام طور پرجرم کا خوف دل سے نکلتا جارہا ہے۔ 16دسمبر کو بہت سال نہیں ہوئے ہیں۔ اس واقعہ کے خلاف پورا ملک ابل پڑا تھا اور ملک کے کونے کونے سے صدائے احتجاج بلند ہورہا تھا اور سخت قانون کا مطالبہ کیا گیا اور سخت قانون بنابھی اور اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سمیت صدر جمہوریہ کی منظوری بھی مل چکی لیکن اس طرح کے گھناؤنا واقعات میں کمی تو دور کی بات ہے بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ہے اور پورے ملک سے اس طرح کی وحشیانہ خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں۔ دامنی یا نربھیا  کے واقعہ کے بعد ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اب لوگوں میں بیداری آگئی ہے اور جرم کے خلاف لوگ اب آواز اٹھانے لگے ہیں۔ پہلے مقابلے لڑکیاں اب زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ خواتین شام ہوتے ہی ڈرنے لگتی ہیں۔ لڑکیوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھروں کو پہنچ جائیں۔ لڑکیوں اورخواتین کے لئے نہ تو اسکول محفوظ ہے نہ آفس اور نہ ہی دوسری جگہ محفوظ ہے۔ سروے میں 75 فیصد سے زائد خواتین نے بتایا کہ وہ دہلی میں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں۔ مودی حکومت کا ’بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ‘ کا نعرہ دیگر وعدوں کی طرح محض جملہ ثابت ہوا ہے۔ مندسور کے حالیہ بچی کے ساتھ آبروریزی کا سانحہ یہ ثابت کرتا ہے کہ بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں خواتین یہاں کی تک معصوم بچیاں بھی محفوظ نہیں ہیں اور بی جے پی نے آبروریزی کے خاطیوں کوبھی مذہبی خانوں میں بانٹ کر ووٹ بینک کی سیاست کررہی ہے جو لوگ کٹھوعہ میں زانیوں اور مجرموں کے حق میں نعرے لگا رہے تھے وہی مندر میں مجرموں کو پھانسی کی سزا کا مطالبہ کررہے ہیں۔ یہی لوگ کشمیر میں مسلم خواتین کی آبروریزی کوجائز سمجھتے ہیں اور خاطییوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اورکہتے ہیں اس سے ان کا ولولہ کمزور ہوجائے گا۔ حالیہ دنوں میں اترپردیش میں کئی بی جے پی کے اراکین اسمبلی آبروریزی کے واقعات میں ملوث پائے گئے ہیں اور کئی جیل میں بند ہیں۔ گزشتہ پندرہ سال کے دوران مدھیہ پردیش خواتین کے لئے جہنم بن گیاہے اور وہاں خواتین کے ساتھ سب سے زیادتی کے واقعات ہوتے ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران مدھیہ پردیش میں چارہزارسے زائد آبروریزی کے واقعات پیش آئے ہیں۔گجرات،مہاراشٹر،اترپردیش، ہریانہ، جھارکھنڈ،بہار اوربی جے پی حکمرانی والی دیگر ریاستوں میں آبروریزی کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔ جھارکھنڈ کے کھونٹی میں جس طرح چار لڑکیوں کااغوا کرکے ان کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کی گئی ہے وہ مہذب معاشرہ پر ایک داغ ہے۔ ملکی دارالحکومت میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مجموعی طور پر 2069 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ اس عرصے سے پہلے کے ایک سال کے دوران عورتوں اور لڑکیوں کے ریپ کے واقعات کی یہی تعداد 1571 رہی تھی۔ ایک سال کے دوران شہر میں ریپ کے واقعات کی شرح میں 31.6 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
ایک عالمی ادارے کے سروے کے مطابق ہندوستان دنیا میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک جبکہ امریکہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے معاملے میں تیسرے نمبر پر ہے۔ہندوستان  چھ میں سے تین سوالوں کے جواب میں سر فہرست ہے۔ ان سوالوں میں ان چیزوں کی موجودگی یا زیادہ ہونے کے بارے میں پوچھا گیا تھا:
1: خواتین کے خلاف جنسی تشدد اور حراساں کیے جانے کے واقعات،
2: ثقافت اور قبائلی رسم و رواج کی وجہ سے خواتین کو درپیش خطرات
3: ایسا ملک ہونا جہاں انسانی سمگلنگ بشمول خواتین کو جنسی مزدوری، جنسی اور گھریلو غلامی میں دھکیلنا۔
خواتین کی صحت جن میں زچگی کے دوران موت، پیدائش اور ایچ آئی وی/ایڈز پر کنٹرول کے معاملے میں چوتھے نمبر پر ہے جبکہ ملازمت میں جانبداری کے معاملے میں تیسرے اور (غیر جنسی) گھریلو تشدد کے معاملے میں بھی تیسرے نمبر پر ہے۔حال ہی میں ہندوستان کے علاقے جموں کے کٹھوعہ میں ایک آٹھ سالہ بچی کے ریپ کے خلاف لوگوں کا غصہ ابل پڑا اور ملک گیر پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ برطانیہ میں قائم ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے سروے میں مجموعی طور پر ہندوستان کے بعد جنگ زدہ افغانستان دوسرے اور خانہ جنگی کا شکار شام تیسرے نمبر پر ہے۔ خواتین کے معاملے میں سب سے خطرناک ملک کی اس فہرست میں پہلے دس ممالک میں سعودی عرب، پاکستان، کونگو اور نائجیریا سمیت امریکہ بھی شامل ہے۔امریکہ جنسی تشدد کے معاملے میں دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جبکہ غیر جنسی تشدد کے واقعات میں وہ چھٹے جبکہ جنسی تشدد کے معاملے میں کونگو دوسرے نمبر پر ہے۔خواتین پر (غیر جنسی) تشدد کے معاملے میں افغانستان سرفہرست ہے جبکہ شام اور انڈیا کا نمبر دوسرا اور تیسرا ہے۔ پاکستان اس معاملے میں پانچویں نمبر پے ہے۔تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے سنہ 2011 میں بھی اسی قسم کا سروے کیا تھا جس میں افغانستان پہلے جبکہ انڈیا چوتھے نمبر پر تھا۔ماہرین کا خیال ہے کہ  ہندوستان کا پہلے نمبر پر آنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کو لاحق خطرات کو دور کرنے کے لیے انڈیا میں زیادہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔این ڈی ٹی وی کے مطابق انڈیا کی جنوبی ریاست کے ایک سرکاری اہلکار منجو ناتھ گنگا دھر نے کہا: انڈیا میں خواتین کے ساتھ انتہائی نا روا سلوک کیا جاتا ہے۔ ریپ، میریٹل ریپ، جنسی تشدد اور ہراساں کیا جانا اور بچیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کیا جانا بلا کسی روک ٹوک جاری ہے۔'اس سروے میں خواتین کے لیے کام کرنے والے سات سو سے زیادہ ماہرین سے رجوع کیا گیا تھا جن میں سے تقریباً چھ سو افراد نے جواب دیا۔اس سروے میں اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں خواتین کو لاحق خطرات سے متعلق سوال پوچھے گئے تھے۔
دنیا بھر میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ آئے دن اس طرح کی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ بہت سے معاشروں میں ایسی خبروں کو چھپایا جاتا ہے اور ان میں ہندوستان کا بھی شمار ہوتا ہے۔ ہندوستان میں دنیا بھر کے20 فیصد بچے رہتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بھوک اور تنگی کا شکار اور مدد کے محتاج ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں بچوں پر اکثر جنسی زیادتیاں ہوتی رہتی ہیں، لیکن اس موضوع پر تقریباً خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ یہ زیادتیاں عام طور پرگھروں، اسکولوں میں یا پولیس کی طرف سے ہوتی ہیں۔ ہندوستان میں بچوں پر جنسی زیادتیوں کا موضوع شجر ممنوعہ ہے۔ شاذونادر ہی اختیارات اور طاقت رکھنے والوں، مثلاً پولیس اہلکاروں،اساتذہ یا ہوسٹلوں کے نگرانوں کے خلاف شکایات درج کرائی جاتی یا اْن سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔ تاہم کچھ دن پہلے شمالی ہندوستان کے شہر چھتیس گڑھ میں والدین نے یہ معاملہ اپنے ہاتھوں میں لے کر ایک پرائیوٹ اسکول کے پرنسپل کی پٹائی کر ڈالی۔ ایسا اس وجہ سے ہوا کہ اس سکول کی طالبات نے شکایت کی تھی کہ پچاس سالہ پرنسپل نے بہتر نمبر دینے کے لئے جنسی خواہشات پوری کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ہندوستان میں بہت سے بچوں کے لئے اس قسم کے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ ہندوستان کی وزارت برائے خواتین کے۷۰۰۲ کے سروے کے مطابق ۳۵ فیصدہندوستانی بچے ایک یا کئی بار جنسی زیادتیوں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں۔ اْس وقت کی بہبود وخواتین اطفال کی وزیر رینوکا چودھری نے کہا کہ تھا ہندوستان میں بچوں پر جنسی زیادتی کو سرسری طور پر نظر انداز کردینے کی روایت ہے۔ بس یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ ہمارے یہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔ حقوق اطفال کے حامیوں کا کہنا ہے کہ حقیقی چیلنج یہ ہے کہ بچوں اور نوجوانوں میں شکایات درج کرانے کا حوصلہ پیدا کیا جائے۔ ستم رسیدہ بچوں کے تحفظ کی ذمہ داری جن لوگوں کے کاندھے پر ہے وہ بھی ان کا استحصال کرنے میں پیچھے نہیں ہیں۔ بچوں پر جنسی زیادتیوں کا ارتکاب ترقیاتی امداد کے لئے کام کرنے والے کارکن بھی کرتے ہیں۔حقوق اطفال کی ماہر باربرا ڈیون ویلر کا کہنا ہے کہ بچوں کے لئے کام کرنے والی کوئی بھی تنظیم زیادتیوں کو امکان سے خارج قرار نہیں دے سکتی۔ بچوں کی امدادی تنظیم سیو دی چلڈرن کی مایا ڈینے کا کہنا ہے کہ بچوں اور عورتوں کو یہ توقع نہیں ہوتی کہ خاص طور پر کلیسائی اور امدادی تنظیموں میں اس قسم کی زیادتیاں ہوسکتی ہیں۔ لیکن ایسی حرکتیں کرنے والے اس ماحول میں خود کو بخوبی چھپا سکتے ہیں۔سیو دی چلڈرن نامی بچوں کی امدادی تنظیم کی برطانوی شاخ نے  2008میں ایک جائزہ شائع کیا تھا جس کے مطابق خاص طور پر یتیم اور ایسے کم سن بچوں کو جنسی استحصال کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جنہیں اْن کے والدین سے الگ کردیا گیا ہو۔چند سال پہلے ممبئی میں دو برطانوی شہریوں نے غیرملکی امداد سے بے سہارا لڑکوں کے لئے ہوسٹل کھولا تھا لیکن وہ کئی برسوں تک یہاں بچوں اور نوجوانوں کو اپنی جنسی خواہشات کا نشانہ بناتے رہے۔ بعد میں ہندوستانی عدالت نے انہیں طویل سزائے قید سنائی تھی۔بچوں کے جنسی استحصال میں پادری کارول بھی نمایاں ہے۔ ایسے متاثرین کی مجموعی تعداد چودہ ہزار پانچ سو بتائی گئی ہے۔
اتنے سخت قانون وضع کرنے کے باوجود خواتین کے ساتھ آبروریزی کے واقعات میں جس طرح اضافہ ہوا ہے اور بچیوں سمیت خواتین پر جنسی حملے جس طرح تیز ہوئے ہیں اس سے اندازہ  ہوتا ہے کہ مجرموں کو قانون کا کوئی خوف نہیں ہے۔ کیوں کہ ہندوستان میں قانون میں امتیاز ایک عام بات ہے اس لئے مجرم یہاں بے دھڑک جرم کرتے ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان میں جس طرح لوگوں کے پاس دولت آئی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربیت آئی ہے۔ ہر خاندان الٹرا ماڈرن بننا چاہتا ہے اور اس کے نشے میں وہ تہذیب و تمدن سب کچھ بھول جاتا ہے۔اسی کے ساتھ فلموں کے بے ہنگم مناظر، اشتہارات میں فحش و عریانیت، سیریل میں جس طرح پیار و محبت اور ناجائز جنسی تعلقات کو پیش کیا جاتا ہے اس سے بھی معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو بڑھا وا ملا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی ہے جو اب موبائل فون میں دستیاب ہے۔انٹرنٹ پر فحش ویب سائٹوں کی بھرمار ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے کئی بار تشویش کا اظہار رکرچکی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق  چیف جسٹس التمش کبیر کی صدارت میں اطلاعات و نشریات کی وزارت اور دیگر شعبوں کو ایک نوٹس جاری کیا گیا تھا۔جس میں کہا گیا تھا کہ انٹرنٹ پر بچوں سے متعلق والدین کی غیر موجودگی میں بڑی تعداد میں بچے ان ویب سائٹس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔ ان سائٹس پر فراہم کیے جا رہے فحش مواد سے بچوں کے نرم و نازک دل و دماغ پر برا اثر ہو رہا ہے۔ اس میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ انہیں سب وجوہات کی بنا پر سماج میں جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک سروے کے مطابق زیادہ تر بچے 11 سال کی عمر تک اس سے کسی نہ کسی صورت میں متعارف ہو چکے ہوتے ہیں۔انٹرنیٹ پر ہونے والی سرچ یا تلاش میں سے 25 فیصد مواد پورن سے متعلق ہوتے ہیں اور ہر سیکنڈ کم سے کم 30 ہزار لوگ اس طرح کی سائٹ دیکھ رہے ہوتے ہیں۔اطفال کے پورن سائٹ دیکھنے کا ایک بڑا نقصان ہے ان کے اندر جنسی ہلچل کا پیدا ہونا اور یہ تیزی کے ساتھ بڑھ رہا ہے جو والدین کے لیے پریشان کن بنتا جا رہا ہے۔ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ان بچوں کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کے پاس ذاتی کمپیوٹر، انٹرنٹ کنکشن اور اسمارٹ فون موجود ہے اور اسی لیے پورن سائٹس سے متاثر ہونے کے ان کے خطرے بھی بڑھ رہے ہیں۔

Comments