عابد انور
یہ مضمون اگست 2014 میں لکھا گیا ہے
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کے زوال کے دوران ہی ملک میں ہندو احیا پرستی کی تحریک کسی نہ کسی صورت اور سطح پر شروع ہوگئی تھی۔ خواہ اس نے اصلاحی تحریک کا چولا پہن رکھا ہو یا کوئی اورلباس لیکن درحقیقت اس کا مقصد خالصتاً ہندو احیا پرستی اور ملک میں ہندو راشٹر کا قیام تھا۔ 1857 کی ناکام تحریک آزادی کے بعد اس سوچ میں زبردست اضافہ ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1857کی تحریک آزادی میں ہندو اور مسلمانوں نے مشترکہ طور پر بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھااور انہوں نے انگریزی فوج کے چھکے چھڑادئے تھے بدقسمتی کی بات یہ تھی کہ یہ تحریک منظم نہیں تھی اور ایک ساتھ پورے ملک میں نہیں اٹھی تھی جس کی وجہ سے انگریزوں کو آسانی سے یکے بعد دیگرے کچلنے کا موقع ملا اور وہ یکے بعد دیگر اٹھنے والی تحریک کو کچل دیا تھا لیکن اس تحریک کی ناکامی کے بعد یہ اتحاد کا نظارہ دیکھنے کو نہیں ملا اور اس کے برعکس بہت سے ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف مخبری کا کام انجام دیاجس کی وجہ سے انگریزوں نے مسلمانوں کا ناطقہ بند کیا۔ کیوں کہ انگریزوں نے حکومت مسلمانوں سے چھینی تھی اس لئے انہیں تہ تیغ اور بے دست وپا کرنے میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ اس طرح مسلمانوں کی بربادی کی کہانی اور ہندو احیا پرستی کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد ہندوؤں میں اصلاحات کی تحریک جاری رہی جس کا آغاز راجہ رام موہن رائے اور سوامی ویویکانند نے شروع کی تھی۔ ونوبھا بھاوے کی بھودان تحریک اور گائے تحفظ اور دیگر تحریکات جنم لیتی رہیں۔ گرچہ تحریکیں الگ الگ تھیں اور بظاہر یہ سماجی تحریکیں اور معاشرتی اصلاحات کے لئے تھیں لیکن ان سب کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور ہندوؤں میں احیا پرستی کا بیج ڈالنا تھا۔ اس تحریک کو کچھ ہندو ادیبوں نے اپنی تحریروں، کہانیوں اور افسانوں کے ذریعہ آگے بڑھایا۔ ملک کی آزادی تقسیم پر منتج ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ہولناک فسادات ہوئے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس کا مقصد ہندو اور مسلمانوں میں وہ خلیج پیدا کرنا تھا جسے آسانی نہ پاٹا جاسکے اور جب چاہیں اس کا فائدہ اٹھالیا جائے۔ملک میں وسیع پیمانے پر فسادات ملک کو ہندو احیا پرستی اور ہندو راشٹر کی طرف لے جانے کی عملاً کوشش تھی۔ فسادات میں جس طرح یکطرفہ کارروائی کی گئی اور مسلمانوں کو مارا گیا، مسلم خواتین کی آبرو تار تار کی گئی اور پولیس نے نہ صرف ہندوؤں کا کھل کر ساتھ دیا بلکہ انہیں بچانے کی پوری کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد سے آج چند ایک کو چھوڑ کر کسی فساد میں خاطی کو سزا نہیں ملی۔یہ ہندو راشٹر کا عملاَ نفاذ تھا اور مسلمانوں کو یہ بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ وہ عملاً دوسرے درجے کے شہری ہیں خواہ آئین میں انہیں کچھ بھی حقوق حاصل ہوں لیکن عملاً وہی ہوگا جو ہندو چاہیں گے۔ آزادی کے بعد ہندوستان کے آئین کو سیکولر رکھا گیا گرچہ صرف کاغذ پر تھا لیکن اس کی قیمت گاندھی جی کو اپنی جان کی قربانی دیکر چکانی پڑی تھی اور ان کا قاتل کوئی اور نہیں بلکہ اسی کنبہ کے فرد نے کیا تھا جس نے ہندو راشٹر کو عملی شکل میں لانے کی جدوجہد شروع کی تھی۔ 1925 میں قائم ہونے والی تنظیم آر ایس ایس نے ابتدا ء سے ہندوستان راشٹرکا خاکہ پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ ان کی تمام تحریریں اور لٹریچر اس بات کا گواہ ہیں وہ ان کا مقصد ملک میں ہندو راشٹر کا قیام ہے۔ بینچ آف ٹھاٹس پڑھنے سے یہ بات سمجھ میں آجاتی آجاتی ہے۔ اسے وہ کبھی بھی ترک نہیں کریں گے۔ 80کی دہائی میں شروع ہونے والی رام جنم بھومی تحریک اسی سلسلے کی کڑی تھی کہ ہندوؤں میں ہندو احیا پرستی کے جذبات اس قدر ابھارا جائے کہ وہ نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں اور اس تحریک کی ایک کامیابی بابری مسجد کی شہادت کی شکل میں آئی۔ اس کے لئے انہوں نے دوردرشن پردو سیریل رامائن اور مہابھارت شروع کروائے۔ اس سیریل کے ذریعہ ہندو ؤں میں ہندو قوم پرستی اور ہندو راشٹر کے جذبات ابھارے گئے۔ اس کے ذریعہ رام مندر تحریک کے توسط سے ہندؤں میں جوش بھرا گیا۔ اس کے نتیجے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کئی ریاستوں میں برسراقتدار آگئی اور پھر 1998سے 2004تک مرکز میں برسراقتدار رہی۔ لیکن وہ حکومت دوسری پارٹیوں کے بیساکھیوں پر ٹکی ہوئی تھی اس لئے اس سمت میں کوئی قدم نہیں اٹھایا بلکہ رام تحریک کے روح رواں لال کرشن اڈوانی کو بھی یہ کہنا پڑا تھا کہ رام مندر حکومت کے ایجنڈے میں نہیں ہے۔ اب جب کہ 2014 میں بی جے پی واضح اکثریت کے ساتھ برسراقتدار آگئی ہے اور اس میں ان کی نہیں بلکہ مکمل طور پر آر ایس ایس کا کردار ہے جس کے کارکنوں نے گاؤں گاؤں میں جاکر فرداً فرداً لوگوں کو بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈینے پر راضی کیااور یہ کہا کہ مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد مسلمانوں کو پاکستان کو بھیج دیا جا ئے گا اور پھر ان کی جائداد اورمال و متاع سب تمہارا ہوگا۔گری راج کشور اور دوسرے لوگوں کا بیان آر ایس ایس کی انتخابی حکمت عملی کی واضح شکل تھی۔بی جے پی کے حکومت بنانے کے ساتھ ہی پورے ملک میں جس طرح ہندو راشٹر کی سمت میں قدم اٹھایا اور جس طرح مسلمانوں کے خلاف پورے ملک میں فضا بنایاگیا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ آر ایس ایس کے سربراہ نے اعلان کردیا ہے کہ ہندوستان ہندو راشٹر ہے اور یہاں بسنے والے تمام لوگ ہندو ہیں۔ اس کے بعد کسی قسم کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ یہ عملاً ہندو راشٹر ہے۔ ہندو راشٹر کہتے کس کو ہیں۔ جمہوریت کے چاروں ستون نے اسے عملاً ہندو راشٹر بنانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے۔
گزشتہ دنوں کٹک میں اڑیا زبان کی ایک ہفتہ وار میگزین کی اجرا کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا کہ ہندوستان میں رہنے والے تمام ہندو ہیں۔ انہوں نے کہا، '' جب انگلینڈ میں رہنے والے انگریز، جرمنی میں رہنے والے جرمن اور امریکہ میں رہنے والے امریکی ہیں تو ہندوستان میں رہنے والے ہندو کیوں نہیں ہو سکتے؟ قبل ازیں خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق ممبئی میں وشو ہندو پریشد کے گولڈن جبلی تقریب میں موجود موہن بھاگوت نے کہا تھا، ”ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے اور ہندوتو اس کی شناخت ہے“۔اسی تقریب میں ہی آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایک بار متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا کہ ”ہندو مذہب میں سب کو ہضم کرنے کی طاقت ہے۔ہندوتو ہمارے قوم کی پہچان ہے“۔ گزشتہ دو ہزار سالوں میں ہندو مذہب کا ہاضمہ بگڑ گیا جس کی وجہ سے ٹھہراؤ آ گیا۔اس کے چلتے ہم مہلک اثرات بھگت رہے ہیں۔بھاگوت نے کہا کہ وی ایچ پی کا آئندہ پانچ سالوں میں اہم کام ہو گا کی وہ ملک کے ہندوؤں میں مساوات جگائے۔ ہمیں اگلے پانچ سالوں میں اسی پر کام کرنا ہوگا۔تمام ہندوؤں کو ایک ہی جگہ سے پانی پینا چاہئے، ایک ہی جگہ عبادت کریں اور موت کے بعد ان کی لاشوں کو ایک ہی جگہ جلایا جائے۔پروگرام میں موجود وی ایچ پی کے سربراہ پروین توگڑیا سے رام مندر پر جب سوال پوچھا گیا تو انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا کہ "کسی بھی قیمت" پر اجودھیا میں عظیم رام مندر بنایا جائے گا۔ہم نے ایک شاندار مندر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اسے کسی بھی قیمت پر بنایا جائے گا۔ کچھ ایسا ہی بیان بھاگوت نے پچھلے دنوں اوڈیشا کے کٹک میں دیا تھا۔گوا کے نائب وزیر اعلی نے اپنے کابینی ساتھی دیپک دھولکر کیے اس تبصرے کا دفاع کیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مودی ملک کو ہندو راشٹر بنا سکتے ہیں۔ فرانسس ڈیسوزا نے نامہ نگاروں سے کہا، یہ ہمیشہ سے ہندو راشٹر تھا اور ہمیشہ ہندو راشٹررہے گا۔ آپ کو ہندو راشربنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈیسوزا، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی گوا یونٹ میں ایک سینئر اقلیتی رکن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود کو ایک 'عیسائی ہندو' مانتے ہیں.۔ڈیسوزا نے کہا، ہندوستان ہندو راشٹر ہے۔یہ ہندوستان ہے۔ ہندوستان میں تمام ہندوستانی ہندو ہیں۔ دھولکر نے کہا تھا کہ اگر ہم اس کی حمایت کریں اور مودی کے ساتھ کھڑے رہیں، تو مجھے لگتا ہے کہ ہندو راشٹر قائم ہو جائے گا۔ہندوستان کی سپریم کورٹ نے ہندتوا کے ایک سوال پر اپنے تبصرے میں گزشتہ این ڈی اے حکومت کے دوران کہا تھا کہ ”ہندوتوا ایک طرز زندگی کا نام ہے۔“سپریم کورٹ نے ہندوتو کو ایک طرز زندگی قرار دیا تواس کے بعد کس چیز کی گنجائش رہ جاتی ہے۔ اس وقت ہندوتوا کے علمبرداروں نے مہذب سماج کا جینا دوبھر کردیا تھا۔ سماجی تقریبات کے موقع پر ہنگامہ کرتے تھے۔ گزشتہ این ڈی اے حکومت نے وشو ہندو پریشد کو اقوام متحدہ سے ایک ثقافتی تنظیم کے طور پر منظوری دلوایا تھا۔
آر ایس ایس کے سربراہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے شو سینا نے بھی حمایت کی اور کہا کہ موہن بھاگوت نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہے۔ اکثر تنازعات میں رہنے والے سبرامنیم سوامی نے. ہندو تنازع پر سنگھ سربراہ موہن بھاگوت کے بیان کا دفاع کرتے ہوئے ہندوستانیوں کو ہندو یا ہندوؤں کا خاندان قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو ثابت کرنے کے لئے وہ مرکزی وزیر نجمہ ہپت اللہ کا ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے۔’ایک چینل سے بات چیت کے دوران سوامی نے موہن بھاگوت کے اس بیان کو صحیح قرار دیا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ تمام ہندوستانیوں کی ثقافتی شناخت ہندوتو ہے۔سوامی نے بھاگوت کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں تمام لوگ یا تو ہندو ہیں، یا پھر ہندوؤں کے خاندان کے ہیں۔ہندوستان کا پڑوسی ملک نیپال صدیوں سے ہندو راشٹر تھا مگر دنیا کے نقشے سے اب یہ آخری ہندو راشٹر بھی مٹ گیا۔ آخری بادشاہ گیانندر ہندو راشٹر نیپال کا گواہ رہا۔نیپال میں جب انقلاب آیا اور مانوازوں نے شہنشاہیت کے خلاف تحریک چھیڑی تھی اس میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے شہنشاہیت کا خاتمہ کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے نیپال کو سیکولر ملک قرار دیا تھا جس کے ساتھ ہی دنیا کے نقشے سے ہندو راشٹر کا نقشہ مٹ گیا۔ اس وقت آر ایس ایس بہت تکلیف ہوئی تھی اور اس نے نیپال میں ہندو راشٹر کی بحالی کے لئے کافی کوششیں کی تھیں اور ان کی کوشش اب بھی جاری ہے۔ اسی کے ساتھ وہ ہندوستان کو بھی اعلانیہ طور پر ہندو راشٹر اعلان کرنا چاہتے ہیں۔ اس ہندوستا ن میں ایک سیاسی طوفان ہے اور بی جے پی کے وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام وزرائے اور سینئر لیڈر خاموش ہیں۔۔ظاہر سی بات ہے کہ کوئی بھی اپنے آقا کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں کرسکتا۔ کانگریس اور سماج وادی پارٹی کے کچھ لیڈروں نے بیانات ضرور آئے ہیں جس میں موہن بھاگوت کے بیان کی مذمت کی گئی ہے۔ ہندوستان میں اس سلسلے میں ایک بحث جاری ہے گرچہ یہ بہت کم تر سطح پر ہے۔
راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ (سرسنچالک) کے بیان میں آج کل واویلا مچا ہوا ہے اور بہت نام نہاد سیکولر نے اس کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اور یہ بتانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے اور ہندوستان کبھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا وغیرہ وغیرہ۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو ہندوستان ہندو راشٹر ہے۔ کون سا ایسا کام بچا ہوا ہے جو ہندو راشٹر میں ہوگا۔ تمام سرکاری کام کاج ویدمنتروں کے پڑھنے سے شروع ہوتا ہے۔ کسی بھی پروجیکٹ لگانے سے پہلے، یا مکان، آفس، سرکاری فیکٹری کی سنگ وغیرہ سے پہلے بھومی پوجن ہوتی ہے۔ تمام تھانوں میں مندر ہیں۔ تمام دفتروں میں مختلف بھگوانوں کے فوٹو لگے ہیں۔ ہر سرکاری کام ہندو مذہب کے رسم و رواج کے مطابق کیا جاتا ہے۔دوردرشن کا آغاز سے بھی بھجن سے ہوتا ہے۔ ہندوراشٹر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہاں سارے غیر ہندو شہری بھگادئے جائیں گے۔ سرکاری کام کاج میں مذہب کا دخل بڑھ جائے گا جو کہ ہورہا ہے۔ ایک بار ایک ٹیلی ویژن مباحثے کے دوران جس کا موضوع ہندو راشٹر تھا، ایک کانگریسی برہمن لیڈر نے کہا تھا کہ ہندو راشٹر کا واویلا مچانے کی ضرورت کیا ہے۔کون سا کام ہے جو ہندو رسم رواج کے مطابق نہیں ہوتا۔ ہندو راشٹر کی ایک واضح مثال یہ بھی ہے کہ دفعہ341 میں صدارتی ریفرینس کے ذریعہ مسلمانوں کے ریزرویشن پر پابندی لگادی گئی تھی۔ ہندو کو ہندو ہونے اور کام کی بنیاد پر ریزرویشن مل سکتا ہے لیکن مسلمانوں کو نہیں مل سکتا۔ جب مسلم ملک کو شرع کے مطابق کام شروع کرنے پر اسلامی ملک کہا جاسکتا ہے تو ہندوستان کوں کیوں نہیں کہاجاسکتا۔ یہاں بھی تو تمام سرکاری کام کاج ویدو منتر اور پوجا پاٹھ سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو واویلا مچانے کے بجائے اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے اور اس حقیقت کا اعتراف کرنا چاہئے ہم ہندو راشٹر میں رہ رہے ہیں۔ جب تک مسلمان اس کو سنجیدگی اور دل سے قبول نہیں کرتے اس وقت تک انہیں اپنا لائحہ عمل بنانے میں دشواری ہوگی۔ یہ اچھی بات ہے کہ مسلمانوں کے کہنے کے بجائے آر ایس ایس کے سربراہ نے اعلان کردیا ہے کہ یہ ہندو راشٹر ہے۔اس سے مسلمانوں پر وطن سے غداری کا الزام بھی نہیں لگے گا۔ این ڈی اے حکومت کے قائد وزیر اعظم نریندر مودی نے اس ضمن میں مکمل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس حکومت کے وزرائے میں سے کسی نے بھی موہن بھاگوت کے بیان پر کسی قسم کے ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے۔ نہ ہی کسی پارٹی نے کھل کر اس کے خلاف محاذ کھولا ہے۔ تمام لوگ خاموش ہیں، تمام صحافی خاموش ہیں، فلسفی اور دانشور خاموش ہیں۔ کسی نے بھی آگے بڑھ کر ہندوراشٹر کے خلاف کوئی محاذ آرائی کی ہے۔ سب کی خاموشی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اب احتجاج کی قوت کسی میں نہیں ہے۔ غور و فکر کا مقام یہ ہے کہ مسلمان ان حالات میں کیا کریں کیوں کہ بڑے پیمانے پر مسلمانوں کو ناانصافی کا سامنا کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ہندو راشٹر کا مطلب مسلمانوں کا دوسرے درجے کا شہری ہونا ہے۔
abidanwaruni@gmail.com
09810372335
Comments
Post a Comment