ملک کو ایک بارپھر تقسیم کردے گی نفرت کی سیاست

Thumb

حیدرآبادمیں منعقدتحفظ جمہوریت کانفرنس میں نفرت کی سیاست کرنے والوں کومولانا سید ارشدمدنی کا انتباہ 
نئی دہلی 3/مارچ 2020  جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدا رشدمدنی ایک بارپھر کہا ہے کہ موجودہ حکومت سی اے اے کو ہندومسلم مسئلہ بناکر پیش کررہی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کا ہندوؤں اور مسلمانوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، بلکہ اس قانون کو لاکر ملک کے سیکولردستورپر براہ راست حملہ کرنے کی افسوسناک کوشش کی گئی ہے، ممبئی کی طرزپر حیدرآبادمیں منعقدتحفظ جمہوریت کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ یہ ملک کاسیکولردستورہی ہے جس نے پورے ملک کو اتحادکی ایک ڈورمیں باندھ رکھا ہے مگر اب اس ڈورکو کاٹنے کی درپردہ سازشیں ہورہی ہیں جس کو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اس کو لیکر فکرمنداس لئے ہے کہ آزادی کے بعد ملک کے دستورکو سیکولربنانے میں اس کے اکابرین کا ہی بنیادی کرداررہا ہے اس تعلق سے انہوں نے کہا کہ جس طرح ملک کی آزادی میں جمعیۃعلماء ہند نے ہراول دستہ کا کرداراداکیا تھا ٹھیک اسی طرح آزادی کے بعد بدقسمتی سے مذہب کی بنیادپر جب ایک نئی مملکت وجودمیں آئی تو کانگریس کے اندرسے ہی یہ آوازیں اٹھنے لگی تھیں کہ چونکہ ایک نئی مملکت وجودمیں آچکی ہے اس لئے اب ملک کا دستورہندوازم کی بنیادپر تیارکیا جانا چاہئے اور تب جمعیۃعلماء ہند کے اکابرین کانگریس لیڈروں کا ہاتھ پکڑکر بیٹھ گئے اور ان سے کہا کہ ہم سے کیا ہوا وعدہ آپ پوراکرین، مولانا مدنی نے کہا کہ ایماندارلوگ تھے اس لئے ہمارے اکابرین کے مطالبہ کو انہوں نے تسلیم کیا اور ملک کے دستورکی بنیادسیکولرازم کے اصولوں پر رکھی گئیں، مگراب انہیں اصولوں کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے اور سی اے اے اسی سلسلہ کی ایک مضبوط کڑی ہے، حیدرآبادکے میڈیا پلس آڈیٹوریم میں موجودلوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر سی اے اے کے تحت کسی کو شہریت دی جاتی ہے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر اس قانون کی بنیادپر آپ صدیوں سے اس ملک میں آبادایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی شہریت چھین لیں یہ ہمیں قطعی منظورنہیں-
انہوں نے آگے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے امن واتحادکا گہوارہ رہا ہے جس میں تمام مذاہب کے ماننے والے پیارومحبت سے رہتے آئے ہیں مذہبی رواداری ہندوستان کی خمیر میں شامل ہے اس لئے یہاں نفرت کی سیاست زیادہ عرصہ تک نہیں زندہ رہ سکتی اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے جھارکھنڈاور اب دہلی میں جس طرح بی جے پی کا صفایا ہوا وہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ لوگ میل ملاپ اور محبت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تاہم انہوں نے اس بات پر سخت افسوس کا اظہارکیا کہ جودہلی الیکشن کے دوران تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود پرامن رہی الیکشن کے بعد اچانک جل اٹھی انہوں نے کہا کہ جس طرح الیکشن کے بعد بی جے پی کے ایک شکست خورہ  لیڈرنے اشتعال انگیز بیان دیا اور سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کوسبق  سکھانے کی دھمکی دی اس کے بعد فرقہ پرست عناصرنے پورے جمناپاردہلی کو خاک وخون میں نہلادیا انہوں نے کہا کہ مسلسل تین روزتک قتل وغارت گری کا بازارگرم رہا اور حکومت سوتی رہی پولس نے بھی اپنا فرض نہیں اداکیا چنانچہ فرقہ پرست عناصرجو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، مگر یہ کس قدرافسوسناک ہے کے جس شخص کے اکسانے پر اتنی بڑی تباہی ہوئی تقریبا 49معصوم لوگوں کی جانیں گئیں اور کروڑوں کی املاک کا نقصان ہوا اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی جگہ حکومت  نے اسے وائی پلس سیکورٹی مہیاکرادی ہے جس شخص کو جیل میں ہونا چاہئے تھا حکومت اسے سرکاری تحفظ فراہم کرارہی ہے آخراسے کس انصاف کے خانہ میں رکھاجائے؟مگر امید افزابات یہ ہے کہ جیسے ہی فسادکی آگ قدرٹھنڈی ہوئی ان علاقوں کے ہندومسلمان گھروں سے نکل کر باہر آگئے اور سب نے ایک زبان ہوکر کہا کہ ہم آپس میں مل جل کر رہنا چاہتے ہیں اور یہ مٹھی بھر لوگ ہی ہیں جو ہرجگہ امن وسکون کی فضاکو تباہ کرنے کے لئے آزادہوتے ہیں، مولانامدنی نے کہا کہ فسادکے دوران بھی ہندومسلم اتحادزندہ رہا اور دونوں فرقے کے لوگوں نے ایک دوسرے کو فسادیوں سے بچانے کی کوشش کی انہوں نے آگے کہا کہ یہ بات بھی اہم ہے کہ بہت سے مذہبی رہنماوں نے بھی فسادزدہ علاقوں کا دورہ کیا اور عوام سے امن واتحادکی اپیل کی ان میں شری شری روی شنکر بھی شامل ہیں، نفرت کی سیاست کرنے والوں کی اب آنکھ کھل جانی چاہئے اس لئے کہ اب عوامی سطح پر لوگ کھل کر فرقہ پرستی اورنفرت کی سیاست کے خلاف آواز بلند کرنے لگے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ سی اے اے کی طرح این پی آرکو لیکر بھی یہ پروپیگنڈہ ہورہا ہے کہ تنہا مسلمان ہی اس کی مخالفت کررہے ہیں مولانامدنی نے کہا کہ یہ بالکل غلط بات ہے ہم اس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ اس میں جو نئی چیزیں شامل کی گئی ہیں ہم ان کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ ہم انہیں ملک کے شہریوں بالخصوص مسلمانوں کے لئے خطرناک تصورکرتے ہیں جس طرزپر 1950 سے 2010تک مردم شماری ہوئی اسی طرزپر مردم شماری کرائی جائے ہم تعاون دینے کو تیارہیں مگر این پی آرکی موجودہ شکل ہمارے نزدیک قابل قبول نہیں ہے انہوں نے آندھرااورتلنگانہ کی صوبائی حکومتوں پر زوردیا کہ وہ این پی آرکی موجودہ شکل کو نہ صرف مستردکردیں بلکہ اس کے خلاف اسمبلی میں تجویز بھی منظورکرائیں-
انہوں نے کہا کہ اگر ایسانہیں کیا گیا تو ہم جلد ہی یہاں ایک بڑاعوامی اجلاس کریں گے جس میں این پی آرکی موجودہ شکل کے خطرات سے آگاہ کرکے اس کے خلاف رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کریں گے انہوں نے اسی تسلسل میں کہا کہ پچھلے تیرہ سوبرس سے مسلمان اس ملک میں امن اور خیر سگالی کے ساتھ رہتے آئے ہیں مگر اب مرکزی حکومت انہیں مذہب کی بنیادپر الگ تھلگ کرنے کی سازش کررہی ہے انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا تو اس ملک میں اقلیتوں کا کیامستقبل رہ جائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ جن ریاستی حکومتوں نے سی اے اے این پی آراور این آرسی کے خلاف تجاویز منظورکی ہیں یا ان کی مخالفت کررہی ہیں وہاں کے ہندوومسلمان دونوں مل کر ان قوانین کی مخالفت کریں۔ نفرت کی سیاست کرنے والوں کو انتباہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفرت کی سیاست سے ایک بارپھرملک تقسیم ہوجائے گا انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس طرح کی سیاست نہ صرف ملک اتحادبلکہ اس کی ترقی کے لئے بھی انتہائی نقصاندہ ہے امن واتحاداور ہر شہری کی شراکت داری سے ہی اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر آگے لے جایا جاسکتاہے، انہوں نے متنبہ کیا کہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کرنے والے ابھی وقت ہے سنبھل جائیں ورنہ عوام خودانہیں سبق سکھادیں گے۔ دیگرشرکاء میں جناب محمد علی شبیر، جناب حامدمحمد خاں، جسٹس چندراکمار، جسوین کور، پروفیسرکوڈنڈہ رام، وغیرہ شامل تھے۔

Comments