عابد انور
ہمارے پردھان سیوک نے پہلے 22مارچ اور پھر 24مارچ کوقوم سے خطاب کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ پہلے 22مارچ کو صبح سات بجے سے رات کے دس بجے تک اور پھر 24مارچ کو رات بارہ بجے سے 21دن کے لئے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ یہ اعلان بہت پہلے کیا جانا چاہئے تھا گرچہ اس کی نوعیت میں شدت نہیں ہوتی لیکن اس میں تاخیر کی گئی کیوں کہ ان کو مدھیہ پردیش میں کھیل کھیلنا تھا اور اراکین اسمبلی کی خریداری کرنی تھی۔ ہمارے پردھان سیوک ایسے درزی ہیں جو کپڑا کاٹنے کے بعد ناپ لیتے ہیں۔ گاڑی بنانے نہیں آتی لیکن چوں کہ ہاتھ میں پانا ہے اس لئے گاڑی کھول دیتے ہیں۔یہی حال انہوں نے نوٹ کی منسوخی اور جی ایس ٹی کے معاملے میں کیا تھا۔ بغیر اس کے اثرات اور مضمرات کا اندازہ لگائے ہوئے انہوں نے نوٹ کی منسوخی کا اعلان کردیا تھا۔ گرچہ نوٹ کی منسوخی کے دوران اور پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہر علاقے میں پارٹی کیلئے بڑی بڑی زمینیں خرید لی تھیں اور پارٹی خزانہ سے بھر گئی اور اس دوران ڈیڑھ سو سے زائد لوگوں نے بینک کی لائن میں دم توڑ دیا تھا۔غیر منظم سیکٹر جو کہ 94 فیصد روزگار دینے والا سیکٹر ہے نوٹ کی منسوخی سے تباہ ہوگیا تھا۔اس کے بعد رہی سہی کسر جی ایس ٹی نے پوری کردی۔ حکومت نے جی ایس ٹی کو تمام شعبوں میں نافذ کردیا۔ جو سمجھداراور عقل مند حکومت ہوتی ہے وہ کسی بھی چیز کا اطلاق آہستہ آہستہ کرتی ہے اور اس کے اثرات کا جائزہ لیتی ہے اس کے بعد پھر دوسرے شعبے پر اس کو نافذکرتی ہے لیکن ہمارے پردھان سیوک تو نرالے ہیں انہوں نے پہلے ایک ساتھ سب پر اطلاق کردیا اور اس کے بعد چاروں طرف سے پریشانی آنے لگی اور ہاہاکار مچنے لگا تو کچھ شعبوں سے اس کو مستثنی قرار دینا شروع کردیا۔ یہی حال لاک ڈاؤن کا ہوا ہے۔ لاک ڈاؤن کے اثرات سے نمٹنے کے اقدام کئے بغیر لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔ جب کہ کورونا وائرس کا پہلا معاملہ 30جنوری کو پیش آیا تھا۔اس کے بعد چین میں وبا کی شکل اختیار کرگیا لیکن اس بارے میں یہاں بہت کچھ نہیں کیا گیا اور نہ ہی لاک ڈاؤن کے اثرات کے بارے میں کبھی بات کی گئی۔ نہ ہی یومیہ مزدوروں، ہوٹل میں کھانے والوں اور نہ ہی سڑکوں پر رہنے والوں کے بارے میں سوچا گیا۔ جب کہ دہلی میں ہی صرف تعمیرات سیکٹر سے وابستہ دس لاکھ مزدور ہیں۔ تمام مزدوروں کو شامل کرلیں تو 20 سے30لاکھ مزدور ہوں گے۔ پورے ملک میں تعمیراتی سیکٹر سے وابستہ پانچ کروڑ مزدور ہیں۔کھیتی کے بعد سب سے زیادہ روزگار دینے والا سیکٹر ہے۔ حکومت نے اچانک لاک ڈاؤن کردیا جس کی وجہ سے آمد و رفت کے تمام وسائل بند ہیں۔
پہلی بار مرتبہ جب لاک ڈاؤن کیا گیا تھا اس وقت پردھان سیوک کی منشا کو پورا کرنے کے لئے اچانک تمام ٹرینیں (چار ہزار کے قریب) منسوخ کردی گئی تھیں ان کے اندھ بھکتوں نے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لئے تھالی، تالی، ٹین، گھنٹہ بجایا اور اس میں پیلی بھیت ڈی ایم ارو ایس پی بھی شامل ہوگئے اور کورونا وائرس پھیلانے کے سبب بنے۔ اگر اس دن ٹرینیں منسوخ نہیں ہوتیں اور بسوں اور آمد و رفت کے دیگر وسائل جاری رہتے تو بہت سے مزدور یہاں سے چلے جاتے اور لوگوں کو یہاں بھوکا نہیں رہنا پڑتا۔ دوسری مرتبہ جب ہمارے پردھان سیوک نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو پہلے ان تمام مزدوروں، بے سہاروں، سڑکوں پر رہنے والے دیگر لوگوں کے بارے میں انتظام کرنا چاہئے۔ ان کے 21دن کے لاک ڈاؤن کے اعلان کے سبب دہلی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں لاکھوں کی تعداد میں مزدور پھنسے ہوئے ہیں اور دانے دانے کا محتاج ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا سے متحًد ہوکر اور احتیاط کرکے ہی لڑا جاسکتا ہے، سماجی دوریاں ضروری ہیں، جودوسرے ملکوں نے کورونا سے نمٹنے کے لئے کیا ہے لیکن دوسرے ملکوں کا نقل کرنے سے پہلے ہمیں غریبوں، مزدوروں، بے سہاروں اور سڑکوں پر زندگی گزارنے والوں کا انتظام کرنا چاہئے جس طرح دوسرے ملکوں نے کیا ہے۔ دوسرے ملکوں نے اس مد میں کئی بلین ڈاکر مختص کئے ہیں لیکن ہمارے پردھان سیوک اس پر خاموش ہیں۔دوسرے ملکوں میں کورونا کا مفت ٹیسٹ ہے یا معمولی رقم رکھی گئی ہے جب کہ یہاں چار ہزار سے زائد ہے۔ لاک ڈاؤن ہونے کے سبب سارے ڈھابے اور کھانے کے ہوٹل بند ہیں جس کی وجہ سے جن کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے یا کمرے میں کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے وہ لوگ دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں کیوں کہ وہ لوگ ڈھابے اور ہوٹلوں میں کھانا کھاتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے سبب ساری بسیں، ٹرینیں اور دیگر ذرائع آمد و رفت کے بند ہونے کی وجہ سے ہزاروں لوگ ریلوے اسٹیشن،بس اڈوں اور دیگر جگہ پھنسے ہوئے ہیں، ان کے پاس نہ کھانے کوہے اور نہ ہی کوئی سواری مل رہی ہے کہ وہ اپنے گھر چلے جائیں گے۔ ملک میں کروڑوں لوگ یومیہ مزدوری کرتے ہیں اور روزانہ مزدوری کی بنیاد پر ان کے گھر کا چولہا جلتا ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کی زندگی گزارنے کا مسئلہ کھڑا ہوگیا ہے۔ جہاں جہاں حکومت تھوڑا بہت انتظام کیا بھی ہے وہ مزدوروں کی پہنچ سے باہر ہے اور کم ہی لوگ اس کا فائدہ اٹھارہے ہیں، اس کی وجہ معلومات کی کمی ہے دوسرے وجہ ہر علاقے میں دستیاب نہیں ہے۔ دہلی حکومت اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا کہ لاک ڈاؤن کے دوران غریبوں، مزدوروں، بے سہاروں، سڑکوں پر زندگی گزارنے والوں اور ہوٹل ڈھابے بند ہونے کی وجہ سے جن لوگوں کو کھانے پینے کی پریشانیاں پیدا ہوگئی ہیں، ان کے لئے انتظام کرے اور ہر علاقے میں کھانے پینے اور دیگر بنیادی چیزوں کا انتظام کرے۔ انہوں نے کہاکہ اگر ایسا نہیں ہوا تو لوگ کورونا سے تو بچ جائیں گے لیکن بھوک کی وجہ سے لاکھوں لوگ دم توڑ جائیں گے۔
ریاستی حکومت نے مزدوروں کو روپے دینے کا اعلان کیا ہے اس سے مزدوروں کے ایک بڑے طبقے کوکوئی فائدہ نہیں ہوگا کیوں کہ مزدوروں میں سے بہت ہی کم ہیں جن کا رجسٹریشن ہے۔حکومت کو انہی مزدوروں کو پیسے دے گی جو رجسٹرڈ ہوں گے۔ اس کے علاوہ حکومت نے کوئی ایسا فارمولہ وضع نہیں کیا ہے جس سے پتہ چلے گا پیسہ کہاں سے اور کیسے ملے گا۔ کچھ ریاستوں نے کہا ہے کہ وہ پیسے کھاتے میں منتقل کردے گی سوال یہ ہے کہ حکومت کو کیسے پتہ چلے گا کون رکشہ چلانے والا ہے، کون تعمیراتی مزدور، کون خوانچہ لگانے والا ہے۔ اس کا طریقہ کار کیا ہوگا اس کے بارے میں حکومت بالکل خاموش ہے جب کہ اولین فرص میں حکومت کو اس بارے اعلان کرنا چاہئے مزدورں کو پیسے کہاں اور کیسے ملیں گے۔ امید ہے کہ حکومت ان باتوں پر دھیان دے گی اور پریشان حال مزدوروں، طلبہ، سڑکوں پر رہنے والے اور دوسرے لوگوں کی پریشانی کو سمجھے گی اگر ایسا نہیں ہوا تو ہزاروں لوگ بھوک اور پیاس سے تڑپ تڑپ کر مر جائیں گے۔
لاک ڈاؤن ہمارے لئے ایک سبق ہے۔ جب کشمیر میں پانچ اگست 2019کو اچانک مرکزی حکومت نے دفعہ 370کو ختم کرکے لاک ڈاؤن کردیا تھا ہمارے ہندو بھائی جشن منارہے تھے۔ سڑکوں پر ناچ رہے تھے۔ ہندوستان کی اصل آزادی تسلیم کر رہے تھے ایک ہندوستان اب ہوا ہے یہ کہہ رہے تھے۔ جب کہ کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تھا تو انٹرنیٹ سمیت تمام وسائل منقطع کردئے گئے تھے۔صورت حال اتنی بھیانک تھی کشمیری بھائیوں کو اپنے مردوں کو گھروں میں دفن کرنا پڑا، کتنے لوگ بغیر علاج فوت ہوگئے۔ انہیں انسانی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر طرح سے انہیں بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا۔ گھروں کے سامنے بندوق بردار تعینات کردئے گئے تھے جنہوں نے چھوٹے بچوں سمیت خواتین کی بے حرمتی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ کشمیری بھائی کی اذیت کا احساس کریں تو یہ لاک ڈاؤن تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہاں کم از کم انٹرنیٹ خدمات سمیت تمام وسائل موجود ہیں، گاڑیاں بھی چل رہی ہیں۔ صرف باہر جانے کے لئے پریشانی ہے، گھروں میں رہنے کو کہا جارہا ہے اور بنیادی ضروریات کی سپلائی جاری ہے۔ اس پر ہم بہت پریشان ہیں، لاکھوں لوگوں کے بھوکے ہونے کا بحران ہے۔تو تصور کیجئے کہ کشمیریوں نے سات مہینے کیسے برداشت کیا ہوگا۔ اسی بہانے شاید یہاں کے ہندو بھائیوں کو کشمیری کے درد کا احساس ہوگا اور وہ کشمیریوں کی پریشانی،دکھ درد اور اذیت کو سمجھ سکیں گے اور لاک ڈاؤن کے اثرات اور مضمرات کیا ہوتے ہیں اس کو محسوس کرسکیں گے۔
9810372335
Comments
Post a Comment