سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس: کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

عابد انور

Thumb

 (2018میں لکھا گیا مضمون)
سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس کوہندوستانی عدلیہ کی تاریخ میں تاریخی اور بے مثال کہا جارہا ہے۔ یہ سچ بھی ہے اب تک ایسا نہیں ہوا تھا لیکن عدالت میں جو کچھ آزادی کے بعد ہورہا ہے اس پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ کیوں کہ اس کا شکار صرف مسلمان، غریب طبقہ،دلت اور کمزور بن رہے تھے۔ ابھی بھی یہی طبقہ بن رہے ہیں لیکن اس کی آنچ آب ہندؤوں اور بڑے طبقے تک پہنچ رہی ہے۔ عدالت کے وقار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ایک نظریہ کو نافذ کرنے کے لئے عدالت میں مقابلہ آرائی چل رہی ہے۔نچلی عدالت نے مسلمانوں کو جیل میں سڑانے کا ہندوتو کے علمبرداروں سے ٹھیکہ ہی حاصل کرلیا ہے۔ یہاں بعض ہائی کورٹوں کی مسلم دشمنی گاہے بگاہے ابل ابل کر باہر آجاتی ہے لیکن یہاں اس پر توجہ نہیں دی جاتی ہے کیوں کہ مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی غلط ہوجائے اکثریتی طبقہ کے لئے راحت کا باعث ہوتا ہے۔ یہی وجہ اکثریتی طبقہ نے کبھی مسلمان کے قتل عام کو غلط نہیں سمجھا۔ قاتلوں کوں ہیرو بناتے رہے۔ان کو نہ صرف عزت و وقار بخشا بلکہ بھگوان کا درجہ دیا۔ ان کے جرائم کو پورے دل و دماغ سے سراہا۔ان کا اسی طرح استقبال کیا جس طرح کہاوت کے مطابق بھگوان رام کا استقبال کیاگیا تھا۔ اس طرح ان لوگوں میں جرائم کی جڑیں اتنی پیوست ہوگئی ہیں کہ اب یہاں کسی مہذب اور بے قصور انسان کو برداشت نہیں کیا جاتا ہے اور نہ ہی معاشرے میں ان لوگوں کی عزت ہے۔زانی، چوروں، ڈاکوؤں، غنڈوں، لچوں، لفنگوں، گالی گلوچ کرنے والوں کو یہاں کے اکثریتی عوام نے نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیا، آنکھوں پر بٹھایا، پلکوں پر سجایابلکہ حکومت کے تخت پر بھی بٹھایا۔ جس لیڈر کے کھاتے میں جرائم کی تعداد جتنی زیادہ ہوئی وہ اتنا ہی بڑا لیڈر بنا۔اتنا ہی بڑا عہدہ سے نوازا گیا ہے۔قتل و غاری گری مچانے والے، فساد ات برپا کرنے والے، مسلمانوں کے مال و اسباب، مکان و دکان لوٹنے والے اور عزت و قار سے کھیلنے والے کو اکثریتی عوام معاشرے میں سب سے زیادہ عزت حاصل ہے۔ پہلے حکومت تک یا دوسرے شعبوں تک ایسے افراد محدود تھے لیکن اب جمہوریت کے چاروں ستون میں اپنا دبدبہ قائم کرلیا ہے۔چاروں ستون کو اس قدر جکڑ لیا ہے جمہوریت بے جان سی دکھانے دینے لگی ہے۔ کب اس کی روح پرواز کرجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے اسی جمہوریت کو بچانے کی کوشش کی ہے اور اپنا فرض ادا کرنے کے لئے اتنا بڑا جوکھم اٹھایا ہے۔ یہ ان کو بھی معلوم ہے کہ جمہوریت کے دشمن اور ہندوتو کے علمبردار اور اندھ بھکت طرح طرح کے الزامات گڑھ کر کے ان کے اور ان کے خاندان کے کردار کشی کی کوشش کی جائے گی۔ طرح طرح کے اور گھناؤنا کمنٹ کئے جائیں گے۔کیوں کہ اس وقت سچ بولنے اور حق کا ساتھ دینے والوں کی یہی سزا متعین ہے۔ ججوں نے یہ کہہ کر صاف اشارہ کردیا ہے کہ20 برس کے بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے ہم نے اپنا ضمیر گروی رکھ دیا تھا۔ ان کے اس بات یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ عدلت کس قدر خاص ایجنڈا پر کام کر رہا ہے اور ایک خاص سیاسی جماعتوں کی امنگ کی تکمیل کے لئے ہندوستان کے عدالتی نظام کو تباہ و برباد اور اس کی ساکھ کو تہ و بالا کرنے پر آمادہ ہے۔چاروں ججوں کا پریس کانفرنس کرنا اور اس کے ذریعہ عوام کے درمیان آنا اپنے فرض کی ادائیگی کی ایک کوشش ہے۔ ججوں نے یہ کام اس وقت کیا ہے جب پانی سر کے اوپر سے بہنے لگا ہے۔ ان کے پاس کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کا ایک بڑا طبقہ اندھ بھکتی کا شکار ہے۔ اس کے سچ بات کہنا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہے۔گزشتہ ساڑھے تین سالہ واقعات کسی بھی بیدار اور عقل مند قوم کی آنکھ کھولنے، خواب غفلت سے بیدار، بھلا برا سمجھنے، ملک کے وقار کی تفہیم اورملک کی گنگا جمنی تہذیب اور قومی و مشترکہ وراثت کو سمجھنے کے لئے کافی ہوتا ہے لیکن عوام میں مکمل خاموشی چھائی رہی۔ وہ صرف تماشہ دیکھتے رہے اور یہ سوچتے رہے کہ اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نوٹ کی منسوخی کی اکثریتی طبقہ نے اس لئے خیرمقدم کیا کہ وہ یہ سمجھتے رہے کہ اس سے مسلمان پریشان ہوں گے۔ مسلمانوں کے گھر میں رکھا پیسہ برباد ہوجائے گا۔وہ سڑکوں پر آجائیں گے، حوالہ کا پیسہ باہر آجائے گا جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حوالہ کاروبار سے 99فیصد ہندو منسلک ہیں اور سب سے زیادہ پیسہ ہندوؤں کے یہاں ہی آتا ہے۔ مسلمان کا معاملہ تو آٹے میں نمک کے برابر ہے لیکن اندھ بھکت قوم کو کہا جائے جسے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے پڑھا وہ پڑھ لیا۔ وہ اس سے الگ ہٹ کر نہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہے اور نہ ہی پیش آنے والے واقعہ کو پڑھنے کی کوشش کرتی ہے۔ سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جی ایس ٹھاکر کے وزیر اعظم کے سامنے عدالت کی دگرگوں حالت بیان کرتے ہوئے آنسو آگئے تھے لیکن حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ دو ماہ قبل بھی ان چار ججوں نے اپنا درد بیان کیا تھا لیکن کسی کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان  کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ کے چارججوں نے اعلیٰ عدلیہ کے کام کاج کے طریقوں پر سنگین سوالات اٹھائے ہیں اور کہا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہ بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔سپریم کورٹ کے ججوں کے اس قدم سے نریندر مودی حکومت سکتے میں آگئی ہے۔ اس نے پہلے تو اسے عدلیہ کا اندرونی معاملہ بتاکر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گیہ لیکن بعد میں صورت حال کی سنگینی کے مدِنظر خود وزیر اعظم نریندر مودی نے وزیر قانون روی شنکر پرساد کے ساتھ تفصیلی میٹنگ کی۔ ادھر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے بھی ہندوستان کے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال کے ساتھ صلاح و مشورہ کیا ہے۔ہندوستان میں آج اس وقت گویا ایک بہت بڑادھماکا ہوگیا، جب سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جسٹس جستی چاملیشور کے علاوہ جسٹس رنجن گوگوئی، جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوزف نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس طلب کرکے یہ الزام لگایا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے طریقہ کار میں انتظامی ضابطوں پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور چیف جسٹس کے ذریعہ عدالتی بنچوں کو سماعت کے لیے مقدمات من مانے ڈھنگ سے الاٹ کرنے کی وجہ سے عدلیہ کے اعتبار پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں میڈیا سے بات کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔انہوں نے کہا کہ وہ عدلیہ میں بدعنوانیوں کو اجاگر کرنا چاہتے تھے، مگر چیف جسٹس اس ضمن میں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ جب ان ججوں سے پوچھا گیا کہ کیا چیف جسٹس کو ان کے منصب سے برطرف کر دیا جانا چاہیے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ اس کا فیصلہ قوم کو کرنا چاہیے۔
چاروں ججوں نے بیک آواز کہا کہ عدلیہ میں بہت سی ناپسندیدہ باتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے چیف جسٹس دیپک مشرا کے طریقہء کار پر اپنی ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سپریم کورٹ کو نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا،”ہم ملک کو یہ باتیں اس لیے بتارہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی۔“ان ججوں کا مزید کہنا تھا،”ہم نے چیف جسٹس کواپنے خیالات اور جذبات سے آگاہ کرنے کے لیے چار ماہ قبل خط بھی لکھا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ آج تک ان امور کے حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔“ججوں کے مطابق انہوں نے خط میں ایسی کئی مثالیں دی ہیں، جن کے ملک اور عدلیہ پر دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ان ججوں نے الزام عائد کیا کہ چیف جسٹس نے کئی مقدمات کو صرف اپنی ذاتی پسند کی بنیاد پر بنچوں کو الاٹ کیا۔ ججوں کا کہنا تھا کہ عدالت عظمیٰ کی سبکی نہ ہو، اس لیے وہ ان مقدمات کی تفصیل نہیں بتا رہے ہیں۔ ”لیکن یہ بات سمجھنی چاہیے کہ ایسے من مانے ڈھنگ سے کام کرنے سے عدالت کا امیج کسی حد تک خراب ہوا ہے۔“اس حوالے سے ججوں نے سہراب الدین فرضی تصادم معاملے کی تفتیش کرنے والے سی بی آئی کے جج بی ایچ لویا کی پراسرار موت کی ایک جونیئر بنچ کے سپرد کرنے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ اس معاملے میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر امت شاہ کلیدی ملزم ہیں اور وہ اس معاملے میں جیل بھی کاٹ چکے ہیں۔ مقدمے کے جج جسٹس لویا اس معاملے میں فیصلہ سنانے والے تھے لیکن اس سے چند دن قبل ایک شادی میں شرکت کے دوران پراسرار حالت میں ان کی موت ہوگئی تھی۔ ان کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس کیس سے ہٹنے کے لیے کروڑوں روپے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔ پریس کانفرنس سے ذرا پہلے سپریم کورٹ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جسٹس لویا کی پراسرار موت ایک سنگین معاملہ ہے اور عدالت نے مہاراشٹر حکومت سے اس معاملے سے متعلق تمام دستاویزات پیر کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

سپریم کورٹ کے ججوں کے ذریعے عدالت عظمیٰ کے کام کاج پر سوال اٹھائے جانے کو ماہرین قانون نے ہندوستان کی عدلیہ کے لیے افسوس ناک قرار دیتے ہوئے صورت حال کودرست کرنے کے لیے فوری  اقدامات اٹھانے پر زور دیا۔ سنیئر وکیل پرشانت بھوشن نے اس واقعہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہاکہ جج مجبور ہوگئے تھے۔ جب ان کی بات نہیں سنی گئی تو وہ مجبوراَ عوام کے سامنے آئے۔ جمہوریت پسند دانشور، وکلاء، سماجی ماہرین اور دیگر لوگوں نے جمہوریت کو بچانے اور سپریم کورٹ کے وقار کو بحال کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ تمام لوگوں کی نگاہیں سپریم کورٹ پر مرکوز ہوتی ہیں یہاں انصاف حاصل کرنے میں امتیاز کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔ لیکن گزشتہ چند برسوں کے دوران جس طرح کے واقعات پیش آئے ہیں اور سپریم کورٹ کے جس طرح فیصلے سامنے آئے ہیں اس سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ بڑلا اور سہارا گروپ ڈائر کیس میں جس میں اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کو رشوت دینے کی بات کہی گئی ہے، سپریم کورٹ کے جج نے اس درخواست کو ہی خارج کردیا۔ جب ایس آئی ٹی کے ذریعہ اس رشوت معاملے کی جانچ کرانی تھی۔ عدالت عظمی کو اس کی تہہ میں جانا چاہئے اور اگر وزیر اعظم نریندر مودی بے داغ نکلتے تو نہ صرف مسٹر مودی کا وقار بحال ہوتا بلکہ سپریم کورٹ کی معتبریت اور انصاف پسند میں چار چاند لگتا۔ اسی طرح جج لویا کی موت کے معاملے کی مفاد عامہ کی عرضی سپریم کورٹ کے ایسے جج صاحبان کے پاس کے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک خاص نظریہ سے متاثر ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا غصہ اس معاملے کے سلسلے میں بھی تھا۔ جب ایک جج کو سپریم کورٹ سے انصاف نہ مل سکے تو پھر عام لوگوں کا کیا ہوگا۔
سپریم کورٹ کے ججوں کی پریس کانفرنس یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ جب عدالت عظمی میں اس طرح کے واقعات پیش آسکتے ہیں تو ہائی کورٹ اور سب ڈویژنل کورٹ، لورکورٹ، سیشن کورٹ اور ضلع کورٹ میں انصا کے معاملے میں کس طرح کا رویہ اختیار کیا جاتا ہوگا۔اس سے یہ بھی اندازہ لگتا ہے کہ ہندوستانی جیلوں میں مسلمانوں کی اتنی بڑی آبادی کیوں ہے۔ نچلی عدالت کے بارے میں یہاں تک کہا جاتا ہے کہ وہ نہ صرف دباؤ، تعصب، امتیاز اور بھید بھاؤ کے ساتھ کام کرتی ہے بلکہ وہ علاقائی شخصیت کے اشارے پر بھی کام کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجرم ہندو بچ جاتے ہیں اور بے گناہ مسلمان سزا وار ہوتا ہے کیوں کہ ججوں کا تعلق ایک خاص نظریہ سے تعلق ہوتا ہے اور مسلمانوں کو سزا دینا اپناپیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ساری عدالت تعصب کا شکار ہوتی ہے بلکہ بہت سی عدالت اپنا ایماندارانہ فیصلہ کے لئے کسی بھی حدتک جاتی ہے۔امید یہی کی جانی چاہئے اس واقعہ سے عدالت میں شفافیت آئے گی، ایمانداری کا راج ہوگا اور بغیر کسی دباؤ کے عدالت اپنا کام کرے گی-

Comments