دہلی قتل عام کے بعد مجرموں کو بچانے کا سلسلہ

عابد انور

Thumb

دہلی میں قتل عام کے بعد اب کھیل شروع ہوگیا ہے جو ہر فساد کے بعد شروع ہوتا ہے۔ہندوستان دنیا کا واحد ملک ہوگا جو مقتول سے بے گناہی کا ثبوت مانگتا ہے، جس کا گھر جلا ان سے سوال کیا جاتا ہے تم نے اپنا گھر کیوں جلایا، زخمیوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تم نے کیسے زخم لگوائے۔منصف انصاف کرنے کے بجائے مقتول کو ہی قصوروار ٹھہراتا ہے۔پولیس، انتظامیہ، عدالت،قانون سازایوان اور میڈیا مجرموں کے ساتھ آہنی دیوار کی طرح کھڑا ہوجاتا ہے۔ پارلیمنٹ اس پر بحث نہیں ہوتی کہ اتنے بے قصورو کو کیوں ہلاک کیا گیا بلکہ اس بات پر ہوتی کہ تم نے اتنے مارے تھے ہم نے تو کم مارے ہیں۔ مطلب ہم اتنا ہی ماریں گے جتنا تم نے مارا اور ہمارا کوٹا پورا نہیں ہوا ہے اس لئے ہم یہ سلسلہ جاری رکھیں گے۔ پارلیمنٹ میں پولیس کا دفاع کیا جاتا ہے جب کہ درجنو ں ویڈیوز میں پولیس کو فسادیوں کے ساتھ کندھا سے کندھا ملاکر مسلمانوں پر حملہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ پولیس کو پتھر بازی کرتے ہوئے متعدد مناظر کیمرے میں قید ہوئے ہیں۔ پولیس نے گولیاں بھی چلائی ہیں۔ کہا یہاں تک جاتاہے کہ پولیس نے بچنے کے لئے اپنی گولیاں استعمال نہیں کی بلکہ فسادی جو ہتھیار لیکر مسلمانوں کا قتل عام کرنے آئے تھے ان ہی گولیوں کا استعمال کیا تاکہ یہ ثابت نہ ہوسکے کہ پولیس کی گولیوں سے قتل ہوا ہے۔ قاقتل کتنے مشاق اور تربیت یافتہ تھے کہ اونچے مکانوں پر سیڑھیوں کے بغیر کیسے چڑھا جاتا ہے سب معلوم تھاا ور انہوں نے رسیوں کا استعمال کرکے کا اونچے مکانات پر چڑھے اور مسلمانوں کو نشانہ بنایا،غلیل اور کمند سے بڑے بڑے پتھر پھینکے تاکہ کوئی اس سے بچنے نہ پائے اور جس کو لگے وہ دم توڑ دے۔مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں، فیکٹریوں اور دیگر چیزوں کوچن چن کر نشانہ بنایا۔یہ بغیر رہنمائی اور نشاندہی کے ممکن نہیں تھا۔ وزیر داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ میں بتایا کہ باہر سے 300 سے شرپسند آئے تھے، ملک کے وزیر داخلہ ہیں، گنتی ان کو معلوم ہے تو یہ بھی پتہ ہوگا کہ کون کون لوگ تھے۔ کن لوگوں نے ان کو بھیجا تھا، شاہین باغ اور دیگر پرامن مظاہرے کی فکر ہے کہ فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے لیکن ان قاتلو ں کی کس نے فنڈنگ کی تھی، کس نے تیس تیس ہزار روپے دیکر لایا تھا۔یہ تو وزیر داخلہ کو پتہ ہی ہوگا۔ وہ ان لوگوں کا نام کیوں نہیں لیتے۔ ہندی کے اخبار میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس میں ضلع باغپت کی تحصیل کھیکڑہ کے رٹول گاؤں سے جو گوجر اکثریتی گاؤں ہے،  45 نوجوان  30ہزار روپے فی شخص لے جائے گئے تھے لیکن ان میں سے 30ہی واپس آئے ہیں اور تین کی لاش آئی ہے جب کہ 12لاپتہ بتائے جارہے ہیں۔ آزادذرائع اور عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ کم از کم دو ہزار اترپردیش سے لائے گئے تھے اور ان کو مختلف اسکولوں میں ٹھہرایا گیا تھا۔ راجدھانی اسکول پر ان لوگوں نے قبضہ کرلیا تھا جہاں وہ دو دن تک رہے اور اسکول کو تباہ کردیا۔ ان لوگوں کو کون لایا، کس نے ٹھہرایا تھا، کس نے کھانا پانی فراہم کیا، کس نے رہنمائی کی تھی، کو پکڑنے کے بجائے اسکول کے مسلم مالک کو فوراَ گرفتار کرکے جیل بھیج دیا۔ اس کے برعکس موہن نرسنگھ ہوم سے فسادیوں نے مسلمانوں پر پتھر اور جدید ترین ہتھیار سے حملہ کیا تھا جس کے متعدد ویڈیوز پلک ڈومین میں ہے، اس کے مالک کو جو کہ ہندو ہے گرفتار نہیں کیاگیا اور نہ ہی اس سے پوچھ گچھ کی گئی ان کے نرسنگ ہوم میں گھسنے والے کون لوگ تھے۔ ان چہرے ویڈیو میں صاف نظر آرہے ہیں لیکن پولیس کو ان لوگوں کی گرفتاری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ایک خبر یہ بھی آرہی ہے کہ انٹلی جنس بیورو نے دہلی پولیس کی کرتوت پر وزارت داخلہ کو رپورٹ دی ہے جس میں پولیس کے ملوث ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ اس پر پولیس اور آئی بی میں ٹھن گئی ہے اور پولیس کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ اگر اس رپورٹ پر کارروائی ہوئی تو وہ بتادیں گے وزارت داخلہ کے کن کن لوگوں کے اشارے پر پولیس نے فسادیوں کا ساتھ دیا اور خاموش تماشائی بنی رہی۔ 

دہلی میں اتنا بڑا قتل عام جب کہ اس وقت امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ جیسی شخصیت یہاں موجود تھی، حکومت کے اشار ے کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ دہلی فساد کو قتل عام کہا جانا چاہئے کیوں کہ اقوام متحدہ ہر اس سانحے کو قتل عام قرار دیتی ہے جس میں پچاس (50)سے زائد لوگوں کی جانیں گئی ہوں۔ دہلی فساد میں سرکاری طور پر53 سے زائد افراد کا قتل ہوا ہے جب کہ غیر سرکاری تعداد سو س ے زائد ہے کیوں کہ ابھی درجنوں لوگ لاپتہ ہیں۔ وہ کھیل شروع ہوگیا جس کا خدشہ ہمیشہ فساد کے بعد ہوتا ہے۔ میڈیا میں ایسی خبریں آرہی ہیں کہ جن لوگوں کے دکانیں،مکان اور دیگر چیزیں جلائی گئی ہیں یا فساد میں کسی کا قتل کیا گیا ہے، پولیس والے نامزد ایف آئی آر نہیں لکھ رہے ہیں اور متاثرین پر دباؤ ڈالا جارہاہے کہ وہ نامعلوم لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائیں۔(واضح رہے کہ کسی بھی معاوضہ کے لئے ایف آئی آر کی کاپی کی ضرورت ہوتی ہے)اس رویے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی پولیس کا رویہ کیسا ہے اور دہلی پولیس کا رویہ خاطیوں کو بچانے والا جیسا ہے۔ مدد کررہے ہیں ان پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے کی بات سامنے آرہی ہے۔ 

لوک سبھا میں دہلی قتل عام پر گرما گرم بحث ہوئی جس میں میں اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے الزام لگایا ہے کہ حکومت نے وقت رہتے اقدام نہ کرنے اور وزارت داخلہ کی لاپرائی کی وجہ سے دہلی میں تشدد کے واقعات ہوئے اس لئے وزیر داخلہ امت شاہ کو ان فسادات کی ذمہ دار لیتے ہوئے فورا استعفی دے دینا چاہئے۔ دہلی میں تشدد بھڑکانے والی تقریروں کی وجہ سے ہواہے، اس لئے مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر پرویش ورما جیسے لوگوں کے خلاف فورا ایف آئی آر درج کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ حکومت چاہتی تودہلی میں تین دن تک ہوئے تشدد کو روکا جاسکتا تھا۔دہلی پولس ان تشدد سے نمٹنے میں اہل تھی لیکن وہ حکومت کے اشارے پر کام کررہی تھی۔ حکومت چاہتی تو اردگرد کے ریاستوں سے پولس فورس بلاکر ان فسادات کو روک سکتی تھی لیکن تین دن تک ہوئے تشدد کو روکنے کے لئے حکومتی سطح پر کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ حکومت نے عدلیہ کوبھی نہیں بخشا اور ان فسادات کے سلسلے میں سخت تنقید کرنے والے جج کو آدھی رات میں تبادلہ کردیا گیا۔ ان فسادات کے سلسلے میں حکومت کا اپنے لیڈروں کو بچانے کے لئے یہ عدالت پر آدھی رات کی گئی  ’سرجیکل اسٹرائک‘ تھی۔ ان فسادات میں 53 لوگوں کی جان گئی ہے اور 102 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ اس دوران 25000 کروڑ روپے کی جائیدادوں کا نقصان ہوا ہے۔ دہلی پولس میں قابلیت ہے، لیکن فسادات کے دوران وہ غیر فعال بنی رہی۔ دو دن میں پولس کنٹرول روم کو 13000 کال پہنچی لیکن کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ بی جے پی کی میناکشی لیکھی نے کہا کہ یہ تشدد سوچی سمجھی سازش تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں کی چھتوں پر اینٹ پتھر اکٹھے کئے گئے تھے اور غلیل کے ذریعہ سے دوسری برادری کے لوگوں پر پتھربرسائے جارہے تھے اور ان کے گھروں کو غلیل سے پٹرول بم پھینک کر جلایا جارہا تھا۔ دہلی تشدد کے دوران انکت شرما کو جس طرح قتل کیا گیا ہے وہ دردناک ہے۔ ان کے جسم پر چاقو کے 400 نشان تھے۔ اس طرح کی حرکت صرف انتہاپسند ہی کرسکتے ہیں۔ جب کہ پوسٹ مارٹم بتارہی ہے کہ انکت شرما کے 51زخم تھے، ان کے بھائی نے نیویارک ٹائمس کو ٹیلی فونک انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کو مارنے والے جے شری رام کا نعرہ لگارہے تھے، جے شری رام کا نعرہ کون لگاتا ہے یہ سب کو معلوم ہے۔بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ وہ فسادیوں میں شامل تھا۔ یہ تحقیق سے پتہ چل سکتا ہے لیکن تحقیق کون کرے گا جب منصف اور محافظ ہی قاتل کے صف میں کھڑے ہیں۔ محترمہ مینا کشی لیکھی نے پارلیمنٹ جھوٹ کیوں بولا اس کا مقصد ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد پر آمادہ کرنے کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے جو بی جے پی کا ابتداء سے ہی ایجنڈہ رہا ہے۔ 

 ترنمول کانگریس نے دہلی کے شمال مشرقی علاقوں میں ہوئے تشدد کو ’منصوبہ بند قتل عام‘ قرار دیتے ہوئے اسے روکنے میں مرکزی حکومت کی ناکامی کو لیکر لوک سبھا میں بدھ کو وزیر داخلہ امیت شاہ کے استعفی کا مطالبہ کیا۔ مسٹر شاہ جب وزارت داخلہ سے 10۔20 کلومیٹر کی دوری پر واقع فسادات سے نمٹنے میں ناکام رہتے ہیں تو انہیں وزیر داخلہ کے عہدہ پررہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔جب دہلی جل رہی تھی تب مسٹر شاہ کیا کررہے تھے؟  عام آدمی پارٹی (آپ) کے بھگوت مان نے دہلی میں گزشتہ دنوں ہونے والے فساد کے لئے مرکزی حکومت کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے بدھ کو لوک سبھا میں الزام لگایا کہ یہ مکمل طور منصوبہ بند تھا۔ تشدد میں استعمال شدہ تمام پتھر کا ایک ہی رنگ کے تھے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ اسپانسر فساد‘ تھا۔ اس کے لئے باہر سے شرارت پسندوں کو لایا گیا، ان کو ایک اسکول میں ٹھہرایا گیا اور رات کو انہوں نے پرتشدد واقعات کو انجام دیا۔، ”ان کے پاس گجرات کا تجربہ ہے“۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (ا ے آئی اے ایم ایم) کے اسد الدین اویسی نے وزیراعظم نریندر مودی پر ملک کے مسلمانوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہنے کا الزام لگاتے ہوئے دہلی فسادات کی عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا۔ ”جب دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات میں لوگوں کو مارا جارہا تھا اس وقت مسٹر مودی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کا خیر مقدم کررہے تھے جہاں بحریہ کا بینڈ ’کین  یو فیل دی لو ٹونائٹ‘ کی دھن بجائی جارہی تھی۔وزیراعظم ملک کے مسلمانوں کی زندگی بچانے کی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہے۔“مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی کو دہلی فسادات کے لئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین کے مطابق دہلی میں قانون وانصرام قائم رکھنا ان کی ذمہ داری ہے۔آپ بالکل شرمندہ نہیں ہیں۔ مشرقی دہلی کے نالوں میں پڑی لاشوں پر آپ فخر محسوس کررہے ہیں۔ کیا آپ کی اندر ذرا بھی انسانیت نہیں ہے۔“ فسادات میں مارے گئے انکت کے جان کی قیمت فیضان کے جان سے زیادہ نہیں ہوسکتی۔ 
راجیہ سبھا میں آج اپوزیشن کانگریس کے لیڈرکپِل سبل الزام لگایا کہ دہلی میں گزشتہ دنوں ہوئے تشدد کے دوران پولیس اپنی ذمہ داری انجام دینے میں ناکام رہی اور حکومت کو اب لوگوں کو انصاف دینے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانا چاہیے۔ دہلی پولیس تشدد بھڑکانے والوں کا ساتھ دے رہی تھی اور ثبوت کوضائع کرنے کے لئے سی سی ٹی وی کیمرے کو توڑا جارہا تھا۔  دہلی کے کچھ علاقوں میں 24 فروری کو دفعہ 144 نافذ کی گئی تھی لیکن پولیس نے کارروائی نہیں کی۔ اشتعال انگیز تقریروں کے بعد تشدد کے واقعات  رونما ہوئے جن میں 53 افراد مارے گئے۔ ان میں سے 32 ایک  فرقے  کے اور 12 ایک دیگر فرقے کے ہیں۔  اشتعال انگیز تقریر کرنے پر تین سال کی سزا کا التزام ہے لیکن ایسی تقریر کرنے والے لوگوں کے خلاف معاملے درج نہیں کئے گئے۔ فسادات کی جانچ کے لئے خصوصی تفتیشی  ٹیم تشکیل  دی گئی ہے لیکن انھیں شبہ ہے کہ بے  قصور لوگوں کو ملزم بنایا جائے گا اور فسادیوں کو بچایا جائے گا۔ پہلے لوگوں کے گھروں میں لوٹ پاٹ کی گئی اور بعد میں گھروں کو نذرآتش کردیا گیا۔  اس دوران ایک  85 سالہ ضعیفہ کو جلایا گیا اور 22 سالہ نوجوان کو قتل کیا گیا۔ عدالت نے جب پولیس سے اشتعال انگیز تقریروں  کے بارے میں پوچھا تو پولیس نے کہا کہ اسے اس کا علم نہیں ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے ایک میٹنگ میں کہا کہ قانون پارلیمنٹ بناتی ہے، پولیس اسے نافذ کرتی ہے اور جب یہ نافذ نہیں ہوتا ہے تو یہ جمہوریت پر دھبے کی طرح ہے۔ مسٹر ڈوبھال کا اشارہ کس کی طرف تھا۔ تشدد کا یہ 'وائرس' نوجوانوں کے دل میں بیٹھ گیا تو جمہوریت باقی نہیں رہے گی۔
 نیویارک ٹائمس نے جمعرات کو شائع اپنی رپورٹ میں دعوی کیا ہے کہ راست طور پر مسلمانوں کے خلاف فساد میں ملوث ہونے یا فسادیوں کی مدد کرنے یا خاموش تماشائی دکھائی دیتی نطر آ تی ہے۔ اخبار کے کئی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ متعدد واقعات میں پولیس مسلمانوں کو مارنے میں ملوث ہوگئی تھی اور مسلمانوں پر حملہ کرنے والی بھیڑ کا ساتھ دے رہی تھی۔ قتل عام کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ دہلی میں گرفتار ہونے والے ڈھائی ہزار میں سے بیشتر کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ حکومت کی منشا پہلے فساد میں قتل کرنے کی تھی اور جو بچ جائیں انہیں گرفتار کرلیا جائے۔ اب یہ کام زور و شور سے جاری ہے۔ مسلم نوجوانوں کو سی اے اے کے خلاف بولنے کے جرم میں گرفتار کیا جارہاہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی قانون کے خلاف احتجاج کرنے کا حق آئین دیتا ہے اور سپریم کورٹ نے بھی شاہین باغ معاملے میں واضح طور پر کہا ہے کہ مظاہرہ کرنا آپ کا حق ہے۔اس سے کوئی روک نہیں سکتا۔ تو پھر قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف بولنا جرم کیسے ہوگیا ہے جو اس وقت مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ دہلی پولیس نے دعوی کیا ہے کہ گرفتار شدہ مسلم نوجوان سی اے اے کے خلاف اکسارہے تھے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری مسلم تنظیمیں جمع ہوکر اس کے خلاف احتجاج کریں اور دنیا کو بتائیں کس طرح بے قصور مسلمانوں کو پولیس گرفتار کر رہی ہے اس کے برعکس مسلمانوں کے قاتلوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ طاہر حسین اور اس کے خاندان یہاں تک کے ان ورکروں کو گرفتار کیاگیا ہے جب کہ وہ طاہر حسین مدد کے لئے پولیس سے مدد کی اپیل کرتا رہا۔ حکومت اس سے کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ تیس سے زائد مسلمان جو مرے ہیں کیا انہوں نے خود کو جلایا، قتل کیا، خود ہی اپنے ٹکرے ٹکڑے کرلئے۔خاموش رہنے کا وقت نہیں بولنے کا ہے خواہ آپ کو جو بھی زبان آتی ہو۔

Comments