پولیس کا کام شرپسندوں سے لوگوں کی حفاظت کرنا ہے۔ ڈاکٹر ارچنا

عابد انورThumb


نئی دہلی، یکم  مارچ (عابد انور) قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف شاہین باغ خاتون مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے معروف ٹریڈ یونین لیڈر ڈاکٹر ارچنا نے کہا کہ کسی بھی شرپسند عناصر سے نمٹنا پولیس کا کام ہے اور شاہین باغ مظاہرین کو کسی دھمکی سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
انہوں نے دفعہ 144 کے نفاذ پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ٹیکس کے پیسے سے پولیس والوں کو سیلری اس لئے دی جاتی ہے تاکہ وہ شرپسندوں اور سماج دشمن عناصر سے لوگوں کی حفاظت کرسکیں۔ انہوں نے کہاکہ ہندو سینا کو روکنا پولیس اور انتظامیہ کا کام ہے اور اس سے گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے شاہین باغ خاتون مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ دہلی کی مزدور تنظیمیں آپ کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چلنے کے لئے تیار ہیں۔

مظاہرین میں شامل سماجی کارکن سیما نے الزام لگایا کہ ملک میں نفرت کی تجارت کو بہت فروغ حاصل ہوا ہے اور یہ لوگ کچھ بھی کرلیں ان کا کچھ نہیں بگڑتا۔ انہوں نے مبینہ اشتعال انگیز بیان بازی کرنے والے  کپل مشرا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دعوی کیا کہ نفرت اوڑھو، نفرت بھڑکاؤ، نفرت کھاؤ، نفرت پیو، نفرت پھیلاؤواور پھر بھارت ماتا کی جے بول دو سارے گناہ اپنے آپ دھل جائیں گے اور پولیس بھی کوئی کارروائی نہیں کرے گی۔ انہوں نے عدالت کی صورت حال کے بارے میں کہاکہ جب نفرت پر لگام لگانے کی کوشش کرنے والے جج کا تبادلہ کردیا جاتا ہے تو نفرت پھیلانے والوں کو سزا کون دے اور کون اس پر لگام لگائے گا۔ انہوں نے کہاکہ یہ ملک محبت کرنے والوں کا ملک ہے اور یہاں نفرت کرنے والی شکست ہوگی۔ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے نفرت کی مہم کے بدلے محبت کا پیغام دیا ہے۔ گنگا جمنی تہذیب کی جیتی جاگتی مثال بن کر شاہین باغ سامنے آیا ہے۔ اس لئے شاہین باغ کے خلاف نفرت کرنے والوں یا اسے ہٹانے والوں کی مہم پر ہماری کامیاب ہوگی اورہم نے پورے ملک میں پیغام دیا ہے کہ کس طرح پرامن طریقے سے اتنے طویل عرصے تک مظاہرہ کیا ہے۔
ایک دیگر خاتون مظاہرین گل بانو نے میڈیا کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کام سچائی دکھانا ہے نہ کہ کسی کے خلاف مہم چلانا۔ انہوں نے دہلی کی حالت کی اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ امید ہے کہ اب میڈیا سچائی دکھائے گا۔ ساتھ ہی انہوں نے میڈیا سے یہ بھی کہاکہ میڈیا یہ بھی دکھائے گا کہ ہم یہاں کس مقصد کے لئے یہاں بیٹھی ہیں اور اس کو سمجھیں اور لوگوں کو سمجھائیں۔
محترمہ فاطمہ نے کہاکہ دفعہ 144لگانا اتنا اہم نہیں ہے جتنا اس کا مقصد ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ سب کچھ پولیس کی منشا پر انحصار کرتا ہے کہ شرپسندوں کو روکنے کے لئے لگایا ہے یا مظاہرین کو ڈرانے دھمکانے کے لئے۔ ساتھ ہی انہوں نے مظاہرہ گاہ میں پولیس کے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے جانے پر دعوی کیا کہ اس پولیس پر کیسے بھروسہ کیا جائے جو خوریجی میں خود ہی سی سی ٹی وی کیمرے توڑتے ہوئے دکھائی دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون  کے خلاف شاہین باغ میں جاری مظاہرہ کے نزدیک دو گروپوں کے درمیان تصادم سے بچنے کے لئے اتوار کو اس علاقے میں دفعہ 144 کا نفاذ کردیاگیا۔ہندو سینا نے یکم مارچ کو شاہین باغ سڑک خالی کرانے کی دھمکی دی تہی حالانکہ پولس کے مداخلت کے بعد انہوں نے شاہین باغ میں سی اے اے کے خلاف تحریک کے خلاف اپنا مجوزہ مظاہرہ واپس لے لیا تھالیکن پولس نے احتیاطا بڑی تعداد میں پولس فورس کو تعینات کردیا ہے۔ایک پولس افسر نیبتایا کہ کسی قسم کی ناخوشگوار واقعہ سے بچنے کے لئے پولس فورس کو تعینات کیا گیا ہے۔ 
سماجی کارکن ملکہ خاں نے خوریجی مظاہرہ کو مبینہ طور پر طاقت کے استعمال سے ختم کرنے اور مظاہرین میں ایڈووکیٹ عشرت جہاں اور دیگر کودفعہ 307 اور فساد بھڑکانے کے دفعات پر گرفتار کرکے جیل بھیجنے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ احتجاج کرنے کا حق ہیں دستور نے دیا ہے۔ یہ کسی حکومت کا تحفہ نہیں ہے یا بھیک نہیں ہے کہ جب چاہے دینے سے انکار کردے۔ انہوں نے اس قدم کو جمہوریت کو کچلنے والا قدم قرار دیتے ہوئے کہاکہ کوئی بھی جمہوریت اسی وقت اچھی ہوتی ہے جب وہاں احتجاج و مظاہرہ کرنے کی آزادی ہو۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں خوریجی میں پولیس نے مبینہ طور پر طاقت کا استعمال کرکے مظاہرین کو ہٹادیا تھا اور مظاہرین کا انتظام وانصرام سنبھالنے والی سابق کونسلر ایڈووکیٹ عشرت سمیت پانچ لوگوں کو جہاں پولیس نے پہلے حراست میں اور پھر 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔ویڈیو فوٹیج میں مبینہ طور پر پولیس کو وہاں بنائے گئے انڈیا گیٹ کو توڑتے اور ٹینٹ کوپھاڑتے اور اکھاڑتے دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے۔دہلی میں تشدد کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مظاہرین نے سخت افسوس کااظہار کرتے ہوئے پولیس کے رویے کی مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی متعدد جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جاری ہے۔ تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کو وہاں سے بھگادیاتھا۔
اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر، ترکمان گیٹ،بلی ماران، لال کنواں، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، بیری والا باغ، نظام الدین،جامع مسجدسمیت دیگر جگہ پر مظاہرے ہورہے ہیں۔اس کے علاوہ چننئی میں سی اے اے کے خلاف مظاہر ہ جاری ہے۔مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک،،کھجوری، جعفرآباد، موج پور، نو رالہی کالونی، چاند باغ، مصطفی آباد اور جمنار پار کے دیگر علاقوں میں تازہ فساد کی وجہ سے مظاہرہ بند ہے۔ جب کہ سیلم پور میں خواتین نے دوبارہ مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ 

راجستھان کے امروکا باغ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف جاری مظاہرہ جاری ہے۔ اس قانون کے تئیں لوگوں میں بیداری پیدا ہورہی ہے۔ نوجوانوں کی ٹولی ان لوگوں کو گھروں میں جاکر اس قانون کے بارے میں بیدار کر ررہی ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور’اودن پور اور دیگر مقامات پر،اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں۔وہاں خواتین نے عزم کے ساتھ کہاکہ ہم اس وقت تک بیٹھیں گے جب تک حکومت اس سیاہ قانون کو واپس نہیں لیتی۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال،اجین، دیواس، مندسور، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹادیا جاتا ہے۔ وہاں 19دسمبر کے مظاہرہ کے دوران 22لوگوں کی ہلاکت ہوچکی ہے۔ خواتین گھنٹہ گھر میں مظاہرہ کر رہی ہیں ا ور ہزاروں کی تعداد میں خواتین نے اپنی موجودگی درج کروارہی ہیں۔ یہاں پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھااب ہزاروں میں ہیں۔خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا اور اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ،سہارنپور، مبارک پور اعظم گڑھ،اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
شاہین باغ دہلی کے بعد سب سے زیادہ مظاہرے بہار میں ہورہے ہیں اور وہاں دلت، قبائلی سمیت ہندوؤں کی بڑی تعداد مظاہرے اور احتجاج میں شامل ہورہی ہے۔ ارریہ فاربس گنج کے دربھنگیہ ٹولہ عالم ٹولہ، جوگبنی میں خواتین مسلسل دھرنا دے رہی ہیں ایک دن کے لئے جگہ جگہ خواتین جمع ہوکر مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ مردوں کا مظاہرہ بھی مسلسل ہورہا ہے۔ کبیر پور بھاگلپور۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اس طرح یہ ملک کا تیسرا شاہین باغ ہے، دوسرا شاہین باغ خوریجی ہے۔سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کھکڑیا کے مشکی پور میں، نرکٹیا گنج، مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی میں ململ اور دیگر جگہ، ارریہ کے مولوی ٹولہ،سیوان، چھپرہ، کھگڑیا میں مشکی پور،بہار شریف، جہاں آباد،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، مغربی چمپارن، بیتیا، سمستی پور، تاج پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی اور متعدد جگہ، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرے ہو ہے ہیں۔ بہار کے ہی ضلع سہرسہ کے سمری بختیارپورسب ڈویزن کے رانی باغ میں خواتین کا بڑا مظاہرہ ہورہا ہے۔
دہلی میں شاہین باغ،، جامعہ ملیہ اسلامیہ،حضرت نظام الدین، قریش نگر عیدگاہ، اندر لوک،سیلم پور فروٹ مارکیٹ،جامع مسجد،،ترکمان گیٹ،،ترکمان گیٹ، بلی ماران، بیری والا باغ، وغیرہ،رانی باغ سمری بختیارپورضلع سہرسہ بہار،سبزی باغ پٹنہ،، ہارون نگر،پٹنہ’شانتی باغ گیا بہار، مظفرپور، ارریہ سیمانچل بہار،بیگوسرائے بہار،پکڑی برواں نوادہ بہار،مزار چوک،چوڑی پٹی کشن گنج‘ بہار،مگلا کھار‘ انصارنگر نوادہ بہار،مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، دربھنگہ میں تین جگہ، مدھوبنی،سیتامڑھی، سمستی پور‘ تاج پور، سیوان،گوپال گنج،کلکٹریٹ بتیا‘ہردیا چوک دیوراج، نرکٹیاگنج، رکسول، کبیر نگر بھاگلپور، رفیع گنج، مہارشٹر میں دھولیہ، ناندیڑ، ہنگولی،پرمانی، آکولہ، سلوڑ، پوسد،کونڈوا،۔پونہ،ستیہ نند ہاسپٹل، مالیگاؤں‘ جلگاؤں، نانڈیڑ، پونے، شولاپور، اور ممبئی میں مختلف مقامات، مغربی بنگال میں پارک سرکس کلکتہ‘ مٹیا برج، فیل خانہ، قاضی نذرل باغ، اسلام پور، مرشدآباد، مالدہ، شمالی دیناجپور، بیربھوم، داراجلنگ، پرولیا۔ علی پور دوار،اسلامیہ میدان الہ آبادیوپی،روشن باغ منصور علی پارک الہ آباد یوپی۔محمد علی پارک چمن گنج کانپوریوپی، گھنٹہ گھر لکھنو یوپی، البرٹ ہال رام نیواس باغ جئے پور راجستھان،کوٹہ، اودے پور، جودھپور، راجستھان،اقبال میدان بھوپال مدھیہ پردیش، جامع مسجد گراونڈ اندور،مانک باغ، امروکا،پراکی، اندور، اجین،دیواس، کھنڈوہ،مندسور، گجرات کے بڑودہ، احمد آباد، جوہاپورہ، بنگلورمیں بلال باغ، منگلور، شاہ گارڈن، میسور، پیربنگالی گرؤنڈ، یادگیر کرناٹک، آسام کے گوہاٹی، تین سکھیا۔ ڈبرو گڑھ، آمن گاؤں کامروپ۔ کریم گنج، تلنگانہ میں حیدرآباد، نظام آباد‘ عادل آباد۔ آصف آباد، شمس آباد، وقارآباد، محبوب آباد، محبوب نگر، کریم نگر، آندھرا پردیش میں وشاکھا پٹنم‘ اننت پور،سریکاکولم‘ کیرالہ میں کالی کٹ، ایرناکولم، اویڈوکی،، ہریانہ کے میوات اور یمنانگرفتح آباد،فریدآباد،جارکھنڈ کے رانچی، کڈرو،لوہر دگا،  بوکارو اسٹیل سٹی، دھنباد کے واسع پور، گریڈیہہ،جمشید پور وغیرہ میں بھی خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر علاقوں سے بھی مظاہرہ کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔

Comments