عابد انور
اگست 2019 کالکھا گیا مضمون ہے جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا گیا
جموں و کشمیر تشکیل نو اور دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کا خاتمہ جہاں ہزاروں برسوں کی ہندوؤں کی دیرینہ خواہش کی تسکین ہے وہیں یہ ٹسٹ بھی تھا اکثریت ہندوؤں میں آر ایس ایس نے جو زہر 1925میں بونا شروع کیا تھا وہ پھلدار اور تناور درخت کی شکل میں وجود میں آگیا ہے اوربیشتر ہندوؤں کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں نفرت بیٹھ گئی ہے۔ ہندوؤں کی اکثریت اب ہر معاملے کو ہندو اور مسلمان کے نظریے سوچتی ہے اس کا اظہار ہر موقع پر ہوتا ہے خواہ الیکشن کا موقع ہو یا فساد کا یا کسی اور معاملے کا۔ ملک کا اکثریتی طبقہ جموں و کشمیر کی تشکیل نو اور دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کو کسی ملک کو فتح کرنے کے نظریے سے دیکھتا ہے۔ اسی لئے متعدد ہندی کے اخبارات نے’جموں و کشمیر فتح‘ کی سرخی لگائی۔ہندی چینل، ہندی اخبارات اور یہاں تک کے یہاں کا قومی میڈیا بھی اس نظریے کے ارد گرد سرخی لگائی۔ ملک کا اکثریتی طبقہ کشمیر کو کس نظریے سے دیکھتا ہے وہ سامنے آگیا ہے اور اس کی ذہنیت سامنے آگئی اور اس کے دماغ میں بھری گندی اور زہر بھی سامنے آگیا ہے۔بیڑی سگریٹ مانگ کر پینے والا بھی کشمیر میں پلاٹ خریدنے کی اور وہاں کی لڑکیوں سے شادی کی بات کرنے لگا۔ وہاں کی لڑکیوں پر قبضہ کرنے کی بات کہنے لگا۔ایسی بات ملک فتح کرنے پر اس دور کی جاتی تھی جب تاریکی کا دور تھا، مہذب سماج نہیں تھا، تعلیم یافتہ معاشرہ نہیں تھا، ملک فتح کرنا، علاقوں پر قبضہ کرنا ہی بہادری،شان سمجھی جاتی تھی لیکن اس دور یہ اب یہ تصور نہیں ہے اور کوئی معاملہ صرف ملک کا معاملہ نہیں رہ جاتا ہے بلکہ بین الاقوامی معاملات کے حل کے لئے اقوام متحدہ ہے اور بین الاقوامی عدالت ہے، دیگر معاملات کے لئے درجنوں بین الاقوامی تنظیمیں ہیں جن پر ہندوستان سمیت بیشتر ممالک نے دستخط کئے ہیں اور سب ان معاہدات اور قرارداد کا احترام کرنا ہوتا ہے مگر ہندوستان میں ایک بڑا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جس کی سوچ آمرانہ ہے وہ مسلمانوں کے حسن سلوک اور رحم کے معاملے کو بھول چکے ہیں اگر مسلمانوں نے بھی اپنی حکمرانی کے دوران اسی طرح کا رویہ رکھتے تو وہ اقلیت میں ہوتے مگر مسلمانوں نے ہمیشہ اس کے ساتھ فراخ دلی، دوستانہ اور محبانہ سلوک کیا۔ آج جو طبقہ برسراقتدار ہے تو وہ مسلم لڑکیوں اور خواتین کی آبروریزی کو فتح سمجھتا ہے اور اس طبقہ نے ہندوستان میں ہونے والے فسادات، خاص طور پر گجرات قتل عام اور مظفر نگر فسادات کے دوران سیکڑوں مسلم خواتین کی آبروریزی کی تھی اور آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ مطلب صاف ہے کہ جمہوریت کے چار ستونوں نے مسلم خواتین کی آبروریزی کو مباح سمجھ لیا ہے اسی لئے جمہوریت کے ان ستونوں کبھی مسلمانوں کے ساتھ انصاف کرنے میں کبھی فراخ دلی کا مظاہرہ نہیں کیا جس کی وجہ سے اکثریتی طبقہ کے افراد کی سوچ میں مسلمانوں کے خلاف جرائم کرنے کا جذبہ ابھرنے لگا۔ جموں و کشمیر کی تشکیل نو اور دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کے بعد اب اسی سوچ کا کھلے عام مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ اگر اسی طرح کا پوسٹ کسی مسلم لڑکے نے ہندو لڑکی کے لئے لکھا ہوتا تواب تک وہ اور اس کا خاندان جیل کی اذیت برداشت کر رہا ہوتا۔ تکثیری جمہوریت ہے اس لئے یہ سب چلتا ہے اور چلتا رہے گا۔یہاں جمہوریت کا مطلب صرف ہندؤں کی حکمرانی ہے۔
جموں و کشمیر کی تشکیل نو اور دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کے خاتمے کا بل راجیہ سبھا میں پانچ اگست کو اور لوک سبھا میں چھ اگست کو شام میں منظور ہوگیا اور صدر نے اگلے دن صبح اس پر دستخط بھی کردئے۔ شاید ہندوستانی تاریخ کا پہلا بل ہوگا جس پر اتنی جلد دستخط کیا گیا۔ اس کو جس طرح آناً فاناً پیش کیا گیا اور منظور کروایا گیا، غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا گیا، اراکین پارلیمنٹ کی خریدو فروخت ہوئی۔ یہ ہندوستانی آئین کا قتل ہے۔ منوسمرتی پر ایقان رکھنے والوں سے اور توقع بھی کیا جاسکتی ہے۔ لوک سبھا میں منگل 6اگست کو بل پر بحث کے دوران ڈراوڑ منیترکڑگم کے ٹی آر بالو نے بل لانے کے عمل پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کو دونوں ایوانوں میں پہلے متعلقہ قرارداد کو منظوررکرانے اور اس پر صدر کے دستخط کے بعد ہی بل لانا چاہئے تھا۔ اس وقت ریاست میں کوئی منتخب حکومت نہیں ہے۔ حکومت کو لوک سبھا انتخابات کے ساتھ ساتھ ریاستی اسمبلی کا بھی انتخاب کرنا چاہئے تھا، اور اسمبلی کو اعتماد میں لے کر ریاست کی تقسیم کا فیصلہ کرنا چاہئے تھا۔ مرکزی حکومت پر ریاستوں کو محض بلدیہ بنانے کا الزام عائد کیا۔ انہوں نے سوال کیا، ”عام لوگوں کی فکر کون کرے گا۔ کیا قانون کی حکمرانی آئے گی؟“ حکومت اسمبلی انتخابات ہونے تک انتظار کر سکتی ہے۔، ”یہ لوگوں کی مرضی نہیں، بلکہ آپ کی پارٹی کی مرضی ہے۔“جموں سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمنٹ، جگل کشور شرما نے کہا کہ”آرٹیکل 370 کی وجہ سے ملک کے ساتھ جموں وکشمیر کا فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ وہاں کوئی فیکٹری لگانے کو تیار نہیں ہے، کوئی بھی اسپتال بنانے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ”کوئی بھی جموں و کشمیر جانے کو تیار نہیں ہے۔... کرایے کی زمین پر کوئی کب تک اور کتنے دن فیکٹریاں چلائے گا“۔ بی جے پی کے ان رکن پارلیمنٹ کو یہ بھی بتانا چاہئے تھا کہ اتراکھنڈ، ہماچل پردیش اور شمال مشرقی ریاستوں میں اور اس کے علاوہ ملک کی تمام ریاستوں میں اسپتال قائم کرنے، فیکٹری لگانے سے کس نے منع کیا ہے وہاں بے روزگاری کی شرح اتنی زیادہ کیوں ہے، ان ریاستوں میں لوگ بھوک سے کیوں مر رہے ہیں،لاشوں کو سائیکلوں، کندھوں اور ریڑھی پر لے جانے کے لئے مجبور کیوں ہے۔ کشمیر سے کسی کی بھوک سے مرنے کی خبر تو نہیں آتی ہے۔ کانگریس کے ششی تھرور نے کہا کہ جموں وکشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے، یہ کانگریس بھی مانتی ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن حکومت نے جس طرح سے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس سے دنیا میں ہماری ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ دہشت گردی کے جھوٹے خطرہ کی تشہیر کرکے امرناتھ یاترا بند کروا دی گئی۔ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے لئے حزب اقتدار نے اپنی اجازت سے ایسا کیا۔ حکومت نے آئین کے ساتھ غداری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد، طالبان شدت پسند پاکستان کے اکسانے پر ہندوستان پر حملہ کریں گے۔ پاکستان اقوام متحدہ جاچکاہے۔آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ حکومت جموں وکشمیر کی اراضی کارپوریٹ گھروں کو دینا چاہتی ہے لہذا اس نے آرٹیکل 370 کو ختم کردیا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ریاست کے عوام حکومت کے فیصلے پر اتنے پرجوش ہیں تو انہیں گھر سے باہر جاکر جشن منانے دیں اور انٹرنیٹ اور موبائل خدمات بحال کریں۔
راجیہ سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر ہندوؤں نے بدتمیزی کی انتہاکردی۔بی جے پی کے ورکر سے لیکر اعلی رہنماؤں کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے اور گھٹیا ذہنیت اپنے اندر موجود غلاظت کو انڈیلنے لگ گئے۔ کشمیر میں دفعہ 370کے خاتمہ پر ہندوستان میں منائے جانے والے جشن اورلکھے جانے والے پوسٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اکثریتی فرقہ میں مسلمانوں کے تئیں اور مسلم خواتین کے تئیں کیا سوچ ہے یہ ظاہر ہوگیا ہے اب اس کی ذہنیت کے بارے میں کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔سادھوی پراچی کہتی ہیں، 'غیر شادی شدہ نوجوانوں کے لئے بڑی خوشخبری ہے۔ 15 اگست کے بعد، ڈیل لیک رجسٹری پر پلاٹ خریدیں آپ کا نام ہوگا۔ آپ کے سسرال بھی آپ کے کشمیر میں ہوں گے۔ ہمارا خواب پورا ہوا۔مظفر نگر کے کھتولی کے بی جے پی ایم ایل اے وکرم سنگھ سینی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا، 'پارٹی کارکن خوش ہیں کیوں کہ وہ کشمیر کی گوری لڑکیوں سے شادی کر سکیں گے۔... وہاں ان کی شادی ہو جائے گی، کوئی حرج نہیں ہے۔ اور وہ مسلمان کارکن جو یہاں موجود ہیں، انہیں خوش ہونا چاہئے… کشمیری گوری لڑکی، وہاں شادی کرنا۔... میں کشمیر میں ایک گھر بنانا چاہتا ہوں۔ وہاں سب کچھ خوبصورت ہے۔ '
حکومت کے آرٹیکل 370 ختم کرنے کے اعلان کے بعد مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ”آج کا دن ہندوستا ن کی جمہوریت کا سیاہ ترین دن ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’جموں و کشمیر کی قیادت کی جانب سے 1947 میں دو قومی نظریے کو رد کرنا اور ہندوستا ن کے ساتھ الحاق کا فیصلہ آج غلط ثابت ہوا، ہندوستا نی حکومت کی جانب سے آرٹیکل 370 کو یک طرفہ طور پر ختم کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی ہے جس سے ہندوستا ن جموں و کشمیر میں قابض قوت بن جائے گا۔'ایک اور ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'اس اقدام کے برصغیر پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، ہندوستا نی حکومت کے ارادے واضح ہیں، وہ جموں و کشمیر کے علاقے کو یہاں کے عوام کو خوفزدہ کر کے حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہندوستا ن کشمیر کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکا ہے۔“دوسری جانب نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ کشمیر عمر عبداللہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستا نی حکومت کا یہ یک طرفہ فیصلہ کشمیری عوام کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔انہوں نے کہا کہ اس اقدام کے دور رس سنگین نتائج مرتب ہوں گے جو ریاست کے عوام کے خلاف جارحیت ہے جس کے بارے میں تمام سیاسی جماعتوں نے خبردار کیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے خاموشی سے اس تباہ کن فیصلے کے لیے فضا ہموار کی، بدقسمتی سے ہمارا سب سے بڑا خوف سچ ثابت ہوگیا جبکہ کشمیر میں ہندوستا نی حکومت کے نمائندے ہم سے جھوٹ بولتے رہے کہ کوئی بڑا فیصلہ نہیں کیا جارہا۔عمر عبداللہ کا کہنا تھا کہ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب کشمیر کو ایک گیریڑن میں تبدیل کردیا گیا اور کشمیری عوام کو جمہوری آواز دینے والے ہم جیسے لوگ قید میں ہیں اور ایک لاکھ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ یک طرفہ، غیر قانونی اور غیر آئینی ہے اور ان کی جماعت اسے چیلنج کرے گی، ایک طویل اور مشکل لڑائی لڑنی ہے جس کے لیے ہم تیار ہیں۔واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر ہندوستا نی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
دفعہ 370 اور 35 اے کیا ہے۔ اس کو سمجھنا ضروری ہے۔ جموں و کشمیر کو خصوصیت حاصل ہے وہ ملک کے متعدد ریاستوں کو حاصل ہے اور ان ریاستوں میں دفعہ 371 اے، بی. سی، ڈی ای، جی. آئی وغیرہ نافذ ہے۔شمال مشرق سمیت اتراکھنڈ، ہماچل پردیش میں زمین نہیں خرید سکتے۔ ناگالینڈ میں بھی پاسپورٹ بھی الگ ہے لیکن جموں و کشمیر کو نشانہ اس لئے بنایا گیا ہے کیوں کہ وہ واحد مسلم ریاست تھی جہاں مسلم وزیر اعلی ہوتا تھا اور حکومت ہند کو ایک مسلم وزیر اعلی برداشت نہیں ہوا۔ حکومت دفعہ 370 اور 35اے ختم کرنے کی وجہ بیان کیا ہے اس کی سب سے زیادہ ضرورت گجرات کو ہے جہاں سے بل پیش کرنے والے امت اور مودی آتے ہیں۔ انسانی ترقی میں جموں و کشمیر گجرات سے کئی قدم آگے ہے۔ اس کے لئے اس وقت بی جے پی قیادت والی جتنی بھی ریاستیں ہیں ترقیاتی اور انسانی ترقی کے لحاظ وہ سب ریاستیں جموں و کشمیر سے پیچھے ہیں۔ اس لئے سب سے پہلے ان ریاستوں سے ریاست کا درجہ چھین کر مرکزی خطہ قرار دینا چاہئے۔ اعداد و شمارسے واضح ہوچکے ہیں مرکزی حکومت نے جو وجہ بیان کی ہے وہ سراسر جھوٹ ہے اور اس سلسلے میں حکومت کے کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جان چاہئے۔ (1) دفعہ 370 کے التزامات کے مطابق پارلیمنٹ کو جموں و کشمیر کے بارے میں محض دفاعی، خارجی اور مواصلاتی(کمیونیکیشن) امور میں قانون بنانے کا اختیار ہے۔ دیگر امور سے متعلق قانون کو نافذ کروانے کے لیے مرکز کو ریاستی حکومت کی منظوری چاہیے۔(2) اسی خصوصی درجے کی وجہ سے جموں و کشمیر ریاست پر آئین کی دفعہ 356 نافذنہیں ہوتی۔(3) اسی وجہ سے صدر جمہوریہ کے پاس ریاست کیآئین کو برخاست کرنے کا حق نہیں ہے۔(4) 1967 کا شہری زمین قانون جموں و کشمیر پر نافذ نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ملک کی دیگر ریاستوں کے عوام جموں و کشمیر میں زمین نہیں خرید سکتے۔(5) آئین کی دفعہ 360 ’جس کے تحت ملک میں آئینی ایمرجنسی نافذ کرنے کا التزام ہے‘بھی جموں و کشمیر پر نافذ نہیں ہوتا۔دفعہ 35اے،آئین سے متعلق وہ التزام ہے جو جموں و کشمیر کی حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ ریاست کا مستقل شہری کون ہے، کس شخص کو پبلک سیکٹر کی نوکریوں میں خصوصی ریزرویشن دیا جائے گا، کون ریاست میں جائداد خرید سکتا ہے، کن لوگوں کو وہاں کی اسمبلی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کا حق ہوگا، اسکالرشپ، دیگر عوامی تعاون اور سماجی فلاح وبہبودکی پروگراموں کا فائدہ کون حاصل کر سکتا ہے۔اس دفعہ کے تحت یہ بھی التزام ہے کہ اگر ریاستی حکومت کسی قانون کو اپنے حساب سے بدلتی ہے تو اسے ملک کے کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔یہ دفعہ جموں وکشمیر کو ایک خصوصی ریاست کے طورپر اختیار دیتا ہے۔ اس کے تحت دیے گئے حقوق جموں وکشمیر میں رہنے والے ’مقامی باشندو‘ سے متعلق ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ریاستی حکومت کو یہ حق ہے کہ وہ آزادی کے وقت دوسرے مقامات سیآنے والے پناہ گزینوں اور دوسرے افراد کو وہاں رہنے کی اجازت دے یا نہ دے۔دفعہ 35اے کو نافذ کرنے کے لیے اس وقت کی مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کے تحت حاصل حقوق اور طاقت کا استعمال کیاتھا۔ اس دفعہ کو پنڈت جواہر لعل نہرو کے مشورے پر اس وقت کے صدر جمہوریہ راجیندر پرساد کے ایک حکم کے ذریعے 14 مئی1954 کو آئین میں شامل کیا گیا تھا۔ دفعہ 35اے جموں وکشمیر ریاست کو خصوصی درجہ دینے والے دفعہ 370 کا ہی ایک حصہ ہے۔ اس کے تحت جموں و کشمیر کے علاوہ ملک کے کسی بھی ریاست کا باشندہ وہاں جائداد نہیں خرید سکتا۔دفعہ 35اے کو نافذکرنے کا حکم’آئینی حکم1954‘ کے طورپر جاناجاتا ہے۔ یہ حکم 1952 میں پنڈت جواہر لعل نہرو اوراس وقت کے کشمیر کیوزیر اعظم شیخ عبداللہ کے درمیان ہونے والے دہلی معاہدے پر مبنی تھا۔دفعہ 370 کے ہٹنے کے ساتھ جموں و کشمیر کا علاحدہ آئین اور علاحدہ پرچم نہیں رہے گا۔ دیگر ریاستوں کی طرح وہاں بھی ملک کے تمام قانون یکساں طور پر نافذ ہوں گے۔
Comments
Post a Comment