پانچ
ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا پارلیمانی الیکشن پر دور رس اثرت
تیشہ فکر عابد انور
ببول کا پیڑ لگاکرپھل کی امیدرکھنے والی کانگریس پارٹی کو عوام نے عبرت ناک سزا دی ہے۔ جو حشر راجستھان میں ہوا ہے اس کا تصور کانگریس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ کانگریس نے راجستھان میں اس بار ٹھیک ٹھاک کام کیا تھا لیکن ذاتی گروہ بندی، ذات پات کی صف بندی اور کانگریسی لیڈروں کے آبروریزی کیس میں گرفتاری نے کانگریس کی لوٹیا ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا۔راجستھان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور مہنگائی ایسے مسائل تھے جن سے ہر شخص پریشان تھا ۔ اس سمت میں کانگریس کا اٹھایا گیا قدم عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سے صرف ایک میزورم میں. کامیابی ملی۔عوام نے کانگریس کو جم کر سبق سکھایا ہے۔ کانگریس نے وہی کام کیا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کرتی آرہی تھی۔ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ چاروں ریاستوں کے نتائج نریندر مودی کے مستقبل طے کریں گے۔مودی کے لہر کا دعوی کرنے والوں کو تقویت ملی ہے۔ میزورم میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے اس پر کوئی بات نہیں کی جارہی ہے۔ یہ چاروں ریاستوں کے نتائج یہ بھی طے کریں گے کہ نریندر مودی کا 2014میں کیسا جلوہ ہوگا۔دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بھی بی جے پی کی راہ میں روڑے پیدا کئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت بوکھلائی ہوئی ہے۔ دہلی اسمبلی معلق ہوگئی ہے۔ دہلی میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سب سے شاندار کارکردگی عام آدمی پارٹی کا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ جن بلندیوں کو چھوا ہے وہ قابل ستائش ہے اس نے نہ صرف 28نشستیں حاصل کی بلکہ 20جگہ دوسرے مقام پر رہی۔ اس کے لیڈر یوگندر یادو نے ایک بار کہا تھا کہ کانشی رام کے فارمولے کی طرح ہم پہلا الیکشن ہارنے کے لئے ، دوسرا ہرانے کے لئے اور تیسرا جیتنے کے لئے لڑیں گے لیکن جس طرح پہلے الیکشن نے جس طرح کامیابی کا پرچم لہرایا ہے اس کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کی تہہ میں جانا بھی ضروری ہے۔ پارٹی کے اعلی رہنما اروند کیجریوال الیکشن کے دوران سب سے زیادہ مطمئن نظر آئے۔ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں تقریباً دو ہزار کارکنوں تعینات کیا تھا جن کی تنخواہیں 20سے 25 ہزار روپے تھی جو مسلسل رات دن کام کررہے تھے ایک ایک آدمی سے فرداً فرداً ملاقات کرکے اروند کیجریوال کو ووٹ دینے کے لئے قائل کر رہے تھے۔ دوسری طرف شیلا دکشت نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس حلقے میں سرکاری ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں۔ اس کے علاوہ شیلا دکشت کو سب سے زیادہ مہنگائی، سبزیوں کی قیمت، بجلی کی بھاری شرح، پیاز کے دام کے ساتھ دولت مشترکہ کھیل گھپلے نے مٹی پلید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ اگر مسلمانوں کی بات کی جائے توپندرہ برسوں کے دوران شیلا حکومت نے مسلمانوں کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ دہلی میں اردو دوسری سرکاری زبان ہونے کے باوجود اردو میڈیم اسکول اردو اساتذہ کے لئے ترستے رہے۔ سکریٹریٹ اردو کی اسامی سے خالی رہا۔ دہلی حکومت کا محکمہ اطلاعات ارددو کے انفارمیش افسر کی خالی جگہ پر نہیں کی گئی۔ ہر محکمہ درجنوں اردواسامی کی جگہ کو کبھی پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ان انتخابات کولوک سبھا انتخابات کے لئے سیمی فائنل سمجھا جارہا ہے اسی لئے ترکش کے تمام تیر استعمال کئے گئے ہیں۔ سام ،ڈنڈ، بھیدکا بی جے پی بڑے پیمانے پر استعمال کیاہے ۔جھوٹ بولنے کی تاریخ رقم کی گئی ۔یہ ریاستی الیکشن تمام انتخابات سے کئی معنوں میں جداگانہ حیثیت کے حامل تھا ان دونوں (اسمبلی اور لوک کے سبھا عام انتخابات) الیکشن میں جہاں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنی تمام طاقتوں کو جھونک دیا تھا وہیں بی جے پی اپنے لئے کرو یا مرو کی پوزیشن کے تحت تمام حربے آزمائے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ الیکشن آر ایس ایس بنام کانگریس تھااور لوک سبھا کا الیکشن بھی اسی کے اردگرد رہا۔ لال کرشن اڈوانی کو پوری طرح کنارے لگاتے ہوئے جس طرح سے نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا دعویدار اعلان کیا گیا تھا، اس کے بعد سیاسی تجزیہ نگاروں کی حتمی رائے یہی تھی کہ سال 2014 میں ہونے والا عام انتخابات کانگریس اور آر ایس ایس کے درمیان لڑا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اس بات کے اشارے بار بار مل رہے تھے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آرایس ایس براہ راست بی جے پی کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے بی جے پی میں اپنے سب سے پرانے اور سب سے زیادہ قابل اعتماد لیڈر اڈوانی تک کوٹھکانے لگاکر مودی کو آگے کردیا۔ اس کے لئے آر ایس ایس کے لیڈروں نے کئی سطح پر معاہدہ کئے ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے نریندر مودی کا رشتہ نشیب و فراز سے پر رہا ہے۔ بابو بجرنگی اور دیگر وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کو سزا ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس مودی سے درمیان میں خفا بھی رہا ہے ۔ مودی میں ڈکٹیٹر شپ کی بھی خاصیت پائی جاتی ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے مستقبل کے لئے دردسر ثابت ہوسکتی ہے۔ کئی ایسے معاملے آئے ہیں جہاں انہوں نے آر ایس ایس کی نہیں سنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ہی ایک سینئر لیڈر کے مطابق ’’آر ایس ایس میں اس بات کو لے کر یہ سوچ بھی ہے کہ کہیں وہ ایک نئی شکل میں اندرا گاندھی (جیسی شخصیت ) کو تو اقتدار میں نہیں لارہے ہیں‘‘۔بی جے پی کی ملک میں منعقدہ ریلیوں میں نریندر مودی کی باڈی لنگویج ،زبان و بیان طرز تکلم سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں کوئی محترم شخص نہیں۔ کسی پر بھی وہ کچھ بھی الزام لگاسکتے ہیں، کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی کرسکتے ہیں۔
کانگریس کی شکست فاش پر ہر جگہ اورہر پلیٹ فارم پر تذکرہ اور مباحثہ ہورہا ہے اورآئندہ بھی ہوگا لیکن زمینی حقیقت کا ادراک کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں یا عمداًکرنا ہی نہیں چاہتے۔ یوپی کاالیکشن جب وقت شباب پرتھااسی وقت مرکز کی خفیہ مشنری بہار کو دہشت گردوں کااڈہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی تھی اوردرجنوں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو اٹھایاگیا۔ اس وقت بھی جب کانگریس کو چاروں ریاستوں میں زبرست مقابلے کا سامنا تھا بہار سے مسلسل مسلم نوجوان اٹھائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کے بعض لیڈر بٹلہ ہاؤس انکاوئنٹر جیسے حساس معاملوں پربیان بازی کرکے گھڑیالی آنسوبہانے کی کوشش کی تھی۔خاص طور پر وہ لیڈر اس طرح کی بیان بازی میں شامل تھے جن پر سیمی کے نام پر مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کی زندگی تباہ وبرباد اور اجیرن کرنے کی راست ذمہ داری ہے۔ ان کی دور حکومت میں وہاں بھگوادہشت گردی پنپتی رہی اور انہوں نے اسے پوری طرح پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ایک طرف ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کا لالی پاپ دیا گیا تو دوسری جانب مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لئے دہشت گردی کا جال پھینکا گیا،بے دریغ گرفتاریاں کی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی نے اترپردیش میں بہت محنت کی تھی اور عوام سے سیدھے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے کوچ نے انہیں نوجوانوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ملک کے دوردراز علاقوں سے نوجوانوں کی ٹولی دہلی میں ان سے ملاقات کرنے لئے آتی لیکن ان کی راہل سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ وہ مایوسی کی حالت واپس چلے جاتے تھے اگر کسی کی خوش قسمتی سے ملاقات ہوبھی جاتی توان نوجوانوں کویہی شکایت رہتی ہے کہ ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا جاتاہے اوریہ کہہ دیا جاتاہے کہ دیکھیں گے لیکن اس کے بعدزمینی حقیقت کے بارے میں دئے گئے مشورے کبھی بھی حقیقت کا جامہ نہیں پہن پاتے۔نوجوان جتنی بڑی تعدا دمیں راہل گاندھی اور کانگریس سے وابستہ ہورہے ہیں اسی حساب سے کانگریس میں بوڑھوں کی تعداد ان کی راہ میں دشواریاں کھڑی کرتی ہے اس لئے وہ نوجوان عوام کو کانگریس کے ووٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ نوجوانوں اور خصوصاً مسلم نوجوانوں کو عام شکایت یہ ہے کہ کانگریس کے اعلی لیڈر نہیں چاہتے وہ آگے بڑھیں اور کانگریس کے لئے کوئی خدمت انجام دیں۔ بھیڑ کو ووٹ میں نہ بدلنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے۔
کانگریس آج خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے ۔ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہے کہ اس کے کردہ گناہوں کا بوجھ کوئی اور اٹھائے اسی لئے وہ بحران کو دعوت دیتی رہتی ہے۔ کانگریس کو اپنے طویل ترین دور اقتدار میں شاید ہی اتنی مشکلات کا کبھی سامنا کرناپڑاہوگا جتنی مشکلات سامنا دوسری میعاد کے دوران کرنا پڑا۔ پریشانیاں اس وقت پیش آئیں تھیں جب جے پی تحریک نے اسے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو حوالات میں بند کردیا تھا،مایوسی کا شکار اس وقت بھی ہوئی تھی جب وی پی سنگھ کی منڈل اوربدعنوانی کے خلاف بوفورس تحریک نے آسمان سے زمین پر لاکر اسے پٹخ دیا تھا، نہایت ہی دشوار گزار مرحلہ اس وقت بھی طے کرنا پڑا تھا جب مسٹر لال کرشن اڈوانی نے درخشاں ہندوستان کے زعم میں کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا وجود ختم ہوجائے گا اور کانگریس تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی ۔ٹی وی چینلوں پر اس وقت بھی یہی بات کہی جارہی ہے۔ اس وقت جتنے بھی عوامل تھے سب بیرونی تھے اور اس میں کانگریس کی غلطی کم اور بیرونی دسیسہ کاریاں زیادہ تھیں لیکن اس وقت کانگریس بحران کے جس دور سے گزر رہی ہے ، الزامات کی بوجھار ہورہی ہے، بدعنوانی کے بدنما داغ اورکمزور ترین حکومت چلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ، اس کی ساری ذمہ داری کانگریس کی بے عملی، آرام پسندی، ڈرائنگ روم پولٹکس، اندرونی سازش اور وزراء کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کی ہے۔ کانگریس آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمیونسٹ کے زوال کے بعد ٹوکری بھر بھرکر موضوع فراہم کرر ہی ہے۔ 2004 سے 2009 کا وقت تھا اور وہی بی جے پی تھی جو موضوع کے لئے ترس رہی تھی لیکن 2009 میں کمیونسٹ کی نشست کیا کم ہوئی بی جے پی کانگریس کی گردن پر سوار ہوگئی اور اس کے بعد مسلسل بی جے پی کا کانگریس پر حملہ جاری ہے اور کانگریس کی آرام طلبی کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس کا منہ توڑ جواب دینے والا نہیں ہے۔ کانگریس اگر ان ریاستوں کے انتخابات میں ناکام رہی ہے یا 2014کے عام انتخابات میں اقتدار گنوا دے گی تو یہ اس کی نا اہلی ہوگی نہ بی جے پی کی اپنی کامیابی۔ کانگریس کے ایک ایک قدم سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کرتے کرتے تھک گئی ہے اور انہیں نہ تو یہاں کے عوام کی پرواہ ہے نہ اپنے رائے دہندگان کی کوئی فکر جو ہمیشہ سے اس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ دنیا میں ایسی بہت ہی کم پارٹیاں ہوں گی جو نوشتہ دار کو نہ پڑھ سکیں اور اس پر لکھی عبارت کو نہ سمجھ سکیں۔ کانگریس آج اسی دور سے گزر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی حکومت نہیں ہے سب اپنی اپنی مرضی سے کام کررہے ہیں۔ خصوصاً رسدات اور عوامی تقسیم کا نظام مکمل ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر طرف انارکی پھیلی ہے۔ ملاوٹ، جمع خوری، کالابازاری عام ہے، حکومت بنیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ کھربوں روپے خرچ کرکے ان کے مفادات کی نگہبانی کی جارہی ہے اور عام آدمی دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔
کانگریس اگر چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں رہے تو سب سے پہلے پارٹی میں موجود آر ایس ایس ذہنیت کے حامل افراد سے پارٹی کو صاف کرنا ہوگا اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو کانگریس میں رہ کر بی جے پی کا کا م کرتے ہیں۔ کانگریس اس وقت راہل گاندھی کو2014 کے لئے تیار کررہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کاصرف دلتوں کے گھرکھانا کھانے کے علاوہ کوئی اور کارنامہ نظر نہیں آرہا ہے۔ راہل گاندھی نے نہ تو دلتوں کے مسائل حل کئے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا کیا ہے ۔ نوجوانوں میں مایوسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ تصور کرنے لگے ہیں کہ راہل گاندھی میں فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بہر حال یہ تو وقت بتادے گا کہ راہل گاندھی میں کتنی صلاحیت ہے یا کس قدر فیصلہ لینے کی قوت ہے لیکن سردست کانگریس اس وقت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے لئے کوئی اور ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے کردہ گناہ ہیں۔ اس کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی اپنے کام کے تئیں بہت پرخلوص ہیں اور وہ کانگریس کی نئی زندگی عطا کرنے کی جی توڑ کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن مرکزی حکومت میں اعلی عہدوں پر بیٹھے پالیسی سازوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کانگریس کی کیا حالت ہونے والی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو باتیں عام لوگ سمجھ رہے ہیں وہ باتیں پالیسی سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہ لوگ کانگریس کی لٹیا ڈبونے کے لئے پوری طرح کمر کس لی ہے۔ پنجاب اسمبلی انتخابات کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ وہاں کانگریس کی شکست نہیں بلکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن کی شکست ہوئی تھی۔ ملک میں پہلی بار اقلیتی طبقہ کے کسی فرد کو اس عہدہ پر براجمان ہونے کا موقع ملاہے لیکن پنجاب کے عوام کے اس کی قدر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے علاقائی مفادات اور مسائل کو زیاد ہ اہمیت دی۔آپ یہ تصور کریں اگر اس وقت کوئی مسلمان وزیر اعظم ہوتا اور پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تو میڈیا، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا رویہ اور خیال مسلمانوں کے بارے میں کیا ہوتا۔دہلی میں کانگریس کی تھوڑی بہت عزت مسلمانوں نے رکھی ہے۔ ورنہ شاید تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوتی۔ مودی ہندو ووٹوں کی صف بندی میں کامیاب رہے ہیں۔ ملک کے نوجوان ہندوطبقے نریندر کو پسند کرتے ہیں اور انہیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک فاشزم کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مظفر نگر میں جو کچھ ہوا ہے ٹرائل کا سلسلہ ہے جب یہ حقیقت کا روپ لے گا تو کیا ہوگا۔ مسلمانوں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے اور اس سے بچنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
ببول کا پیڑ لگاکرپھل کی امیدرکھنے والی کانگریس پارٹی کو عوام نے عبرت ناک سزا دی ہے۔ جو حشر راجستھان میں ہوا ہے اس کا تصور کانگریس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ کانگریس نے راجستھان میں اس بار ٹھیک ٹھاک کام کیا تھا لیکن ذاتی گروہ بندی، ذات پات کی صف بندی اور کانگریسی لیڈروں کے آبروریزی کیس میں گرفتاری نے کانگریس کی لوٹیا ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا۔راجستھان میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات اور مہنگائی ایسے مسائل تھے جن سے ہر شخص پریشان تھا ۔ اس سمت میں کانگریس کا اٹھایا گیا قدم عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں سے صرف ایک میزورم میں. کامیابی ملی۔عوام نے کانگریس کو جم کر سبق سکھایا ہے۔ کانگریس نے وہی کام کیا ہے جو بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) کرتی آرہی تھی۔ ان پانچ ریاستوں کے انتخابات کی خصوصیت یہ ہے کہ چاروں ریاستوں کے نتائج نریندر مودی کے مستقبل طے کریں گے۔مودی کے لہر کا دعوی کرنے والوں کو تقویت ملی ہے۔ میزورم میں بی جے پی کا کوئی وجود نہیں ہے اس لئے اس پر کوئی بات نہیں کی جارہی ہے۔ یہ چاروں ریاستوں کے نتائج یہ بھی طے کریں گے کہ نریندر مودی کا 2014میں کیسا جلوہ ہوگا۔دہلی میں عام آدمی پارٹی نے بھی بی جے پی کی راہ میں روڑے پیدا کئے ہیں جس کی وجہ سے وہ بہت بوکھلائی ہوئی ہے۔ دہلی اسمبلی معلق ہوگئی ہے۔ دہلی میں کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سب سے شاندار کارکردگی عام آدمی پارٹی کا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ جن بلندیوں کو چھوا ہے وہ قابل ستائش ہے اس نے نہ صرف 28نشستیں حاصل کی بلکہ 20جگہ دوسرے مقام پر رہی۔ اس کے لیڈر یوگندر یادو نے ایک بار کہا تھا کہ کانشی رام کے فارمولے کی طرح ہم پہلا الیکشن ہارنے کے لئے ، دوسرا ہرانے کے لئے اور تیسرا جیتنے کے لئے لڑیں گے لیکن جس طرح پہلے الیکشن نے جس طرح کامیابی کا پرچم لہرایا ہے اس کی تعریف کرنے کے ساتھ اس کی تہہ میں جانا بھی ضروری ہے۔ پارٹی کے اعلی رہنما اروند کیجریوال الیکشن کے دوران سب سے زیادہ مطمئن نظر آئے۔ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں تقریباً دو ہزار کارکنوں تعینات کیا تھا جن کی تنخواہیں 20سے 25 ہزار روپے تھی جو مسلسل رات دن کام کررہے تھے ایک ایک آدمی سے فرداً فرداً ملاقات کرکے اروند کیجریوال کو ووٹ دینے کے لئے قائل کر رہے تھے۔ دوسری طرف شیلا دکشت نے اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ اس حلقے میں سرکاری ملازمین کی رہائش گاہیں ہیں۔ اس کے علاوہ شیلا دکشت کو سب سے زیادہ مہنگائی، سبزیوں کی قیمت، بجلی کی بھاری شرح، پیاز کے دام کے ساتھ دولت مشترکہ کھیل گھپلے نے مٹی پلید کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا۔ اگر مسلمانوں کی بات کی جائے توپندرہ برسوں کے دوران شیلا حکومت نے مسلمانوں کے لئے کوئی کام نہیں کیا۔ دہلی میں اردو دوسری سرکاری زبان ہونے کے باوجود اردو میڈیم اسکول اردو اساتذہ کے لئے ترستے رہے۔ سکریٹریٹ اردو کی اسامی سے خالی رہا۔ دہلی حکومت کا محکمہ اطلاعات ارددو کے انفارمیش افسر کی خالی جگہ پر نہیں کی گئی۔ ہر محکمہ درجنوں اردواسامی کی جگہ کو کبھی پر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا جوش و خروش بڑھتا جارہا ہے۔ان انتخابات کولوک سبھا انتخابات کے لئے سیمی فائنل سمجھا جارہا ہے اسی لئے ترکش کے تمام تیر استعمال کئے گئے ہیں۔ سام ،ڈنڈ، بھیدکا بی جے پی بڑے پیمانے پر استعمال کیاہے ۔جھوٹ بولنے کی تاریخ رقم کی گئی ۔یہ ریاستی الیکشن تمام انتخابات سے کئی معنوں میں جداگانہ حیثیت کے حامل تھا ان دونوں (اسمبلی اور لوک کے سبھا عام انتخابات) الیکشن میں جہاں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) نے اپنی تمام طاقتوں کو جھونک دیا تھا وہیں بی جے پی اپنے لئے کرو یا مرو کی پوزیشن کے تحت تمام حربے آزمائے تھے۔ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ یہ الیکشن آر ایس ایس بنام کانگریس تھااور لوک سبھا کا الیکشن بھی اسی کے اردگرد رہا۔ لال کرشن اڈوانی کو پوری طرح کنارے لگاتے ہوئے جس طرح سے نریندر مودی کو بی جے پی کی طرف سے وزیر اعظم کے عہدے کا دعویدار اعلان کیا گیا تھا، اس کے بعد سیاسی تجزیہ نگاروں کی حتمی رائے یہی تھی کہ سال 2014 میں ہونے والا عام انتخابات کانگریس اور آر ایس ایس کے درمیان لڑا جائے گا۔ دوسرے الفاظ میں، اس بات کے اشارے بار بار مل رہے تھے کہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے آرایس ایس براہ راست بی جے پی کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اس لئے اس نے بی جے پی میں اپنے سب سے پرانے اور سب سے زیادہ قابل اعتماد لیڈر اڈوانی تک کوٹھکانے لگاکر مودی کو آگے کردیا۔ اس کے لئے آر ایس ایس کے لیڈروں نے کئی سطح پر معاہدہ کئے ہیں کیونکہ آر ایس ایس سے نریندر مودی کا رشتہ نشیب و فراز سے پر رہا ہے۔ بابو بجرنگی اور دیگر وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کو سزا ہونے کی وجہ سے آر ایس ایس مودی سے درمیان میں خفا بھی رہا ہے ۔ مودی میں ڈکٹیٹر شپ کی بھی خاصیت پائی جاتی ہے جو آر ایس ایس اور بی جے پی کے مستقبل کے لئے دردسر ثابت ہوسکتی ہے۔ کئی ایسے معاملے آئے ہیں جہاں انہوں نے آر ایس ایس کی نہیں سنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آر ایس ایس کے ہی ایک سینئر لیڈر کے مطابق ’’آر ایس ایس میں اس بات کو لے کر یہ سوچ بھی ہے کہ کہیں وہ ایک نئی شکل میں اندرا گاندھی (جیسی شخصیت ) کو تو اقتدار میں نہیں لارہے ہیں‘‘۔بی جے پی کی ملک میں منعقدہ ریلیوں میں نریندر مودی کی باڈی لنگویج ،زبان و بیان طرز تکلم سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر میں کوئی محترم شخص نہیں۔ کسی پر بھی وہ کچھ بھی الزام لگاسکتے ہیں، کسی کے ساتھ بھی بدتمیزی کرسکتے ہیں۔
کانگریس کی شکست فاش پر ہر جگہ اورہر پلیٹ فارم پر تذکرہ اور مباحثہ ہورہا ہے اورآئندہ بھی ہوگا لیکن زمینی حقیقت کا ادراک کرنے میں عام طور پر ناکام رہتے ہیں یا عمداًکرنا ہی نہیں چاہتے۔ یوپی کاالیکشن جب وقت شباب پرتھااسی وقت مرکز کی خفیہ مشنری بہار کو دہشت گردوں کااڈہ ثابت کرنے میں لگی ہوئی تھی اوردرجنوں کی تعداد میں مسلم نوجوانوں کو اٹھایاگیا۔ اس وقت بھی جب کانگریس کو چاروں ریاستوں میں زبرست مقابلے کا سامنا تھا بہار سے مسلسل مسلم نوجوان اٹھائے جارہے ہیں۔ دوسری طرف کانگریس کے بعض لیڈر بٹلہ ہاؤس انکاوئنٹر جیسے حساس معاملوں پربیان بازی کرکے گھڑیالی آنسوبہانے کی کوشش کی تھی۔خاص طور پر وہ لیڈر اس طرح کی بیان بازی میں شامل تھے جن پر سیمی کے نام پر مدھیہ پردیش کے مسلمانوں کی زندگی تباہ وبرباد اور اجیرن کرنے کی راست ذمہ داری ہے۔ ان کی دور حکومت میں وہاں بھگوادہشت گردی پنپتی رہی اور انہوں نے اسے پوری طرح پروان چڑھنے کا موقع فراہم کیا۔مسلمانوں کو بے وقوف بنانے کے تمام حربے استعمال کئے گئے۔ایک طرف ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کا لالی پاپ دیا گیا تو دوسری جانب مسلم نوجوانوں کے مستقبل کو تباہ کرنے کے لئے دہشت گردی کا جال پھینکا گیا،بے دریغ گرفتاریاں کی گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی نے اترپردیش میں بہت محنت کی تھی اور عوام سے سیدھے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے کوچ نے انہیں نوجوانوں سے ہمیشہ دور رکھا۔ملک کے دوردراز علاقوں سے نوجوانوں کی ٹولی دہلی میں ان سے ملاقات کرنے لئے آتی لیکن ان کی راہل سے ملاقات نہیں ہوتی تھی۔ وہ مایوسی کی حالت واپس چلے جاتے تھے اگر کسی کی خوش قسمتی سے ملاقات ہوبھی جاتی توان نوجوانوں کویہی شکایت رہتی ہے کہ ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا جاتاہے اوریہ کہہ دیا جاتاہے کہ دیکھیں گے لیکن اس کے بعدزمینی حقیقت کے بارے میں دئے گئے مشورے کبھی بھی حقیقت کا جامہ نہیں پہن پاتے۔نوجوان جتنی بڑی تعدا دمیں راہل گاندھی اور کانگریس سے وابستہ ہورہے ہیں اسی حساب سے کانگریس میں بوڑھوں کی تعداد ان کی راہ میں دشواریاں کھڑی کرتی ہے اس لئے وہ نوجوان عوام کو کانگریس کے ووٹ میں تبدیل کرنے میں ناکام ہوتے ہیں۔ نوجوانوں اور خصوصاً مسلم نوجوانوں کو عام شکایت یہ ہے کہ کانگریس کے اعلی لیڈر نہیں چاہتے وہ آگے بڑھیں اور کانگریس کے لئے کوئی خدمت انجام دیں۔ بھیڑ کو ووٹ میں نہ بدلنے کی اہم وجہ یہ بھی ہے۔
کانگریس آج خود احتسابی کی قوت سے محروم ہے ۔ہمیشہ اس فکر میں رہتی ہے کہ اس کے کردہ گناہوں کا بوجھ کوئی اور اٹھائے اسی لئے وہ بحران کو دعوت دیتی رہتی ہے۔ کانگریس کو اپنے طویل ترین دور اقتدار میں شاید ہی اتنی مشکلات کا کبھی سامنا کرناپڑاہوگا جتنی مشکلات سامنا دوسری میعاد کے دوران کرنا پڑا۔ پریشانیاں اس وقت پیش آئیں تھیں جب جے پی تحریک نے اسے اقتدار سے بے دخل کردیا تھا اور اس کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو حوالات میں بند کردیا تھا،مایوسی کا شکار اس وقت بھی ہوئی تھی جب وی پی سنگھ کی منڈل اوربدعنوانی کے خلاف بوفورس تحریک نے آسمان سے زمین پر لاکر اسے پٹخ دیا تھا، نہایت ہی دشوار گزار مرحلہ اس وقت بھی طے کرنا پڑا تھا جب مسٹر لال کرشن اڈوانی نے درخشاں ہندوستان کے زعم میں کانگریس کی ٹوٹ پھوٹ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کا وجود ختم ہوجائے گا اور کانگریس تاریخ کا ایک حصہ بن کر رہ جائے گی ۔ٹی وی چینلوں پر اس وقت بھی یہی بات کہی جارہی ہے۔ اس وقت جتنے بھی عوامل تھے سب بیرونی تھے اور اس میں کانگریس کی غلطی کم اور بیرونی دسیسہ کاریاں زیادہ تھیں لیکن اس وقت کانگریس بحران کے جس دور سے گزر رہی ہے ، الزامات کی بوجھار ہورہی ہے، بدعنوانی کے بدنما داغ اورکمزور ترین حکومت چلانے کے الزامات لگائے جارہے ہیں ، اس کی ساری ذمہ داری کانگریس کی بے عملی، آرام پسندی، ڈرائنگ روم پولٹکس، اندرونی سازش اور وزراء کا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی روش کی ہے۔ کانگریس آج بھارتیہ جنتا پارٹی کو کمیونسٹ کے زوال کے بعد ٹوکری بھر بھرکر موضوع فراہم کرر ہی ہے۔ 2004 سے 2009 کا وقت تھا اور وہی بی جے پی تھی جو موضوع کے لئے ترس رہی تھی لیکن 2009 میں کمیونسٹ کی نشست کیا کم ہوئی بی جے پی کانگریس کی گردن پر سوار ہوگئی اور اس کے بعد مسلسل بی جے پی کا کانگریس پر حملہ جاری ہے اور کانگریس کی آرام طلبی کا یہ عالم ہے کہ کوئی اس کا منہ توڑ جواب دینے والا نہیں ہے۔ کانگریس اگر ان ریاستوں کے انتخابات میں ناکام رہی ہے یا 2014کے عام انتخابات میں اقتدار گنوا دے گی تو یہ اس کی نا اہلی ہوگی نہ بی جے پی کی اپنی کامیابی۔ کانگریس کے ایک ایک قدم سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومت کرتے کرتے تھک گئی ہے اور انہیں نہ تو یہاں کے عوام کی پرواہ ہے نہ اپنے رائے دہندگان کی کوئی فکر جو ہمیشہ سے اس کا ساتھ دیتے آئے ہیں۔ دنیا میں ایسی بہت ہی کم پارٹیاں ہوں گی جو نوشتہ دار کو نہ پڑھ سکیں اور اس پر لکھی عبارت کو نہ سمجھ سکیں۔ کانگریس آج اسی دور سے گزر رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان میں کوئی حکومت نہیں ہے سب اپنی اپنی مرضی سے کام کررہے ہیں۔ خصوصاً رسدات اور عوامی تقسیم کا نظام مکمل ناکارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ ہر طرف انارکی پھیلی ہے۔ ملاوٹ، جمع خوری، کالابازاری عام ہے، حکومت بنیوں کے ہاتھوں کھلونا بنی ہوئی ہے۔ کھربوں روپے خرچ کرکے ان کے مفادات کی نگہبانی کی جارہی ہے اور عام آدمی دانے دانے کو ترس رہے ہیں۔
کانگریس اگر چاہتی ہے کہ وہ اقتدار میں رہے تو سب سے پہلے پارٹی میں موجود آر ایس ایس ذہنیت کے حامل افراد سے پارٹی کو صاف کرنا ہوگا اور ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی جو کانگریس میں رہ کر بی جے پی کا کا م کرتے ہیں۔ کانگریس اس وقت راہل گاندھی کو2014 کے لئے تیار کررہی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ راہل گاندھی کاصرف دلتوں کے گھرکھانا کھانے کے علاوہ کوئی اور کارنامہ نظر نہیں آرہا ہے۔ راہل گاندھی نے نہ تو دلتوں کے مسائل حل کئے اور نہ ہی ان کے دکھوں کا مداوا کیا ہے ۔ نوجوانوں میں مایوسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ تصور کرنے لگے ہیں کہ راہل گاندھی میں فیصلہ لینے کی صلاحیت نہیں ہے۔ بہر حال یہ تو وقت بتادے گا کہ راہل گاندھی میں کتنی صلاحیت ہے یا کس قدر فیصلہ لینے کی قوت ہے لیکن سردست کانگریس اس وقت بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے لئے کوئی اور ذمہ دار نہیں بلکہ اس کے کردہ گناہ ہیں۔ اس کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی اپنے کام کے تئیں بہت پرخلوص ہیں اور وہ کانگریس کی نئی زندگی عطا کرنے کی جی توڑ کوشش بھی کر رہے ہیں لیکن مرکزی حکومت میں اعلی عہدوں پر بیٹھے پالیسی سازوں کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ کانگریس کی کیا حالت ہونے والی ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ جو باتیں عام لوگ سمجھ رہے ہیں وہ باتیں پالیسی سازوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی۔اس کا سیدھا سا مطلب ہے کہ یہ لوگ کانگریس کی لٹیا ڈبونے کے لئے پوری طرح کمر کس لی ہے۔ پنجاب اسمبلی انتخابات کے بارے میں یہ بات کہی جاسکتی تھی کہ وہاں کانگریس کی شکست نہیں بلکہ وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن کی شکست ہوئی تھی۔ ملک میں پہلی بار اقلیتی طبقہ کے کسی فرد کو اس عہدہ پر براجمان ہونے کا موقع ملاہے لیکن پنجاب کے عوام کے اس کی قدر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے اپنے علاقائی مفادات اور مسائل کو زیاد ہ اہمیت دی۔آپ یہ تصور کریں اگر اس وقت کوئی مسلمان وزیر اعظم ہوتا اور پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی تو میڈیا، کانگریس اور دیگر سیاسی پارٹیوں کا رویہ اور خیال مسلمانوں کے بارے میں کیا ہوتا۔دہلی میں کانگریس کی تھوڑی بہت عزت مسلمانوں نے رکھی ہے۔ ورنہ شاید تاریخ کی بدترین شکست سے دوچار ہوتی۔ مودی ہندو ووٹوں کی صف بندی میں کامیاب رہے ہیں۔ ملک کے نوجوان ہندوطبقے نریندر کو پسند کرتے ہیں اور انہیں وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ ملک فاشزم کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مظفر نگر میں جو کچھ ہوا ہے ٹرائل کا سلسلہ ہے جب یہ حقیقت کا روپ لے گا تو کیا ہوگا۔ مسلمانوں اس کے بارے میں سوچنا چاہئے اور اس سے بچنے کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment