پتھراؤ نہ کرتے تو ہمیں سیکڑوں کی تعداد میں قتل کردیا جاتا

عابد انور

Thumb

نئی دہلی، 26فروری (مسرت نیوز۔ عابد انور)دہلی میں گزشتہ اتوار سے شروع ہونے والے تشدد میں ا ب تک غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق  40افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سرکاری طور پر ہلاک شدگان کی تعداد 13 بتائی گئی ہے۔ تقریباً دو سو افراد زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں کا آنا اب جاری ہے۔ان میں سے 70افراد گولی سے زخمی ہوئے ہیں۔
دہلی کے حالات کس قدر خراب ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یک بجے دہلی ہائی کورٹ کو مداخلت کرکے رات ایک بجے سماعت کرنی پڑی جس میں پولیس کو ایمبولینس کو بحفاظت جانے اور مریضوں کو سرکاری اسپتال لے جانے کو یقینی بنانے کی ہدایت دی۔ اس کی ہدایت کی پیش رفت پر دن میں ایک بجے پھر سماعت ہوگی۔ صورت حال اس قدر بھیانک ہوگئے ہیں کہ سنگھ سے وابستہ غنڈے عناصر ایمبولینس اور زخمیوں کو اسپتال پہنچانے نہیں دے رہے ہیں۔ لوگ موٹر سائیکلوں پر لمبا فیصلہ طے کرکے کسی طرح ہسپتال پہنچانے پرمجبور ہیں۔ ایمبولینس کو نہیں آنے دیا جارہاہے۔ پوری سڑکوں پر ہندو شدت پسندوں کا کنٹرول ہے۔پولیس یا تو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یا پھر شرپسندوں کے ساتھ مل کر پتھراؤ کر رہی ہے۔بعض ویڈیو میں پولیس کو شرپسندوں کے ساتھ پتھراؤ کرتے دیکھا جاسکتا ہے۔ 

اس کے علاوہ ہندو شرپسندوں کو پولیس تحفظ فراہم کر رہی ہے اور ابعض ویڈیو میں انہیں پتھر فراہم کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔بعض ویڈیو میں پولیس کو پتھر اکٹھا کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے باہر سے غنڈے بلوائے گئے تھے۔ مسلم مظاہرین نے پتھر چلانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہاکہ ہمیں دفاع میں اور اپنی جان بچانے کے لئے پتھراؤ کا سہارا لینا پڑا۔ کیوں کہ دوسری جانب (سی اے اے کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے ہندوؤں)سے گولیاں چلائی جارہی تھیں۔ اگر ہم پتھر نہ چلاتے تو ہم لوگ سینکڑوں کی تعداد میں مارے جاتے۔ کیوں کہ پولیس ہماری حفاظت کے لئے تو تھی نہیں۔ پولیس تو شرپسندوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے۔ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ مرنے والوں میں سے 32مسلمان ہیں۔ اس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔
مقامی لوگوں اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ یہ فساد نے1984کے سکھ فسادات کی یاد تازہ کردی ہے۔ شرپسندوں نے پولیس کی مدد سے مسلمانوں کو چن چن کر نشانہ بنایا اور ان کے گھروں اور دکانوں کو آگ لگائی ہے۔ ہندوؤں کے اپنے گھروں پر بھگوا جھنڈ لہرانے کی بات کہی گئی ہے، تاکہ حملہ کرتے وقت ان کے گھر اور دکانوں کو چھوڑ دیا جائے۔ ہلاک شدگان کو دیکھ کرلگتا ہے کہ ان کو نشانہ بناکر گولیاں ماری گئی ہیں۔ جس طرح 19 دسمبر کو اترپردیش میں پولیس نے مسلمانوں کو سینے، سر، پیٹھ، آنکھ، گلے اور کمرسے اوپر گولیاں ماری تھیں اسی طرح یہا بھی گولیاں ماری گئی ہیں۔ موج پور چوراہے پر شرپسندوں تلاشیاں لے کر جانے دے رہے تھے۔  ایسا محسوس ہورہا ہے کہ دلی میں پولیس کی نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ پولیس کی موجودگی میں ہندو شرپسندوں کو تلاشی لینے کی ہمت کیسے ہوئی ہے۔ جب تک اوپر سے ایسا کرنے کا حکم نہ ہوگا۔

دہلی کو گجرات بنانے کی پوری کوشش کی گئی ہے۔ کیوں کہ جن دو لوگوں نے گجرات کو جلایا تھا آج وہی لوگ دہلی میں موجود ہیں۔ یہاں مسلمانوں کو گجرات کی طرح نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی فامولہ اپنایا گیا۔ جس طرح گجرات میں پولیس نے فسادیوں کو تحفظ فراہم کیا تھا اسی طرح یہا ں کیا گیا ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے باہر تربیت یافتہ غنڈوں کو بلایا گیا تھا، ٹرکوں سے پتھر لائے گئے، ننگی تلوار لیکر گھومتے نظر  آئے اور تابڑ توڑ گولیاں چلائی گئی ہیں۔ مرکزی وزیر مملکت داخلہ کشن ریڈی نے کل حیدرآباد میں کہا، ”کل دہلی میں ہوئے تشدد میں ملوث افراد کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ گزشتہ دو ماہ سے وہاں دھرنا چل رہا ہے لیکن مرکزی حکومت نے انہیں پرامن طریقے سے انجام دینے کا موقع دیا. کل ہوئے تشدد ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا‘۔ مسٹر کشن ریڈی کو یہ بھی بتانا چاہئے کہ گزشتہ دو ماہ سے کوئی تشدد نہیں ہوا تو اب کیسے ہوگیا۔ تشدد بی جے پی کے لیڈر کپل مشرا کے اشتعال انگیز بیان اور سی اے اے کی حمایت میں مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ہوا۔ کیوں کہ انہوں نے لوگوں کو بھڑکایا۔ اکسایا لیکن پولیس نے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ کپل مشرا ڈپٹی پولیس کمشنر کے سامنے دھمکی دیتا رہا  لیکن ڈی سی پی خاموش رہے اور اب تک خاموش ہیں۔ اس کے بجائے کوئی مسلمان یا سماج وادی لیڈر ہوتا تو دہلی پولیس اب تک ملک سے غداری سمیت درجنوں دفعات کے تحت مقدمہ دائر کرکے سلاخوں کے پیچھے ڈال چکی ہوتی۔ اس کے علاوہ وزیر داخلہ نے شرپسندوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت دی ہے۔ سمجھ سکتے ہیں کس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ وہ ہندوؤں کو شرپسند نہیں سمجھتے۔ پولیس بھی انہیں نہیں مانتی۔ اگر مانتی تو کپل شرما اور ان جیسے لوگوں کے خلاف کارروائی کرتی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ فساد حکومت نے قومی شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ کو ختم کرانے کے لئے کروایا ہے۔ حکومت نے گزشتہ دو ماہ سے اس پرامن مظاہرہ کو ختم کرانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوئی تھی۔ اس کے برعکس اس کی پوری دنیا میں بدنامی ہورہی تھی۔ اس سے نمٹنے کے لئے اس نے فساد کا راستہ منتخب کیا ہے۔
دریں اثناء شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کی مخالفت اور حمایت کرنے والوں کے مابین پرتشدد تصادم کے بعد دہلی پولیس کمشنر امولیہ پٹنائک نے کہاکہ تشد د کرنے والے شرپسند عناصر کو بخشا نہیں جائے گا۔انہوں نے کہاکہ دہلی پولیس کی طرف سے مسلسل امن قائم رکھنے کی اپیل کی جارہی ہے۔ جہاں جہاں پر کسی بھی طرح کی کمی ہے، اسے دور کرکے حالات کنٹرول میں کئے جارہے ہیں۔ شرپسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔اس سے پہلے دہلی پولیس کے رابطہ عامہ کے افسر مندیپ سنگھ رندھاوا نے یہاں پریس کانفرنس میں شمال مشرقی دہلی میں حالات قابو میں ہونے کا دعوی کیا جبکہ آج شام موجپور اور چاند باغ میں پھر شرپسند عناصر نے آگ زنی کی۔مسٹر رندھاوا نے یہاں نامہ نگاروں کو بتایا کہ حالات قابو میں ہیں۔ سینئر حکام تشدد زدہ علاقہ میں موجود ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں دفعہ 144نافذ کردی گئی ہے۔ تشد د میں 56جوان زخمی ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ دو آئی پی ایس کے افسر اور 130عام شہر ی زخمی ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ میں اب تک 11معاملے درج کئے گئے ہیں۔
اسی کے ساتھ سپریم کورٹ شمال مشرقی دہلی میں بھڑکے تشدد کے پیش نظر پولیس کارروائی  اور سکیورٹی اقدامات کیلئے ہدایت مانگنے سے متعلق  مداخلت کی اپیل پر بدھ کو سماعت کریگا۔وکیل محمود پراچہ نے بھیم آرمی کے سربراہ چندر شیکھر آزاد،سابق سی آئی سی وجاہت حبیب اللہ اور شاہین باغ کے رہنے والے بہادر عباس نقوی  کے ذریعہ دائر عرضی کا خصوصی طورپرذکر منگل کو جسٹس سنجے کشن کول اورجسٹس کے ایم جوزف  کے سامنے کیاگیا۔

عرضی گزاروں کے مطابق،گزشتہ پیر کو جو تشدد بھڑکا،وہ بی جے پی لیڈر کپِل مشرا  کے ذریعہ دئے گئے اشتعال انگریز بیانوں کا نتیجہ تھا۔الزام ہے کہ اترپردیش کیآس پاس کے گاؤں سے غیر سماجی عناصر بسوں اور ٹرکوں میں بھر کر دہلی میں گھس آئے ہیں اور دہلی کے لوگوں اور پرامن مظاہرین پر حملہ کررہے ہیں۔یہ الزام لگایا گیا ہے کہ پولیس حملے میں زخمی ہوئے لوگوں  کے زریعہ درج کی گئی شکایتوں پر کارروائی کرنے میں  ناکام رہی۔مداخلت کی اپیل میں پولیس کوان شکایتوں پر ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت  دینے کا مطالبہ کیاگیاہے،جو  23فروری کی شام کو شروع ہوئے حملوں کے سلسلے میں درج کرائی گئی ہے اور جو 24فروری کے پورے دن میں بڑھی ہیں۔مداخلت کی اپیل میں دہلی کے شاہین باغ  اور دیگر مقامات پر خواتین کی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے سکیورٹی مہیا کئے جانے کی ہدایت بھی دئے جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
دہلی کے وزیراعلی اروند کیجریوال نے دہلی کے کچھ حصوں اور خصوصاً شمال مشرقی دہلی میں پْرتشدد واقعات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے منگل کو سبھی لوگوں سے امن بحال کرنے کی اپیل کی۔شمال مشرقی دہلی میں بڑے پیمانے پر تشدد کے پیش نظر مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے منگل کو اعلی سطحی میٹنگ بلائی اور حالات کا جائزہ لیکر فسادیوں سے نمٹنے کیلئے مناسب سکیورٹی فورس مہیا کرانے کا بھروسہ دلایا ہے۔کانگریس نے دہلی اور ملک کے عوام سے فرقہ وارانہ ہمآہنگی بنائے رکھنے کی اپیل کرتے ہوئے منگل کے روز کہا کہ وحشیانہ فسادات کے خاطیوں اور اصلی مجرموں، تشدد پسند عناصر اور انھیں مشتعل کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جانی چاہیے۔
لال ٹی شرٹ میں گولی چلانے والے کی شناخت شاہ رخ کے طور پر ہوئی ہے جو نہایت ہی قابل مذمت ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب انہوں نے پولیس سے حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی بات کہی تو پولیس نے لاچاری ظاہر کی اور شرپسندوں کے خلاف کچھ بھی کرنے کے تیار نہیں ہوئی وہ مجبوراَ اپنا پستول نکال کر لہرایا اور فائرنگ کی لیکن ان کی فائرنگ سے کوئی ہلاک نہیں ہوا۔ اگر پولیس شرپسندوں کو روکتی ہے تو شاہ رخ کو گولی چلانی نہیں پڑتی۔ 

Comments