جامعہ کے طلبہ نے وہ کام کردکھایاہے جس کا انتظار ستربرسوں سے تھا۔ مولانا سجاد نعمانی

عابد انور

Thumb

نئی دہلی،8 جنوری (عابد انور) قومی شہریت ترمیمی قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ اور عام شہریوں کے مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مشہور عالم دین، ممتاز دانشور اور مسلم پرسنل لا بورڈ کے سابق ترجمان مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نے وہ کر دکھایا ہے جس کا انتظار گزستہ 70برسوں سے تھا۔ 
انہوں نے کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام صرف ڈگری دینے اور نوکری کے حصول کے لئے نہیں ہوا تھا بلکہ جنگ آزادی میں حصہ لینے اور جنگ آزادی کا بگل بجانے کے لئے ہوا تھا اور آج اس ادارہ کے طلبہ نے اس بات کو ثابت کردیا اور ہندوستان اور ہی پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا کہ یہاں کے طلبہ فسطائیت کے خلاف ڈرنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فسطائی طاقتوں سے ملک کو آزاد کرانے کے لئے یہاں کے طالب اس وقت میدان میں ہیں۔ 
انہوں نے کہاکہ مودی حکومت پر نشانہ لگاتے ہوئے کہاکہ وہ تمام طاقتیں جنہوں نے مختلف حربے اور ہتھکنڈے اپناکر دھوکے سے اقتدار پر قبضہ کرلیااب یہی عوام انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے سڑکوں پر آگئے ہیں۔انہوں نے شاہین باغ، جامعہ نگر کے خواتین اور نوجوانوں کو سلام کرتے ہوئے کہاکہ ان خواتین نے پورے ملک میں سر فخر سے اونچا کردیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ مسلم خواتین کے اندر ملک کے مسائل کے تئیں کوئی سمجھ نہیں ہے اور وہ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھی رہتی ہیں لیکن جب ملک میں آئین کے خلاف کچھ ہوا تو مسلم خواتین نے سڑکوں پر اترکر دکھادیا کہ وہ ملک کے مسائل کے تئیں کتنی حساس ہیں۔
مولانا نعمانی نے کہاکہ برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، مسلم خواتین نے بہت برداشت کیا، تین طلاق قانون کے خلاف سڑکوں پر نہیں آئیں،کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمہ پر سڑکوں پر نہیں اتریں لیکن جب آئین کو بچانے کا معاملہ آیا تو گزشتہ تین ہفتوں سے زائد پر سڑکوں پر ہیں اور سخت ترین سردیوں میں سڑکوں پر جمی ہوئی ہیں۔
 مولانا سجاد نعمانی نے کہاکہ ان نوجوانوں اور یہاں کی خواتین نے واضح کردیا تھا کہ وہ کسی کا ا یا کسی پارٹی کا نتظار نہیں کریں گی، لاٹَھیاں کھائیں گی۔گولیاں کھائیں گی لیکن ملک اور اپنے حق کے لئے سڑکوں پر اتریں گی۔انہوں نے معذرت طلب کرتے ہوئے کہاکہ مجھے اس دن آنا چاہئے تھا  جس دن جامعہ کے طلبہ پر لاٹھیاں برسائی گئی تھیں لیکن میں بیمار تھا،، لڑکوں کے پیر توڑے جارہے تھے، طالبات کے ہوسٹل میں گھس پر حملہ کیا جارہا تھا، ٹوائلٹ کے اندر گھس کر بجلی بجھاکر بچیوں کے ساتھ مار پیٹ کی جارہی تھی۔ ایسا تصور کسی مہذب سماج میں ممکن نہیں ہے۔
انہوں نے ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کی تعریف کرتے ہوئے کہاکہ ہم اس ہندوستان کو جانتے ہیں جس کا ماضی بہت عظیم تھا اور ہمارا ایمان ہے اس کا مستقبل بہت عظیم ہوگا اور تمام شعبہائے حیات میں دنیا کی رہنمائی کرے گا۔ انہوں نے جامعہ نگر، شاہین کی خواتین سے گزارش کرتے ہوئے کہاکہ تمام بہنیں اس مہم کو ٹھنڈا نہ ہوینے دیں۔ آپ کی اس کی تحریک کو ہندوستان ہی پوری دنیا میں حمایت کی جارہی ہے اور آپ کی کوشش اور قربانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ آپ سے پورے ملک کو امیدیں ہے اور وہ آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔

کمیونسٹ لیڈر کویتا کرشنن نے ملک کے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ کسی کو معلوم تھا کہ 5اگست کے بعد خواتین اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر اتریں گی۔ خواتین نے یہ بتادیا ہے کہ وہ ظلم کے خلاف میدان میں اترنے کا مادہ رکھتی ہیں۔ انہوں نے ملک میں فسطائی طاقتوں کی بربریت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ نقاب پوش غنڈے کبھی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ کو نشانہ بناتے ہیں تو کبھی علی گڑھ مسلم  یونیورسٹی تو کبھی جواہر لال نہرو یونیورسٹی پر حملہ کرتے ہیں اور کسی کی آنکھ پھوڑتے ہیں تو کسی کا پیر توڑتے ہیں تو کسی کا کچھ اور۔ 
محترمہ کرشنن نے الزام لگایا کہ حکومت حد سے زیادہ جھوٹ بول کر عوام کو گمراہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مودی کہتے ہیں کہ این آر سی کے بارے میں 2014کے بعد کوئی بات نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مغربی بنگال کی ریلیوں ں میں مودی نے بار بار این آر سی نافذ کرنے کی بات کہی ہے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ کسی جمہوری ملک میں این آر سی نافذ نہیں ہوتا ہے، این آر سی وہیں نافذ ہوتا ہے جہاں جمہوریت نہیں ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت نافذ ہونے والے این پی آر میں بابوؤں کو حق ہوگا کہ بغیر کسی وجہ کے بھی آپ کے نام کے مشتبہ لکھ دے اور نہ لکھنے کے لئے آپ سے بھاری رشوت طلب کرے گا اور رشوت نہیں دیں گے تو آپ کے نام کے آگے مشتبہ لکھ دے گا۔ 
ٹریڈ یونین کی جنرل سکریٹری سوبیا راج نے اس موقع پر کہاکہ ہماری لڑائی انگریزوں کے دلالوں سے ہے اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ شاہین باغ، جامعہ نگر اور بٹلہ ہاؤس کی خواتین ہراول دستہ کا کام کریں گی۔ 
 انہوں نے کہاکہ ملک میں ہندومسلم میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن یہ کامیاب نہیں ہوگا کیوں کہ ملک بٹے گا تو امیر و غریب، ظالم و مظلوم میں۔ 
انہوں نے کہاکہ اس میں صرف جامعہ نگر، شاہین باغ کی خواتین ہی نہیں بلکہ پوری دہلی کی خواتین اس مظاہرہ میں شرکت کر رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ جس طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اترپردیش میں مظاہرین پر بربریت کا مظاہرہ کیا گیا ہے ’اس نے ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
شاہین باغ میں بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جے این یو وغیرہ کے طلبہ کے ساتھ دیگر لوگوں نے خاتون مظاہرین سے خطاب کیا۔اس کے علاوہ شاہین باغ خاتون مظاہرین جہاں جے این یو پر طلبہ پرحملے کے بارے میں فکر مند ہیں وہیں ان کا مطالبہ ہے کہ بھیم آرمی کے چیف چندر شیکھر کو رہا کیا جائے۔اس کے علاوہ شاہین باغ میں پورے ہندوستان کا سنگم نظر آئے گا۔  اسی کے ساتھ جامعہ نگر کے ذاکر نگر ڈھلان پر مغرب بعد خواتین بڑی تعداد میں کینڈل جلاکر قومی شہریت قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ خاتون مظاہرین کا دائرہ وسیع ہورہا ہے اور دہلی کے جعفر آباد سیلم پور میں بھی خواتین اس قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اس کے ملک کے دیگر حصوں اور جمشید پور سے بھی خواتین کے مظاہرہ کرنے کی خبریں ہیں جمشید پور میں سمودھان بچاؤ سنگھرش سمیتیی کے تحت خواتین میں بیداری کے لیے جمشید پور کی بڑی مسجد وں میں سے ایک "امام حسینی مسجد"ذاکر نگر میں اس کو منعقدکیا گیاجس میں کئی خواتین نے خطاب کیا، بالخصوص محترمہ عرشی اختر صاحبہ،جے،این،یو اسٹو ڈینٹ محترمہ امن صالحہ صاحبہ جامعہ ملیہ سے، محترمہ فاطمہ فیض کشفی صاحبہ اسٹو ڈینٹ کریم سیٹی کالج جمشیدپور، ڈاکٹر محترمہ انجم پروین صاحبہ پرو فیسر وومینس کا لج جمشیدپور،اور کئی جان مانی مشہور خواتین نے شرکت کی،مردوں میں بھی بہت سارے قابل ذکر حضرات بھی شامل تھے - تقریباً دوہزار ہزار سے زیادہ خواتین تھیں، ہزار سے زیادہ مرد حضرات بھی کھڑے تھے جو خواتین کو لیکر آئے تھے بڑے ہجوم نے کھڑے ہو کر اطمینان وسکون سے سنا۔ ان میں 90سالہ آمنہ بی بی سی 65 سا لہ نا بینا خاتون خورشید ہ بھی شامل تھیں

Comments