عرب ممالک کی بے حسی اسرائیل کے لئے فائدہ

غلام غوث، بنگلور

Thumb

       1920سے یہودیوں نے دنیا بھر سے ایک پلان کے تحتفلسطین میں آ کر زیادہ قیمت دے کر زمین خریدنے اور رہنے لگے۔ جب ان کی تعداد زیادہ ہونے لگی تو عربوں نے مذاحمت کرنا شروع کر دیا۔  1935میں اسرائلی لیڈر بین گورین نے ایک بیان دیا کہ اگر میں عرب ہوتا تو آج کے عربوں سے زیادہ یہودیوں کے آ کر بسنے کی مخالفت کرتاکیونکہ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو یہودیوں کی تعداد اتنی بڑھ جاتی کہ عربوں کو یہودیوں کے ماتحت رہنا پڑتا۔ اصل میں یہاں عربوں کی غلطی تھی جو انہوں نے اپنی زمین یہودیوں کو فروخت کرنا شروع کر دیا تھا  اور خود کو موجودہ مصیبت میں ڈال لیا۔   1949  اور  1956  میں جب فلسطینیوں نے روز گار کے لئے اسرائیل میں داخل ہونے لگے تو اسرائیلیوں نے قریباً   5000 عربوں کا قتل عام کر دیا۔  1956  اور  1967 کی جنگ میں انہوں نے بیشمار مصری قیدی سپاہیوں کو گولیوں سے بھون دیا۔اور قریباً قریباً2,60,000 فلسطینیوں کو اپنے فتح کئے ے یروشلم کے مغربی کنارے سے اور  80,000 شامیوں کو گولان پہاڑی سے کھدیڑ کر بے دخل کر دیا اور دس ہزار سے زیادہ گھروں کو مسمار کر دیا۔ سویڈن کے ایک ادارے   "بچوں کو بچاو"  کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کو حکم دیا گیا کہ فلسطینیوں کو مار مار کر اْنکی ہڈیاں توڑ دی جائیں۔چناچہ  29,000  بچوں کو اتنا مارا گیا کہ انہیں اسپتالوں میں داخل کرنا پڑا۔ سال   2000 میں جب دوسرا انتفادہ (احتجاج) عربوں نے شروع کیا تو اسرائیلی فوج killing machine             بن گئی اور پہللے ہی دنوں میں دس لاکھ سے زیودہ گولیاں داغ دیں۔ اس مے  3386   عرب اور  992   یہودی مارے گئے۔ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ جولائی 2000   میں جب امریکہ کے شہر کیمپ ڈیوڈ  میں یہود باراک اور یاسر عرفات کے درمیان صلح کی بات چل رہی تھی تو براک نے کہا کہ وہ یاسر عرفات کی ہر وہ بات مان رہے تھے جو وہ چوہ رہے تھے۔ براک کا کہنا ہے  Arabs never miss an opportunity to miss an opportunity (عرب ہر موقع گنوانے کاکوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ یعنی عرب ہر موقع گنوا دیتے ہیں۔    مگر سچائی اس کے بر خلاف تھی۔ براک نے عرفات کو غزہ پر مکمل کنٹرول اور یروشلم کے مغربی کنرے میں  81  فیصد زمین پر قبضہ دے دیا مگردریائے اردن پر اپنا قبضہ رکھ لینے کا آفر دیا۔مگر یہ زمیں ٹکڑوں میں دی گئی نہ کہ سیدھی طرح۔ہر دو ٹکڑوں کے درمیان یہودیوں کی زمین ہو تی تھی جو عرفات کے لئے نا قابل قبول تھا۔غزہ اور مغربی کنارے کے درمیان بھی زمین پر اسرائیل کا قبضہ ہو گا۔It was not a continuous piece of soverign territory) (۔                                                                ہر دو ٹکڑوں کے درمیان انہیں ملانے کے لئے ایک under ground tunnel  راستہ  یعنی یہودی زمین کے اندر سے  غار نما راستہ بنا کر ملانا تھا۔ بارڈر پر، فضا پر اور پانی کی سپلائی پر اسرائیل کا حکم چلنا تھا اور اے آزاد فوج رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔یہود براک کے ساتھی جو اْس صلح کی بات چیت میں اس کے ساتھ تھے اس کے ایک ممبرShimon Ben Ami کا کہنا ہے وہ اگر فلسطینی ہو تے تو ایسی شرائط کو کبھی نہ مانتے۔ دوسرا انتفادہ (احتجاج)  28.8.2000 میں ایریل شرون کے مسجد اقصاء مے داخلے کے سبب  شروع ہوا تھا۔ آسلو امن معاہدہ جو  ستمبر  1993 میں ہوا اور دوسرا احتجاج جو  2000  میں شروع ہوا اس کے درمیان سات سالوں میں اسرائیل نے چالیس ہزار ایکر فلسطینی زمین پر قبضہ کر لیا۔  250 میل لمبا بائی پاس راستہ بنا لیا، نئی یہودی کالونیاں بنا لیں اور قریباً ایک لاکھ یہودیوں کو بسا دیا۔ فلسطینیوں کو آزادی کے ساتھ آنے جانے پر بھی پابندی لگا دی۔فروری  2001 میں ایریل شرون  اسرائیل کا وزیر اعظم بن گیا اور صلح کی بات چیت  پر روک لگا دی۔ان تمام واقعات کے پیچھے امریکہ میں موجود اسرائیلی لاب  AIPAC  ذمہ دار تھی جس نے اپنے اثر و رسوخ اور حکمت سے تمام امریکی سیاست دانوں کو خرید لیا تھا۔امریککہ میں ہر صنعت یا تجارت کرنے والوں کی ایک لابی ہوتی ہے جس کے اراکین بہت ہی طاقتور اور اثر و رسوخ والے ہو تے ہیں جو ہر سیاسی پارٹی کی مالی مدد کرتے ہیں اور اس سے اپنے بزنس یا تجارت کے لئے فائدہ اٹھاتے ہیں۔چناچہ وہاں                                                            Petroleum lobby, Pharmacutical lobby, National Rifle  Association, Farm lobby, Insurance lobby, Israel lobby, Arab lobby       اور کئی دیگر لابی ہوتے ہیں  جو حکام کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اسرائیلی لابی بہت ہی طاقتور اور مالدار یہودیوں کی لابی ہے جو امریکہ کی فارن پالیسی پر اثر انداز ہو تی ہے اور اسے اسرائیل کے حق میں جھوٹ سچ بول کر موڑتی رہتی ہے۔ امریکی سیاستدان بھی اپنی معصومیت یا حصول دولت کے  سبب اسے سچ مان لیتے ہیں۔ یہودیوں کی ایک اور لابی   ZOA ہے جسےZionist organisation of America کہتے ہیں۔ ایک اور لابی ہے  Christians United For Israel۔ سب سے کمزور لابی عربوں اور دیگر مسلمانوں کی ہے جنکی ساری دولت عیش و عشرت میں گزرتی ہے۔ اگر کچھ تھوڑا بہت کر تے بھی ہیں تو صرف چند مسجدیں بنا نے کا کام کرتے ہیں۔اْنکے مقابلے میں تمام یہودی اپنا  بہت سارا وقت اور اپنی آمدنی کا ایک حصہ امریکی سیاستدانوں کو اپنی طرف کر لینے کے لئے صرف کر تے ہیں اور اس طرح انہیں اسرائیل کے حق میں موڑتے ہیں۔ آجکل امریکہ میں یہودی لابی کے بعد سب سے طاقتور لابی ہندوستان کی ہے۔ عرب ممالک کی لابی مسلکی جھگڑوں اور جماعتی جھگڑوں میں گرفتار ہے۔آج اسرائیل سمجھتا ہے کہ اسے سب سے بڑا خطرہ ملک شام سے نہیں بلکہ ایران سے ہے۔ ایران اور شام دونوں حسب اللہ، حماص اور اسلامک جہاد کی مدد کر تے ہیں جو اسرائیل کی ناک میں دم کئے ہوے ہے مگر القائدہ کی مخالفت کرتے ہیں۔اسرائیل جانتا ہے کہ ایران اور شام کے پاس کیمیکل اور بیالاجیکل ہتھیار ہیں جو نیوکلیر بموں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ ایران خود کو شمالی کوریا کی طرح نیوکلیر طاقت بننے کی کوشش کر رہا ہے اور دور تک مار کرنے والے میزائل بھی بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ آگے چل کر یوروپ اور امریکہ کی سر زمین تک پہنچ سکے۔فی الوقت ایران کے میزائل عرب ممالک میں موجود امریکی جہازوں اور ملٹری اڈڈوں کو اور اسرائیل کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔یہ خیال کہ ایران نیوکلیر بن جائے گا اسرائیل کی نیند حرام کر چکا ہے اور وہ  جھوٹ سچ کہکر امریکہ کو اس کے خلاف اکسانے میں مشغول ہے۔۔آجکل عرب ممالک بھی ایران سے خائف ہیں کیونکہ اسرائیل اور امریکہ دونوں نے ایران کو عرب ممالک کا دشمن بتانے میں کامیاب ہو چکے ہیں،   1953سے لیکر  1979تک شاہ آف ایران کے دور حکومت میں امریکہ اور ایران کے درمیان گہری دوستی تھی۔امریکہ اور اسرائیل کو آج یہ بھی شک ہے کہ ایران اگر نیوکلیر بن گیا تو وہ کچھ نیوکلیر ہتھیار اسرائیل مخالف تنظیموں کو بھی دے گا اور سرد جنگ شروع کر دے گی۔ اس لئے اسرائیل کی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ امریکن ملٹری عرب ممالک میں رہے۔ امریکہ اور یوروپی ممالک کا ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگر ایران نیوکلیر بن گیا تو اسے اْسی طرح خاموش رکھا جا سکتا ہے جیسے   1950 سے لیکر اب تکک روس کو سرد جنگ کے دوران خاموش رکھا گیا اور اب چین کو خاموش رکھا جا رہاہے۔ کچھ سیاستدانوں کا خیال ہے کہ ایران کو نیوکلیر بننے سے روکنے کے لئے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ایران اور امریکہ کے درمیان دوستی قائم کر دی جائے اور ایران پر لگی تمام پابندیاں ہٹا دی جائیں۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل اپنا نوکلیر پروگرام بند کر دے۔ مگر اسرائیل کبھی ایسا نہیں کرے گا           
فروری  2019 میں اخبار لنڈن سنڈے  ٹائمس نے لکھا کہ انٹلیجنس ذرایع کے مطابق اگر امریکہ نے ایران پر حملہ کرنے کا حکم دیا تو کئی امریکی جنرلس اور ملٹری کمانڈرس اپنے عہدوں سے استعفی دے دیں گے۔ ایرانی حکمران بھی امریکہ سے قریبی تعلقات بنائے رکھنے کی کوششوں میں لگے ہوے ہیں مگر اسرائیل ایسی کوششوں کو ناکام بنانے میں لگاہوا ہے۔ایرانی صدر محمد ختامی نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ امن سمجھوتا کر لیتا ہے تو وہ اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے اور اس کے ساتھ امن اور دوستی بنائے رکھیں گے۔امریکہ اور اسرائیل دونوں نے اس پیشکش کو نظر انداز کر دیا۔ امریکہ نے ایران کی معاشی ناکہ بندی اسرائیل کے کہنے پر کر دی ہے۔مارچ   2007 میں سیکورٹی کونسل نے اور زیادہ ناکہ بندی کروا دی۔   2007 میں اسرائیلی وزیر اعظم اولمرٹ نے اندازہ لگا یا کہ ایران کے نیوکلیر پروگرام کو تباہ کر نے کے لئے ایک ہزار ٹماہاک کروز میزائلس کو دس دن تک داغنا پڑے گا۔ ساتھ ہی اسرائیلی فوج نے ریہرسل کرنا بھی شروع کر دیا اور آج بھی کر رہے ہیں  تاکہ اگر امریکہ کچھ نہ کرے تو خود اسرائیل کو حملہ کرنا پڑے گا۔ 2002میں سعودی حکومت نے دوملکی حل پیش کیا  جس میں اسرائیل کو کی سرحدوں پر جا نا پڑتا۔ کہا گیا کہ اگر ایسا ہو تا ہے تو عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ امن و امان قائم کر دیں گے اور تجارتی تعلقات بھی بر قرار کر دیں گے۔ مگر اسرائیل نے  امریکہ کی مدد اور بھروسے پر اسے بھی ٹھکرا دیا۔امریکہ  مسٹر ٹرمپ کی صدارت میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہے کہ ایران اور عرب ممالک کے درمیان خلیج بڑھتی جائے اور عرب ممالک ایران کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں۔ سعودی عرب کے کم عقل حکمران اس جال  میں پھنس چکے ہیں اور ایران کو سچ مچ اپنا دشمن مان کر اس کے خلاف بیشمار ہتھیار امریکہ سے خرید رہے ہیں۔ کچھ ہتھیار اسرائیل امریکی لیبل لگا کر بھی عربوں کو فروخت کر رہا ہے۔  2017 میں  امریکی الیکشن کے وقت مسٹر ٹرمپ نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگر صدر بن جاتے ہیں تو وہ عرب اسرائیل مسلہ کو حل کر دیں گے۔  چناچہ   2019  میں انہوں  نے صدی کی ڈیل کے نام سے ایک فارمولہ پیش کر نے کا اعلان کر دیااور اپنے داماد   kushner  کو یہ کام سونپ دیا۔ ان کا داماد ایک یہودی ہے اور اس کا تمام جھکاو اسرائیل کی طرف ہے۔  2019میں اس نے عربوں اور فلسطینیوں کو صدی کی ڈیل کے پہلے حصہ کے نام پر ایک پیشکش کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ فلسطینیوں کو   50 بلین ڈالر کی امداد دوسرے تمام ممالک سے وصول کر کے دیں گے تا کہ فلسطینیوں کو معاشی طور پر مضبوط کر سکیں۔ یہ ایک قسم کا لالچ تھا جو فلسطینیوں کو اس لئے دینے کی پیشکش کی گئی کہ وہ امریکہ کے آئندہ چل کر پیش کر نے والے فارمولے کو قبول کر لیں۔ مگر فلسطینی اس چال کو سمجھ گئے اور اس پر منفی رد عمل ظاہر کر نا شروع کر دیا۔ عرب ممالک کی کمزوری یہ ہے کہ وہ نہ طاقت کے زور پر بات کرتے ہیں اور نہ ہی کسی متحدہ حکمت عملی کے زور پر ۔در اصل عرب ممالک شش و پنچ میں مبتلا ہیں۔ وہ کسی صورت میں امریکہ کو ناراض کر نا نہیں چاہتے اور ہمیشہ اس کے جوتے چاٹتے رہنے میں  امان سمجھتے ہیں۔ عرب حکمران امریکہ کی غلامی پر خوش ہیں مگر عرب عوام امریکہ سے ناراض ہیں۔ 2020 جنوری میں مسٹر ٹرمپ نے اپنی صدی کی ڈیل پیش کر دی۔ اس ڈیل کو بنانے کے دوران وہ دن رات اسرائیلی حکام سے بات چیت کر تے رہے مگر بھول کر بھی انہوں نے فلسطینی اور عرب ممالک کے لیڈروں سے بات نہیں کی۔ در اصل یہ صرف امریکہ اور اسرائیل کا فارمولا ہے۔ یہ ڈیل اسرائیل کے حق میں ہے۔ اس ڈیل کے مطابق فلسطین ایک غیر ملٹری ملک ہو گا جس کی کوئی فوج نہیں ہو گی اور جس کے پاس کوئی جدید ہتھیار نہیں ہونگے اور وہ کسی بھی ملک کے ساتھ ملٹری سمجھوتہ یا معاہدہ نہیں کر سکے گا۔ سمندر، ہوا اور بارڈر پر فلسطینیوں کا کوئی کنٹرول نہیں ہو گا۔ ان کی نہ ایر فورس ہو گی اور نہ ہی سمندری فورس۔ اْس کا علاقہ کئی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہو گا جس کے درمیان جگہ جگہ اسرائیل کی حکومت ہو گی اور اسرائیل کی زمیں ہو گی۔ فلسطینیوں کو ان بکھرے ہوے ٹکڑوں پر حکمرانی کر نی ہو گی جو ایک ناممکن سی بات ہے۔ غور سے دیکھیں تو دنیا میں کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے  جس کی پیشکش کی گئی ہے۔ بیوقوف سے بیوقوف اور دیوانا انسان بھی اس فارمولے کونہیں مانے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ جیسے ملک نے ایسا احمقانہ فارمولا کیسے  مرتب کر دیا  اور کیسے امید کر لیا کہ اسے قبول کر لیا جائے گا۔ فارمولے میں یہ بھی کہا گیا کہ جو فلسطینی ملک بدر کر دیے گئے تھے انہیں واپس نہیں لیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لوگ انہیں پڑوسی ملکوں میں رہیں جہاں انہیں جانے پر  اسرائیل نے مجبور کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ اگر فلسطینی ریاست قائم ہو تی ہے تو اسکا صدر مقام مشرقی یروشلم نہیں ہو گا بلکہ اسے کئی میل دور ایک غیر آباد کونے میں اپنا صدر مقام بنا نا ہو گا۔ مکمل آزادی نہ دینے کے بدلے میں فلسطینیوں کو وہ   50 بلین ڈالر دیے جائیں گے۔  مسٹر ٹرمپ کو معلوم تھا کہ فلسطینی اس فارمولے کو نہیں مانیں گے۔ چناچہ انہیں درانے دھمکانے کے لئے اس نے اعلان کر دیا کہ یہ فارمولا فلسطینیوں کے لئے ایک آخری پیشکش ہے ۔ افسوس اس بات کی ہے کہ سعودی عرب اور برطانیہ نے اس فارمولے کو خوش آمدید کہہ دیا  اور فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اسے قبول کر لیں۔ کچھ لیڈروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب نے ایسا اس لئے کیا کیونکہ اسرائیل نے ایران کے خلاف سعودی عرب کا ساتھ دیتا آ رہا ہے۔       1.2.2020  کو لیگ آف عرب ممالک نے ایک ایمرجنسی میٹنگ بلائی اور کہہ دیا کہ یہ فارمولا اطمنان بخش نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے ترجمان نے کہہ دیا کہ جو بھی امن معاہدہ ہو نا ہے وہ اقوام متحدہ کے ریزولیو شن کے مطابق ہی ہو نا ہے  یعنی  اسرائیل کو   1967 کی سرحد کو ماننا ہو گا اور قابض علاقے فلسطینیوں کو واپس کر نا ہو گا۔ اتنا ہی نہیں  28 یوروپی یونین کے ممالک نے بھی امریکہ کے اس فارمولے کو غلط بتا دیا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے  2.2.2020  روس جا کر روس کے صدر ولادمیر پوتن سے اس امید پر فوری میٹنگ کی کہ وہ بھی اس امریکی فارمولے کو قبول کر لے۔ پوتن دراصل چاہتے ہیں کہ اسرائیل روس کو اس معاملہ میں  ریفری مان کر مزاکرات میں حصہ دار مان لے۔ ترکی کے صدر مسٹر اردگان نے عرب حکمرانوں کو لتاڑتے ہوے سوال کیا کہ وہ خاموش کیوں ہیں اور کیا وہ اسی وقت اٹھیں گے جب شیاطین کعبہ میں گھس آئیں گے۔ اگر ہم بیت المقدس کو نہیں بچا پائیں گے تو وہ دن دور نہیں جب شیاطین کعبہ پر اپنی نظریں ڈال دیں گے۔ ٹرمپ نے جب وہ فورمولا پیش کیا تو وہاں تین عرب ممالک کے ترجمان تھے جو بے غیرتی کے ساتھ تالیاں بجا رہے تھے۔ اردگان نے کہا کہ اگر ان میں غیرت ہوتی تو وہ اس میٹنگ کا   بائیکاٹ کر تے۔ آپ نے سعودی عرب کو کافی آڑے ہاتھو ں لیا۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ لکھ چکا ہوں کہ یہ مسلہ آسانی سے حل ہو جائے گا اگر تمان عرب مملک امریکہ کو کہیں کہ وہ اپنے تمام عرب ممالک میں قائم کردہ ملٹری اڈڈوں کو خالی کر دے اور واپس چلا جائے ۔ دوسری دھمکی یہ دینا ہو گا کہ تمام مسلم ممالک اقوام متحدہ سے نکل جائیں گے اور خود کا ایک اقوام متحدہ بنائیں گے۔ تیسری دھمکی یہ دینا ہو گا کہ مسلم ممالک اپنی تمام دولت جو امریکی  بنکوں میں ہے اسے یوروپی ممالک منتقل کر دیں گے۔ چوتھا یہ کہ تمام عرب ممالک خود کو نیٹو کی طرز پر ایک ملٹری دفاق بنائیں جس کا نام ہو گا میٹو)  Middle east treaty organization )     ۔ اگر عرب ممالک یہ دھمکی دے دیں تو دنیا کا ہرملک اور سیکوریٹی کونسل تک عربوں کے مطالبات کو منظور کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔ امریکی صدر کینڈی کے بعد جتنے بھی صدر آئے وہ سب کے سب اسرائیل کے طرفدار رہے۔ اس لئے اب امریکہ پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب جو بھی کرنا ہے وہ صرف مسلم ممالک کو کرنا ہے۔
                 فون:9980827221

Comments