شاہین باغ خاتون مظاہرین کی روشن کی گئی شمع کی روشنی پورے ملک میں پہنچ چکی

عابد انورThumb

 
نئی دہلی، 18جنوری۔ قومی شہریت ترمیمی قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین کی روشن کی گئی شمع کی روشنی پورے ملک میں پہنچ چکی ہے اور احتجاج کی یہ شمع اس وقت پورے میں خواتین نے رات دن کا مظاہرہ کرکے جلا رکھی ہے اور اس وقت دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ، خوریجی، جعفرآباد، ترکمان گیٹ، جامع مسجدسمت ملک تقریباً پچاس سے زائد مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔
شاہین باغ میں قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف جامعہ ملیہ اسلامیہ، لائبریری میں گھس کر طلبہ پر کی گئی پولیس کی وحشیانہ کارروائی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ بربریت کے خلاف 16دسمبر سے خواتین دن رات کا مظاہرہ کر رہی ہیں جس کی حمایت میں پورے ملک سے سرکردہ شخصیات آرہی ہیں اور وہاں بارش اور سرد موسم کے باوجود خواتین کے جوش و خروش اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ وہاں انڈیا گیٹ بھی ہیں اور ہندوستان کا نقشہ بھی ہے اور ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا حقیقی نظارہ یہاں دیکھنے کو ملتا ہے۔ مختلف چھوٹے چھوٹے گروپ میں بچے بچیاں، اسکول و کالج کے لڑکے لڑکیاں اس سیاہ قانون کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے نظر آرہے ہیں۔
اس وقت پورا جامعہ نگر مجسم احتجاج نظر آرہا ہے۔ اسکول سے آتے ہوئے بچے بھی اس سیاہ قانون کے نعرے لگاتے ہوئے گھرآتے دکھائی دیتے ہیں۔ شاہین باغ کے خواتین میں ہندی میڈیا کی جھوٹی رپورٹ کے سلسلے میں کافی ناراضگی ہے۔ احتجاج کرنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ بی جے پی آئی ٹی سیل کی یہ کارستانی ہے۔ وہ لوگ خواتین کی آواز سے خوف زدہ ہیں اور اس لئے گھٹیا حرکت پر اترآئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو مظاہرہ کا سامنا کرنا چاہئے چہ جائے کہ وہ مظاہرہ کے بارے میں غلط باتیں کر رہی ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں طلبہ اور عام لوگوں نے دھرنے کی مدت میں اضافہ کرتے ہوئے اسے اب چوبیس گھنٹے کا کردیا ہے۔ قومی شہرے، این آر سی، این پی آر کے خلاف اہم شخصیات میں آنا مسلسل جاری ہے۔ جامعہ کے احتجاج میں یہ الگ ہی رنگ نظر آتا ہے۔ ایک لائبریری نظر آرہی ہے تو دوسری حراستی کیمپ بھی ہے، پولیس بربریت کی تصویریں آویزاں کی گئی ہیں۔ ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی کے علامات نظر آتے ہیں۔ یہاں بھی پورا ہندوستان نظر آتا ہے اور ہندوستان کی ہر زبان میں نعرے لکھے نظر آتے ہیں۔ اس وقت جامعہ ملیہ اسلامیہ میں جنگ آزادی کے دور کی جھلک نظرآتی ہے۔
جامع مسجد میں رات میں خواتین کا دھرنا شروع ہوتا ہے اور اہم لوگ اس میں تقریر کرتے ہیں۔ بغیر مذہب و ملت اور علاقے سب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ نیشنل موومنٹ فرنٹ کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر سوربھ واجپئی نے اس موقع پر جامع مسجد کی تاریخ کو یاد کرتے ہوئے کہاکہ دہلی کی جامع مسجد کو تین طرح یاد کیا جاسکتا ہے۔ پہلا یہ 1857بہادر شاہ کی قیادت میں فوج نے لڑائی لڑی ہے اور جامع مسجد اس کا گواہ ہے اور دوسرے حکیم اجمل خاں کے والد حکیم محمود خاں نے پرانی میں دہلی میں ہندو مسلم کے مابین ہونے والے جھگڑے کے سامنے آگئے اور دونوں کے درمیان اتحاد قائم کیا اور تیسرا مولانا آزاد کی وہ تقریر ہے جس کی وجہ سے یہاں سے مسلمان پاکستان جانے سے رک گئے۔ انہوں نے کہاکہ ہماری لڑائی (مولانا آزاد، نہرو اور گاندھی کی) ساور کر اور جناح کے نظریہ سے ہے۔ اس وقت ماحول بنایا جارہاہے وہ دراصل بٹوارے کی ادھوری کہانی کو پورا کرنا چاہتے ہیں جسے ہمیں کسی قیمت پر نہیں ہونے دینا ہے۔
دہلی کے خوریجی میں قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف خواتین ثابت قدم سے بیٹھی ہیں اور مرد حضرات رات میں موم بتی جلائے رات بھر کھڑے رہتے ہیں۔ یہی نظارہ جعفرآباد میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ روڈ کے کنارے سخت اذیت میں خواتین احتجاج کررہی ہیں۔ ان خواتین کا کہنا ہے کہ جب حکومت یہ قانون واپس نہیں لیتی اس وقت تک ہم لوگ نہیں ہٹیں گی۔ جعفرآباد کے آگے مصفطی آباد میں بھی خواتین نے مظاہرہ شروع کردیا ہے اور کثیر تعداد میں خواتین اور لوگ وہاں آرہے ہیں۔
کولکاتہ کے پارک سرکس میں خواتین سخت پریشانیوں کے باوجود اپنا مظاہرہ جاری رکھا اور انتظامیہ کو مجبور ہوکر وہاں ٹینٹ لگانے کی اجازت دینی پڑی۔ انتطامیہ سہولت کی لائن کاٹ کر دھرنا کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن خواتین کے عزم و حوصلہ کے سامنے وہ ٹک نہیں سکی۔
اس کے علاوہ ممبئی کے اگری پاڈا علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں خواتین قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف احتجا ج کر رہی ہیں اور حکومت سے اس قانون کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ کانپور کے چمن علاقے کے محمد علی پارک میں خواتین شاہین باغ کی طرز پر گزشتہ چند دنوں سے احتجاج شروع کردیا ہے اور احتجاج کرنے والی خواتین اس سیاہ قانون کی واپس لینے کے  مطالبے کے ساتھ حکومت سے کہا کہ وہ خواتین کو کمزور نہ سمجھیں اور ان کی آواز کو سنیں۔مہاراشٹر کے دھولے میں بھی احتجاج شروع ہوچکا ہے۔
دہلی کے بعد سب سے زیادہ قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف بہار سے آواز اٹھ رہی ہے اور بہار درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ گیا کے شانتی باغ میں گزشتہ 29دسمبر سے خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور یہاں خواتین کی بڑی تعداد ہے۔ اس کے بعد سبزی باغ پٹنہ میں خواتین مسلسل مظاہرہ کر رہی ہیں۔ پٹنہ میں ہی ہارون نگر میں خواتین کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ بہار کے مونگیر، مظفرپور، دربھنگہ، مدھوبنی، ارریہ’سیوان،گوپال گنج، بھینساسر نالندہ، موگلاھار نوادہ، سمستی پور، کشن گنج کے چوڑی پٹی علاقے میں، بیگوسرائے کے لکھمنیا علاقے میں زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور بہت سے ہندو نوجوان مسلمانوں کی حفاظت کرتے نظر آئے۔ سبزی باغ میں خواتین دھرنا آج ساتویں دن بھی جاری رہا اور کئی اہم شخصیات اس میں شرکت کی اور اس قانون کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔مقررین نے کہا کہ سی اے اے کے ذریعہ اس حکومت نے ملک کے باشندوں کے درمیان تفریق اور نفرت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جس کو ہم کبھی معاف نہیں کر سکتے اور ہم اس فرقہ وارانہ نظریے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
لکھنو میں خواتین نے قومی شہریت قانون، قومی شہری رجسٹر اور قومی آبادی رجسٹر کے خلاف مظاہرہ شروع کردیا ہے۔ 19دسمبر کو احتجاج کے بعد تشدد کی وجہ سے اترپردیش میں احتجاج پوری طرح بند تھا اور حکومت نے جمہوری حق کو سلب کرنے کی کوشش کی تھی، جسے دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔اس طلسم کو سب سے پہلے الہ آباد کی خواتین نے توڑا اور روشن باغ منصور علی پارک میں مظاہرہ کرکے احتجاج کا دوسرا دور شروع کیا۔ راجدھانی لکھنؤ کے چوک علاقے میں گھنٹہ گھر پر جمعہ کو شروع ہونے والا احتجاج سنیچر کو بھی جاری رہا۔سرد ہوائیں اور انتظامیہ کی مبینہ جانبدارانہ کاروائی بھی ان کو جائے احتجاج سے جنبش نہ دلا سکی۔سنیچر کو بھی اس قانون کے خلاف اپنی مخالفت درج کرانے کے لئے جائے احتجاج پر خواتین و بچے اپنے ہاتھوں میں ترنگا اور پلے کارڈ لئے ہوئے دکھائے دئیے۔
گذشتہ کل جمعہ کی نماز کے بعد شروع ہونے والے احتجاج میں انتظامیہ کی جانب سے ساری لائٹین بند کرانے کے باجود مظاہرین نے اپنی موبائل کی روشنی میں رام پرساد بسمل کی نظم ’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے اور انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے۔احتجاج میں موجود بھاری تعداد میں بچوں کے ہاتھوں میں پلے کارڈ اور تختیاں ہیں جن پر’ہندو مسلم سکھ عیسائی۔آپس میں ہیں  بھائی ہیں‘۔مذہب پر مبنی شہریت منظور نہیں جیسے نعرے آویزاں ہیں۔مظاہرے میں موجود طلبہ لیڈر پوجا شکلا نے میڈیا نمائندوں سے بات چیت میں کہا کہ لکھنؤ میں سی اے اے،این آر سی اور این پی آر کے خلاف جمعہ کو یہ احتجاج چند مردوخاتون کی موجودگی میں شروع ہوا۔آدھی رات میں پولیس نے علاقے کی تمام لائٹیں بند کرادیں۔عوامی بیت الخلاء میں تالا ڈلوا دیا گیا باوجود اس کے پوری رات لوگ کمبل اور کھانے کے ساتھ آتے رہے۔
اسی طرح اترپردیش کے ضلع بریلی میں اسلامیہ انٹر کالج میں خواتین کا حتجاج شروع ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان میں جے پور میں البرٹ ہال رام نواس باغ، بھوپال کے اقبال پارک’کوٹہ وغیرہ میں احتجاج شروع ہے۔  اس کے علاوہ دیگر مقامات سے خواتین کے مظاہرے کی خبریں موصول ہورہی ہیں۔

Comments