وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی کا قیام: کہیں پر نگاہیں کہیں پر نشانہ
تیشہ فکر عابد انور
مسلمانوں کی کوئی بھی چیز ہو اسے ہندوستان میں چوراہے پر پڑا ہوا سامان تصور کیا جاتا ہے جس کی مرضی ہو وہ لے جائے ، جس طرح چاہے سلوک کرے، کوئی اسے کہنے .، سننے اور دیکھنے والا نہیں ہوتااور نہ اس کے بارے میں کوئی شنوائی ہوتی ہے۔یہی حالت ہندوستان میں وقف جائدادوں کی ہے۔ ان جائدادوں کے قابضین میں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہیں جہاں مسلم قائدین کی مجرمانہ غفلت شامل ہے وہیں متولیوں اور وقف جائدادوں کی نگرانی کرنے والوں کی بدنیتی بھی قابضین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ابتداء ہی سے وقف کے تعلق مسلم معاشرہ ، مسلم سیاست داں، حکومت کے وزراء اورافسران کا رویہ معاندانہ رہا ہے ۔ وقف بورڈ کی جائدادوں پر سب سے بڑا قابض مرکزی اور ریاست حکومت کی ایجنسیاں ،دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے)، وزارت دفاع اور ریاستوں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز شامل ہیں۔ مہاراشٹر ہو یا آندھرا پردیش، دہلی یا ہو دیگر ریاستیں وہاں کی حکومتی ایجنسیوں نے سب سے زیادہ وقف بورڈ کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس صورت حال میں مسلمان سات پشتوں تک ان جائدادوں کو وگزار نہیں کراسکتے جب تک کہ وہ حکومت ،وزرائے اورافسران کے انتخاب میں اہم رول ادا نہیں کرنے والوں میں شامل نہ ہوجائیں۔اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس وقت سردست مفقود ہے۔ حکومت اس شئی کوجو مسلمانوں کی خاصیت تھی پیدا نہ ہونے دینے کے لئے سیکڑوں کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔آج مسلمانوں میں قومی و ملی تنظیموں کی بھرمار ہے لیکن ان میں کوئی بھی ایک کام کی نہیں ہے اور نہ اب تک کسی تنظیم کے سرکسی سنہری کامیابی کا سہرا سج سکا ہے۔ اقتدار کے گلیاروں میں مسلمانوں کی دلالی کرنے والوں کی فہرست اتنی طویل ہے کئی دفتر درکار ہوں گے لیکن مسلمانوں کے لئے خلوص دل سے کام کرنے والے نہیں کے برابر ہیں۔ ہندو ہو یا سکھ، جین یا بدھ کسی کی جائداد کے بارے میں آپ نہیں سنیں گے کہ ان کی جائداد پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے لیکن مسلمانوں کی مساجد و مقابرپر حکومت کی ایجنسیوں کا قبضہ ہے۔ اس کی بے حرمتی کی تو اجازت ہے لیکن اس میں مسلمانوں کے لئے عبادت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیکڑوں مساجد آج مقفل ہیں لیکن ایک قرآن اور ایک اللہ اور ایک رسول کے ماننے والوں میں وہ قوت نہیں کہ اس طرح کی آواز بلند کرسکیں کہ ایوان اقتدار میں زلزلہ آجائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی مسلم رہنما میں رعد و برق کی کیفیت اسی وقت ہوگی جب وہ حکومت کے ایوان میں سجدہ ریز نہیں ہوں گے آج تو یہ حال ہے کہ ہرشخص نہ صرف سجدہ کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ لیٹنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔
وقف کا تصور ابتداء اسلام سے موجود ہے ۔ جب مسلم حکمراں کوئی ادارہ قائم کرتے تھے اس کے تحت زمین کا ایک حصہ بھی اس کے لئے وقف کردیتے تھے تاکہ اس زمین کی آمدنی سے اس ادارے ، مساجد اور دیگر اداروں کا بسر اوقات ہوسکے۔ ہندوستان میں وقف کی شروعات اس وقت ہوئی جب انہوں نے یہاں قدم رکھا۔ مسلم مذہبی مقامات کیا مندروں کو بھی بڑی تعداد جائدادیں عطا کی گئیں تاکہ وہ ان جائدادوں سے اپنے اخراجات پورے کرسکیں۔ جگہ جگہ جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں خواہ وہ ہندو کے ہوں یا مسلمان اس کے ساتھ جائداد بھی ہیں لیکن ہندوستان پرجب انگریزوں نے قبضہ کیا توانہوں نے جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا اسی طرح مسلم جائدادوں کو جم کر لوٹا اور اسے کوڑیوں کے داموں میں نیلام کردیا اور وقف جائدادوں کاحشر مسلمانوں کی طرح ہوگیا لیکن جیسے ہی حالات کچھ سازگار ہوئے تو وقف جائداد کے بارے میں تھوڑی بہت توجہ دی جانے لگی اور ۱۹۲۰ کے بعد ریاستی و مرکزی قوانین کا مسودہ تیار ہوا تو اس میں وقف کو بھی جگہ دی گئی اور وقف املاک کے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن ناقص قوانین، قوانین کے نفاذ میں انتظامیہ کے عزم کا فقدان، مسلم سیاست دانوں کا غافلانہ رویہ، افسران کی مسلم دشمنی ، مسلم معاشرہ کی لاپرواہی، متولیوں کی بے حسی اور بے ایمانی ،ایسے بہت سے وجوہات تھے جس نے وقف املاک کو مسلسل نقصان پہنچانے اور خردبرد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد 4.9 لاکھ سے زیادہ ہے۔ صرف مغربی بنگال میں سب سے زیادہ وقف املاک 148,200 ہیں۔ اس کے بعداترپردیش میں 122,839 وقف کی جائیدادہیں۔ اسی طرح دہلی، مہاراشٹر، کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں بھی کافی بڑی تعداد میں وقف املاک ہیں جن کا مجموعی تخمینہ تقریبا 6 لاکھ ہے۔ وقف املاک کی وسعت واہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد ہندوستان میں سب سے بڑی اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے۔ اگر ان اوقاف کا صحیح استعمال کیا جائے تو قوم و ملک کی حالت بدل سکتی ہے ۔
ہندوستان میں وقف املاک کی صورت حال اورکیفیت ایسی سی ہے جس طرح مسلمانوں کی ہے۔ وقف املاک پر حکومت کی نظر بد ہمیشہ سے لگی رہی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ1954میں وقف ایکٹ کی تشکیل کے بعد بھی آج تک وقف املاک واگزار نہیں کرایا جاسکا ہے۔ حکومت اور اس کی ایجنسیاں مختلف حیلوں اور بہانوں سے وقف جائداد ہڑپنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی کے شوشہ کو بھی اسی آئینہ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو وقف بورڈ بیشتر ریاستوں میں قائم ہے لیکن اس کی حالت لنگڑی لولی اور مکمل معذور کی طرح ہے ۔ اس کے اختیارکی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے بدن سے مکھی کو بھی نہیں بھگاسکتا ۔ مسلم ووٹوں کے دم پر حکومت کر نے والی کانگریس پارٹی بی جے پی سے خوف زدہ کرکے مسلم ووٹ بٹور لیتی ہے لیکن جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو مسلمانوں کوٹھینگا دکھادیتی ہے۔ دہلی میں ضمیر فروش اور ملت کے دلال مسلمانوں کی کمی نہیں ہے کسی کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت وقف بورڈ کے اختیارات انتہائی محدود ہیں اس صورت میں جب کہ مجوزہ وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی میں42فیصد پرائیویٹ سیکٹر وقف بورڈ کا ہوگا اور 58 فیصد میں سے 49 فیصد اقلیتی مالیاتی کارپوریشن جب کہ نو فیصد وقف کونسل کی حصہ داری ہوگی۔ اقلیتی مالیاتی کاپوریشن نرسمہا راؤ کے زمانے میں500 کروڑ روپے کے سرمایہ سے قائم ہوا تھا لیکن مسلمانوں کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ سارے اْختیارات منیجنگ ڈائرکٹر کے پاس ہوتے ہیں جب کہ چیرمین کی حیثیت ربڑ اسٹمپ کی طرح ہے۔منیجنگ ڈائرکٹر وہ ہوتا ہے جسے مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی کارکردگی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے لفظ اقلیت استعمال کرکے بیشتر فائدے سکھ ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی طبقے کو پہنچایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔ بورڈ کا اعتراض 1995کے وقف ایکٹ کی دفعہ 87کے سلسلے میں ہے۔ اس کے مطابق جو وقف املاک رجسٹرڈ نہیں ہے اس کے بارے میں کوئی مقدمہ عدالت میں دائر نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعہ سنٹرل وقف کونسل کو مضبوط بنایا جائے گا۔2006میں حکومت نے وقف جائدادوں کے تعلق سے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے چیرمین کے رحمان خاں تھے۔ اس کمیٹی نے پورے ملک کادورہ کرکے وقف کی صورت حال کو جاننے کی کوشش کی تھی اور کمیٹی نے23 اکتوبر2008 کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کردی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائدادوں میں سے70 سے80 فیصد پر غاصبانہ قبضہ ہے یا غیر قانونی تصرف میں ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ اگرچہ وقف سے متعلق قانون 1954 سے نافذ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ قانون وقف جائدادوں کو واپس لینے، قبضے ختم کرانے، خلاف قانون تصرف کو ختم کرانے میں موثر ثابت نہیں ہوا ہے اور اسی طرح 1995کا وقف ایکٹ بھی اسی طرح ناکام رہا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے جائزہ میں پایا تھا کہ وقف بورڈ کے چیف ایگزی کیوٹیو افسر کے پاس اختیارات نہ ہونے کے سبب وہ وقف جائدادوں کو غاصبوں کے قبضہ سے آزاد کرانے میں ناکام رہے ہیں اسی لئے اس کمیٹی نے اپنی تیسری رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ سیکشن ۵۴ میں ایک نئے ذیلی سیکشن (5) کا اضافہ کردیا جائے جس کی رو سے وقف بورڈ کے سی ای او کو وہی اختیارات دے دئے جائیں جو کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر ، ایس ڈی ایم کے پاس ہیں لیکن حکومت نے اس سفارش کو اب تک نافذ نہیں کیا ہے۔ وقف بورڈ پر قبضہ کے معاملے میں سب سے اعلی درجہ ریاست آندھرا پردیش کو حاصل ہے۔ آندھرا پردیش میں تقریباً ایک لاکھ 45ہزار 544؍ایکڑوقفکیزمینہےجسمیںسے 81 (اکیاسی) ہزار591 ایکڑزمینوںپرناجائزقبضہہے۔مہاراشٹرمیںوقفکیزمین46 ہزار340 ہیکٹرہےجسمیںسے70 فیصدزمینوںپرناجائزقبضہہے۔اسیطرحدیگرریاستوںکاحالہےجہاںحکومتیااسکیایجنسیوںاوردیگرلوگوں نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ قبضہ کرنے والوں میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی ولاس راؤ دیش مکھ کے بھائی دلیپ دیش مکھ کے ٹرسٹ کا نام بھی شامل ہے جس نے اورنگ آباد میں30 بیگھ وقف زمین پر قبضہ کیا ہے۔
اولاً کوئی مسلم افسر وقف جائداد کی بحالی کے لئے کوشش نہیں کرتا اگر کوئی کرتا بھی ہے اس کا تبادلہ ایسی جگہ کردیا جاتا ہے کہ آنے والاجانشیں اس ضمن سو بار سوچتا ہے اور مسلمانوں یا وقف جائداد وگزار کے لئے کوئی کام نہیں کرتا۔ یہی حال2008میں مہاراشٹر کے چیف ایگزی کیوٹیو افسر عبدالرؤف شیخ کا ہوا تھا۔ انہوں نے مکیش امبانی کو یتیم خانہ کی زمین کو کوڑیوں کے بھاؤ دینے پر اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس گھپلے میں سابق وزیر اعلی ولاس راؤ دیش مکھ کا ہاتھ سمجھا جارہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے اشارے پر سارا کام انجام دیاگیا۔ مہاراشٹر میں وقف بورڈ کے ناجائز قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوگئی تھی کہ وقف کی جائیداد پر مکیش امبانی کا محل تعمیر ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا کئی وفود نے وزیر اعلیٰ سے لیکر سونیا گاندھی تک کو بھی اس ضمن میں آگاہ کیا لیکن کسی نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ واضح ر ہے کہ1894 میں حاجی کریم اسماعیل یوسف نے اپنی جائیداد مسلم یتیم بچوں کیلئے وقف کی تھی پہلے انہوں نے ماٹونگا میں مدرسہ شروع کیا تھا بعد میں انہوں نے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ماٹونگا کی جگہ1957 میں فروخت کرکے پیڈر روڈ پر بڑی جگہ خرید کر یتیم خانہ شروع کیا تھا۔ 1957سے لیکر2003تک سب ٹھیک طریقے سے چل رہا تھا لیکن2002 کے بعد کیسے مکیش امبانی نے اس جگہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے جبکہ مرکزی وقف بورڈ نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ کوئی بھی مسجد و مدرسہ یتیم خانہ و قبرستان وقف بورڈ کی اجازت کے بغیر خرید و فروخت نہیں کرسکتا ۔دہلی سے ممبئی آنے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مہاراشٹر وقف بورڈ کے ذریعے کئی اراضیوں کی مبینہ خرید و فروخت اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کی شکایات پیش کی گئی تھیں۔ امبانی کا محل تقریباً تیار ہوچکا ہے اور لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارورائی نہیں ہوئی ہے جب کہ آدرش گھپلے کا بہت شور ہے اور برق رفتار سے کارروائی جاری ہے لیکن وقف جائداد کے معاملے میں مہاراشٹر حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اس کا رقبہ 4,532 مربع فٹ ہے جسے ۲۱ کروڑ روپے میں مکیش امبانی کو دیا گیا ہے جب کہ اس کی قیمت پانچ ہزار کروڑ روپے ہے۔
حکمراں ہونے کا احساس کس قدر انسان کو بے مروت ظالم و جابر اور ڈھیٹ بنا دیتا ہے اس کا اندازہ اب اترپردیش میں لگایا جاسکتا ہے۔ اب دلت بھی وقف جائدادوں پرقبضہ کرنے لگے ہیں۔ سہارنپور کے ایسے ہی ایک قبرستان پر اگیور پر دلت طبقہ کے لوگ اپنا قبضہ جمائے بیٹھے تھے اور ضلع انظامیہ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ اس قبرستان سے دلتوں کا قبضہ ہٹاکر اسے مسلمانوں کے حوالے کریں۔ جبکہ اس قبرستان پر ہائی کورٹ الہ آباد نے مسلمانوں کو اسٹے دے رکھا ہے۔ تب بھی ضلع انتظامیہ اس قبرستان کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کررہی ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ آندھرا پردیش میں ایک مذہبی تعلیمی ادارے جامعہ نظامیہ کی 490 ایکڑ زمین پر حیدرآباد اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ کرلیا ہے۔ اسی طرح درگاہ حسین شاہ ولی کی 1654 ایکڑ اراضی مختلف اداروں نے آپس میں بانٹ لی ہے۔ اس میں سے 250 ایکڑ زمین انڈین سکول آف بزنس کو ، 200 ایکڑ زمین مولانا آزاد یونیورسٹی اور 660 ایکڑ زمین ریاستی انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو دے دی گئی۔کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان تمام جائیدادوں کے وقف املاک ہونے کا مکمل ثبوت اور ریکارڈ خود حکومت کے پاس موجود ہے۔وقف ایکٹ 1954میں ترمیم کے بعد ایک قانونی ادارہ کی حیثیت سے سینٹرل وقف کونسل کا قیام دسمبر 1964 میں عمل میں آیا۔ وقف ایکٹ 1954میں اوقاف کے سروے، سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل اور ریاستی وقف بورڈوں کے قیام کی گنجائش پیدا کی گئی جس کے تحت ملک کی مختلف ریاستوں میں وقف بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔اب وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی قائم کرکے وقف جائدادوں کو مکمل طور پر ہڑپنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس طرح اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے غیر مسلم اقلیتوں کا فلاح و بہبود راستہ ہموار کیا گیا اسی طرح اس طرح یہ ایجنسی قائم کرکے مسلمانوں کو وقف جائدادوں بے دخل کرنے کی سازش رچی جارہی ہے جس میں مسلم سیاست داں اورمسلم وزیر شامل ہیں۔ اگرحکومت وقف جائدادوں کا تحفظ اور اس سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کرنا چاہتی ہے تو وقف بورڈ کو خودمختار بنانے کی سمت میں قدم اٹھانا چاہئے جس میں وقف بورڈ کو راست کارروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ حالانکہ نیا وقف ایکٹ میں اس کا التزام کیاگیا ہے۔ وقف بورڈوں کو اب عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ راست ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں۔اسی کے ساتھ نئے وقف قانون کے تحت ٹاسک فورس بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے تحت ایک پولیس افسر کوتعینات کیا جائے گا تاکہ موثر طور پر وقف املاک کو بچایا جاسکے۔ اس طرح کاالتزام دیگر بورڈوں اور کارپوریشنوں میں بھی ہے۔ اب تک وقف کونسل کی حیثیت صرف ایک ایڈوائزری کونسل کی تھی لیکن اسے بااختیار بناتے ہوئے اسے ریگولیٹری اتھارٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ اب یہ تمام وقف بورڈوں کو راست ہدایت دینے کا مجاز ہے۔ اگر کوئی وقف بورڈ اس کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی ہے تو حکومت سے وقف بورڈ کو تحلیل کرنے کی سفارش کرسکتی ہے۔لیکن سوال سو ٹکے یہی ہے کہ کرے گا۔ جب کام کرنے والوں کا منشا ہی نہ ہو تو کام کیسے ہوگا۔ اس کے علاوہ وقف املاک پر ایسی سرگرمی ہوسکتی ہے جو واقف کے منشا کے خلاف ہو۔ ایسی صورت میں وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن دیکھنے میں بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن کارکردگی کیا ہوگی یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔وقف املاک کے تحفظ کا کوئی موثر نظام قائم نہیں کیا گیا ہے۔ تمام انتظامات سرکاری عملہ کے ماتحت کیاگیا ہے ۔ جو حکومت سب بڑا غاصب اور قابض ہو اس سے تحفظ کی امید کیسے جاسکتی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اب دودھ کی حفاظت بلی کرے گی۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
مسلمانوں کی کوئی بھی چیز ہو اسے ہندوستان میں چوراہے پر پڑا ہوا سامان تصور کیا جاتا ہے جس کی مرضی ہو وہ لے جائے ، جس طرح چاہے سلوک کرے، کوئی اسے کہنے .، سننے اور دیکھنے والا نہیں ہوتااور نہ اس کے بارے میں کوئی شنوائی ہوتی ہے۔یہی حالت ہندوستان میں وقف جائدادوں کی ہے۔ ان جائدادوں کے قابضین میں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہیں جہاں مسلم قائدین کی مجرمانہ غفلت شامل ہے وہیں متولیوں اور وقف جائدادوں کی نگرانی کرنے والوں کی بدنیتی بھی قابضین کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ابتداء ہی سے وقف کے تعلق مسلم معاشرہ ، مسلم سیاست داں، حکومت کے وزراء اورافسران کا رویہ معاندانہ رہا ہے ۔ وقف بورڈ کی جائدادوں پر سب سے بڑا قابض مرکزی اور ریاست حکومت کی ایجنسیاں ،دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے)، وزارت دفاع اور ریاستوں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹیز شامل ہیں۔ مہاراشٹر ہو یا آندھرا پردیش، دہلی یا ہو دیگر ریاستیں وہاں کی حکومتی ایجنسیوں نے سب سے زیادہ وقف بورڈ کی زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس صورت حال میں مسلمان سات پشتوں تک ان جائدادوں کو وگزار نہیں کراسکتے جب تک کہ وہ حکومت ،وزرائے اورافسران کے انتخاب میں اہم رول ادا نہیں کرنے والوں میں شامل نہ ہوجائیں۔اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اس وقت سردست مفقود ہے۔ حکومت اس شئی کوجو مسلمانوں کی خاصیت تھی پیدا نہ ہونے دینے کے لئے سیکڑوں کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔آج مسلمانوں میں قومی و ملی تنظیموں کی بھرمار ہے لیکن ان میں کوئی بھی ایک کام کی نہیں ہے اور نہ اب تک کسی تنظیم کے سرکسی سنہری کامیابی کا سہرا سج سکا ہے۔ اقتدار کے گلیاروں میں مسلمانوں کی دلالی کرنے والوں کی فہرست اتنی طویل ہے کئی دفتر درکار ہوں گے لیکن مسلمانوں کے لئے خلوص دل سے کام کرنے والے نہیں کے برابر ہیں۔ ہندو ہو یا سکھ، جین یا بدھ کسی کی جائداد کے بارے میں آپ نہیں سنیں گے کہ ان کی جائداد پر کسی نے قبضہ کرلیا ہے لیکن مسلمانوں کی مساجد و مقابرپر حکومت کی ایجنسیوں کا قبضہ ہے۔ اس کی بے حرمتی کی تو اجازت ہے لیکن اس میں مسلمانوں کے لئے عبادت کی کوئی گنجائش نہیں۔ سیکڑوں مساجد آج مقفل ہیں لیکن ایک قرآن اور ایک اللہ اور ایک رسول کے ماننے والوں میں وہ قوت نہیں کہ اس طرح کی آواز بلند کرسکیں کہ ایوان اقتدار میں زلزلہ آجائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی مسلم رہنما میں رعد و برق کی کیفیت اسی وقت ہوگی جب وہ حکومت کے ایوان میں سجدہ ریز نہیں ہوں گے آج تو یہ حال ہے کہ ہرشخص نہ صرف سجدہ کرنے کے لئے تیار ہے بلکہ لیٹنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہیں۔
وقف کا تصور ابتداء اسلام سے موجود ہے ۔ جب مسلم حکمراں کوئی ادارہ قائم کرتے تھے اس کے تحت زمین کا ایک حصہ بھی اس کے لئے وقف کردیتے تھے تاکہ اس زمین کی آمدنی سے اس ادارے ، مساجد اور دیگر اداروں کا بسر اوقات ہوسکے۔ ہندوستان میں وقف کی شروعات اس وقت ہوئی جب انہوں نے یہاں قدم رکھا۔ مسلم مذہبی مقامات کیا مندروں کو بھی بڑی تعداد جائدادیں عطا کی گئیں تاکہ وہ ان جائدادوں سے اپنے اخراجات پورے کرسکیں۔ جگہ جگہ جتنے بھی مذہبی مقامات ہیں خواہ وہ ہندو کے ہوں یا مسلمان اس کے ساتھ جائداد بھی ہیں لیکن ہندوستان پرجب انگریزوں نے قبضہ کیا توانہوں نے جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بنایا اسی طرح مسلم جائدادوں کو جم کر لوٹا اور اسے کوڑیوں کے داموں میں نیلام کردیا اور وقف جائدادوں کاحشر مسلمانوں کی طرح ہوگیا لیکن جیسے ہی حالات کچھ سازگار ہوئے تو وقف جائداد کے بارے میں تھوڑی بہت توجہ دی جانے لگی اور ۱۹۲۰ کے بعد ریاستی و مرکزی قوانین کا مسودہ تیار ہوا تو اس میں وقف کو بھی جگہ دی گئی اور وقف املاک کے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن ناقص قوانین، قوانین کے نفاذ میں انتظامیہ کے عزم کا فقدان، مسلم سیاست دانوں کا غافلانہ رویہ، افسران کی مسلم دشمنی ، مسلم معاشرہ کی لاپرواہی، متولیوں کی بے حسی اور بے ایمانی ،ایسے بہت سے وجوہات تھے جس نے وقف املاک کو مسلسل نقصان پہنچانے اور خردبرد کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد 4.9 لاکھ سے زیادہ ہے۔ صرف مغربی بنگال میں سب سے زیادہ وقف املاک 148,200 ہیں۔ اس کے بعداترپردیش میں 122,839 وقف کی جائیدادہیں۔ اسی طرح دہلی، مہاراشٹر، کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں بھی کافی بڑی تعداد میں وقف املاک ہیں جن کا مجموعی تخمینہ تقریبا 6 لاکھ ہے۔ وقف املاک کی وسعت واہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد ہندوستان میں سب سے بڑی اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے۔ اگر ان اوقاف کا صحیح استعمال کیا جائے تو قوم و ملک کی حالت بدل سکتی ہے ۔
ہندوستان میں وقف املاک کی صورت حال اورکیفیت ایسی سی ہے جس طرح مسلمانوں کی ہے۔ وقف املاک پر حکومت کی نظر بد ہمیشہ سے لگی رہی ہے۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ1954میں وقف ایکٹ کی تشکیل کے بعد بھی آج تک وقف املاک واگزار نہیں کرایا جاسکا ہے۔ حکومت اور اس کی ایجنسیاں مختلف حیلوں اور بہانوں سے وقف جائداد ہڑپنے کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی کے شوشہ کو بھی اسی آئینہ میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یوں تو وقف بورڈ بیشتر ریاستوں میں قائم ہے لیکن اس کی حالت لنگڑی لولی اور مکمل معذور کی طرح ہے ۔ اس کے اختیارکی یہ حالت ہے کہ وہ اپنے بدن سے مکھی کو بھی نہیں بھگاسکتا ۔ مسلم ووٹوں کے دم پر حکومت کر نے والی کانگریس پارٹی بی جے پی سے خوف زدہ کرکے مسلم ووٹ بٹور لیتی ہے لیکن جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو مسلمانوں کوٹھینگا دکھادیتی ہے۔ دہلی میں ضمیر فروش اور ملت کے دلال مسلمانوں کی کمی نہیں ہے کسی کا بھی انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ اس وقت وقف بورڈ کے اختیارات انتہائی محدود ہیں اس صورت میں جب کہ مجوزہ وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی میں42فیصد پرائیویٹ سیکٹر وقف بورڈ کا ہوگا اور 58 فیصد میں سے 49 فیصد اقلیتی مالیاتی کارپوریشن جب کہ نو فیصد وقف کونسل کی حصہ داری ہوگی۔ اقلیتی مالیاتی کاپوریشن نرسمہا راؤ کے زمانے میں500 کروڑ روپے کے سرمایہ سے قائم ہوا تھا لیکن مسلمانوں کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ سارے اْختیارات منیجنگ ڈائرکٹر کے پاس ہوتے ہیں جب کہ چیرمین کی حیثیت ربڑ اسٹمپ کی طرح ہے۔منیجنگ ڈائرکٹر وہ ہوتا ہے جسے مسلمانوں کی فلاح و بہبود سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔اقلیتی مالیاتی کارپوریشن کی کارکردگی سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے لفظ اقلیت استعمال کرکے بیشتر فائدے سکھ ، عیسائی، بودھ، جین اور پارسی طبقے کو پہنچایا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔ بورڈ کا اعتراض 1995کے وقف ایکٹ کی دفعہ 87کے سلسلے میں ہے۔ اس کے مطابق جو وقف املاک رجسٹرڈ نہیں ہے اس کے بارے میں کوئی مقدمہ عدالت میں دائر نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کا خیال ہے کہ اس ایکٹ کے ذریعہ سنٹرل وقف کونسل کو مضبوط بنایا جائے گا۔2006میں حکومت نے وقف جائدادوں کے تعلق سے ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے چیرمین کے رحمان خاں تھے۔ اس کمیٹی نے پورے ملک کادورہ کرکے وقف کی صورت حال کو جاننے کی کوشش کی تھی اور کمیٹی نے23 اکتوبر2008 کو لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں پیش کردی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں پھیلی ہوئی وقف جائدادوں میں سے70 سے80 فیصد پر غاصبانہ قبضہ ہے یا غیر قانونی تصرف میں ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی کہا کہ اگرچہ وقف سے متعلق قانون 1954 سے نافذ ہے لیکن بدقسمتی سے یہ قانون وقف جائدادوں کو واپس لینے، قبضے ختم کرانے، خلاف قانون تصرف کو ختم کرانے میں موثر ثابت نہیں ہوا ہے اور اسی طرح 1995کا وقف ایکٹ بھی اسی طرح ناکام رہا ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنے جائزہ میں پایا تھا کہ وقف بورڈ کے چیف ایگزی کیوٹیو افسر کے پاس اختیارات نہ ہونے کے سبب وہ وقف جائدادوں کو غاصبوں کے قبضہ سے آزاد کرانے میں ناکام رہے ہیں اسی لئے اس کمیٹی نے اپنی تیسری رپورٹ میں سفارش کی تھی کہ سیکشن ۵۴ میں ایک نئے ذیلی سیکشن (5) کا اضافہ کردیا جائے جس کی رو سے وقف بورڈ کے سی ای او کو وہی اختیارات دے دئے جائیں جو کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر ، ایس ڈی ایم کے پاس ہیں لیکن حکومت نے اس سفارش کو اب تک نافذ نہیں کیا ہے۔ وقف بورڈ پر قبضہ کے معاملے میں سب سے اعلی درجہ ریاست آندھرا پردیش کو حاصل ہے۔ آندھرا پردیش میں تقریباً ایک لاکھ 45ہزار 544؍ایکڑوقفکیزمینہےجسمیںسے 81 (اکیاسی) ہزار591 ایکڑزمینوںپرناجائزقبضہہے۔مہاراشٹرمیںوقفکیزمین46 ہزار340 ہیکٹرہےجسمیںسے70 فیصدزمینوںپرناجائزقبضہہے۔اسیطرحدیگرریاستوںکاحالہےجہاںحکومتیااسکیایجنسیوںاوردیگرلوگوں نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ قبضہ کرنے والوں میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی ولاس راؤ دیش مکھ کے بھائی دلیپ دیش مکھ کے ٹرسٹ کا نام بھی شامل ہے جس نے اورنگ آباد میں30 بیگھ وقف زمین پر قبضہ کیا ہے۔
اولاً کوئی مسلم افسر وقف جائداد کی بحالی کے لئے کوشش نہیں کرتا اگر کوئی کرتا بھی ہے اس کا تبادلہ ایسی جگہ کردیا جاتا ہے کہ آنے والاجانشیں اس ضمن سو بار سوچتا ہے اور مسلمانوں یا وقف جائداد وگزار کے لئے کوئی کام نہیں کرتا۔ یہی حال2008میں مہاراشٹر کے چیف ایگزی کیوٹیو افسر عبدالرؤف شیخ کا ہوا تھا۔ انہوں نے مکیش امبانی کو یتیم خانہ کی زمین کو کوڑیوں کے بھاؤ دینے پر اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کردیا گیا۔ اس گھپلے میں سابق وزیر اعلی ولاس راؤ دیش مکھ کا ہاتھ سمجھا جارہا ہے اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے اشارے پر سارا کام انجام دیاگیا۔ مہاراشٹر میں وقف بورڈ کے ناجائز قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پیدا ہوگئی تھی کہ وقف کی جائیداد پر مکیش امبانی کا محل تعمیر ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم تنظیموں نے احتجاج کیا کئی وفود نے وزیر اعلیٰ سے لیکر سونیا گاندھی تک کو بھی اس ضمن میں آگاہ کیا لیکن کسی نے بھی اس پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ واضح ر ہے کہ1894 میں حاجی کریم اسماعیل یوسف نے اپنی جائیداد مسلم یتیم بچوں کیلئے وقف کی تھی پہلے انہوں نے ماٹونگا میں مدرسہ شروع کیا تھا بعد میں انہوں نے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ماٹونگا کی جگہ1957 میں فروخت کرکے پیڈر روڈ پر بڑی جگہ خرید کر یتیم خانہ شروع کیا تھا۔ 1957سے لیکر2003تک سب ٹھیک طریقے سے چل رہا تھا لیکن2002 کے بعد کیسے مکیش امبانی نے اس جگہ کو اپنے قبضہ میں لے لیا ہے جبکہ مرکزی وقف بورڈ نے ایک حکم جاری کیا تھا کہ کوئی بھی مسجد و مدرسہ یتیم خانہ و قبرستان وقف بورڈ کی اجازت کے بغیر خرید و فروخت نہیں کرسکتا ۔دہلی سے ممبئی آنے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مہاراشٹر وقف بورڈ کے ذریعے کئی اراضیوں کی مبینہ خرید و فروخت اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کی شکایات پیش کی گئی تھیں۔ امبانی کا محل تقریباً تیار ہوچکا ہے اور لیکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارورائی نہیں ہوئی ہے جب کہ آدرش گھپلے کا بہت شور ہے اور برق رفتار سے کارروائی جاری ہے لیکن وقف جائداد کے معاملے میں مہاراشٹر حکومت کو سانپ سونگھ گیا ہے۔اس کا رقبہ 4,532 مربع فٹ ہے جسے ۲۱ کروڑ روپے میں مکیش امبانی کو دیا گیا ہے جب کہ اس کی قیمت پانچ ہزار کروڑ روپے ہے۔
حکمراں ہونے کا احساس کس قدر انسان کو بے مروت ظالم و جابر اور ڈھیٹ بنا دیتا ہے اس کا اندازہ اب اترپردیش میں لگایا جاسکتا ہے۔ اب دلت بھی وقف جائدادوں پرقبضہ کرنے لگے ہیں۔ سہارنپور کے ایسے ہی ایک قبرستان پر اگیور پر دلت طبقہ کے لوگ اپنا قبضہ جمائے بیٹھے تھے اور ضلع انظامیہ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ اس قبرستان سے دلتوں کا قبضہ ہٹاکر اسے مسلمانوں کے حوالے کریں۔ جبکہ اس قبرستان پر ہائی کورٹ الہ آباد نے مسلمانوں کو اسٹے دے رکھا ہے۔ تب بھی ضلع انتظامیہ اس قبرستان کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کررہی ہے۔ مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ آندھرا پردیش میں ایک مذہبی تعلیمی ادارے جامعہ نظامیہ کی 490 ایکڑ زمین پر حیدرآباد اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ کرلیا ہے۔ اسی طرح درگاہ حسین شاہ ولی کی 1654 ایکڑ اراضی مختلف اداروں نے آپس میں بانٹ لی ہے۔ اس میں سے 250 ایکڑ زمین انڈین سکول آف بزنس کو ، 200 ایکڑ زمین مولانا آزاد یونیورسٹی اور 660 ایکڑ زمین ریاستی انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو دے دی گئی۔کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان تمام جائیدادوں کے وقف املاک ہونے کا مکمل ثبوت اور ریکارڈ خود حکومت کے پاس موجود ہے۔وقف ایکٹ 1954میں ترمیم کے بعد ایک قانونی ادارہ کی حیثیت سے سینٹرل وقف کونسل کا قیام دسمبر 1964 میں عمل میں آیا۔ وقف ایکٹ 1954میں اوقاف کے سروے، سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل اور ریاستی وقف بورڈوں کے قیام کی گنجائش پیدا کی گئی جس کے تحت ملک کی مختلف ریاستوں میں وقف بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا۔اب وقف ڈیولپمنٹ ایجنسی قائم کرکے وقف جائدادوں کو مکمل طور پر ہڑپنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ جس طرح اقلیتی مالیاتی کارپوریشن سے غیر مسلم اقلیتوں کا فلاح و بہبود راستہ ہموار کیا گیا اسی طرح اس طرح یہ ایجنسی قائم کرکے مسلمانوں کو وقف جائدادوں بے دخل کرنے کی سازش رچی جارہی ہے جس میں مسلم سیاست داں اورمسلم وزیر شامل ہیں۔ اگرحکومت وقف جائدادوں کا تحفظ اور اس سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کرنا چاہتی ہے تو وقف بورڈ کو خودمختار بنانے کی سمت میں قدم اٹھانا چاہئے جس میں وقف بورڈ کو راست کارروائی کرنے کے اختیارات حاصل ہوں۔ حالانکہ نیا وقف ایکٹ میں اس کا التزام کیاگیا ہے۔ وقف بورڈوں کو اب عدالت جانے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ وہ راست ایف آئی آر درج کرواسکتے ہیں۔اسی کے ساتھ نئے وقف قانون کے تحت ٹاسک فورس بنانے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے تحت ایک پولیس افسر کوتعینات کیا جائے گا تاکہ موثر طور پر وقف املاک کو بچایا جاسکے۔ اس طرح کاالتزام دیگر بورڈوں اور کارپوریشنوں میں بھی ہے۔ اب تک وقف کونسل کی حیثیت صرف ایک ایڈوائزری کونسل کی تھی لیکن اسے بااختیار بناتے ہوئے اسے ریگولیٹری اتھارٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ اب یہ تمام وقف بورڈوں کو راست ہدایت دینے کا مجاز ہے۔ اگر کوئی وقف بورڈ اس کی ہدایت پر عمل نہیں کرتی ہے تو حکومت سے وقف بورڈ کو تحلیل کرنے کی سفارش کرسکتی ہے۔لیکن سوال سو ٹکے یہی ہے کہ کرے گا۔ جب کام کرنے والوں کا منشا ہی نہ ہو تو کام کیسے ہوگا۔ اس کے علاوہ وقف املاک پر ایسی سرگرمی ہوسکتی ہے جو واقف کے منشا کے خلاف ہو۔ ایسی صورت میں وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن دیکھنے میں بہت اچھا لگ رہا ہے لیکن کارکردگی کیا ہوگی یہ دیکھنے والی بات ہوگی۔وقف املاک کے تحفظ کا کوئی موثر نظام قائم نہیں کیا گیا ہے۔ تمام انتظامات سرکاری عملہ کے ماتحت کیاگیا ہے ۔ جو حکومت سب بڑا غاصب اور قابض ہو اس سے تحفظ کی امید کیسے جاسکتی ہے۔ مطلب صاف ہے کہ اب دودھ کی حفاظت بلی کرے گی۔
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment