Aap aadmi party kejriwal and movement / abid anwar عام آدمی پارٹی کے لئے عوام کی آرزو پر کھرا ترنے کا سخت چیلنج تیشہ فکر عابد انور
عام آدمی پارٹی کے
لئے عوام کی آرزو پر کھرا ترنے کا سخت چیلنج
تیشہ فکر عابد انور
انسان اگر کسی کام کرنے کا عزم مصمم کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہ بات عام آدمی پارٹی کی حالیہ کامیابی نے ثابت کردی ہے۔ ہندوستان میں مختلف طبقوں کی طرف سے نظام کی تبدیلی کی بات گاہے بگاہے ہوتی رہی ہے اوراس کے لئے تحریک بھی چلائی گئی لیکن ہمیشہ کی طرح تحریک چلانے اور تحریک کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہونے والے رہنما نظام کی تبدیلی تو دور کی بات وہ خود اسی نظام کا حصہ بن گئے جسے تبدیل کرنے کے لئے انہوں نے تحریک چلائی تھی۔ آج تک جتنی بھی تحریک چلیں کہیں نہ کہیں اس کا سرا راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے مربوط رہا ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی میں بھی اس تنظیم کا نمایاں رول رہاہے۔ خواہ وہ جے پرکاش نارائن کی تحریک ہو یا حالیہ انا ہزارے کی تحریک اس میں آر ایس ایس کے رضاکار نہ صرف بذات خود شامل ہوئے تھے بلکہ انتظام و انصرام میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ایک موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس کا اظہار بھی کیا تھا ۔ کیوں کہ یہ تحریک کانگریس مخالف تھی اس لئے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دامے درمے قدمے سخنے اس کا ساتھ دیا۔ انہیں لگا تھا کہ جو کام وہ 2009میں نہیں کرسکے تھے شاید اس سے وہ کام ہوجائے اور اس کے لئے2014کے لوک سبھا انتخابات آسان ہوجائے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے زرخرید میڈیا کو انا تحریک کے ہر لمحہ اور ہر ایونٹ کو کور کرنے کے لئے لگادیا تھا۔اس کی وجہ سے انا تحریک ہندوستان کے گھر گھر تک پہنچ گئی۔ انا تحریک نے ایسے مسائل کو اٹھایا جو عام آدمی سے منسلک تھا۔اگر بی جے پی اور آر ایس ایس والے اس سے وابستہ نہ ہوتے تو یہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ انا ہزارے نے کیجریوال سے علاحدگی کے بعد پورے ملک میں دورے کئے اور جنتا مورچہ یاترا نکالی لیکن اس کا اثر کہیں نہیں دیکھا گیا۔ باغپت کی ریلی میں تو پورا پنڈال خالی تھا جس سے ناراض ہوکر اناہزارے الٹے پیر واپس ہوگئے تھے۔ اس دوران میڈیا سے وابستہ ایک اہم شخص اور فوج کے سبکدوش سربراہ بھی ساتھ تھے جن پر انا کو ہائی جیک کرنے کا الزام بھی ہے لیکن انا کی جمہوریت بچاؤ یاترا ناکام رہی ۔ انا ہزارے کاڈھانچہ سامنے تھا دراصل روح کیجریوال کی تھی۔ کیجریوال نے تحریک کو منظم طریقے سے چلانے کے لئے ایسی حکمت عملی ترتیب دی کہ مرکزی حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ لوک پال بل کے بارے میں سیاسی پارٹیوں کے ٹال مٹول والے رویے اور بدعنوانی کے معاملے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ایک ہی حمام میں ننگے ہونے نے کیجریوال کو یہ احساس کرادیا تھا کہ اگر سسٹم بدلنا ہے تو سسٹم کا حصہ ہونا ہوگا۔ سسٹم سے باہر رہ کر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔انا ہزارے اور دو سال پہلے ان کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے اروند کیجریوال کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ انہوں نے انا سے کہا تھا کہ بغیر سیاست میں جائے اس کی گندگی صاف نہیں کی جا سکتی ۔ اسی احساس نے نئی سیاسی پارٹی بنانے کی طرف غور و خوض کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر اس تحریک سے نوجوانوں کی وابستگی نے کیجریوال کے حوصلے کو مہمیز دی۔نوجوانوں کو ایسا خواب دکھایا گیا کہ جس میں انہیں اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا۔ سب سے زیادہ ترعیب دینے والا نعرہ کالا دھن کا تھا ۔ تحریک سے وابستہ رہنما اپنے حساب سے اعداد و شمار پیش کرتے تھے۔اسی نعرہ کو یوگا گرو رام دیو نے بھی استعمال کیا اور لوگوں کا جذباتی طور پر استحصال کیا لیکن جب بھاگنے کی نوبت آئی تو عورتوں کا کپڑا پہن کر فرار ہوگئے۔ کالا دھن کے تعلق سے نوجوانوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ اگر بیرون ملک سے کالا دھن آجائے تو ہر ہندوستانی کو دس سے پندرہ لاکھ روپے ملیں گے جو کہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اگر بالفرض محال تسلیم کرلیا جائے کہ بیرون ملک اتنا زیاد ہ کالادھن ہے اور ہندوستان آبھی گیا تو کیا عوام میں تقسیم کردیا جائے گا ہر گز نہیں بلکہ خزانے میں جمع ہوگا۔ اس نعرے نے بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے رہنماؤں کو نوجوان کا محبوب لیڈر بنادیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوانوں کی تعداد ہندوستان میں ہے ۔ اسی تعداد نے کیجریوال کو ترغیب دی کہ ان کے سہارے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اس کا استعمال بھی کیا۔ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں رضاکار بھرتی کئے جن کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں سادگی کا نمونہ پیش کیا۔ ہر آسائش کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھا جو دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں میں عنقا ہے۔ ملک بھر سے ملنے والی نوجوانوں کی حمایت سے وہ عام آدمی پارٹی نامی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے دہلی میں ایسے مسئلے کو اٹھایا جس کا سابقہ عوام کو رات و دن پڑتاہے۔ بجلی اور پانی دو ایسے مسئلے تھے جس سے دہلی کا ہر شہری متاثر تھا۔ بجلی کمپنیوں کے من مانا بل نے عوام کو پریشان کردیا تھا اور کانگریسی حکومت کے دولت مشترکہ کھیل میں بدعنوانی، بجلی، پانی اور مہنگائی نے عام آدمی پارٹی کو بہترین انتخابی موضوع دے دیا اور اس موضوع نے عام آدمی پارٹی کو دہلی کے اقتدار تک پہنچایا۔ دہلی کے وزیر اعلی کا حلف لینے کے بعد کیجریوال نے جو تقریر کی اور اپنی ترجیحات کا اعلان کیا اس کا تعلق عام آدمی سے تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جہاں اپنی حکومت کو عام آدمی کی حکومت بتایا وہیں انہوں نے بدعنوانی کے خلاف تحریک چھیڑنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ فرقہ پرست طاقتوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ بھائی چارہ کو کبھی بھی نقصان نہ پہچنے دیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے آئندہ کیا کیا چیلنج ہوں گے۔ فرقہ پرست طاقتیں انہیں متزلزل کرنے کے لئے کیا کیا کرسکتی ہیں۔
اروند کیجریوال کی پیدائش16اگست 1968 کو ہریانہ کے حصار شہر میں ہوئی ہے اور انہوں نے 1989 میں آئی آئی ٹی کھڑگپورسے میکانیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی۔بعد میں ان کا انتخاب 1992 میں انڈین ریوینیو سروس (آئی آر ایس) کے لئے ہوااور انہوں نے دہلی میں انکم ٹیکس کمشنر کے دفتر میں جوائن کیا۔ جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ حکومت میں رائج بدعنوانی کی وجہ سے عمل میں شفافیت کی کمی ہے۔اپنی سرکاری پوزیشن پر رہتے ہوئے ہی انہوں نے، بدعنوانی کے خلاف جنگ شروع کر دی۔شروع میں اروند نے انکم ٹیکس دفتر میں شفافیت بڑھانے کے لئے کئی تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں 2006 میں بہترین خدمات کے لئے رمن میگسیسے انعام سے نوازا گیا، کیونکہ انہوں نے ہندوستان کے حق اطلاعات قانون یعنی رائٹ ٹو انفارمیشنایکٹ (آر ٹی آئی) کی تحریک کو زمینی سطح پر سرگرم بنایا۔اس کے بعد فروری 2006 میں انہوں نے ملازمت سے استعفی دے دیا اور پورے وقت صرف ،تبدیلی کے لئے ہی کام کرنے لگے۔اس کے بعد، جولائی 2006 میں انہوں نے پورے ہندوستان میں آر ٹی آئی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی۔ 6 فروری 2007 کواروند کو2006 کے لئے پبلک سروس میں سی این این آئی بی این ’اس سال کا ہندوستانی‘ کے لئے نامزد کیا گیا۔ اروند نے حق اطلاعات ایکٹ کو واضح کرتے ہوئے گوگل پر تقریر کی۔2 اکتوبر 2012 کو گاندھی جی اور شاستری جی کے تصاویر سے آراستہ پس منظر والے پلیٹ فارم سے اروند کیجریوال نے اپنے سیاسی سفر کی رسمی شروعات کر دی۔ انہوں نے باقاعدہ گاندھی ٹوپی، جو اب \"انا ٹوپی\" بھی کہلانے لگی ہے، پہنی تھی۔ وہ شاید وہی نعرہ لکھنا پسند کرتے جو پورے \"انا تحریک\" کے دوران ٹوپیوں پر لکھا تھا، \"میں انا ہزارے ہوں۔ لیکن انہیں انا کے نام اور تصویر کے استعمال کی اجازت نہیں ملی اس لئے انہوں نے لکھوایا، \"میں عام آدمی ہوں۔\" انہوں نے 2 اکتوبر 2012 کو ہی اپنے مستقبل کے سیاسی پارٹی کا نقطہ نظر بھی جاری کیا۔ 2013کے دہلی اسمبلی انتخابات میں اروند کیجریوال نے نئی دہلی سیٹ سے انتخاب لڑا جہاں ان کی براہ راست ٹکر مسلسل 15 سال سے دہلی کی وزیر اعلی رہیں محترمہ شیلا دیکشت سے تھی۔انہوں نے نئی دہلی اسمبلی سیٹ سے تین بار کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کو 22 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔اروند کیجریوال کو کل 44269 ووٹ ملے جبکہ ان کے مقابلے شیلا دکشت کو صرف 18405 ووٹ حاصل ہوئے۔عام آدمی پارٹی نے 70 رکنی دہلی اسمبلی انتخابات میں 28 سیٹیں جیت کر ریاست کی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔ اس انتخاب میں عام آدمی پارٹی بی جے پی کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ حکمران کانگریس پارٹی تیسرے مقام پر کھسک گئی۔اناہزارے نے اروند کیجریوال کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ ان میں ( کیجریوال ) میں قربانی کی روح بہت ہے۔ وہ جتنا سماج اور ملک کے بارے میں سوچتے ہیں اتنا آپ کے خاندان کے بارے میں نہیں سوچتے‘‘۔ا نا نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو میں کہا کہ کیجریوال کو پیسے کی لالچ تو نہیں ہے لیکن اقتدار کا مفاد ضرور ہو سکتا ہے ۔کیجریوال پر تمام سیاسی پارٹیاں الزام لگاتی رہی ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف ان کی تحریک دراصل سیاسی تحریک تھی اور وہ سستی مقبولیت کے لئے یہ سب مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کی سیاست اس قدر پراگندہ اور خرابیوں سے آلودہ ہوچکی ہے کہ کوئی ایماندار آدمی اس میں ٹک نہیں سکتا۔ یا تو وہ اس آلودہ سیاست کا حصہ بن جاتا ہے یا پھر اس سے کنارہ کشی ۔آج کل سیاست میں وہی آرہے ہیں یا ہیں جنہوں نے سیاست کو ترقی کا زینہ بنایا ہے اور وہ اس کے سہارے اپنے اور اپنے خاندان کو بلندیوں پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں سیاست داں بننے کا آغاز بیشتر وہ افراد کرتے ہیں یا کر رہے ہیں جو لچے لفنگے تھے، گاؤں میں پہلے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے تھے ، پنجایت کے رکن بنے اور سرکاری اناج جو غریبوں میں تقسیم کے لئے آتا ہے اس کا بندر بانٹ کیا ، پھر ٹھیکداری کرنے لگے اور پیسہ آیا تو سیاست میں کود گئے۔ بہار میں بی جے پی کے ایک ایسے ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا آغاز پہلے سائیکل چوری سے کی ، ترقی ہوئی تو موٹر سائیکل چوری کرنے لگے اور یہاں تک وہ آج ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاست میں منجھے ہوئے ، معاشرہ میں بے پناہ خدمات انجام دینے والے،عوا می حقوق کے لئے گالیاں برداشت کرنے والے، لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے، ٹوٹی پھوٹی چپل اور موٹے جھوٹے کھدر کے کپڑے پہننے والے اور اعلی اخلاقی معیار کے ہر سانچے میں ڈھل کر سیاست میں قدم رکھتے تھے،یارکھتے نہیں تھے بلکہ انہیں عوام سیاست میں دھکیل دیتے تھے اور وہ اپنے لوگوں کی امیدوں پر کھرے اترنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔ کوئی بھی شخص ان سے کسی بھی وقت مل سکتا تھالیکن اب وقت بدل گیا ہے طریقے بدل گئے ہیں۔کسی بھی لیڈروں سے ملنا آسان کام نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی نے ان تمام چیزوں کو مفروضہ کے زمرے میں کھڑا کردیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمانداری سے بھی سیاست کی جاسکتی ہے اور ایک عام آدمی کم پیسے خرچ کرکے بھی الیکشن جیت سکتا ہے۔ منتخب نمائندے عوام کے لئے اور عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ہندوستانی سیاست کی سمت کو ہی تبدیل کردیا ہے۔ اس پارٹی کے رہنماؤں نے ایسی نظیر پیش کی ہے جو خلفا راشدین کے یہاں ہی ملتی ہے۔ اچانک رات کے وقت دورہ کرنا، مریضوں کا حال جاننایہ ایسے واقعات ہیں جس کی نظیر ہندوستانی سیاست و حکومت میں نہیں ملتی۔ یہ کام مسلمانوں کا تھا لیکن آج تک جتنے بھی مسلمان کامیاب ہوئے چہ جائے کہ وہ اس سیاسی گندگی کو صاف کرتے وہ گندگی کا حصہ بن گئے بلکہ برادران وطن سے زیادہ گندگی میں ملوث ہوگئے۔ بدعنوانی، بداخلاقی اور خدمت خلق کے جذبے سے عاری ہونے میں اپنا کسی کو ثانی نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ خیر امت کے بجائے بدترین امت میں اپنا شمارکرایا۔ کیامسلمان، مسلم رہنما، مسلم علماء اور مسلم نوجوان عام آدمی پارٹی سے کچھ سبق سیکھیں گے۔
عام آدمی پارٹی اقلیتی حکومت چلا رہی ہے اس پر نہ صرف دہلی کے عوام کی آرزو کو پورا کرنے کا دباؤ ہے بلکہ اپنی صحیح شبیہ برقراررکھتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بھی قدم رکھنا ہے۔اس پارٹی نے دہلی سمیت کئی ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے جس سے قومی سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک چیلنج پید ا ہوگیا ہے۔ جہاں نریندر مودی پی ایم ویٹنگ رہنے کا خوف ستا رہا ہے وہیں راہل گاندھی کے سامنے بھی سخت چیلنج ہے جس کا اظہار انہوں نے کئی موقعوں پر کیا ہے اور اپنی پارٹی کارکنان سے عام آدمی پارٹی سے سبق لینے کی ہدایت دی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی نے ہندوستانی سیاست کی حالت اور سمت دونوں تبدیل کردی ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عوام اس پر کب تک قائم رہتے ہیں۔ کیوں کہ ہندوستانی جس طرح تیزی سے کندھے پر بٹھاتے ہیں اسی طرح اتارتے بھی ہیں۔ اس لئے کیجریوال کے سامنے زبردست چیلنج ہے۔ دہلی میں اروند کیجریوال کے سامنے بجلی پانی کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے اندر وعدہ پورا کرنے کا مادہ ہے ۔ اس کے علاوہ مہنگائی، تعلیم ، بپلک اسکول کی من مانی فیس میں اضافہ، ڈونیشن، نرسری اسکول میں بچوں کے داخلے، اردوِ کے ساتھ امتیازی سلوک، وقف املاک کا تحفظ،وقف املاک کی واگزاری،خواتین کا تحفظ، بدعنوانی اوردیگر شہری مسائل ایسے موضوع ہیں جسے حل کرنا ہوگا۔ بی جے پی اور کانگریس عام آدمی پارٹی کے ہر ہر قدم پر سخت نظر رکھے گی اور چین سے حکومت نہیں کردے گی۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے جہاں آنکھ کھولی ہے وہاں کے عوام کے نظریہ کو سامنے رکھنا ہوگا۔ عوام کی توقعات اتھاہ سمندر کے مانند ہوتی ہیں۔یہاں ہر انسان کو مفت میں سب کچھ چاہئے خواہ وہ اس کا حقدار ہو یا نہ ہو۔یہ چاہتے ہیں کہ ان کا سب سے پہلے ہونا چاہئے اگر نہیں ہوا تو مخالفت کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتے یہ بات بھی عام آدمی پارٹی کو گرہ باندھ لینی چاہئے۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
انسان اگر کسی کام کرنے کا عزم مصمم کرلے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے کامیاب ہونے سے نہیں روک سکتی۔ یہ بات عام آدمی پارٹی کی حالیہ کامیابی نے ثابت کردی ہے۔ ہندوستان میں مختلف طبقوں کی طرف سے نظام کی تبدیلی کی بات گاہے بگاہے ہوتی رہی ہے اوراس کے لئے تحریک بھی چلائی گئی لیکن ہمیشہ کی طرح تحریک چلانے اور تحریک کے نتیجے میں اقتدار پر قابض ہونے والے رہنما نظام کی تبدیلی تو دور کی بات وہ خود اسی نظام کا حصہ بن گئے جسے تبدیل کرنے کے لئے انہوں نے تحریک چلائی تھی۔ آج تک جتنی بھی تحریک چلیں کہیں نہ کہیں اس کا سرا راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے مربوط رہا ہے اور اس کی کامیابی اور ناکامی میں بھی اس تنظیم کا نمایاں رول رہاہے۔ خواہ وہ جے پرکاش نارائن کی تحریک ہو یا حالیہ انا ہزارے کی تحریک اس میں آر ایس ایس کے رضاکار نہ صرف بذات خود شامل ہوئے تھے بلکہ انتظام و انصرام میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ ایک موقع پر آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس کا اظہار بھی کیا تھا ۔ کیوں کہ یہ تحریک کانگریس مخالف تھی اس لئے آر ایس ایس اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے دامے درمے قدمے سخنے اس کا ساتھ دیا۔ انہیں لگا تھا کہ جو کام وہ 2009میں نہیں کرسکے تھے شاید اس سے وہ کام ہوجائے اور اس کے لئے2014کے لوک سبھا انتخابات آسان ہوجائے۔ اس وجہ سے انہوں نے اپنے زرخرید میڈیا کو انا تحریک کے ہر لمحہ اور ہر ایونٹ کو کور کرنے کے لئے لگادیا تھا۔اس کی وجہ سے انا تحریک ہندوستان کے گھر گھر تک پہنچ گئی۔ انا تحریک نے ایسے مسائل کو اٹھایا جو عام آدمی سے منسلک تھا۔اگر بی جے پی اور آر ایس ایس والے اس سے وابستہ نہ ہوتے تو یہ تحریک کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ انا ہزارے نے کیجریوال سے علاحدگی کے بعد پورے ملک میں دورے کئے اور جنتا مورچہ یاترا نکالی لیکن اس کا اثر کہیں نہیں دیکھا گیا۔ باغپت کی ریلی میں تو پورا پنڈال خالی تھا جس سے ناراض ہوکر اناہزارے الٹے پیر واپس ہوگئے تھے۔ اس دوران میڈیا سے وابستہ ایک اہم شخص اور فوج کے سبکدوش سربراہ بھی ساتھ تھے جن پر انا کو ہائی جیک کرنے کا الزام بھی ہے لیکن انا کی جمہوریت بچاؤ یاترا ناکام رہی ۔ انا ہزارے کاڈھانچہ سامنے تھا دراصل روح کیجریوال کی تھی۔ کیجریوال نے تحریک کو منظم طریقے سے چلانے کے لئے ایسی حکمت عملی ترتیب دی کہ مرکزی حکومت کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ لوک پال بل کے بارے میں سیاسی پارٹیوں کے ٹال مٹول والے رویے اور بدعنوانی کے معاملے میں تمام سیاسی پارٹیوں کے ایک ہی حمام میں ننگے ہونے نے کیجریوال کو یہ احساس کرادیا تھا کہ اگر سسٹم بدلنا ہے تو سسٹم کا حصہ ہونا ہوگا۔ سسٹم سے باہر رہ کر تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔انا ہزارے اور دو سال پہلے ان کی تحریک کا ذکر کرتے ہوئے اروند کیجریوال کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ انہوں نے انا سے کہا تھا کہ بغیر سیاست میں جائے اس کی گندگی صاف نہیں کی جا سکتی ۔ اسی احساس نے نئی سیاسی پارٹی بنانے کی طرف غور و خوض کرنے پر مجبور کردیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر اس تحریک سے نوجوانوں کی وابستگی نے کیجریوال کے حوصلے کو مہمیز دی۔نوجوانوں کو ایسا خواب دکھایا گیا کہ جس میں انہیں اپنا مستقبل روشن نظر آنے لگا۔ سب سے زیادہ ترعیب دینے والا نعرہ کالا دھن کا تھا ۔ تحریک سے وابستہ رہنما اپنے حساب سے اعداد و شمار پیش کرتے تھے۔اسی نعرہ کو یوگا گرو رام دیو نے بھی استعمال کیا اور لوگوں کا جذباتی طور پر استحصال کیا لیکن جب بھاگنے کی نوبت آئی تو عورتوں کا کپڑا پہن کر فرار ہوگئے۔ کالا دھن کے تعلق سے نوجوانوں میں یہ غلط فہمی پیدا کی گئی کہ اگر بیرون ملک سے کالا دھن آجائے تو ہر ہندوستانی کو دس سے پندرہ لاکھ روپے ملیں گے جو کہ کسی طرح ممکن نہیں ہے۔ اگر بالفرض محال تسلیم کرلیا جائے کہ بیرون ملک اتنا زیاد ہ کالادھن ہے اور ہندوستان آبھی گیا تو کیا عوام میں تقسیم کردیا جائے گا ہر گز نہیں بلکہ خزانے میں جمع ہوگا۔ اس نعرے نے بدعنوانی کے خلاف تحریک چلانے والے رہنماؤں کو نوجوان کا محبوب لیڈر بنادیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ نوجوانوں کی تعداد ہندوستان میں ہے ۔ اسی تعداد نے کیجریوال کو ترغیب دی کہ ان کے سہارے وہ بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ انہوں نے اس کا استعمال بھی کیا۔ انہوں نے ہزاروں کی تعداد میں رضاکار بھرتی کئے جن کی تنخواہیں مقرر کی گئیں۔انہوں نے اپنی زندگی میں سادگی کا نمونہ پیش کیا۔ ہر آسائش کو ٹھکرانے کا حوصلہ رکھا جو دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں میں عنقا ہے۔ ملک بھر سے ملنے والی نوجوانوں کی حمایت سے وہ عام آدمی پارٹی نامی پارٹی بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے دہلی میں ایسے مسئلے کو اٹھایا جس کا سابقہ عوام کو رات و دن پڑتاہے۔ بجلی اور پانی دو ایسے مسئلے تھے جس سے دہلی کا ہر شہری متاثر تھا۔ بجلی کمپنیوں کے من مانا بل نے عوام کو پریشان کردیا تھا اور کانگریسی حکومت کے دولت مشترکہ کھیل میں بدعنوانی، بجلی، پانی اور مہنگائی نے عام آدمی پارٹی کو بہترین انتخابی موضوع دے دیا اور اس موضوع نے عام آدمی پارٹی کو دہلی کے اقتدار تک پہنچایا۔ دہلی کے وزیر اعلی کا حلف لینے کے بعد کیجریوال نے جو تقریر کی اور اپنی ترجیحات کا اعلان کیا اس کا تعلق عام آدمی سے تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جہاں اپنی حکومت کو عام آدمی کی حکومت بتایا وہیں انہوں نے بدعنوانی کے خلاف تحریک چھیڑنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی ساتھ فرقہ پرست طاقتوں سے ہوشیار رہنے کی اپیل کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آپ بھائی چارہ کو کبھی بھی نقصان نہ پہچنے دیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے سامنے آئندہ کیا کیا چیلنج ہوں گے۔ فرقہ پرست طاقتیں انہیں متزلزل کرنے کے لئے کیا کیا کرسکتی ہیں۔
اروند کیجریوال کی پیدائش16اگست 1968 کو ہریانہ کے حصار شہر میں ہوئی ہے اور انہوں نے 1989 میں آئی آئی ٹی کھڑگپورسے میکانیکل انجینئرنگ میں گریجویشن کی۔بعد میں ان کا انتخاب 1992 میں انڈین ریوینیو سروس (آئی آر ایس) کے لئے ہوااور انہوں نے دہلی میں انکم ٹیکس کمشنر کے دفتر میں جوائن کیا۔ جلد ہی انہوں نے محسوس کیا کہ حکومت میں رائج بدعنوانی کی وجہ سے عمل میں شفافیت کی کمی ہے۔اپنی سرکاری پوزیشن پر رہتے ہوئے ہی انہوں نے، بدعنوانی کے خلاف جنگ شروع کر دی۔شروع میں اروند نے انکم ٹیکس دفتر میں شفافیت بڑھانے کے لئے کئی تبدیلیاں لانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں 2006 میں بہترین خدمات کے لئے رمن میگسیسے انعام سے نوازا گیا، کیونکہ انہوں نے ہندوستان کے حق اطلاعات قانون یعنی رائٹ ٹو انفارمیشنایکٹ (آر ٹی آئی) کی تحریک کو زمینی سطح پر سرگرم بنایا۔اس کے بعد فروری 2006 میں انہوں نے ملازمت سے استعفی دے دیا اور پورے وقت صرف ،تبدیلی کے لئے ہی کام کرنے لگے۔اس کے بعد، جولائی 2006 میں انہوں نے پورے ہندوستان میں آر ٹی آئی کے بارے میں بیداری پیدا کرنے کے لئے ایک مہم شروع کی۔ 6 فروری 2007 کواروند کو2006 کے لئے پبلک سروس میں سی این این آئی بی این ’اس سال کا ہندوستانی‘ کے لئے نامزد کیا گیا۔ اروند نے حق اطلاعات ایکٹ کو واضح کرتے ہوئے گوگل پر تقریر کی۔2 اکتوبر 2012 کو گاندھی جی اور شاستری جی کے تصاویر سے آراستہ پس منظر والے پلیٹ فارم سے اروند کیجریوال نے اپنے سیاسی سفر کی رسمی شروعات کر دی۔ انہوں نے باقاعدہ گاندھی ٹوپی، جو اب \"انا ٹوپی\" بھی کہلانے لگی ہے، پہنی تھی۔ وہ شاید وہی نعرہ لکھنا پسند کرتے جو پورے \"انا تحریک\" کے دوران ٹوپیوں پر لکھا تھا، \"میں انا ہزارے ہوں۔ لیکن انہیں انا کے نام اور تصویر کے استعمال کی اجازت نہیں ملی اس لئے انہوں نے لکھوایا، \"میں عام آدمی ہوں۔\" انہوں نے 2 اکتوبر 2012 کو ہی اپنے مستقبل کے سیاسی پارٹی کا نقطہ نظر بھی جاری کیا۔ 2013کے دہلی اسمبلی انتخابات میں اروند کیجریوال نے نئی دہلی سیٹ سے انتخاب لڑا جہاں ان کی براہ راست ٹکر مسلسل 15 سال سے دہلی کی وزیر اعلی رہیں محترمہ شیلا دیکشت سے تھی۔انہوں نے نئی دہلی اسمبلی سیٹ سے تین بار کی وزیر اعلی شیلا دیکشت کو 22 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔اروند کیجریوال کو کل 44269 ووٹ ملے جبکہ ان کے مقابلے شیلا دکشت کو صرف 18405 ووٹ حاصل ہوئے۔عام آدمی پارٹی نے 70 رکنی دہلی اسمبلی انتخابات میں 28 سیٹیں جیت کر ریاست کی سیاست میں کھلبلی مچا دی۔ اس انتخاب میں عام آدمی پارٹی بی جے پی کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری۔ حکمران کانگریس پارٹی تیسرے مقام پر کھسک گئی۔اناہزارے نے اروند کیجریوال کے بارے میں کہا تھا کہ ’’ ان میں ( کیجریوال ) میں قربانی کی روح بہت ہے۔ وہ جتنا سماج اور ملک کے بارے میں سوچتے ہیں اتنا آپ کے خاندان کے بارے میں نہیں سوچتے‘‘۔ا نا نے ایک نیوز چینل کو انٹرویو میں کہا کہ کیجریوال کو پیسے کی لالچ تو نہیں ہے لیکن اقتدار کا مفاد ضرور ہو سکتا ہے ۔کیجریوال پر تمام سیاسی پارٹیاں الزام لگاتی رہی ہیں کہ بدعنوانی کے خلاف ان کی تحریک دراصل سیاسی تحریک تھی اور وہ سستی مقبولیت کے لئے یہ سب مسئلہ اٹھاتے رہتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں کی سیاست اس قدر پراگندہ اور خرابیوں سے آلودہ ہوچکی ہے کہ کوئی ایماندار آدمی اس میں ٹک نہیں سکتا۔ یا تو وہ اس آلودہ سیاست کا حصہ بن جاتا ہے یا پھر اس سے کنارہ کشی ۔آج کل سیاست میں وہی آرہے ہیں یا ہیں جنہوں نے سیاست کو ترقی کا زینہ بنایا ہے اور وہ اس کے سہارے اپنے اور اپنے خاندان کو بلندیوں پر پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہندوستان میں سیاست داں بننے کا آغاز بیشتر وہ افراد کرتے ہیں یا کر رہے ہیں جو لچے لفنگے تھے، گاؤں میں پہلے چھوٹی موٹی چوریاں کرتے تھے ، پنجایت کے رکن بنے اور سرکاری اناج جو غریبوں میں تقسیم کے لئے آتا ہے اس کا بندر بانٹ کیا ، پھر ٹھیکداری کرنے لگے اور پیسہ آیا تو سیاست میں کود گئے۔ بہار میں بی جے پی کے ایک ایسے ممبر پارلیمنٹ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا آغاز پہلے سائیکل چوری سے کی ، ترقی ہوئی تو موٹر سائیکل چوری کرنے لگے اور یہاں تک وہ آج ممبر پارلیمنٹ ہیں۔ ایک وقت تھا جب سیاست میں منجھے ہوئے ، معاشرہ میں بے پناہ خدمات انجام دینے والے،عوا می حقوق کے لئے گالیاں برداشت کرنے والے، لوگوں کی فلاح وبہبود کے لئے پولیس کی لاٹھیاں کھانے والے، ٹوٹی پھوٹی چپل اور موٹے جھوٹے کھدر کے کپڑے پہننے والے اور اعلی اخلاقی معیار کے ہر سانچے میں ڈھل کر سیاست میں قدم رکھتے تھے،یارکھتے نہیں تھے بلکہ انہیں عوام سیاست میں دھکیل دیتے تھے اور وہ اپنے لوگوں کی امیدوں پر کھرے اترنے کی حتی الامکان کوشش کرتے تھے۔ کوئی بھی شخص ان سے کسی بھی وقت مل سکتا تھالیکن اب وقت بدل گیا ہے طریقے بدل گئے ہیں۔کسی بھی لیڈروں سے ملنا آسان کام نہیں ہے۔ عام آدمی پارٹی نے ان تمام چیزوں کو مفروضہ کے زمرے میں کھڑا کردیا ہے اور یہ ثابت کردیا ہے کہ ایمانداری سے بھی سیاست کی جاسکتی ہے اور ایک عام آدمی کم پیسے خرچ کرکے بھی الیکشن جیت سکتا ہے۔ منتخب نمائندے عوام کے لئے اور عوام کے درمیان رہتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے ہندوستانی سیاست کی سمت کو ہی تبدیل کردیا ہے۔ اس پارٹی کے رہنماؤں نے ایسی نظیر پیش کی ہے جو خلفا راشدین کے یہاں ہی ملتی ہے۔ اچانک رات کے وقت دورہ کرنا، مریضوں کا حال جاننایہ ایسے واقعات ہیں جس کی نظیر ہندوستانی سیاست و حکومت میں نہیں ملتی۔ یہ کام مسلمانوں کا تھا لیکن آج تک جتنے بھی مسلمان کامیاب ہوئے چہ جائے کہ وہ اس سیاسی گندگی کو صاف کرتے وہ گندگی کا حصہ بن گئے بلکہ برادران وطن سے زیادہ گندگی میں ملوث ہوگئے۔ بدعنوانی، بداخلاقی اور خدمت خلق کے جذبے سے عاری ہونے میں اپنا کسی کو ثانی نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں۔ خیر امت کے بجائے بدترین امت میں اپنا شمارکرایا۔ کیامسلمان، مسلم رہنما، مسلم علماء اور مسلم نوجوان عام آدمی پارٹی سے کچھ سبق سیکھیں گے۔
عام آدمی پارٹی اقلیتی حکومت چلا رہی ہے اس پر نہ صرف دہلی کے عوام کی آرزو کو پورا کرنے کا دباؤ ہے بلکہ اپنی صحیح شبیہ برقراررکھتے ہوئے لوک سبھا انتخابات میں بھی قدم رکھنا ہے۔اس پارٹی نے دہلی سمیت کئی ریاستوں میں لوک سبھا انتخابات میں قدم رکھنے کا اعلان کیا ہے جس سے قومی سیاسی پارٹیوں کے لئے ایک چیلنج پید ا ہوگیا ہے۔ جہاں نریندر مودی پی ایم ویٹنگ رہنے کا خوف ستا رہا ہے وہیں راہل گاندھی کے سامنے بھی سخت چیلنج ہے جس کا اظہار انہوں نے کئی موقعوں پر کیا ہے اور اپنی پارٹی کارکنان سے عام آدمی پارٹی سے سبق لینے کی ہدایت دی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام آدمی پارٹی نے ہندوستانی سیاست کی حالت اور سمت دونوں تبدیل کردی ہے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ عوام اس پر کب تک قائم رہتے ہیں۔ کیوں کہ ہندوستانی جس طرح تیزی سے کندھے پر بٹھاتے ہیں اسی طرح اتارتے بھی ہیں۔ اس لئے کیجریوال کے سامنے زبردست چیلنج ہے۔ دہلی میں اروند کیجریوال کے سامنے بجلی پانی کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ اس کے اندر وعدہ پورا کرنے کا مادہ ہے ۔ اس کے علاوہ مہنگائی، تعلیم ، بپلک اسکول کی من مانی فیس میں اضافہ، ڈونیشن، نرسری اسکول میں بچوں کے داخلے، اردوِ کے ساتھ امتیازی سلوک، وقف املاک کا تحفظ،وقف املاک کی واگزاری،خواتین کا تحفظ، بدعنوانی اوردیگر شہری مسائل ایسے موضوع ہیں جسے حل کرنا ہوگا۔ بی جے پی اور کانگریس عام آدمی پارٹی کے ہر ہر قدم پر سخت نظر رکھے گی اور چین سے حکومت نہیں کردے گی۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی نے جہاں آنکھ کھولی ہے وہاں کے عوام کے نظریہ کو سامنے رکھنا ہوگا۔ عوام کی توقعات اتھاہ سمندر کے مانند ہوتی ہیں۔یہاں ہر انسان کو مفت میں سب کچھ چاہئے خواہ وہ اس کا حقدار ہو یا نہ ہو۔یہ چاہتے ہیں کہ ان کا سب سے پہلے ہونا چاہئے اگر نہیں ہوا تو مخالفت کرنے میں ایک منٹ کی دیر نہیں لگاتے یہ بات بھی عام آدمی پارٹی کو گرہ باندھ لینی چاہئے۔
ڈی۔64، فلیٹ نمبر۔10 ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔25
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment