نریندر مودی کی مقبولیت :کانگریس کی مہربانی کا نتیجہ /تیشہ فکر عابد انور /modi media and foriegner agencies/ Abid Anwar
نریندر مودی کی مقبولیت :کانگریس کی مہربانی کا نتیجہ
تیشہ فکر عابد انور
ملک خواہ کتنی بھی ترقی کرلے لیکن دیومالائی نظریہ سے کبھی پیچھا نہیں چھڑاسکتا۔ یہی وجہ ہے ہندوستان تعلیمی، معاشی، ثقافتی، سائنسی شعبے میں خاطر خواہ ترقی، چاند مشن پر اپنا سیارہ بھیجنے اور مریخ مشن پر روبوٹ بھیجنے کے باوجود دیومالائی ،توہمات ،جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کے حصار میں قید ہے۔ رات دن ہندی نیوز چینل اور ہندی تفریحی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستان میں تمام شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ توہمات اور دیوملائی نظریات میں بھی بے تحاشہ ترقی ہوئی ہے۔ اسی دیومالائی اور توہمات کے سہارے نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ عوام کو وہ جس طرح ’اندر سبھا‘ کی سیر کرا رہے ہیں اور عوام خوشی خوشی نام نہاد اس سیرسے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو بالغ ذہن ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ نفرت کے معاملے میں وہ بہت بالغ ہیں لیکن صداقت اور حقائق کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ گزشتہ دنوں نریندر مودی نے چھتیس گڑھ کی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عوام اسی اندر سبھا کی سیر کروائی اور کالا دھن کے معاملے عوام کو جھانسہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کا لا دھن اتنا ہے اگر اسے ہندوستان واپس لایا جائے تو ہر ایک آدمی یعنی ایک ارب پچیس کروڑ عوام کو دس دس پندرہ پندرہ لاکھ روپے ملیں گے جبکہ یہ ناممکن ہے ۔ جہاں کے عوام کے پاس ہزار روپے بھی نہ ہوں وہاں اگر دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کا خواب دکھایا جائے گا تو عوام کوتو ہرا ہرا نظر آئے گا ہی خصوصا دیومالائی نظریات کا حامل ہوں۔ لیکن اندرسبھا میں بیٹھنے والے عوام نے ان سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے اپنے چھ سالہ دور اقتدار میں کالا دھن لانے کی کوشش کیوں نہیں کی تاکہ وہ سب کے سب لکھ پتی ہوتے۔ بابا رام دیو اور انا ہزارے کالا دھن کے معاملے میں سامنے کیوں نہیں آئے تھے۔ کیوں کہ اس سے کانگریس کو فائدہ ہوتا اس لئے ان لوگوں نے تحریک تو دور اس سلسلے میں کوئی بیان تک نہیں دیا۔ ہندوستان میں آج تک جتنی بھی سماجی، اصلاحی یا سیاسی تحریکیں چلی ہیں وہ صرف فرقہ پرست عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے چلائی گئی ہیں۔ جے پی تحریک سے کس کو فائدہ ہوا۔ رام دیو اور اناہزارے کی تحریک کس کے خلاف تھی۔ انا تحریک کا ایک اہم رکن کس کے ساتھ ریلی میں شریک ہوا تھا۔ رام دیو تو کھل کر مودی کی حمایت میں سرگرم ہیں اور اپنے یوگا کیمپ کے توسط سے بی جے پی کی کامیابی کے لئے جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ایونٹ منیجمنٹ ادارے آج ہندوستان میں خوب پھل پھول رہے ہیں کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے وزیراعظم عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کو ان داروں کی خدمات کی آج کل ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔پانچ ریاستی اسمبلی انتخابات کا موسم ہے اور اس کے بعد فوراً لوک سبھا کے عام انتخابات کا ہلچل شروع ہوجائے گا۔ ایسے میں ایونٹ منیجمنٹ ادارے کی چاندی ہی چاندی ہے۔ اسی کے سہارے عوامی حمایت کا ڈھونڈورا پیٹا جارہا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جسے نظر انداز کرنا بے وقوفی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پڑھے لکھے ہندؤں کے نوے فیصد لوگ آج مودی کو مسیحا کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ وہ گجرات کی نام نہاد ترقی سے متاثر ہیں بلکہ ان کا پیمانہ یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کو زندہ درگور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان سے زبان چھین سکتے ہیں۔ بولنے کی صلاحیت ختم کرسکتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے کا حوصلہ ختم کرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ ٹرینوں، بسوں، چائے خانوں ، کافی شاپ اور دیگر عوامی مقامات پر پڑھے لکھے ہندوؤں کی بات چیت سے اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی 70فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے ورنہ مودی کے طوفان کو کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔
ایونٹ منیجمنٹ کا ہی کمال ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بیرون ملک کے مالی ادارے بھی جنہیں سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ نریندرمودی کی شان اور تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ہندوستان کے مستقبل کے وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہیں اور اس کی وجہ ریلیوں میں جمع ہونے والی بھیڑ کو قرار دے رہے ہیں۔ فاربس میگزین جب طاقتور شخصیت کا انتخاب کرتی ہے اس میں اس بات کو پیش نظر رکھتی ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا میں کون چھایا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے ہندی نیوز چینل، قومی میڈیا (پرنٹ) انگریزی اور ہندی میں نریندر مودی کے وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار اعلان کئے جانے کے بعد ہر وقت تمام نیوز چینل، انگریزی اور ہندی کے اخبارات مودی کے دھن پر رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ہندوستان کے تمام بڑے اخبارات اور نیوز چینل نے مالکان اور مدیران نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نریندر مودی کے خلاف کوئی بھی منفی خبر اہم جگہ پر شائع نہیں کی جائے گی اور نہ اسے اہمیت دی جائے گی۔ اس کا راقم الحروف کو بھی اس کا اندازہ ہوا کہ جب میں نریندر مودی کے متنازعہ بیان ٹائپ کرکے کچھ تلاش کرنا چاہا تو وہ سارے بیان آگئے جو مودی کے خلاف دئے گئے تھے نریندر مودی کے متنازعہ اور توہین آمیز بیان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلم دشمن طاقتوں کی تیاری کس قدر پختہ ہے۔ وہ کسی بھی گوشہ خالی رکھنا نہیں چاہتے۔ وہ سام ڈنڈ بھید میں سے کسی کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ یہ آر ایس ایس کے ایونٹ منیجمنٹ کی دین ہے کہ امریکی مالی ادارے مودی کی شان قصیدہ پڑھ رہے ہیں۔ گولڈن سائکس کے بعد سی ایل ایس اے جیسے بروکریج ادارے کی مودی کی تعریف کرنا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے ۔ مودی تعریف کے ساتھ اس کے عوامل اور مقاصد پر نظر ضروری ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والے گولڈمین سائکس کے بعد بڑے بروکریج فرم سی ایل یس اے نے بھی نریندر مودی کو مارکیٹ اور اقتصادیات کے لئے اچھا بتایا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سنسیکس میں گزشتہ 11 ہفتے میں جو تیزی آئی ہے وہ دو وجوہات سے ہے۔ پہلی وجہ امریکہ میں ترغیبی پیکیج کاجاری رکھنا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کی فتح کا امکان ہے۔ بروکریج فورم 147گریڈ اینڈ فیئر148 نام سے جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شیئر بازار مسٹر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے آئندہ عام انتخابات میں فتح کے سلسلے میں خاصا پرجوش ہے اور نئے ریکارڈ بنا رہا ہے ۔ رپورٹ میں شیئر بازاروں کی تیزی میں سب سے اہم مودی فیکٹر کو سمجھا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2008 میں اقتصادی بحران کے وقت امریکہ نے جو ترغیبی پیکیج دئے تھے اس کی فی الحال واپسی کا امکان نہ ہونے سے شیئر بازار میں نیا جوش دیکھا جارہا ہے۔سی ایل ایس اے کے چیف پالیسی ساز کرسٹوفر ووڈ نے کہا ہے کہ شیئر بازاروں میں تیزی کا جو ماحول ہے وہ اس امیدسے وابستہ ہے جس میں مسٹر مودی کے اگلے سال عام انتخابات میں فتح کا امکان زیادہ ہے۔ سی ایل ایس اے مسٹر مود ی کی ریلیوں میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی ریلیوں سے کئی گنابھیڑ میں فتح کا امکان تلاش کر رہا ہے۔ اس کے مطابق نریندر مودی کی ریلی میں راہل کے مقابلے 6 سے 8 گنا زیادہ لوگ آ رہے ہیں۔فورم کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی عام انتخابات میں 190 سے 200 نشستیں حاصل کرلیتی ہیں تو وہ مرکز میں حکومت بناسکتی ہے اور یہ مخلوط حکومت کافی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے۔
عالمی سرمایہ کاری بینک اور ریٹنگ ایجنسی گولڈمین سائکس نے 5 نومبر کی اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ مئی 2014 میں ہونے والے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی جیت ہو سکتی ہے۔ اسٹاک سرمایہ کاروں کی نگاہ میں بی جے پی کاروبار کے لحاظ سے بہتر ہے اور بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار مودی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاری بینک کی تازہ رپورٹ میں نریندر مودی کی تعریف کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ گولڈ مین سائکس نے شیئربازار وں میں تیزی کا سبب مسٹر مودی کے فتح کے امکان کو قرار دیا تھا۔ اسی کے ساتھ گولڈمین سیکس نے ہندوستان میں ریٹنگ 147انڈرویٹ148 سے بڑھاکر مارکیٹ ویٹ کردیا ہے اور اگلے سال کے آخر تک نیشنل اسٹاک ایکسچنج (این ایس آئی) کے نفٹی کے لئے 6900 کا ہدف رکھا ہے۔ان دونوں ایجنسیوں کی مودی کی تعریف اور شان میں قصیدہ خوانی پر مرکزی وزیر صنعت و تجارت آنند شرما نے اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے قرار دیا ۔اس کے علاوہ منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیرمین مونٹیک اہلوالیہ نے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈمین سائکس کو سیاسی معاملات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے’’ میں گولڈمین سائکس سے متفق نہیں ہوں، کئی لوگوں نے کہا ہے کہ انہیں ان چیزوں پر نہیں بولنا چاہئے‘‘۔امریکی اور یوروپی ممبران کو پیسے دیکر کچھ بھی اور کسی کے خلاف بیان دلوایا یا تعریف و توصیف کروائی جاسکی ہے۔ امریکی ممبران پارلیمنٹ اس معاملے میں کافی فعال ہیں۔ جب ہندوستانی سربراہ امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو وہ ہندوستان کے حق میں بیان دیتے ہیں اور جب پاکستانی سربراہ دورہ کرتے ہیں وہ ان میں کچھ ممبران پاکستان کی حمایت کرتے ہیںیہ سب پیسے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی طرح آج وہ مودی کے حق میں بیان دے رہے ہیں۔ امریکہ کے ری پبلیکن لیڈروں نے نریندر مودی کو بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار نامزد کئے جانے پر مبارکباد دی ہے اور انہیں کیپٹل ہل میں کانگریس کے لیڈروں اور ہندوستانی امریکیوں سے سیٹلائٹ کے ذریعے خطاب کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی دیگر رکن کیتھی مییک مورس راجرز نے مودی کو مبارکباد پیغام میں دیتے ہوئے کہا ،\'\' میں ہندوستان کے وزیر اعظم عہدے کے لئے بی جے پی کا امیدوار نامزد کئے جانے پر آپ کو مبارک باد دیتی ہو۔اس سال کے شروع میں راجرز کچھ دیگر ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ہندوستان آئی تھیں اور گجرات میں مودی سے ملی تھیں۔جس کے بعدیہ خبر اخبارات کی زینت بنی تھی کہ یہ سب ایونٹ منیجمنٹ کا کمال تھا۔ یہ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ شےئر بازار میں اچھال پالیسی میں تبدیلی اور اقدامات کا نتیجہ ہے جو رگھوراجن نے ریزرو زبینک آف انڈیاکے گورنر بننے کے بعد کئے ہیں۔
مودی کی تقریر میں تہذیب و تمدن کی گنجائش کا عمل دخل نہیں ہے۔ان کی منزل صرف حکومت ہے خواہ اس کے لئے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کیوں نہ ہوجائے۔ عوام کو وہ کس قدر اشتعال میں مبتلا کرتے ہیں اس کا اندازہ ان کے جملوں سے لگایا جاسکتا ہے، جس دہلی کی کانگریس قیادت والی حکومت نے غریبوں سے پیاز چھین لیا ہے ، آپ اس کانگریس سے ملک چھین لو، کانگریس نے مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بغیر پیاز کے ہی اس نے آنکھوں سے آنسو نکال دیئے ہیں۔کبھی سی بی آئی کو پیچھے لگا دو ، کبھی انڈین مجاہدین کو کھلی چھوٹ دے دو، تو مجھے لگتا ہے کہ سی بی آئی اور انڈین مجاہدین یہی لوگ انتخابات کا مورچہ سنبھالیں گے، تاکہ وہ کانگریس کا محاذبچا سکیں۔کبھی دیوالیہ سے پہلے شوچالیہ (بیت الخلا) کی بات کرتے ہوئے مودی کہتے ہیں کہ گجرات کے 82 فیصد دیہی علاقوں میں بیت اخلاء بنا دئے گئے ہیں، لیکن 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار اسے جھوٹا ثابت کرتے ہیں، جس کے مطابق وہاں کے صرف 34 فیصد دیہی علاقو ں میں ہی بیت الخلا ہیں۔ڈراپ آؤٹ بہار آسام سے بھی زائد ہے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مودی کے تیور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات میں ان کے تیور کیسے ہوں گے۔ کانگریس ان کے سامنے بونی نظر آنے لگی ہے۔ عمل کی جگہ ردعمل سے کام چلا رہی ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں سے کانگریس نے مودی کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ گجرات میں انہیں زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہر تحقیقاتی رپورٹ میں انہیں کلین چٹ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کچھ نگرانی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوسکا ورنہ سب ایک ایک کرکے بری ہوجاتے۔ کانگریس نے مہنگائی روکنے میں کبھی کوشش نہیں کی ، گزشتہ چھ ماہ سے خاص طور جب سے نریندر مودی کو مرکزی انتخابی کمیٹی کا چیرمین اور وزیر اعظم عہدہ کا امیدوار نامزد کیاگیااس کے بعد ساگ سبزیوں کی قیمتوں میں پانچ چھ گنا اضافہ ہوا ہے ایک طرف راہل، سونیا گاندھی بی جے پی کو بنیوں کی پارٹی کہتے نہیں تھکتیں دوسری طرف ان لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھوسٹ کی کھلم کھلا اجازت دی گئی ہے۔ نریندرمودی کی ریلیوں کی کروڑوں روپے لگانے والے یہی لوگ ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور جمع خوری کے خلاف کارروائی کرنے سے کانگریس کو کس نے روکا ہے؟اگر کانگریسی حکومت کے رویے کا گہرائی سے جائزہ لیں آپ پائیں گے کہ کانگریس نے مودی کو کھلی چھوٹ اور مواقع فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پیڈ نیوز پر کوئی کارروائی نہ کرنا یہ اہم ثبوت ہے۔ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا مودی کو آگے بڑھانے میں اہم پڑاؤ ثابت ہوا ہے۔ مودی کو کانگریس نے یہ سوچ کر آگے بڑھنے دیا کہ ان کا خوف دکھاکر مسلمانوں کو قریب کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی لئے اس نے اپنی دس سالہ حکومت کے دوران ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ مودی اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے وہ تمام حربے آزمانے پر آمادہ ہیں خواہ وہ کسی دائرہ میں آتے ہوں یا نہیں۔ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواہ پورا ہندوستان فسادات کی آگ میں سلگ جائے ۔ اس کو مودی اپنے حق میں سازگار فضا مانتے ہیں۔ کیوں کہ اگر آر ایس ایس پر پابندی لگانے والے سردار پٹیل کی شان میں آج مودی اور آرایس ایس رطب اللسان ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے ان کی نظر کہاں کہاں ہے۔اب تو وہ مولانا آزاد کو بھی یاد کرنے لگے ہیں۔مسلمانوں کے لئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے تھوڑی سی ناسمجھی انہیں قعر مذلت میں میں دھکیل سکتی ہے۔
D-64فلیٹ نمبر 10،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ 110025
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
تیشہ فکر عابد انور
ملک خواہ کتنی بھی ترقی کرلے لیکن دیومالائی نظریہ سے کبھی پیچھا نہیں چھڑاسکتا۔ یہی وجہ ہے ہندوستان تعلیمی، معاشی، ثقافتی، سائنسی شعبے میں خاطر خواہ ترقی، چاند مشن پر اپنا سیارہ بھیجنے اور مریخ مشن پر روبوٹ بھیجنے کے باوجود دیومالائی ،توہمات ،جھوٹ اور من گھڑت کہانیوں کے حصار میں قید ہے۔ رات دن ہندی نیوز چینل اور ہندی تفریحی چینل پر نشر ہونے والے پروگرام اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہندوستان میں تمام شعبوں میں ترقی کے ساتھ ساتھ توہمات اور دیوملائی نظریات میں بھی بے تحاشہ ترقی ہوئی ہے۔ اسی دیومالائی اور توہمات کے سہارے نریندر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ عوام کو وہ جس طرح ’اندر سبھا‘ کی سیر کرا رہے ہیں اور عوام خوشی خوشی نام نہاد اس سیرسے لطف اندوز ہورہے ہیں اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی عوام کو بالغ ذہن ہونے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ نفرت کے معاملے میں وہ بہت بالغ ہیں لیکن صداقت اور حقائق کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ گزشتہ دنوں نریندر مودی نے چھتیس گڑھ کی انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے عوام اسی اندر سبھا کی سیر کروائی اور کالا دھن کے معاملے عوام کو جھانسہ دیتے ہوئے کہا کہ ملک کا لا دھن اتنا ہے اگر اسے ہندوستان واپس لایا جائے تو ہر ایک آدمی یعنی ایک ارب پچیس کروڑ عوام کو دس دس پندرہ پندرہ لاکھ روپے ملیں گے جبکہ یہ ناممکن ہے ۔ جہاں کے عوام کے پاس ہزار روپے بھی نہ ہوں وہاں اگر دس دس پندرہ پندرہ لاکھ کا خواب دکھایا جائے گا تو عوام کوتو ہرا ہرا نظر آئے گا ہی خصوصا دیومالائی نظریات کا حامل ہوں۔ لیکن اندرسبھا میں بیٹھنے والے عوام نے ان سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) نے اپنے چھ سالہ دور اقتدار میں کالا دھن لانے کی کوشش کیوں نہیں کی تاکہ وہ سب کے سب لکھ پتی ہوتے۔ بابا رام دیو اور انا ہزارے کالا دھن کے معاملے میں سامنے کیوں نہیں آئے تھے۔ کیوں کہ اس سے کانگریس کو فائدہ ہوتا اس لئے ان لوگوں نے تحریک تو دور اس سلسلے میں کوئی بیان تک نہیں دیا۔ ہندوستان میں آج تک جتنی بھی سماجی، اصلاحی یا سیاسی تحریکیں چلی ہیں وہ صرف فرقہ پرست عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے چلائی گئی ہیں۔ جے پی تحریک سے کس کو فائدہ ہوا۔ رام دیو اور اناہزارے کی تحریک کس کے خلاف تھی۔ انا تحریک کا ایک اہم رکن کس کے ساتھ ریلی میں شریک ہوا تھا۔ رام دیو تو کھل کر مودی کی حمایت میں سرگرم ہیں اور اپنے یوگا کیمپ کے توسط سے بی جے پی کی کامیابی کے لئے جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ ایونٹ منیجمنٹ ادارے آج ہندوستان میں خوب پھل پھول رہے ہیں کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے وزیراعظم عہدہ کے امیدوار نریندر مودی کو ان داروں کی خدمات کی آج کل ہر وقت ضرورت ہوتی ہے۔پانچ ریاستی اسمبلی انتخابات کا موسم ہے اور اس کے بعد فوراً لوک سبھا کے عام انتخابات کا ہلچل شروع ہوجائے گا۔ ایسے میں ایونٹ منیجمنٹ ادارے کی چاندی ہی چاندی ہے۔ اسی کے سہارے عوامی حمایت کا ڈھونڈورا پیٹا جارہا ہے۔ لیکن اس کا دوسرا پہلو بھی ہے جسے نظر انداز کرنا بے وقوفی ہوگی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پڑھے لکھے ہندؤں کے نوے فیصد لوگ آج مودی کو مسیحا کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ وہ گجرات کی نام نہاد ترقی سے متاثر ہیں بلکہ ان کا پیمانہ یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کو زندہ درگور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان سے زبان چھین سکتے ہیں۔ بولنے کی صلاحیت ختم کرسکتے ہیں۔ ان کی مرضی کے خلاف ووٹ دینے کا حوصلہ ختم کرسکتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ ٹرینوں، بسوں، چائے خانوں ، کافی شاپ اور دیگر عوامی مقامات پر پڑھے لکھے ہندوؤں کی بات چیت سے اندازہ لگاسکتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی 70فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے ورنہ مودی کے طوفان کو کوئی بھی نہیں روک سکتا تھا۔
ایونٹ منیجمنٹ کا ہی کمال ہے کہ ہندوستان ہی نہیں بیرون ملک کے مالی ادارے بھی جنہیں سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا وہ نریندرمودی کی شان اور تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ انہیں محسوس ہونے لگا ہے کہ ہندوستان کے مستقبل کے وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہیں اور اس کی وجہ ریلیوں میں جمع ہونے والی بھیڑ کو قرار دے رہے ہیں۔ فاربس میگزین جب طاقتور شخصیت کا انتخاب کرتی ہے اس میں اس بات کو پیش نظر رکھتی ہے کہ سب سے زیادہ میڈیا میں کون چھایا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے ہندی نیوز چینل، قومی میڈیا (پرنٹ) انگریزی اور ہندی میں نریندر مودی کے وزیر اعظم عہدہ کے امیدوار اعلان کئے جانے کے بعد ہر وقت تمام نیوز چینل، انگریزی اور ہندی کے اخبارات مودی کے دھن پر رقص کرتے نظر آتے ہیں۔ باخبر ذرائع کے مطابق ہندوستان کے تمام بڑے اخبارات اور نیوز چینل نے مالکان اور مدیران نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نریندر مودی کے خلاف کوئی بھی منفی خبر اہم جگہ پر شائع نہیں کی جائے گی اور نہ اسے اہمیت دی جائے گی۔ اس کا راقم الحروف کو بھی اس کا اندازہ ہوا کہ جب میں نریندر مودی کے متنازعہ بیان ٹائپ کرکے کچھ تلاش کرنا چاہا تو وہ سارے بیان آگئے جو مودی کے خلاف دئے گئے تھے نریندر مودی کے متنازعہ اور توہین آمیز بیان کا نام و نشان نہیں تھا۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ مسلم دشمن طاقتوں کی تیاری کس قدر پختہ ہے۔ وہ کسی بھی گوشہ خالی رکھنا نہیں چاہتے۔ وہ سام ڈنڈ بھید میں سے کسی کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ یہ آر ایس ایس کے ایونٹ منیجمنٹ کی دین ہے کہ امریکی مالی ادارے مودی کی شان قصیدہ پڑھ رہے ہیں۔ گولڈن سائکس کے بعد سی ایل ایس اے جیسے بروکریج ادارے کی مودی کی تعریف کرنا اپنے آپ میں بہت کچھ کہتا ہے ۔ مودی تعریف کے ساتھ اس کے عوامل اور مقاصد پر نظر ضروری ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کرنے والے گولڈمین سائکس کے بعد بڑے بروکریج فرم سی ایل یس اے نے بھی نریندر مودی کو مارکیٹ اور اقتصادیات کے لئے اچھا بتایا ہے۔ اس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ سنسیکس میں گزشتہ 11 ہفتے میں جو تیزی آئی ہے وہ دو وجوہات سے ہے۔ پہلی وجہ امریکہ میں ترغیبی پیکیج کاجاری رکھنا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں نریندر مودی کی فتح کا امکان ہے۔ بروکریج فورم 147گریڈ اینڈ فیئر148 نام سے جاری اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شیئر بازار مسٹر مودی کی قیادت میں بی جے پی کے آئندہ عام انتخابات میں فتح کے سلسلے میں خاصا پرجوش ہے اور نئے ریکارڈ بنا رہا ہے ۔ رپورٹ میں شیئر بازاروں کی تیزی میں سب سے اہم مودی فیکٹر کو سمجھا جارہا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2008 میں اقتصادی بحران کے وقت امریکہ نے جو ترغیبی پیکیج دئے تھے اس کی فی الحال واپسی کا امکان نہ ہونے سے شیئر بازار میں نیا جوش دیکھا جارہا ہے۔سی ایل ایس اے کے چیف پالیسی ساز کرسٹوفر ووڈ نے کہا ہے کہ شیئر بازاروں میں تیزی کا جو ماحول ہے وہ اس امیدسے وابستہ ہے جس میں مسٹر مودی کے اگلے سال عام انتخابات میں فتح کا امکان زیادہ ہے۔ سی ایل ایس اے مسٹر مود ی کی ریلیوں میں کانگریس کے نائب صدر راہل گاندھی کی ریلیوں سے کئی گنابھیڑ میں فتح کا امکان تلاش کر رہا ہے۔ اس کے مطابق نریندر مودی کی ریلی میں راہل کے مقابلے 6 سے 8 گنا زیادہ لوگ آ رہے ہیں۔فورم کا خیال ہے کہ اگر بی جے پی عام انتخابات میں 190 سے 200 نشستیں حاصل کرلیتی ہیں تو وہ مرکز میں حکومت بناسکتی ہے اور یہ مخلوط حکومت کافی حد تک مستحکم ہوسکتی ہے۔
عالمی سرمایہ کاری بینک اور ریٹنگ ایجنسی گولڈمین سائکس نے 5 نومبر کی اپنی رپورٹ میں کہاتھا کہ مئی 2014 میں ہونے والے آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کی قیادت میں این ڈی اے کی جیت ہو سکتی ہے۔ اسٹاک سرمایہ کاروں کی نگاہ میں بی جے پی کاروبار کے لحاظ سے بہتر ہے اور بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار مودی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاری بینک کی تازہ رپورٹ میں نریندر مودی کی تعریف کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ گولڈ مین سائکس نے شیئربازار وں میں تیزی کا سبب مسٹر مودی کے فتح کے امکان کو قرار دیا تھا۔ اسی کے ساتھ گولڈمین سیکس نے ہندوستان میں ریٹنگ 147انڈرویٹ148 سے بڑھاکر مارکیٹ ویٹ کردیا ہے اور اگلے سال کے آخر تک نیشنل اسٹاک ایکسچنج (این ایس آئی) کے نفٹی کے لئے 6900 کا ہدف رکھا ہے۔ان دونوں ایجنسیوں کی مودی کی تعریف اور شان میں قصیدہ خوانی پر مرکزی وزیر صنعت و تجارت آنند شرما نے اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے ہندوستان کے سیاسی معاملات میں مداخلت سے قرار دیا ۔اس کے علاوہ منصوبہ بندی کمیشن کے نائب چیرمین مونٹیک اہلوالیہ نے بھی ناراضگی ظاہر کی ہے۔ ان کے مطابق امریکی سرمایہ کاری بینک گولڈمین سائکس کو سیاسی معاملات پر تبصرہ نہیں کرنا چاہئے’’ میں گولڈمین سائکس سے متفق نہیں ہوں، کئی لوگوں نے کہا ہے کہ انہیں ان چیزوں پر نہیں بولنا چاہئے‘‘۔امریکی اور یوروپی ممبران کو پیسے دیکر کچھ بھی اور کسی کے خلاف بیان دلوایا یا تعریف و توصیف کروائی جاسکی ہے۔ امریکی ممبران پارلیمنٹ اس معاملے میں کافی فعال ہیں۔ جب ہندوستانی سربراہ امریکہ کا دورہ کرتا ہے تو وہ ہندوستان کے حق میں بیان دیتے ہیں اور جب پاکستانی سربراہ دورہ کرتے ہیں وہ ان میں کچھ ممبران پاکستان کی حمایت کرتے ہیںیہ سب پیسے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ اسی طرح آج وہ مودی کے حق میں بیان دے رہے ہیں۔ امریکہ کے ری پبلیکن لیڈروں نے نریندر مودی کو بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدہ کا امیدوار نامزد کئے جانے پر مبارکباد دی ہے اور انہیں کیپٹل ہل میں کانگریس کے لیڈروں اور ہندوستانی امریکیوں سے سیٹلائٹ کے ذریعے خطاب کرنے کی دعوت دی ہے۔ اس کے علاوہ کانگریس کی دیگر رکن کیتھی مییک مورس راجرز نے مودی کو مبارکباد پیغام میں دیتے ہوئے کہا ،\'\' میں ہندوستان کے وزیر اعظم عہدے کے لئے بی جے پی کا امیدوار نامزد کئے جانے پر آپ کو مبارک باد دیتی ہو۔اس سال کے شروع میں راجرز کچھ دیگر ارکان پارلیمنٹ کے ساتھ ہندوستان آئی تھیں اور گجرات میں مودی سے ملی تھیں۔جس کے بعدیہ خبر اخبارات کی زینت بنی تھی کہ یہ سب ایونٹ منیجمنٹ کا کمال تھا۔ یہ سب لوگوں کو معلوم ہے کہ شےئر بازار میں اچھال پالیسی میں تبدیلی اور اقدامات کا نتیجہ ہے جو رگھوراجن نے ریزرو زبینک آف انڈیاکے گورنر بننے کے بعد کئے ہیں۔
مودی کی تقریر میں تہذیب و تمدن کی گنجائش کا عمل دخل نہیں ہے۔ان کی منزل صرف حکومت ہے خواہ اس کے لئے ہندوستان کے ٹکڑے ٹکڑے کیوں نہ ہوجائے۔ عوام کو وہ کس قدر اشتعال میں مبتلا کرتے ہیں اس کا اندازہ ان کے جملوں سے لگایا جاسکتا ہے، جس دہلی کی کانگریس قیادت والی حکومت نے غریبوں سے پیاز چھین لیا ہے ، آپ اس کانگریس سے ملک چھین لو، کانگریس نے مہنگائی کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن بغیر پیاز کے ہی اس نے آنکھوں سے آنسو نکال دیئے ہیں۔کبھی سی بی آئی کو پیچھے لگا دو ، کبھی انڈین مجاہدین کو کھلی چھوٹ دے دو، تو مجھے لگتا ہے کہ سی بی آئی اور انڈین مجاہدین یہی لوگ انتخابات کا مورچہ سنبھالیں گے، تاکہ وہ کانگریس کا محاذبچا سکیں۔کبھی دیوالیہ سے پہلے شوچالیہ (بیت الخلا) کی بات کرتے ہوئے مودی کہتے ہیں کہ گجرات کے 82 فیصد دیہی علاقوں میں بیت اخلاء بنا دئے گئے ہیں، لیکن 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار اسے جھوٹا ثابت کرتے ہیں، جس کے مطابق وہاں کے صرف 34 فیصد دیہی علاقو ں میں ہی بیت الخلا ہیں۔ڈراپ آؤٹ بہار آسام سے بھی زائد ہے۔
پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مودی کے تیور سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لوک سبھا کے آئندہ انتخابات میں ان کے تیور کیسے ہوں گے۔ کانگریس ان کے سامنے بونی نظر آنے لگی ہے۔ عمل کی جگہ ردعمل سے کام چلا رہی ہے۔ گزشتہ بارہ برسوں سے کانگریس نے مودی کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ گجرات میں انہیں زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ہر تحقیقاتی رپورٹ میں انہیں کلین چٹ دینے کی کوشش کی جاتی رہی ۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کا کچھ نگرانی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے خلاف مقدمہ قائم ہوسکا ورنہ سب ایک ایک کرکے بری ہوجاتے۔ کانگریس نے مہنگائی روکنے میں کبھی کوشش نہیں کی ، گزشتہ چھ ماہ سے خاص طور جب سے نریندر مودی کو مرکزی انتخابی کمیٹی کا چیرمین اور وزیر اعظم عہدہ کا امیدوار نامزد کیاگیااس کے بعد ساگ سبزیوں کی قیمتوں میں پانچ چھ گنا اضافہ ہوا ہے ایک طرف راہل، سونیا گاندھی بی جے پی کو بنیوں کی پارٹی کہتے نہیں تھکتیں دوسری طرف ان لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کھوسٹ کی کھلم کھلا اجازت دی گئی ہے۔ نریندرمودی کی ریلیوں کی کروڑوں روپے لگانے والے یہی لوگ ہیں۔ لوٹ کھسوٹ اور جمع خوری کے خلاف کارروائی کرنے سے کانگریس کو کس نے روکا ہے؟اگر کانگریسی حکومت کے رویے کا گہرائی سے جائزہ لیں آپ پائیں گے کہ کانگریس نے مودی کو کھلی چھوٹ اور مواقع فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، پیڈ نیوز پر کوئی کارروائی نہ کرنا یہ اہم ثبوت ہے۔ نفرت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی نہ کرنا مودی کو آگے بڑھانے میں اہم پڑاؤ ثابت ہوا ہے۔ مودی کو کانگریس نے یہ سوچ کر آگے بڑھنے دیا کہ ان کا خوف دکھاکر مسلمانوں کو قریب کرنے میں مدد ملے گی۔ اسی لئے اس نے اپنی دس سالہ حکومت کے دوران ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ مودی اپنی فتح کو یقینی بنانے کے لئے وہ تمام حربے آزمانے پر آمادہ ہیں خواہ وہ کسی دائرہ میں آتے ہوں یا نہیں۔ اس سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواہ پورا ہندوستان فسادات کی آگ میں سلگ جائے ۔ اس کو مودی اپنے حق میں سازگار فضا مانتے ہیں۔ کیوں کہ اگر آر ایس ایس پر پابندی لگانے والے سردار پٹیل کی شان میں آج مودی اور آرایس ایس رطب اللسان ہیں تو اس کا مطلب صاف ہے ان کی نظر کہاں کہاں ہے۔اب تو وہ مولانا آزاد کو بھی یاد کرنے لگے ہیں۔مسلمانوں کے لئے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنے کا وقت آگیا ہے تھوڑی سی ناسمجھی انہیں قعر مذلت میں میں دھکیل سکتی ہے۔
D-64فلیٹ نمبر 10،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، نئی دہلی۔ 110025
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment