UP Violence muslims and seculerism by abid anwar



مسلم کش فسادات اور سیکولر طاقتوں کی بے حسی 

تیشہ فکر عابد انور 

ہندوستان کو پوری دنیا میں کثیر المذاہب ، کثیر الثقافت، رنگارنگی اور گنگا جمنی تہذیب کے لئے جانا جاتا ہے اور پوری دنیا کو یہ بتایا جاتا ہے کہ گوناگوں اختلافات کے باوجودمختلف مذاہب کے لوگ اور مختلف نظریات کے حامل افراد ایک ساتھ رہتے ہیں ۔اس طرح ہندوستان کی کثرت میں وحدت کے طور پر بھی شناخت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آئینی طور پر ہندوستان میں تمام برادران کے ساتھ مسلمانوں کو بھی یکساں سلوک، یکساں مواقع اورہر شعبہ میں مساویانہ حقوق حاصل ہیں لیکن کسی چیزکا کا غذ پر درج ہونا اور عملی جامہ پہننا دونوں الگ الگ بات ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو آئینی طورپر تمام اختیارات دئے گئے ہیں اور کہیں بھی تفریق نہیں برتی گئی ہے سوائے دفعہ ۳۴۱ کے جس میں صدارتی نوٹی فیکشن کے ذریعہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے ساتھ تفریق برتی گئی۔ ہندوستان کا آئین دنیا کے بہترین آئین میں سے ایک ہے لیکن عمل کے اعتبار سے اتنا ہی خراب ہے ۔آج بھی یہاں اسی روایتی قانون کا بول بالا ہے ’جس کی لاٹھی اسی کی بھینس‘ ۔ مسلمانوں کے پاس لاٹھی نہیں ہے اس لئے مسلمانوں کی یہاں نہ تو جان محفوظ ہے، نہ ہی عزت و عفت اور نہ ہی مال و متاع۔ لاٹھی والے کاجب بھی دل کرتا ہے فسادات کے بہانے مسلمانوں کی تینوں چیزیں عزت ، جان اور مال چھین لیتاہے اور ہندوستان کا سیکولر آئین اس لاٹھی والے کا بال بھی باکا نہیں کرپاتا۔ ہندوستان میں سیکولرزم پر بہت بات ہوتی ہے۔ اس کے سیکولر ہونے پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا رہاہے اور کہاجاتا ہے کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے اور فسادی عناصر مٹھیوں میں ہیں لیکن جب یہی مٹھی بھر فسادی عناصر سڑکوں پر کھلے عام مسلمانوں کی تینوں چیزیں لوٹ رہے ہوتے ہیں تو ہندوستان کا سیکولر طبقہ ، سیکولر آئین اور سیکولر حکومت کنبھ کرن کی نیند سوجاتی ہے اور جیسے ہی حالات معمول پر آتے ہیں سانپ کی لکیر پیٹنے آجاتے ہیں۔ ہندوستان کے آزاد ہونے کے بعد سے آج تک یہ معمول کا حصہ ہے۔ ہندوستان اگر سیکولر ملک ہے تو اسے ثابت کرنے یا کہنے کی کیا ضرورت ہے۔ ثابت اسے کیا جاتا ہے جس میں کوئی کھوٹ یا ہو اس میں کوئی شبہ ہو یا سب پر اظہر من الشمس نہ ہو۔ دوسرے جمہوری ملکوں خاص طور پرمغربی ممالک کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہاں کا حکمراں سیکولر ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ وہاں کے عوام سیکولر ہوتے ہیں ۔ ہندوستان کی خاص بات یہ ہے کہ نہ تو یہاں کے عوام سیکولر ہیں اور نہ ہی حکومت۔ سیکولر حکومت کا دم بھرنے والے وزرائے میں بھی اکثریت خاکی نیکر والی ذہنیت کے حامل افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔ افسران کی بات تو جانے دیں ۔ سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ایسا محسوس ہوتا ہے وہ یو پی ایس سی سے کامیاب ہونے کے بجائے ششو مندر سے راست طور پر یہاں آئے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ اقلیتوں پر اسی ہزار کروڑ روپے خرچ کئے جانے کے باوجود اس کی حالت میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے بلکہ وہ دلتوں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ یہ سیکولر حکومت اور سیکولر حکومت کے افسران کا کمال فن نہیں تو کیا ہے؟
لوک سبھا کے ۲۰۱۴ کے انتخابات جس طرح قریب آتے جارہے ہیں اسی طرح فرقہ پرست پارٹیوں اور فرقہ پرستانہ سوچ کے حامل افراد کا حوصلہ بڑھتا جارہاہے۔ مسلمانوں کی حیثیت دونوں چکیوں کے بیچ کی ہے۔ یعنی ہر حال میں انہیں پسنا ہی ہے خواہ وہ سیکولر ہاتھوں سے پسیں یا فرقہ پرستوں کے ہاتھوں سے۔ دسہرہ کے موقع پرجہاں حالیہ فسادات ہوئے ہیں وہاں چاروں جگہ پر سیکولر حکومت ہے ۔ مہاراشٹر کے کانگریس کی قیادت والی کانگریس ۔ این سی پی کی حکومت ہے جب کہ آندھرا پردیش میں خالص کانگریس کی حکومت ہے، کشمیر میں نیشنل کانفرنس کے ساتھ مخلوط حکومت میں ہے اور اترپردیش میں سماج وادی پارٹی واضح اکثریت کے ساتھ برسراقتدار ہے بلکہ وہ مسلم ووٹوں کے دم پر ہی اقتدار میں ہے۔ مہاراشٹر کے آکوٹ، آندھرا پردیش کے حیدرآباد، لداخ کے زنسکار اور اترپردیش کے فیض آباد کے کئی علاقوں میں جس طرح فرقہ پرستوں نے کھلم کھلا لوٹ مار اور آتش زنی کی واردات کو انجام دیا ہے اس سے سیکولر حکومتوں کے چہروں سے نقاب الٹ گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں اس طرح کی وارداتیں پہلی بار ہوئی ہیں ہر دسہر ہ کے موقع پر مہاراشٹر، اترپردیش ، آندھرا پردیش اور ملک کی دیگر ریاستوں میں رام نومی کے جلوس یا مورتی وسرجن (سپرد آب) کے موقع پر اس طرح کے فسادات ہوتے رہے ہیں کیوں کہ جلوس میں شامل افراد سماج دشمن اور فرقہ پرست عناصر ہوتے ہیں اور شراب کے نشے میں دھت ہوتے ہیں ۔ رام نومی کا جلوس اور مورتی وسرجن کے جلوس کے بہانے وہ اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتے ہیں اور وہ جان بوجھ کر مسجد کے سامنے ڈانس کرتے ہیں ، مسجد پر گلال ڈالتے ہیں، گندگی پھینکتے ہیں، مسلم خواتین کی بے حرمتی کرتے ہیں ، مسلمانوں کو غلیظ گالی دیتے ہیں اور مسلمانوں کے مذہب کے بارے میں نازیبا کلمات ادا کرتے ہیں جس پر کوئی مسلمان اعتراض کرتا ہے اس کے بعد طے شدہ منصوبہ کے تحت لوٹ مار، آتش زنی اور مسلمانوں کے قتل کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ حالانکہ جلوس کے ساتھ پولیس کا دستہ بھی چلتا ہے تاکہ فسادیوں کو کوئی زک نہ پہنچے ۔ اگر پولیس چاہے تو ان فسادیوں کو روک سکتی ہے اور مسجد کے سامنے ہنگامہ کرنے سے انہیں باز رکھ سکتی ہے لیکن پولیس ٹریننگ کے دوران انہیں یہ بتایا ہی نہیں جاتا ہے مسلمانوں کو بھی تحفظ فراہم کرنا ہے۔ پولیس کا استعمال تو صرف مسلمانوں پر گولی چلانے تک محدود ہوتی ہے۔ کوئی مثال پیش کرسکتا ہے کہ کسی پولیس والے کی جان فسادات کے دوران مسلمانوں کی جان بچانے میں گئی ہے؟ میری نظر سے اب تک نہ تو کوئی ایسا واقعہ اور نہ ہی کوئی ایسی خبر گزری ہے۔پولیس اور انتظامیہ چاہے تو فسادات نہیں ہوسکتے کیوں کہ لوکل انتظامیہ اور پولیس کومعلوم ہوتا ہے کہ کون فسادی ہے اور کون مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہاہے اور مسلمانوں کو عزت و عصمت اور جان و مال لوٹنے کی منصوبہ بندی کون کر رہاہے ۔
اتر پردیش کے فیض آباد شہر اوراس سے ۱۵ کلو میٹر دور قصبہ بھدرسہ میں درگا پوجا کی مورتی کے وسرجن کے جلوس کے موقع پر گزشتہ ۲۵ اکتوبر کو جس طرح فرقہ پرستوں نے ننگا ناچ کا مظاہرہ کیا وہ نئی بات نہیں تھی اترپردیش کے اضلاع میں اس طرح کے سنگین واردات فرقہ پرست عناصر انجام دیتے آئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں ضلع انتظامیہ نہ صرف فسادیوں کا حوصلہ بڑھاتی ہے بلکہ انہیں تحفظ بھی فراہم کرتی ہے۔ یہ بات مسلمانوں نے نہیں کہی ہے بلکہ ریاست کے اعلی حکام نے کہی ہے۔ ریاست کے ڈائرکٹر جنرل پولیس اور ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل (امن و قانون) کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یہ منصوبہ بند فساد تھا ۔ اس کی پاداش میں اس ضلع فیض آباد کے کئی افسران کو معطل کردیاگیا اور کئی کا تبادلہ کردیاگیا۔ ایڈیشنل پولس ڈائریکٹر جنرل (امن وقانون) جگموہن یادو کے مطابق شراب کی دکانیں مورتی وسرجن کے دن بند ہونی چاہئے تھی، ایسا کیوں نہیں ہوا اس کے لئے ضلع مجسٹریٹ اور پولیس اہلکار ذمہ دار ہیں۔سازش کے تحت فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ضلع انتظامیہ کی مکمل طور پر لاپروائی تھی۔ پولیس کافی تعداد میں موجود تھی لیکن اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔فائربریگیڈ کی گاڑیوں میں پانی نہیں تھایا پریشر نہیں تھا اسے بھی ضلع انتظامیہ ہی جانے۔ بھدرسہ کی واردات نہیں ہوتی تو صورتحال جلد معمول آجاتی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ بھدرسہ میں کافی گھر اور دکانیں جل گئیں ہیں۔ بھدرسہ علاقے میں تلاشی میں پٹرول ،کراسن تیل اور بم برآمد ہوئے ہیں۔ مقامی انتظامیہ اس قدر لاپرو اور بے حس ہوچکی تھی کہ ریاست کے ایڈیشنل پولس ڈائریکٹر جنرل (امن وقانون) جگموہن یادو کو خود فیض آباد کی کمان سنبھالنی پڑی۔ اگر فوج فیض آباد میں آگ بجھانے نہیں آتی تو فیض آباد جل چکا ہوتا کیونکہ ریاستی حکومت کے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں تو شو پیس بن کر رہ گئی تھیں۔ شہر کے سب سے زیادہ کشیدہ چوک علاقے میں گذشتہ 24 اکتوبر کی شام سے ہی فسادیوں نے دکانوں میں آگ لگانی شروع کردی تھی لیکن اتر پردیش کی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں وہاں صرف شو پیس ثابت ہوئی کیونکہ فائر بریگیڈ میں یا تو پانی نہیں تھا یا پریشر نہیں تھا۔ فائر بریگیڈ کے اہلکار مکمل طور پر ناکام نظر آئے بلکہ ایک فائر بریگیڈ کا ڈرائیور ہی موقع سے فرار ہوگیا تھا۔چوک علاقے میں پانی کا پوائنٹ بنا ہوا ہے اور ہر ہولی کے موقع پر ہولی کھیلنے والے پانی وہیں سے لیتے ہیں۔ اس کے باوجود دو دہائی پہلے رام مندر تحریک کے دوران چوک میں فائر بریگیڈ کے لئے بنے پانی کے پوائنٹ کے بارے میں بھی انہیں پتہ نہیں تھا۔ فسادیوں نے نہ صرف دکانوں اور مکانوں کو آگ کے حوالے کیا بلکہ ان دروں کوبھی آگ لگادی جن کی کی تعمیر نواب شجاع الدولہ نے اپنے دور اقتدار کے دوران 18 ویں صدی میں کروایا تھا۔ انہی کی دروں سے ہوکر چوک میں داخل ہوتے ہیں۔گلاب باڑی میں واقع نواب شجاع الدولہ اور ان کے والد کے مزار کا راستہ انہی درؤں سے جاتا ہے۔ انگریزوں نے اپنے دور اقتدار میں تاریخی دروں میں دکانیں کھلوا دی تھیں۔ یہاں بیشتر دکانیں مسلمانوں کی ہیں۔ پولیس کے ڈائریکٹر جنرل اے سی شرما کے مطابق ابتدائی تفتیش سے ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات مکمل 'منصوبہ بند' تھے۔ انہوں نے بتایا کہ درگا کی مورتی کے وسرجن کے لئے نکلنے والے جلوس کے دوران شراب کی تمام دکانیں کھلی تھیں اور جلوس میں شامل لوگ نشے میں تھے.۔انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ کسی درگا مجسمے کو نقصان پہنچایا گیا۔ واقعہ کے کچھ ویڈیو پولیس کے ہاتھ لگے ہیں جن کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ اگر اس ویڈیو کلپ پرایماندارانہ کارروائی کی گئی تو نہ صرف یہ مجرم کو پکڑنا آسان ہوگا بلکہ فسادیوں اور اس کے آقا کی بھی شناخت ہوجائے گی۔ ویسے عام لوگوں کو یہ معلوم ہے اس کا آقا کون ہے اور فسادات کس کے اشارے پر برپا کئے جاتے ہیں۔ 
سب کم عمر وزیر اعلی کے طورپر جب اکھلیش یادو نے ۱۵ مارچ ۲۰۱۲ کو حلف لیا تھا تونہ صرف ریاست کے لوگوں بلکہ مسلمانوں کو بھی امید تھی کہ وہ ریاست کے نظم و نسق کے نظام کو بہتر کرنے اور فرقہ پرستوں کے پھن کو کچلنے کے سمت میں مثبت قدم اٹھائیں گے لیکن گزشتہ ماہ کے دوران کم از کم چھوٹے موٹے اور بڑے فرقہ وارانہ فسادات کی تعداد چالیس (۴۰) سے زائد ہے۔ ان میں سے نو بڑے فسادات ہوچکے ہیں جن میں کوسی کلاں، بریلی، کانپور، الہ آباد، پرتاپ گڑھ اور دیگر شامل ہیں۔ ان سارے فسادات کو منصوبہ بند کہے جاسکتے ہیں۔ مسلمانوں نے مارچ ۲۰۱۲ میں اختتام پذیر اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے ممبران اسمبلی میں ایک چوتھائی مسلم ممبران کی تعداد ہے۔ اس کے باوجود مسلم مخالف فسادات کا نہ رکنا اورافسران کا بے لگام ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کا افسران پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ اس سے مسلم ممبران اسمبلی کی مسلما نوں کے تئیں بے حسی بھی ظاہر ہوتی ہے جب وہ اس موقع سے سامنے نہیں آئیں گے تو دوسروں سے کیا گلہ۔ حالانکہ اس وقت یوپی کا چیف سکریٹری ایک مسلمان ہے اور وزیر اعلی اترپردیش کا سکریٹری بھی ایک مسلم نوجوان آئی اے ایس افسر ہے۔ دراصل ہندوستان کی تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس کوئی متبادل نہیں ہے ۔ انتخابی نظام اس طرح وضع کیاگیا ہے کہ مسلمان اپنے طور پر کوئی پارٹی بھی نہیں چلاسکتے اور نہ ہی مؤثر طور پر کوئی رول ادا کرسکتے ہیں۔ پاکستان میں جس طرح ہندو صرف ہندو کو منتخب کرتا ہے چاہے کتنے ہی ہندو انتخابی میدان ہوں منتخب صرف ہندو ہی ہوگا جبکہ ہندوستان میں اس طرح نہیں ہے ۔ بلکہ مسلم حلقوں میں بیشتر پارٹیاں مسلمانوں کو کھڑا کرتی ہیں تاکہ مسلمان آپس میں لڑکر اپنے ووٹ تقسیم کرلیں اور اس کا راست فائدہ کسی ہندو امیدوار کو پہنچ جائے۔ اس نظام کے باوجود ہندوستان میں مسلمان کنگ میکر کا کردار ادا کرسکتے ہیں اگر مسلمانوں میں اتحاد پیدا ہوجائے۔ یہاں کی سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے لئے ہر مسلک سے لیڈر پال رکھے ہیں اور وہ چند سکوں کے عوض انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ منقسم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ فسادات کے دوران کوئی بھی فسادی مارنے سے قبل یہ نہیں پوچھتا کہ تم نماز کے وقت ہاتھ سینے پر باندھتے ہو، رفع یدین کرتے ہو، یا مزار پر جاتے ہو، شیعہ ہو یا سنی ہو، اونچی ٹوپی پہنتے ہو یا نیچی۔ ان کے سامنے صرف نام کا مسلمان ہونا کافی ہے خواہ وہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو۔ اگرایسا نہ ہوتا تو میرٹھ فسادات کے دوران بشیر بدرکا گھرنہ جلایا گیا ہوتا اور جمشیدپور فسادات کے دوران مسلم معاشرے سے دور رہنے والے ذکی انور کو بے رحمی سے قتل نہ کیاگیا ہوتا۔یہ واقعات ایسے لیڈروں اور مسلک کے نام پر مسلمانوں کی تجارت کرنے والے ایسے علماء کے سبق کے لئے کافی ہیں۔ 
ڈی۔۶۴، فلیٹ نمبر۔ ۱۰ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۲۵
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments