Egypt prsident and problems by abid anwar


مصری صدر محمدمرسی العیاط کی صدارت:  کبہت مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی

تیشہ فکر  عابد انور 

اقتدارکی ہوس ایسی چیز ہے جس کے لئے انسان اپنی تمام چیزوں یہاں تک کے اپنی جان کو بھی قربان کردیتا ہی۔ایک بار کسی کویہ لت لگ جائے تو پھر وہ چھوٹنے کانام ہی نہیں لیتی۔ مسلم ملکوں خاص طور پر یہ وبا خلیجی ممالک میں زیادہ پھیلی ہوئی ہی۔ اسلام میں عہدہ اور مرتبہ کے پیچھے بھاگنے والوں کو اچھی نظر سے نہیںدیکھا گیا ہے اس شخص کو عہد ہ دینے سے منع کیاگیا ہے جو چاہت رکھتا ہو۔وجہ اس کی یہ ہے کہ وہ خواہشات نفسانی کا شکار ہوگا اور اپنے فرائض کی ادائیگی میں خلوص کا مظاہرہ نہیں کرے گا جس کی اسلام توقع رکھتاہی۔ اس کے نتیجے میں بے شمار برائیاں جنم لیتی ہیں جس کامشاہدہ تاریخ نے کی ہے اور آئے دن کرتے رہتے ہیں۔ یہیں سے اقربا پروری، بدعنوانی اور فرائض سے تغافل کا دور شروع ہوجاتا ہی۔ مسلم تحریکیں جتنی بھی اٹھی ہیں ابتداء میں ان تمام چیزوں سے پاک رہی ہیںلیکن جیسے جیسے منزل کے قریب آتی گئیں ایسے لوگوں نے انہیں اپنے نرغے میں لے لیا جو تحریک کے بنیادی اغراض و مقاصد پر کھرا نہیں اترتے تھے اس کا مقصد محض اقتدارمیں گلیاروں میں قدم رکھناتھایا ذاتی مفاد کی تکمیل، لیکن مصر کی اخوان المسلمین تحریک ان تمام تحریکوں سے پاک رہی ہے ۔ اخوان المسلمین جس کی بنیاد حسن البنا نے مارچ ۸۲۹۱میں سوئز کنال کمپنی کے چھ ورکروں کے ساتھ ملکررکھی تھی، پوری تحریک قربانی سے عبارت ہی۔ حسن البناشہید اور قطب شہید اورخواتین ونگ کی لیڈر اور انتہائی قابل احترام زینب الغزالی کی تکالیف، قربانی، جیل کی صعوبتیں اور ان کے خاندان پر کئے گئے مظالم کو سامنے رکھیں تو دنیا میں کسی بھی تحریک کے ارکان پرکئے جانے والے مظالم ان کے سامنے ہیچ ہیں۔ اخوان المسلمین کی بنیاد قربانی پر رکھی گئی تھی اور ابھی تک قربانی دیتی آرہی ہی۔ مصر اگر آج برطانوی غلامی سے آزاد ہے تو اس میں اخوان المسلمین کا بہت بڑاکردار ہی۔کبھی وہ برادر ہڈس کے نام پرقربانی دیتی رہی تو کبھی بغیر کسی نام کی۔اس وقت وہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے میدان عمل میں ہے ۔مصر میں ان پر ہر طرح کے مظالم فوجی حکومت نے ڈھائے اور تمام بنیادی حقوق و اختیارات سے اس تحریک اور اس ارکان کو محروم کردیاگیا۔ اس کے باوجود اس تحریک کے ارکان نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ جہد مسلسل کو اپنی حیات کا ایک جز لاینفک بنالیا، جمال عبدالناصر، انورسادات اور گزشتہ سال معزول کئے گئے حسنی مبارک کے مظالم کے سامنے خود کو ایک چٹان کی طرح ثابت قدم رکھا۔ اس تحریک کے ارکان کی آواز پرآوازملاتے ہوئے پورا مصر تحریر اسکوائر پرجمع ہوگیا۔ عرب بہاریہ کا جو سلسلہ تیونس سے شروع ہوا تھا وہ حقیقی معنوں میں مصر میں انجام پذیر ہوا ۔ اس کے بعد لیبیا او ر یمن کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا یہ دونوں ملک میں اقتدار کی تبدیلی آئی لیکن حقیقی معنوں میں عرب بہاریہ کے الفاظ مصر پرصادق آتے ہیں کیوںکہ مصری عوام نے نصف صدی سے زائد عرصہ سے اس کا انتظار کر رہے تھی۔ مصر کی تاریخ میں پہلی بار آزادانہ انتخابات کے توسط سے مصری عوام نے ایک صدر محمد محمد مرسی عیسی العیاط کو منتخب کیا۔
اخوان الملسمین کے بانی شیخ حسن البنا اسمعیلیہ کے ایک گاؤں کے رہنے والے تھی۔ انہوں. نے اس تحریک کا آغاز ۳۲۹۱میں کیا تھا مگر۸۲۹۱ میں اسے باقاعدہ شکل دی گئی۔ اس کا منشا اسلام کے بنیادی عقائد کا احیا اور ان کا نفاذ تھا۔ مگر بعد میں یہ جماعت سیاسی شکل اختیار کر گئی۔ مصر میں یہ تحریک کافی مقبول ہوئی اور اس کی شاخیں دوسرے عرب ممالک میں بھی قائم ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر اس کے اراکین کی تعداد بیس لاکھ کے قریب تھی۔ اخوان المسلمین ۲۵۹۱ میں مصر کے فوجی انقلاب کی حامی تھی مگر وہ جنرل نجیب اور جنرل ناصر کی خارجہ پالیسی کی بھی مخالف بھی تھی۔ ۴۵۹۱میں اس کے اراکین نے جنرل ناصر کو قتل کرنے کی ناکام کوشش کی جس کے بعد یہ جماعت خلاف قانون قرار دے دی گئی اور اس کی املاک ضبط کر لی گئیں۔اس کے بانی حسن البنا کو رات کی تاریکی میں۲۱فروری ۹۴۹۱کوشاہ فاروق کے حکم پر شہید کردیا گیا تھا ۔ اظہار تعزیت کرنے سے لوگوں کو روک دیا گیا۔ سنگینوں کے سائے میں ان کے اہل خانہ کفن دفن کا انتظام کیا۔ صبح طلوع آفتاب کے بعد حسن البناء کا جسد خاکی مسلح حفاظت میں ان کے گھر لایا گیا۔ حسن البناء کا جنازہ ان کے بینائی سے محروم 90سالہ بوڑھے والد،اہلیہ بہن اور 18سالہ بیٹی نے اٹھایا،اہل خانہ نے جامع مسجد قیسوم میںنماز جنازہ ادا کی اور امام شافعی کے قبرستان میںانہیں سپرد خاک کردیا۔اخوان المسلمین کے کارکنوں، عہدیداروں اور بہی خواہوں کو جیل میں ڈال دیا گیا۔مظالم کے اس قدر پہاڑ توڑے گئے کہ اسلامی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ زینب الغزالی نے حکومت کے مظالم کی داستان کی چند جھلک اپنی ایک کتاب ’’ایام من حیاتی‘‘ میں پیش کیا ہے جس کو اسلامک فقہ اکیڈمی کے سکریٹری امین عثمانی نی’’ زنداں کے شب و روز ‘‘کے نام اردو میں ترجمہ کیا ہی۔ اس کے بعد اس جماعت کے رہنما شیخ حسن الہدیبی نے اپنا صدر مقام قاہرہ سے دمشق تبدیل کر لیا۔ اس جماعت نے عرب قوم پرستی کے خلاف شدید آواز اٹھائی اور اسلامی اخوت کا نعربلند کیا۔ جس کی پاداش میں جماعت کے بہت سے اراکین کو جیلوں میں بند کر دیا گیا اور سید قطب شہید جیسے لوگوں کو پھانسی دے دی گئی۔ پابندی کے بعد بھی یہ جماعت باقی رہی اور پورے عرب علاقوں میں پھیل گئی۔
مصر میں پہلی بار آزادانہ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے بعدبھی جمہوریت کی راہ آسان نہیں ہے کیوں کہ اقتدارکامزہ چکھ چکی فوجی حکام کو یہ قطعی گوارہ نہیں کہ اقتدارکی نعمت ان سے چھن جائی۔ یہی وجہ ہے کہ مصری فوجی کونسل نے حسنی مبارک کے اقتدار سے دستبردار ہونے کے باوجود انتخابات میں تاخیر کرتی رہی۔ بہت لیت و لعل کے بعد گزشتہ سال نومبر میں فوجی کونسل نے مصری پارلیمنٹ کا انتخاب کرایا تھا۔ جسے اب آئینی عدالت کے توسط سے کالعدم قرار دے دیا گیا ہی۔ حالانکہ نومنتخب صدر نے پارلیمنٹ کو بحال کردیا تھا لیکن پھر آئینی عدالت نے صدارتی حکم کو منسوخ کردیا۔ اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے نئے صدر محمد مرسی کے حکم کے بعد اسپیکر سعید الکتاتنی نے پارلیمان کا اجلاس طلب کرلیا جو پانچ منٹ کی کارروائی چلانے کے بعد کوئی ایجنڈہ نہ ہونے کے سبب ملتوی کردیا گیا۔فوجی کونسل اس پر چراغ پا ہوگئی اور فوراً ہی فوجیوں اور عدلیہ کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ ملک کی طاقتور فوجی کونسل کا کہنا تھا کہ ہر صورت میں ملک کے آئین کا دفاع اور احترام کیا جانا چاہیی۔ اس بیان کو صدر مرسی کے لیے فوج کی جانب سے تنبیہ اور ایک چیلینج کے طور پر دیکھا جا رہا ہی۔نومنتخب صدر محمدمرسی کی پارلیمنٹ کی بحالی کے پیچھے دلیل تھی کہ جب تک نئے الیکشن نہیں ہوجاتے اس وقت تک پارلیمنٹ کو کام کرنے دیا جائے لیکن فوجی کونسل کسی طرح ایسا کرنے کو تیار نہیں ہی۔ ایسا کیوں نہیں کر رہی ہے اس کے اقتدار کا محوری کردار ہی۔ فوجی کونسل نے پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کے بعد پارلیمنٹ کے ذریعہ قائم مجلس آئین کو بھی تحلیل کردیا اور اپنی نگرانی میں ایک آئینی کونسل قائم کی ہے جو ملک کانیا آئین بنائے گا۔ فوجی کونسل نے سپریم کمانڈر جو اب تک صدر ہوا کرتے تھے نئے صدر سے چھین لیا ہی۔ وہ اپنے ذریعہ تشکیل کردہ آئینی پینل ایسے آئین بنوانا چاہتا  ہے جس سے فوج کو اقتدار میں مرکزی حیثیت حاصل رہی۔ ساٹھ سالہ فوجی دور اقتدار میں مصری کے تمام محکموں پر فوج کا قبضہ ہی۔ بیشتر اداروں، کمیشنوں اور اتھارٹیوں کے چیرمین یا سربراہ فوجی جنرل یا افسران ہیں۔ ایسی صورت میں اگر اخوان المسلمین کے نومنتخب صدر اور پارلیمنٹ کو مکمل اختیارات دے دئے گئے تو ان عیش پرست فوجیوں کا کیا ہوگا جو ریٹائر ہونے کے بعد بھی مصری عوام کے گاڑھی کمائی پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں۔ 
" نومنتخب صدر محمد مرسی نے حلف لینے کے بعد اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کیا اور انہوں نے جاری صدارتی حکمنامے میںفوجی قیادت کے اس فیصلے کو بھی تبدیل کر دیا تھا اور کہا تھا کہ بحال شدہ پارلیمان ہی ملک کا نیا آئین بنائے گی۔ اس کے علاوہ اس حکم نامے میں کہا گیا تھاکہ ریفرنڈم کے ذریعے آئین کی منظوری کے ساٹھ دن بعد ملک میں نئے انتخابات ہوں گی۔مصر ی نو منتخب صدر نے قاہرہ کے تحریر سکوائر میں ہزاروں کے مجمع کے سامنے غیر رسمی طور پر اپنے منصب کا حلف اٹھایاتھاجس سے فوجی کونسل کو یہ باور کرانا تھا کہ وہ عوام کو ہی اصل طاقت تسلیم کرتے ہیں۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی نہیں اوراب مصر میں اقتدار اور حاکمیت کا منبع عوام ہیں۔ تحریر سکوائر میں جو سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف برپا ہونے والے انقلاب میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا محمد مرسی نے عوام کو یقین دلایا کہ وہ صدر کے کسی بھی اختیار سے دستبردار نہیں ہوں گے اور مصر ی کے عوام سے وعدہ کیا کہ فوج کی طرف سے حراست میں لیے گئے تمام شہریوں کو رہا کیا جائے گا اور ان تمام لوگوں کے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے گا جو حسنی مبارک کے خلاف احتجاج میں ہلاک ہو گئے تھی۔ اسی کے ساتھ اس بات کا عندیا دیا کہ وہ شدت پسند عمر عبدالرحمان کی رہائی کے لیے بھی کوشش کریں گے جو نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر ۳۹۹۱ میں حملے کرنے کے الزام میں امریکہ میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ محمد مرسی نے کہا کہ انقلاب جاری رہنا چاہیی، جب تک سارے مقاصد پورے نہیں ہو جاتی۔اس کے علاوہ نو منتخب صدر محمد مرسی نے ٹیلی ویڑن پر عوام سے خطاب کرتے ہوئے انتخاب میں فتح کو قوم کے لیے ایک ’تاریخی دن‘ قرار دیا تھا۔ محمد مرسی نے کہا کہ’ انقلاب کے تمام مقاصد حاصل کرنے تک انقلاب جاری رہے اور اس سفر کو ہم مل کر مکمل کریں گی۔
پیشے سے انجینئراور قاہرہ یونیورسٹی اور کیلی فورنیا کی یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نومنتخب صدر نے فوجی کونسل کو یہ واضح پیغام دے دیا ہے کہ جب تک مصری عوام کو مکمل اقتدار منتقل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ان کی تحریک جاری رہے گی۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی آئینی عدالت کے صدارتی حکم کے منسوخی کے بعد مصری عوام جم غفیر تحریر اسکوائر پر جمع ہوگیا اور انہوں نے آئینی عدالت کے اس فیصلے کے خلاف جم کر ناراضگی ظاہر کی۔ مصری صدر اور فوجی کونسل کے روےیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ فوجی کونسل اختیارات آسانی سے صدر کو منتقل نہیں کرے گی۔ اس کے علاوہ فوجی کونسل نے اقتدار سونپنے سے قبل صدر کے اختیارات میں کٹوتی کردی تھی۔جس پر صدر نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اختیارات میں کسی کٹوتی سے سمجھوتہ نہیں کریں گی۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ فوج کا اب تک محاسبہ نہیں کیا جاسکا ہی۔ اس کے اکائونٹ کو رازمیں رکھا جاتاہی۔ فوج کے پاس کتنا پیسہ ہے یہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا۔ نہ ہی فوجی پروجیکٹ کے بارے میں کوئی اعتراض کرسکتا ہی۔ تمام معلومات کو صیغہ راز میں رکھا جاتا ہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق مصری فوج کا کاروبار وسیع ہے جس میں روزمرہ استعمال کی اشیاء ، اشیائے خوردو نوش، پینے کا پانی، تعمیراتی کام، کان کنی، زمین کی بحالی اور سیاحت وغیرہ تک اس کے کاروبار ہیں۔فوج کے ان اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح فوج ریاست میں ایک ریاست کے طور پر کام کرتی ہی۔ فوج کے کاروبار کے حجم کا صحیح اندازہ نہیں ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ مجموعی قومی پیداوار کا آٹھ سے چالیس فیصد ہے لیکن حالات بدل گئے ہیں اور فوج کو یہی خوف کھائے جارہا ہے کہ اگر مکمل اختیارات دے دئے گئے تو نہ صرف انہیں بیرکوں میں واپس جانا ہوگا بلکہ پیسوں کا حساب و کتاب بھی دینا ہوگااور ۰۶ سالہ بدعنوانی کی پرت در پرت کھلنے لگے گی۔
مصرکے نومنتخب صدر کے لئے چند ماہ یا سال نہایت مشکلات بھرے ہوسکتے ہیں۔ جہاں ان پر عوامی توقعات کا دبائو ہوگا وہیں داخلی امور سے نمٹنے کے ساتھ خارجی امور پر بھی توجہ دینی ہوگی۔خارجہ پالیسی بہت سوچ سمجھ کر ترتیب دینی ہوگی ۔ جلد بازی سے گریز کرنے کے ساتھ فلسطینی امور پر بھی توجہ دینی ہوگی جنہیں نو منتخب صدر سے ڈھیر ساری امیدیں وابستہ ہیں۔ مصر کے نئے سیاسی نظام کی شکل اس سال کے آخر تک واضح ہو سکتی ہی۔ اخوان المسلمون نہایت محتاط جماعت ہے اور اس کو معلوم ہے کہ مصر کے اندرونی مسائل کیا ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم ہے کہ مصر کی ترجیحات کیا ہیں۔ اس کے علاوہ اخوان المسلمین کو تمام پارٹیوں کا خیال بھی رکھنا ہوگا خصوصاً ان مذہبی جماعتوں کا جو مصر کو راتوں کا رات بدلنے کا خواب سجائے ہوئے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ فوج کے ساتھ تعلقات استوار کرنے ہوں گے کیوں کہ ان کی جڑیں اقتدر میں پیوست ہیں۔ اس آہنی گرفت کو دھیرے دھیرے ڈھیلی کرنی ہوگی۔اس کے علاوہ فوجیوں کو مسلمان ہونے پر فخر کے بجائے فرعونی ہونے پر زیادہ فخر ہے انہیں اسلام سے خوف ہوتا ہی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو فرعونی تہذیب کے دلدادہ ہیں مسلم مخالف ہونے کے پس پشت یہی نظریہ کارفرما رہا ہی۔ 
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.co

Comments