بہار میں جمہوریت کا چوتھا ستون مفلوج کیوں؟
تیشہ فکر عابد انور
سچ بات کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ بہت زیادہ کڑوی ہوتی ہے جوشاندہ سے بھی زیادہ تلخ جو انسان کو اوپر سے لیکر نیچے ہلادیتی ہے ۔ انسان کبھی اس کی تاثیر کو ہضم نہیں کرپاتا۔فاسشٹ کی شناخت یہی ہوتی ہے کہ وہ کبھی بھی سچ کو قبول نہیں کرتا بلکہ ہر طرح سے اسے کچلنی، دبانی، صدق کی بنیاد پر اگنے والے والے پودے کو مسلنے اور سچ کو نیست و نابود کرنے پراپنا سارا زور لگادیتا ہے اور ہر اس آئینے کو توڑ دیتا ہے جس میں اسے اپنا کریہہ چہرہ دکھائی دیتا ہی۔ اپنی ساری طاقت آئینہ کو برا بھلا کہنے میں گزارتا ہی۔ فاشزم کی پوری تاریخ ان واقعات سے عبارت ہی۔ یہ چیزیں وہاں ہوتی تھیں جہاں پر جمہوریت نہیںہوتی تھی لیکن جمہوری ملک اور ریاست میں ایسا ہو خصوصاً ایک جمہوریت کے اہم ستون کو عضو معطل بنادیا جائے تووہاں جمہوریت نہیں کہی جاسکتی۔ ہندوستان میں یوں تو میڈیا سنگھ پریوار کا بے وقعت غلام ہمیشہ سے ہی رہا ہے مگر میڈیا کا کچھ طبقہ ایسا ہوتا تھا جو کبھی غلامی قبول نہیں کرتا تھاوہ بلکہ آئینہ دکھانے سے کبھی گریز نہیں کرتا تھا خواہ انہیں اس کی قیمت کیوں نہ چکانی پڑی۔ اس طبقہ نے قیمت چکائی بھی۔ قومی جمہوری اتحاد (این ڈی ای) کے دور حکومت 2004-1998)) کے دوران حق گو صحافیوں کے خلاف کی گئی کارروائی کا اس کا واضح ثبوت ہی۔ این ڈی اے حکومت نے صحافیوں کو کس طرح پریشان کیا تھا۔ سچ بات لکھنے والوںکو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا تھا۔ اپنے خلاف بولنے والی ہر زبان پر قفل لگادیتے ہیں خواہ وہ تالا پیسے کا ہو، عہدے کا یا دھمکی کا۔ ہر حال اسے اپنا ہمنوا بناکر ہی د م لیتے ہیں۔
بہار میں جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں ہی، افسران کا دبدبہ اس قدر ہے کہ جب چاہتے ہیں جس کی چیز چاہتے ہیں سرعام عزت تار تار کردیتے ہیںخواہ میں منتخب نمائندہ ہو یا عام آدمی۔ عام آدمی سے لیکر منتخب نمائندوں تک کو عوامی مقامات پر افسر شاہی نے ذلیل کیا لیکن حکومت پر جوں تک نہیں رینگی۔کیوں کہ اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں ہی۔ بہار کا میڈیا حکومت کے مظالم، زیادتی یا اس کے خلاف کچھ نہیں لکھ سکتا۔ میڈیا کو نتیش کمار حکومت مکمل طور پر دولت، عہدہ اور دھمکی کے سہارے اپنے سحر میں قید رکھا ہے ۔ بہار کا میڈیا وہی دکھاتا ہے جو حکومت دیکھنا چاہتی ہے یا دکھانے کو کہی ہی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑا واقعہ شہ شرخیوں میں جگہ نہیں پاتا۔ مثال طور پر فاربس گنج پولیس فائرنگ کا واقعہ جس کو بہار کے میڈیا مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ اس کا کچا چٹھا ٹو سرکل ڈاٹ نیٹ اور آئی آئی ایم سی ٹیچر اور مصنف دلیپ منڈل نے عوام کے سامنے پیش کردیا تھا۔اس کے باوجود بہار میں میڈیا کی آنکھ نہیں کھلی۔ میڈیا کا وجود ہی حق و انصاف کی لڑائی سے عبارت ہے لیکن بہار کا میڈیا اس میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے اوربہار حکومت کا محض ایک چابی والا کھلونا بن کر رہ گیا۔یہی آئینہ جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے حکومت بہار کو دکھایا ہے جس پر بہار کا میڈیا کا ایک طبقہ اور حکومت کے وزرائے سے لیکر اعلی افسران تک جسٹس کاٹجوکے پیچھے پڑگئے ہیں۔ گزشتہ دنوں پریس کونسل آف انڈیا کے صدر جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے پٹنہ کے ایک سیمنار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بہار میںبرسر اقتدار پارٹی کی طرف سے پریس کی آزادی کے خلاف رویہ اپنانے کی شکایات مل رہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایسی شکایات کی جانچ کرائی جائے گی اور معاملہ صحیح پایا گیا تو آئین کے خلاف کام کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ جسٹس کاٹجو نے مزید کہا تھا '' بہار کے بارے میں کچھ کہنا چاہوں گا میں نے سنا ہے کہ لالو راج کے مقابلے میں اس حکومت نے قانون کے نظام کو بہتر بنایا ہی۔پر دوسری بات میں نے یہ بھی سنی ہے کہ لالو کے حکومت میں فریڈم آف پریس ہوتی تھی، لیکن اب یہاں فریڈم آف پریس نہیں ہی۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئے جسٹس کاٹجو نے کہا کہ '' سنا ہے کہ بالواسطہ طور پر یہ ہو رہا ہے کہ اگر کسی صحافی نے حکومت کے وزیر یا افسر کے خلاف کچھ لکھ بول دیا تو پھر آپ کی نوکری گئی یا اخبار مالک آپ پٹنہ سے باہر کہیں تبادلہ کر دے گا۔ ' ' اس کے علاوہ گیا میں جسٹس کاٹجو نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بہار میں پریس آزاد نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا، "صحافیوں کا آزادی کے ساتھ خبر لکھنا آئینی حق ہے لیکن بہار میں صحافیوں کو آزادانہ طور سے خبریں لکھنے پر حکومت انہیں پریشان کرتی ہی۔
اس بیان سے نتیش کمار حکومت ہی نہیں بلکہ ان کے چمچوں اور دلالوں کے چودہ طبق روشن ہوگئی۔ پٹنہ کالج کے پرنسپل ڈاکٹر لالکیشیور پرساد نے حکومت کے چمچہ ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہوئے جسٹس کاٹجو پر چیخنے اور چکلانے لگے اور کہا کہ یہ سراسر غلط ہے لیکن اس پر ہنگامہ بہت زیادہ ہوگیا اور وہیلر سینیٹ ہال میں موجود معزز افراد نے نے ڈاکٹرلال کیشور پرساد کو حکومت کا دلال قرار دیتے ہوئے جسٹس کاٹجو کے بیان کی حمایت کی اور کہا کہ آپ نے جو کہا ہی، وہ بالکل صحیح ہے کہ بہار میں پریس کی آزادی خطرے میں ہے اور جسٹس کاٹجو سے درخواست کی کہ وہ اپنا بیان جاری رکھیں۔ پرنسپل صاحب کی چیخنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کی اہلیہ اوشا سہنا حکمراں پارٹی کی ممبر اسمبلی ہیں اور دونوں ہی نہ صرف نتیش کمار کے نہ صرف ہم ذات ہیں بلکہ ہم علاقہ بھی ہیں۔ جسٹس کاٹجو اپنی حق گوئی اور بے باکی ثبوت پیش کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ آپ شور مچا کر مجھے خوفزدہ نہیں کرسکتی۔ غلط آدمی سے آپ نے پنگا لے لیا اور اس سے تویہ آپ ثابت کر رہے ہیں کہ میں جو کہہ رہا ہوں، بالکل صحیح ہی۔کئی طریقے ہو سکتے ہیں دباؤ کے جیسے سرکاری اشتہارات بند کر دو اور اخبار کے مالک پر دباؤ ڈالو کہ حکومت کے خلاف لکھنے والے صحافی کو نکال دیا جائی۔ ایک رپورٹ کے مطابق حکومت کے خلاف خبر لکھنے کی سزا ملتی ہی۔ اخبار کا ایڈیٹر مہرہ بن کر اپنے صحافی کو نوکری سے نکال دیتا ہی۔ ابھی حال ہی میں ایک مقبول نیوز چینل کے بیورو چیف سمیت دو سینئر صحافیوں کو صرف اس لئے نوکری سے نکال دیا گیا کہ وہ سچ کا مظاہرہ کرتے تھی۔ صحافی کی اپنی زندگی بھی ہوتی ہی۔ بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔ ان کے اوپر بھی ذمہ داری ہوتی ہی۔ بیچارے کرے تو بھی کیا کریں۔عوام کا بھی کوئی قصور نہیں۔ ابھی حال ہی میں بہار کی عوام نے یہ سچ اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فاربسگج کے بھجن پور گاؤں کے ایک شخص کی لاش پر ایک پولیس اہلکار کود رہا تھا۔ معلومات کے مطابق جس صحافی بھائی نے یہ ویڈیو کلپ جاری کیا، اس کے اپنے اخبار والے نے اس تصویر کو اپنے یہاں نہیںشائع نہیں۔ اطلاعات یہاں تک ہیں جس صحافی نے یہ کلپ لیا تھا اتنا ڈرا ہوا تھا کہ انہوںنے اپنے غیر مسلم صحافی کے نام سے یہ کلپ جاری کی تاکہ ان کی جان بچی رہی۔ بعد میں کلپ جاری کرنے والے صحافی کو کافی لعن و طعن کیاگیا۔
x اسی طرح کے ایک واقعہ میں دینک جاگرن کے سینئر صحافی سبھاش پانڈے نے محکمہ آبکاری پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھی تھی جس میں کہاگیا تھا کہ وزارت آبکاری مکمل طور پر شراب مافیا کے چنگل میں ہی۔ ا س خبر کی وجہ نتیش کمار حکومت اس قدر چراغ پا ہوئی اور دبائو ڈالواکر شبھاس پانڈے کا تبادلہ لکھنو کردیا گیا تھا۔ لالو پرساد کے دور کے مقابلے میں جرائم میں بہت زیادہ کمی نہیں ہوئی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب جرائم کی خبریں اخبارات میں جگہ نہیں پاتیں۔ حکومت کی طرف سے اخبارات کو سخت ہدایت ہے کہ اغوا، بینک ڈکیٹی، لوٹ اور دیگر جرائم کی خبریں اخبارات شائع نہ ہوں اگر کوئی بہت بڑا واقعہ ہوا ہے اور شائع کرنا ضروری ہے کہ تو چھوٹی سی جگہ میں اندر کے صفحے پر شائع کیا جائی۔ اسکول کے فرضی داخلہ کا معاملہ سامنے آیا ہے جس میں فرضی داخلہ دکھاکر اس کے نام پر وظیفہ، لباس اور سائیکل مافیائوں نے ہڑپ لی لیکن اخبارات میں کہیں اس کا ذکر نہیں آیا۔ بیاڈا گھپلہ جو بہار کا سب سے بڑا گھپلہ ہے اس پر آج کسی اخبار نے کچھ نہیں لکھا۔ بیاڈا گھپلہ میں افسران نے قاعدہ قانون کو طاق پر رکھ کر وزراء اور اپنے رشتے داروں کو جس زمین کی بندر بانٹ کی اس پر بھی کسی اخبار نے کچھ نہیں لکھا۔ اس کے علاوہ کوسی کے سیلاب کا واقعہ ہے جس متاثرین آج بھی پریشان حال ہیں مگر حکومت کو جگانے کے لئے کوئی اخبار سامنے نہیں آیا۔ سب سے بڑا واقعہ فاربس گنج کا ہے جس پر اخبارات نے مکمل خاموشی اختیار رکھی ہی۔کچھ ماہ قبل ایس ٹی ای ٹی (اہلیتی ٹسٹ) ہوا جس کاپرچہ پہلے آئوٹ ہوگیا تھا اور اس پر پورے بہار میں طلبہ نے ہنگامہ کیا تھا لیکن پھر بھی یہ واقعہ خبر کا مقام حاصل نہیں کرسکا تھا۔ اس کے علاوہ بہار میں مسلمانوں کے ہونے والے مظالم کی خبریں بہار کا میڈیا شائع کرنے سے کترا تا ہی۔ اردو میڈیا جو مسلمانوں کی آواز ہوا کرتا تھا اب مکمل طور پر نتیش کمار حکومت کا غلام بن چکاہی۔
جسٹس کاٹجو بروقت پہل کرکے اس سمت میں پیش رفت کی ہے اور بہار کے میڈیا کی صورت حال جاننے اوربہار حکومت کی طرف سے میڈیا پر غیر اعلانیہ طور پر سینسر شپ لگائے جانے کے معاملے کی تفتیش کے لئے ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دی ہی۔ راجیو رنجن ناگ کی صدارت میں ٹیم پریس کی آزادی کے خلاف ورزی کی شکایات کے تمام پہلوؤں کی جانچ کرے گی ۔ٹیم کو اس مسئلے کی گہرائی سے جانچ کرنے اور جلد سے جلد رپورٹ سونپنے کے لئے کہا گیا ہی۔ٹیم سے کہا گیا ہے کہ ریاستی حکومت کے ساتھ ہی تمام لوگوں اور تنظیموں کے خیال پر غور کرنا چاہئی۔ اس سلسلے میں ریاستی حکومت سے ٹیم کو مکمل تعاون کرنے کے لئے درخواست کی گئی ہی۔ اس جانچ ٹیم میں دارالحکومت پٹنہ کے سینئر صحافی پریس کونسل آف انڈیا کے معاون رکن ارون کمار اور مشہور صحافی کلیان بروا شامل ہیں۔ٹیم کے سربراہ راجیو رنجن ناگ کے مطابق ہولی کے بعد ٹیم اس سلسلے میں اپنا کام شروع کرے گی اور حقائق کا پتہ لگاکر صدر پریس کونسل کو اپنی رپورٹ سونپے گی۔یہ قدم یقینا خوش آئندہ ہی۔
جسٹس کاٹجو کے بیان میں اس وقت بہار میں سیاسی ماحول گرم ہے اور اسمبلی زبردست ہنگامہ ہوا ۔ اپوزیشن پارٹیوں نے کہا کہ اب حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے نتیش کمار حکومت صرف میڈیا کے سہارے بہتر حکومت فراہم کرنے کا دعوی کر رہی ہی۔ صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے لالو پرساد نے کہا کہ پریس کونسل کے صدر کے بیان سے اب اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ ریاست میں ترقی کے نام پر صرف اخبار کے مالکان کی جیب گرم کی جا رہی ہے اور مرضی کے مطابق خبریں چھپواکر غریب عوام کے پیسوں کی لوٹایا جا رہا ہی۔نتیش کمار نے اس پر ابھی کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے چمچوں سے الٹے سیدھے بیانات ضرور دلوا رہے ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل کے ریاستی صدر ڈاکٹر رام چندر پوروے اور راشٹریہ جنتا دل کے جنرل سیکریٹری اور راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ شری رام کرپال یادو نے جسٹس کاٹجو کی طرف سے پریس کی آزادی پر سرکاری قابو کی تحقیقات کے لئے تین رکنی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ پریس پر سرکاری روک کا سچ عوام کے سامنے آنے پر این ڈی اے کے لیڈر بوکھلا گئے ہیں۔ وزیر اعلی خاموش ہیں اور نائب وزیر اعلی جسٹس کاٹجو کے خلاف غیر مہذب بیان دے رہے ہیں۔ لوک جن شکتی پارٹی کے صدر رام ولاس پاسوان نے اس سوال پر پارٹی کا وفد لے کر صدر سے ملنے کی بات کہی اور کہا کہ نائب وزیر اعلی سشیل کمار مودی نے جس طرح کاٹجو کو کھل کر سیاست میں آنے کا بیان دیا ہے وہ ہندوستانی پریس کونسل جیسی اہم ادارے کے ساتھ مذاق ہی۔ اس طرح کی چیز بہار کی سیاست میں کبھی نہیں ہوئی اور یہ شرم کی بات ہی۔بہار میں اپوزیشن نے بھی اس کے خلاف آواز اٹھانے میں بہت ہی کنجوسی سے کام لیا ہے ۔ اپوزیشن بالکل عضو معطل کی طرح ہے اس لئے حکمراں طبقہ کاحوصلہ ظلم وجبر میں اوج ثریا طے کر رہا ہی۔
صحافت جمہوریت کے چوتھے ستون ہیں اس کی حفاظت ہر حال میں کی جانی چاہئی۔ ہندوستان کے بیشتر صحافی بہار میں حالت میڈیا کی حالت زار میں ماتم کناں ہیں۔ جمہوریت اور آزادی کے اس دور میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ پریس کی آزادی کا اس قدر گلا گھونٹ دیا جائی۔ صحافی سریندر کشور نے کہا کہ جسٹس کاٹجو کا بیان متنازعہ ہے جب کہ بی بی سی کے سینئر صحافی منی کانت ٹھاکر کہتے ہیںکاٹجو کے بیان میں غلط کیا ہی؟ بہار کے عام سے لے کر خاص یعنی ہر طرح کے لوگ یہ جانتے ہیں کہ حکومت یہاں پریس کا کس طرح استعمال کر رہی ہی۔آج تمام لوگ جانتے ہیں کہ یہاں کے پریس اقتدار پارٹی کی شان رطب اللسان ہی۔ بہار میڈیا حکومت کا کس قدر غلام ہوچکی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ نتیش کمار کے آبائی ضلع نالندہ میں ان کے سیوایاتر کے دوران ان کے قافلے پر پتھرائو ہوا لیکن اخبارات میں جو خبر چھپی وہ یہ تھی کہ شاندار استقبال کیا گیا۔ اسی طرح گزشتہ دنوں پٹنہ اور بہار کے دیگر اضلاع میں حکومت کے خلاف طلباء نے زبردست ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کیاگیا لیکن بہار کے میڈیا نے اس واقعہ کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا تھا۔ اس کے علاوہ بٹراہا میں چار مسلمانوں کو ایس ایس بی کے جوانوںنے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ ان مسلمانوں کا قصور یہ تھا کہ ایس ایس بی کے جوانوں کے ذریعہ آبروریزی کے بڑھتے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہے تھی۔ یہ واقعہ بھی میڈیا میں کوئی خاص جگہ نہیں بناسکا اس لئے آج تک ایس ایس بی کے جوانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہی۔ فاربس پولیس فائرنگ کی ہلاک ہونے والا مصطفے انصاری کی لاش پر کودنے والے ہوم گارڈ کا جوان سنیل یادو کو کچھ مہینے کے بعد ہی ضمانت مل گئی اس پر بھی میڈیا مکمل خاموش رہا۔ سیتامڑھی، مظفرپور، حاجی پور اور دیگر اضلاع میں مسلمانوں کے خلاف زیادتی کے کئی واقعات سامنے آئے لیکن بہار کا میڈیا یہاں تک کے اردو میڈیا بھی اس کے زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر رہا۔ اگر بڑے بڑے دبنگ مجرم آج سلاخوں کے پیچھے ہیں اس میں دہلی کے میڈیا کا اہم رول ہی۔ اگر پورے ہندوستان میں میڈیا ظلم کے خلاف کمربستہ ہوجائے تو کوئی وجہ نہیں کہ انصاف کا بول بالا نہ ہو۔
ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ صحافیوں کی زندگی ہر وقت خطرے میں ہوتی ہے ۔ جرائم پیشہ اور بدعنوان افرادکو حکومت میں موجود اعلی سیاست داں، اعلی افسران اور پولیس اہلکار کی سرپرستی حاصل ہوتی ہی۔ان کے خلاف کوئی بھی رپورٹ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی زندگی کو اجیرن بنا سکتی ہے کیوں کہ بہار حکومت میڈیا کوآزادی دینے میں نہیں بلکہ کچلنے میں یقین رکھتی ہی۔ اس کے علاوہ ایک پہلو اور بھی جس سے بہار کا میڈیا بری طرح متاثر ہی۔ وہ یہ ہے کہ نجی اشتہارات اخبارات کو خاص طور پر اردو کے اخبارات کو نہیں ملتے ۔اردو اخبارات تو صرف سرکاری اشتہارات پر زندہ ہیں۔ اس لئے بھی یہ اخبارات حکومت کی منہ بھرائی اور تعریف و توصیف میں ہمہ وقت مصروف نظر آتے ہیں۔ پرائیویٹ اداروں اور دوسری سیاسی پارٹیوں کا فرض ہے کہ وہ توازن کو برقرار رکھنے میں اخبارات کی مدد کریں۔ وہیں پرائیویٹ کمپنیوں کا فرض ہے کہ میڈیا کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لئے ان اخبارات کو خود کفیل ہونے میں اشتہارات دے کر تعاون کریں۔
ڈی۔ 64 فلیٹ نمبر 10، ابوالفضل انکلیو ،جامعہ نگر،اوکھلا،نئی دہلی۔ 25
abidanwaruni@gmail.co
Comments
Post a Comment