Ittehad wa kamyabi me poshida he kamyabi ka raz by abid anwar


اتحادوقیادت میں پوشیدہ ہے کامیابی کا راز
تیشہ فکر عابد انور
مذہب اسلام نے معاملات کے میدان میں دو چیزوں پر سب سے زیادہ زور دیا ہی۔ ایک اتحاد اور دوسری قیادت، یہاں تک کہ اگر کچھ لوگ سفر کر رہے ہیں تو آپس میں ایک کو امیر (قائد) منتخب کرلیں۔ دوسری چیز اتحاد ہے جس کی قرآن و حدیث میں جگہ بجگہ اہمیت اجاگر کی گئی ہے اور تفرقہ پھیلانے سے سخت منع کیا گیا ہی۔ ہمارے اکابرین نے اتحاد پر بہت زوردیا کرتے تھے اور اتحاد کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے کبھی وہ گریز نہیں کرتے تھی۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی ناکامی، پسماندگی، بے وقعتی اور نظر انداز کئے جانے کی وجہ بھی یہی دوچیزیں ہیں کیوں کہ مسلمانوں میں جہاں قیادت کا فقدان ہے وہیں اتحاد گولر کے پھول کی طرح ہی۔ایک چوتھائی آبادی ہونے کے باوجود وہ حاشیہ پر کھڑے ہیں۔ نہ ان کی آواز ایوان تک پہنچ رہی ہے اور نہ ہی کسی پلیٹ فارم سے مسلمانوںکے لئے آواز اٹھ رہی ہی۔وہ یہاں عدم کے درجے میں ہیں، کسی میٹنگ میں ان کے بارے میں بحث نہیں کی جاتی۔ مسلمان ہر سطح پر پسماندہ ہیں ، یہ بات جگ ظاہر ہی۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ بھی اس پر مہر تصدیق ثبت کرچکی ہی۔لیکن حیران کن امر یہ ہے کہ اس تلخ حقیقت کے بعدبھی مسلمانوںکی صورت حال ہنوز ناگفتہ بہ ہے بلکہ مسلمان ہر آن قعر مذلت کے شکار ہوتے جارہے ہیں۔دراصل سچرکمیٹی کی رپورٹ میں سفارشات تو کی گئی ہیں لیکن ان کو تشفی بخش طورپر زیر عمل نہیںلایاگیا۔ دوسری طرف خود مسلمان اپنے حال واستقبال کے تئیں لاپرواہی اور غفلت کے آغوش میں مدہوش پڑے ہوئے ہیں۔اگرچہ کسی بھی طبقہ کوپسماندگی سے نکالنے کی ذمہ داری سرکاروںپرعائد ہوتی ہے لیکن زبوں حال طبقہ کا اپنی فلاح وبہبود کے لئے خود متحرک ہونابھی ناگزیر ہے ۔بقول شاعر:
خدانے کبھی اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہوجس کو فکر خود اپنی حالت کے بدلنے کا
مسلمانوں نے جب جب اتحاد و اتفاق اور قیادتو سیادت کا ثبوت پیش کیا ہے تب تب انہیں کامیابی ملی ہی۔یاد کیجئے شاہ بانو کیس کا معاملہ جس مسلمانوں نے اتحاد کا مظاہرہ کیا تو راجیوگاندھی حکومت کو سرخم تسلیم کرنا پڑی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو پارلیمنٹ میں آئین میں ترمیم کرکے بدلا گیا تھا لیکن جیسے انہوں نے اتحاد کا دامن چھوڑا یکے بعد دیگر ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹتا گیا۔ یہاں تک کہ اس وقت مسلمانوں نہ صرف مجبور و بے بس قوم ہے بلکہ اس حالت میں نہیں ہے کہ وہ کسی افسر کا تبادلہ تک کراسکی۔ دہشت گردی جیسا بدنما داغ بلاوجہ ان کے سر مڑھ دیا گیا ہے ایوان میں ان کی نمائندگی دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہی۔ المیہ یہ ہے کہ یہاں دونوں اپنے فرائض کی انجام دہی سے غافل ہیں۔یعنی یہاں مدعی سست، گواہ چست والی بات بھی نہیں ہی۔ حکومتوں کا حال تو یہ ہے کہ وہ مسلمانوںکے مسائل اوران کی حالت زار کے بارے میں قطعا فکر کرنا گوارانہیں کرتیں۔ حالانکہ اگر سرکاریں چاہتیں تو مسلمانوںکی حالت اتنی ابتر نہ ہوتی کہ وہ دلتوںسے بھی زیادہ پچھڑجاتی۔مسلمانوں کو آگے لانے کے لئے اُسی طرح کی سرکاری کوششیں درکارتھیں جس طرح ہزاروں سال سے پچھڑے ہوئے دلتوںکو ترقی کی راہ پر لانے کے لئے کی گئیں۔ دلتوںکو ریزرویشن دیا گیا اور ان پر خاص نظر عنایت کی گئی جس کے نتیجہ میں محض نصف صدی میں ان کے حالات یکسر تبدیل ہوگئے ، وہ تیزی کے ساتھ چھوٹی ملازمتوںسے لے کر اعلی ملازمتوں تک کا سفر طے کررہے ہیں اور باوقارروزگاروتجارت کی طرف بھی ان کی پیش رفت جاری ہی، لیکن مسلمانوں کے ساتھ سرکاروںنے اس فراخدلی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ وقتافوقتا منظرعام پر آنے والی رپورٹیں ان کی پسماندگی کا رونا روتی رہیںمگر مرکزی اور صوبائی سرکاروںکے کان پر جوںتک نہ رینگی، مسلمانوں کی طرف سے ریزرویشن کا مسلسل مطالبہ ہوتا رہا لیکن اس سے مسلسل صرف نظرکیاجاتارہا۔ اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ مسلم طبقہ خودبھی جمود کا شکار رہا ۔آج مختلف اقوام آگے بڑھنے کے لئے ہر سطح پر منصوبہ بندی کے ساتھ تگ ودوکرتی نظر آرہی ہیںلیکن مسلمان ہنوز تعطل ولاپرواہی کا ثبوت دے رہے ہیں۔تعلیم، معاش، صحت، سیاست ،آخر کونسا ایسا شعبہ ہے جس میںملک کے مسلمان بیدارنظرآرہے ہیں۔سردست ان کو ہرشعبے میں آگے بڑھنے کے لئے سخت محنت وتوجہ کی ضرورت ہے ۔انہیں اس کے لئے اپنے ہم وطنوں کئی گنا زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اس کے بعد کوئی طاقت کامیابی سے انہیں نہیں روک پائے گی۔
سیاسی قوت بہت سے مسائل کے حل کے لئے ناگزیر ہے لیکن مسلمان اس طاقت سے تقریبا محروم ہیں۔اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی ان کی آبادی کے تناسب سے تشویشناک حد تک کم ہی، اسی طرح ریاستی اسمبلیوں میں بھی ان کی سیٹیں ان کی آبادی کے لحاظ سے خاصی کم ہیں۔نتیجہ یہ کہ سرکاروںکی جانب سے ان کو بہت سے مواقع پر نظرانداز کردیاجاتاہے اور ان کے تقاضوںو مطالبوں پر توجہ نہیں دی جاتی۔اگر صوبائی اور پارلیمانی انتخابات میں وہ حکمت عملی اور بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے کنگ میکر کا رول ادا کرنے کے قابل ہوجائیں تو نہ صوبائی حکومتیں ان کو نظرانداز کرسکیں گی اور نہ ہی مرکزی حکومتیں۔مسلمانوںکے پاس قریب 20فیصد ووٹ ہی۔اگر وہ حکمت عملی سے کام لیںتو نہ صرف یہ کہ ان کا ووٹ کسی بھی پارٹی کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں مؤثر ومعاون ثابت ہوسکتا ہے بلکہ حکومت کے بنانے اور بگاڑنے میں بھی اہم رول ہوسکتا ہی۔ابھی صورت حال یہ ہے کہ یہ ووٹ تقسیم ہوکر بے حیثیت ہوجاتاہے اورپالیمانی سیاست میں اپنا کوئی مقام نہیں بناپاتا۔
سیاسی قوت اور اپنے مطالبات کو منوانے کے لئے بنیادی طورپرفی الوقت دوچیزوں کی ضرورت ہی۔اول یہ کہ مسلمان ہر سطح پر متحدہوں۔دوسرے یہ کہ مخلص ومضبوط قیادت کو وجود میں لائیں۔اول الذکر یعنی اتحاد چھوٹے معاملات میں بھی ہواور بڑے معاملات میں بھی، ضلعی سطح پر بھی ہواور ریاستی وقومی سطح پر بھی۔ جہاںبھی ملی مفاد کی بات ہو مسلمانوں کو مسلک، برادری، علاقہ اور سیاست وپارٹی سے اوپر اٹھ کر ایک ساتھ آواز بلند کرنی چاہئی۔ یقینا وہ مطالبات جو اتحاد کی پوری قوت کے ساتھ کئے جائیں ،سرکاروںکے لئے انہیں نظرانداز کرنا آسان نہ ہوگا۔جس طرح سکھ پارٹی کی وابستگی سے اوپر اٹھ کر اپنی آواز بلند کرتے ہیں اور حکومت کو مجبور کرتے ہیں وہ ان کی نہ صرف سنے بلکہ تسلیم بھی کری۔علامہ اقبال نے اسی موقع کے لئے کہا تھا کہ ’’ایک ہیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبین۔ ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنی‘‘
یہ بات نہیں ہے کہ اتحاد اور قیادت سے بات نہیں بنتی یا یہ صرف گزرے ہوئے زما نے کی بات نہیں ہے بلکہ جب بھی اس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے ثمر آور ثابت ہوتا ہی۔ اس کی تازہ ترین مثال کشن گنج میں علی گڑھ یونیورسٹی سینٹر کے لئے زمین کی فراہمی سے متعلق سامنے آنے والے اتحاد سے دی جاسکتی ہے ۔سینٹر کے قیام کے لئے ایک ٹکڑے میں زمین کے مطالبے پر زور دینے کے لئے جس عدیم المثال اتحاد کا مظاہرہ کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ بہار سرکار نے ایک ماہ کی مدت میں ہی گھٹنے ٹیک دئیے ۔جب کہ زمین کی فراہمی کے لئے گزشتہ کئی سال سے جدوجہد جاری تھی۔تعلیمی بیداری کے روح رواں مولانا اسرارالحق قاسمی ایم پی اور ان کے رفقاء اس سلسلہ میں اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔انہوںنے اے ایم یو کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے پارلیمنٹ میں بھی آواز بلند کی لیکن سارامعاملہ بہار سرکارکی ٹال مٹول کے سبب معلق رہا۔ سرکار کی سردمہری کو دیکھتے ہوئے کشن گنج اور سیمانچل کے عوام کو اس تعلق سے بیدارکرنے کے لئے جلسے کئے گئے اور مظاہروںکا سلسلہ چھیڑا گیا،اگرچہ ان دھرنوں کو ریاستی سرکار نے نظراندازکیا لیکن ان سے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اے ایم یو سینٹر کی بابت سیمانچل کے عوام میں بیداری پیداہوگئی اوران کے مابین اتحاد کی فضا بن گئی۔ مولانا قاسمی کی سربراہی میںکشن گنج ایجوکیشن موومنٹ فار اے ایم یو نے 12 ستمبر کو صوبائی حکومت کو 12اکتوبرسے پہلے پہلے زمین کے مسئلہ کو حل کرنے سے متعلق الٹی میٹم دے دیا،دوسری طرف وسیع پیمانہ پربڑے دھرنے کی تیاری شروع کردی گئی۔ریاستی سرکار نے متعینہ تاریخ سے پہلے اس معاملہ میں کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کیا۔آخر کار مولانا قاسمی کی قیادت میں کشن گنج میں ایک زبردست دھرنادیا گیا ، جس میں کئی لاکھ لوگوںنے شرکت کی۔ نہ صرف کشن گنج اور سیمانچل بلکہ بہارکے تمام اضلاع کے مندوبین جوش وخروش کے ساتھ اس میں شریک ہوئے اور تعلیم سے محبت رکھنے والے دوسری ریاستوںسے بھی آئی۔ احتجاج پورے طورپر پُرامن تھا۔ البتہ حکومت پر دبائو بنانے کے لئے ریلوے لائن اور نیشنل ہائی وے کو جام کردیا گیا تھا۔احتجاج کا وقت صبح دس بجے سے پانچ بجے تک تھا، لیکن ریاستی سرکار کی بے حسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے اس اثناء میں مظاہرین سے کوئی رابطہ تک قائم نہیں کیاجس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہاں موجود لاکھوں لوگ برہم ہوگئے اور انہوںنے اس وقت تک دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان کردیا جب تک حکومت بہارکی کوئی وضاحت سامنے نہ آئے ۔ نتیجتاً احتجاج جاری رہا ، وہاں موجود لاکھوںلوگوںکے غصہ وناراضگی کو دیکھ کر بالآخر افسران اور حکومت کے اہم ذمہ داروںنے قیادت کررہے مولانا قاسمی سے رابطہ کیا اور پورنیہ سے آئے کمشنر نے زمین کی فراہمی کے لئے ایک ماہ کا وقت مانگا جس کے بعد احتجاج ختم ہوگیا۔
حیران کن امریہ ہے کہ اس پرامن احتجاج کو وزیر ریلوے نے دہشت گردی سے جوڑنے کی مذموم حرکت کی ،مزید یہ کہ احتجاج میں شامل سرکردہ شخصیات کے خلاف مقدمات بھی قائم کردئےی، مولانا قاسمی اور ان کے رفقاء کے خلاف وارنٹ جاری کردئیے گئی۔ جب کہ اس سے قبل بھی ریلوے لائینوںاور سڑکوں کو جام کیا جاتارہاہی۔ خود ممتا بنرجی جب وزیرریلوے تھیں تو راجستھان میں گوجروںنے ریلوے ٹریک کوجام کیا تھا اور کئی دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا تھا مگر ممتا نے اس واقعہ کو دہشت گردی سے نہیں جوڑا ۔ حال ہی میں تلنگانہ تحریک کے سلسلہ میں بھی سوسے زائد ٹرینوں کو روکا گیا مگر اس کے بارے میںموجودہ وزیر ریلوے نے دہشت گردی کی بات نہیں کہی۔ترنمول کانگریس جو مغربی بنگال میں مسلمانوں کی ترقی کی بات کرتی ہے ، کے وزیر ریل دنیش ترویدی نے اس احتجاج کو دہشت گردی سے تعبیر کرکے تنگ نظری اور علم دشمنی کا ثبوت دیاہے ۔آخر ایسا کیوں؟یہ تنگ نظری اور دوہرامعیارکہیں اس لئے تو نہیں کہ اے ایم یو سینٹر کے لئے دھرنا دینے والے قائدین مسلم تھے ؟
مبارکباد کے مستحق ہیں وہ تمام لوگ جنہوں نے تعلیمی بیداری کی اس تحریک کا ساتھ دیاجس کا مقصد سیمانچل میں علم کے ذریعہ ان معاشرتی پسماندگیوں کو دور کرنا ہے جن کی وجہ سے خطے کی مقامی آبادی خود انحصار اور قومی ترقی میں برابر کی ساجھیدار نہیں ۔یہ بالعموم بہار اور بالخصوص کشن گنج وسیمانچل کے عوام کی بیدار ی کا نتیجہ ہے کہ بالاخر نتیش کمار کی قیادت والی بہار سرکار نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سنٹر کے لئے  224 ایکڑ غیر منقسم زمین فراہم کردی ۔ اے ایم یو کے وائس چانسلر کو حکومت نے زمین کی دستیابی کی منظوری سے باخبر کردیا ہی۔اب انشاء اللہ وہ دن دورنہیں جب موجودہ اور آنے والی نسلیں اے ایم یوسینٹر سے بھرپورعلمی استفادہ کریں گی۔ضرورت اس بات کی اسی طرح خودنمائی سے پوری طرح پرہیز کرتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اگر مقامی،ریاستی اور قومی سطح پربلاتفریق مسلک وبرادری ، سیاست وپارٹی دیگر معاملوںمیں بھی اتحاد کا مظاہرہ کیاجائے تو مسلمانوںکے بہت سے مسائل حل ہوسکتے ہیںاور مسلم قیادت کے لئے بھی راہ ہموار ہوسکتی ہی۔سب سے اہم بات یہ رہی کہ اتحاد رنگ لا یا اور ایک بڑامسئلہ شاندارحکمت عملی کے سبب حل ہوگیا۔مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس تازہ ترین مثال سے سبق حاصل کریں اور قانونی دائرے میں اپنے حقوق کی متحدہ لڑائی لڑیں، انشاء اللہ ہر سطح پر کامیابی ملے گی اور اگرانہوںنے اپنی صفوںمیں اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو بہت سی وہ رعایتیں واسکیمیں جو خاص طورسے ان کے لئے بنائی جاتی ہیں وہ بھی انہیں حاصل نہ ہوسکیں گی جیساکہ یوپی اے (اول )کے دور میں سچرکمیٹی کی سفارش پر پانچ صوبوںمیں اے ایم یو کے سینٹر کے قیام کومنظوری دی گئی تھی جن میں بہار بھی شامل تھا ۔ شروع میں کٹیہار کی سینٹر کے قیام کی تجویز سامنے آئی مگر زمین کی دقت ودیگر مسائل کے پیش نظرمسلم اکثریتی ضلع کشن گنج میں اس کے قیام کا فیصلہ کیا گیا۔مرکز کی جانب سے سب کچھ منظور ہونے کے باوجود ریاستی سرکارنے اسے التوا میں ڈال دیا اور یہ معاملہ نہ جانے کب تک معلق رہتا اگر 12اکتوبر کا اتحاد سامنے نہ آتا۔یہ اتحاد کا مظاہرہ ہمیں پیغام دیتا ہے کہ اگر ہم دیگر معاملات میں بھی بلاامتیاز مسلک ، علاقہ اور طبقہ کے اتحاد کا مظاہرہ کریں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہمیں کامیابی نہیں ملے گی۔ ہندوستان ایک جمہوری ملک کے یہاں سر گنے جاتے ہیں اور جتنے سروں کے ساتھ ہم سامنے آئیں گے ہمارے مطالبات اسی حساب تسلیم کئے جائیں گی۔ مولانا قاسمی کا یہ کارنامہ پورے ملک کے لئے ایک قابل تقلید کارنامہ ہوگا ۔ گوجر آبادی میں صرف دو ڈھائی فیصد ہیں لیکن وہ اپنی تمام بات حکومت سے منوالیتے ہیں کیوں کہ ان میں بے مثال یگانگت ہے جس کا انہوں نے ۸۰۰۲، ۰۱۰۲ اور دیگر موقعوں پر مظاہرہ کیا اور حکومت ان کی شرط تسلیم کرنے پر مجبور ہوئی ہی۔
ہندوستان میں جتنی بھی تحریکیںچلتی ہیں وہ تقریباً ساری پر تشدد ہوتی ہیں اس میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک کو نقصان پہچایا جاتا ہے لیکن کبھی ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی جاتی لیکن مسلمان اگر اپنی بات کہنے کے لئے دھرنا اور یا سڑک جام کرتے ہیں سرکار ی کام میں مداخلت کا مقدمہ دائر کرکے پکڑدھکڑ شروع ہوجاتی ہی۔ سال قبل ہی ممبئی میں شیو سینا اور مہاراشٹر نونرمان سینا کے غنڈوںنے شمالی ہندوستانیوں کی ٹیکسیوں اور مہاراشٹر روڈویز کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا تھا لیکن اس کے بارے کسی لیڈر نے ایک لفظ کہنے کی زحمت گوارہ نہیں کی لیکن جب معاملہ مسلمانوں کا آتا ہے سب کے منہ میں زبان آجاتی ہی۔ لیکن مسلمانوں کو اپنی بات منوانے کے اس طرح کسی بھی فقرے یا الزام تراشی سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے اور اپنی بات منوانے کے لئے جس حد تک جانا ہو جانا چاہئی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کشن گنج میں قائم ہونے والا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سنٹر میں کیا صرف مسلم بچے ہی پڑھیں گے اس میں غیر مسلم بچے تعلیم حاصل نہیں کریں گے ۔ اس لئے غیر مسلموں کو فرقہ پرستوں پھن کچلنے کے لئے سامنے آنا چاہئے کیوں کہ یہ علاقہ کی سالمیت، ترقی، وقار، عزت، گنگاجمنی تہذیب اور آپسی بھائی چارہ کے بقا کا سوال ہی۔اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سنٹر کے قیام کی راہ میں حائل دشواریوں ختم کرنے کے لئے کمربستہ ہوجانا چاہئے کیوں کہ نتیش کمار حکومت کی نیت صاف نہیں ہے اور وہ ہر موقعے پر پریشانیاں کھڑی کرنے کے لئے بہانے ڈھونڈ رہی ہی۔ اس کے لئے تمام فکرمند حضرات کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئی۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.co

Comments