bharatpur riot visi wirh SFR Team by abid anwar


بھرت پور فساد : مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک نئی تصویر
تیشہ فکر    عابد انور  (گوپال گڑھ بھرت پور کا دورہ کرنے کے بعد)
ہندوستان میں مظالم ڈھانے کا حوصلہ پولیس، شرپسند عناصر، ہندوانتہا شدت اور فرقہ پرستوں کو اس لئے ملتا ہے کہ یہاں اب تک ایسا شکنجہ ہی نہیں بنا جس میں ان لوگوں کو کسا جاسکی۔ بیشتر معاملات میں اس طرح کا گھنائونا فعل کو انجام دینے والے کو ہیرو تسلیم کیاجاتا ہی، ہندوستان کی حکومت ایسے مجرموںکو تحفظ فراہم کرتی ہے ، ہندوستانی عوام کی اکثریت انہیں آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور ایسے انداز میں استقبال کرتی ہے جیسے بہت بڑا کارنامہ انجام دیکر آیا ہو۔ یہاں مسلمانوں کا قتل عام یقینا بڑا کارنامہ ہے ۔ اس لئے اس طرح کے وحشتناک اور ہیبتناک فعل انجام دینے والے وزرائے اعلی، مرکزی وزیر یہاں تک نائب وزیر اعظم بھی بن جاتے ہیں اس لئے ان تشدد پسند لوگوں کو اس طرح  بھیانک جرائم کے ارتکاب کی ترغیب ملتی ہی۔بھرت پور کے گوپال گڑھ قصبہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ ہندوستان میں مسلمانوں کو ہر حال میں تباہ کرنے کی پالیسی کا ایک حصہ ہے ۔ یہ گجرات میں ۲۰۰۲ میں انجام دئے گئے قتل عام کی توسیع ہے ۔ حکومت خواہ کسی کی بھی ہو مسلمانوں کو ہر حال میں پولیس کی گولی کا نشانہ بننا ہی ہوگا۔ اس فساد میں جس طرح پولیس نے گوجروں کا ساتھ دیا اور اندھا دھند فائرنگ کی اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ جیسے سرحد پر گولیاں چل رہی ہوں اور ہر حال میں دشمن کو نیست و نابود کرکے ہی دم لینا ہی۔ ۴۱ ستمبر جمعرات کو ہونے والے اس فساد کو جس طرح بی جے پی کے ایم ایل اے نے بھڑکا یااور پولیس اہلکاروں کو ہندوتو کا واسطہ دے کر فائرنگ کرنے پر اکسایا اس بی جے پی کی ذہنیت کی ایک مرتبہ پھر پول کھول کر رکھ دی ہے وہ کبھی بھی مسلمانوں کی خیر خواہ نہیں ہوسکتی۔ سید شاہ نواز حسین، مختار عباس نقوی اور تنویر احمد جیسے بی جے پی میں شامل مسلم لیڈروں کے لئے ایک تازیانہ ہے اگر یہ لوگ مسلمان ہیں۔ وہیں کانگریس میں شامل مسلم لیڈروں کے لئے بھی چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ لیڈر، ایم ایل ای، ممبر پارلیمنٹ، وزیر ہوکر بھی ایک ہندو چپراسی سے زیادہ لاچار ہیں وہ مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔ قبرستان کا معاملہ جسے گوجروں نے متنازعہ بنادیا تھا، یہ معاملہ جب حل ہوگیا تھا اور فریقین کے مابین سمجھوتہ ہوگیاتھا تو آخر کس نے فائرنگ کی؟۔ قبرستان ۶۱ بیگھ پر واقع ہے جس میں دو بیگھہ پر گوجروں نے پہلے ہی قبضہ کر رکھاہے ۔ اس کے بعد ایک بیگھہ دوبارہ گوجروں نے قبضہ کرلیا تھا جس کا مقدمہ عدالت میں ہے اور عدالت نے گوجروں کو نوٹس بھیجا تھا ۔ اس سے مشتعل ہوکر گوجروں نے مسجد کے امام کو زدوکوب کیا تھا۔ اس کے بعد پنچایت بیٹھی تھی جس میں گوجروں نے اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے معافی تک مانگی تھی۔لیکن اس کے بعد بی جے پی اور آر ایس ایس کے ارکان کے افواہ اور اشتعال کے نتیجے میں فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ۔
گوپال گڑھ میں مسلمانوں کے قتل عام کی حقیقی صورت حال کو جاننے کے لئے اسٹوڈینٹس فار ریسسٹنس کی ایک ٹیم نے  ۵۲ ستمبر کو دورہ کیا تھاجس میں مرتنجے (دہلی یونیورسٹی )، کسم لتا (جے این یو ) سید محمد راغب (جے این یو) محمد حسین (ڈی یو)، ارون (ڈی یو) اوم پرکاش ، مولانا اعجاز عرفی قاسمی (آل انڈیا تنظیم علمائے حق)، فیضان (جامعہ ملیہ اسلامیہ) سبھی ریسرچ اسکالرز اور راقم الحروف (عابد انور) شامل تھی۔ ٹیم نے علاقہ کے مشہور و معروف مدرسہ دارالعلوم محمدیہ میل کھیڑا کا دورہ کیا جہاں گائوں کے بہت اصحاب پہلے سے جمع تھے اور فساد زدگان کی مدد میں پیش پیش رہنے والے مولانا راشد جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء راجستھان سے تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں اول تا آخر حالات سے آگاہ کیا اور تمام شہداء مجروحین، تباہ کئی، لوٹے گئے مکان و دکان کی فہرست مہیا کرائی۔ ٹیم سات گائوں کے نو شہداء کے کنبوں سے ملاقات کی اور ان کی تکالیف جاننے کی کوشش کی۔ شہداء کے وارثوں نے جو کچھ بتایا کہ وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ اتنی وحشیت و بربریت کا تصور اکیسیویں صدی نہیں کیا جاسکتا۔ گائوں مالکی اور پپرولی کے لوگوں نے بتایا کہ کس طرح گوجروں نے زخمی ہونے کے بعد ان کے رشتہ داروں کو کلہاڑی، پھرسا، بلم اور دیگر ہتھیاروں سے ایذائیں دے کر قتل کیا اور پھر ان کی لاشوں کو جلاکر کنواں اور تالاب میں پھینک دیا۔ مالکی کے رقم الدین اور لادمکا کے ذاکراور آڑدوکا کے عرفان مسجد میں عصر کی نماز پڑھنے گئے تھی۔ اندھا دھند فائرنگ میںزخمی ہونے کے بعد کچھ نے اپنے اہل خانہ فون کرکے بتایا کہ وہ زخمی ہوگیا ہے لیکن ان سبھوں کو گوجروں نے گھیر کر نہ صرف اذیت دے کر قتل کیا بلکہ ثبوت مٹانے کے لئے ان کی لاشوں کو جلاکر کھیت، کنواں اور تالاب میں پھینک دیا اس دوران پولیس اہلکار گوجروں کو مکمل تحفظ فراہم کر رہے تھے اور پورے علاقے کو گھیر رکھا تھا۔ ان میںسے کسی کے سر کو دو ٹکڑا کیا گیا، کسی کا خفیہ اعضاء کاٹا گیا،کسی کا ہاتھ اور پیر کاٹا گیا تو کسی کا بلم گھونپ کر ہلاک کردیا گیا۔شہید ہونے والوں میں عرفان کے علاوہ سبھی شادی شدہ تھے اور سب کے تین سے لے کر چھ بچے ہیں اور سب کی عمر ۶۱ سے لیکر  ۵۳ کے درمیان ہی۔ بیشتر لوگوں کی لاشیں مسخ کردی گئی تھیں۔ لاشوں میں کیڑے پڑ گئے تھی، بیشتر لاشیں ایک ہفتہ کے بعد وارثوں کو ملیں۔ ابتداء میں لوگ یہاں وہاں اپنے رشتہ داروں کے یہاں تلاش کرتے رہے لیکن بھرت پور میں لاشیں ملیں۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ بہت سے زخمی جن کی جان بچائی جاسکتی تھی لیکن پولیس والوں نے گالی دے کر کہا ’’سالا بچ گیا، مارنے پر بھی نہیں مرا‘‘۔ بعض کو پولیس نے گاڑیوں سے نیچے پھینک دیا تھا اور کچھ کو اذیت دے کر کھیت میں ڈال دیا۔ تین افراد جن کے نام شوقین ولد محمد گائوں ڈھونڈو، عمر ۸۱ ، رئیس ولد شریف گائوں ڈھیری عمر ۵۲ ، شریف ولد نصرّ اندھواڑی عمر ۲۲ برس ابھی بھی لاپتہ ہیں۔ تمام رشتہ داروں میں تلاش کرلیا گیا ہے کہیں اتہ پتہ نہیں ہی۔ گائوں کا خیال ہے کہ پولیس اور گوجروں نے اسے بھی قتل کرکے لاشوں کو غائب کردیا ہی۔ گوپال گڑھ میں مسلمانوں کے گیارہ دکانوں اور شو روم کو پہلے لوٹا گیا اور پھر اسے آگ کے حوالے کردیاگیا۔ اسی طرح مسلمانوں کے دس سے زائد مکانات کو لوٹ کر فرقہ پرستوں نے تباہ کردیا۔ اس قصبہ میں مسلمانوں کے علاوہ کسی اور کی دکان یا مکان کو چھوا تک نہیں گیا۔ بغل میں غیر مسلم کی دکان کو آنچ نہیں آئی لیکن اگر مسلمان کی دکان تھی تو اسے لوٹ کر تباہ کردیا گیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ گوجروں نے پولیس کی مدد سے منظم طور پر صرف مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ اسے فساد بھی نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ یہ پولیس ایکشن معلوم تھی جو دشمنوں کے خلاف ہلہ بول کر کرتی ہی۔
ٹیم نے قبصہ گوپال گڑھ کا دورہ کیا اور بھرت پور کے قصبہ گوپال گڑھ کا فساد ایک مکمل منصوبہ بند اور منظم اور طے شدہ پالیسی کے تحت برپا کیا جانے والا فساد پایا تھا۔اس میں تمام چیزیں وہی تھیں جو بھاگلپور، ممبئی اور گجرات کے فسادات اور قتل عام میں آزمایا گیا تھا۔ فسادیوں کو مسلح کیا گیا تھا، تمام طرح کی چھوٹ دی گئی تھی، حملہ کرنے کے لئے آڑ فراہم کیاگیا تھا اور قتل اور گناہوں کا ثبوت مٹانے کے لئے مکمل موقع دستیاب کرایا گیا تھا۔ٹیم جب مسجد پہنچی جہاں پر فائرنگ ہوئی تھی پولیس نے موقع کا معائنہ کرنے تصویر کشی سے منع کردیا لیکن ٹیم زبردستی مسجد میں داخل ہوئی اور مسجد کے حالات دیکھے پولیس انسپکٹر اور دیگر پولیس اہلکار جوتا سمیت مسجد میں داخل ہوگئے تھے جس پر ٹیم نے اعتراض بھی کیا۔ جگہ جگہ خون کے دھبی، پھٹی، بکھرے قرآن کریم کے اوراق، ٹوٹے پھوٹے پنکھی، دیواروں پر گولیاں نشانات،  لاشوں کو گھسیٹنے کے علامات اور مسجد کی بجلی فٹنگ اور دیگر چیزوں کو زبردست نقصان پہنچایاگیا تھا۔ یہ تمام چیزیں اپنی اپنی کہانی بیان کر رہی تھیں کہ یہاں کیا ہوا ہے نمازی پر کس طرح قیامت صغری گزری ہی۔ ٹیم کو مقامی لوگوں نے فائرنگ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایاکہ دونوں فریقوں کے درمیان رک رک کر صبح سے تقریبا 10 بار فائرنگ ہوئی ، جس میں صبح 9.45 بجے ، 10.40 بجے ، 11.20 بجے ، 11.55 بجے ، 12.18 بجے ، 1.40 بجے ، 2.15 بجے اور پھر شام 5 بجے کے بعد دیر رات تک فائرنگ ہوتی رہی۔
B
گوپال گڑھ کے باشندوں کے مطابق گوجروں اورمسلمانوں کے درمیان قبرستان کے سلسلہ میںتنازعہ چل رہا تھا، کورٹ کا مسلمانوںکے حق میں فیصلہ آیا۔ اسی سلسلہ میں کچھ گوجر اور مسلم جوانوں میں آپس میں جھگڑا ہوگیا ۔مسجد عائشہ بنت مطرب کے امام عبدالرشید صاحب بےیچ بچاؤ کے لیے پہنچے تو ان کو گوجر لڑکوں نے شدیدزدوکوب کیا امام صاحب نے کسی کے گھر میں گھس کر جان بچائی۔ یہ خبر علاقہ میں پھیل گئی۔دوسرے دن صبح میں اس سے متعلق مسجد کے صحن میں ایک میٹنگ تھی۔ مسجد سے تقریبا دوسو میٹرکی دوری پر گوجر لوگ جمع ہوگئی۔ بارہ بجے سے ایک بجے تک دونوں طرف سے پتھراؤاورفائرنگ ہوئی لیکن جانبین میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ پولیس اور معزز لوگوں کے سمجھا نے بجھانے سے معاملہ رفع دفع ہوگیا اورتھانہ میںشام پانچ بجے تک میٹنگ چلتی رہی۔ میٹنگ میں مقامی کانگریس ایم ایل اے زاہدہ خاں اور بی جے پی کے ایم ایل اے انیتا شریک رہیں۔آپسی سمجھوتہ ہوگیا۔شیر ی سرپنچ گوپال گڑھ نے گوجر سماج کی طرف سے معافی مانگ لی لو گ مطمئن ہوگئے ۔اچانک انیتا ایم ایل اے کے ساتھ آنے والے بھرت پور کے آر ایس ایس کے لوگوں نے شورمچانا شروع کردیا کہ مسلمانوں نے پانچ چھ گوجروں کو ہلاک کردیا ہے اور لاش اٹھالے گئے ۔ہمیں یہ فیصلہ قطعاًمنظور نہیں ہے ۔ آر ایس ایس کے لوگوں نے ایس پی کا دامن پکڑا اوراس کا موبائل چھین کرزمین پر توڑ دیااور کلکٹر سے گولی چلانے کے آڈردلوانے کا مطالبہ کیا اس کے انکارپر کلکٹرسے زبردستی آڈر لکھوا یا۔پانچ سوا پانچ بجے آرڈر لکھوانے کے بعد تالاتوڑ کرمال خانہ سے ہتھیار نکالے گئے پھر پولیس کے ساتھ سادہ وردی میں گوجر کے آرایس ایس سے متعلق نوجوان لڑکے بلڈپروف گاڑی میں بیٹھ کر مسجد کے دروازہ پر پہونچے اورگاڑی سے مسجد کے اندرفائرنگ شروع کردی ۔تھانہ اور مسجد کے درمیان کا فاصلہ تقربیاسات سو میٹر ہی۔ اس ہنگامہ میں آر ایس ایس کے جواہر سنگھ ساکن بیڈھم ، جواہر سنگھ ساکن بوڈولی، پرمود ایڈوکیٹ اوربنتی ایڈوکیٹ گوپال پور پیش پیش تھی۔
ان حقائق کے بعد گوپال گڑھ کے قتل عام کو جلیاں نوالہ باغ سانحہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہی۔ ٹیم تمام نو (۹) شہیدوں کے اہل خانہ سے ان کے گائوں میں ملاقات کی۔ شہید ہونے والے افراد کے نام رقم الدین والد اسحاق (۰۳) گائوں مالکی، اقبال ولد چندر خاں ۵۲) پپرولی، مبارک ولد محمدا  (۸۱) لادمکا، ذاکر والد عبدل (۸۱) لادمکا، عیسی ولد رحمت (۰۳) کھیڑا دانیال، عرفان ولد بھاسو (۶۱) آڑودوکا، جاوید ولد نورالدین (۲۲) پاپڑا، خورشید ولد ہجرو (۰۳) اندھواڑی، عبدالرحمان ولد حسینا (۵۶) اندھواڑی۔ اس کے علاوہ درجنوں مکانات اور دکانوں میں لوٹ کر آگ لگادی گئی جس میں لاکھوں کا نقصان ہوا ہی۔ دو درجن سے زائد افراد شدید زخمی ہوئے ہیں ۔ معمولی زخمیوں کی تعداد سو سے اوپر ہے جنہوں نے پرائیویٹ طور پر مرہم پٹی کراکر اپنے گھر لوٹ آئی۔ اسٹوڈینٹس فار ریسسٹنس کی ٹیم کو شہداء کے کنبوں اور گائوں والوں نے بتایا کہ ہم لوگ دہشت میں جی رہے ہیں۔ اپنی ضروریات زندگی کے لئے ترس گئے ہیں۔ ہم سودا سلف کے لئے بازار نہیں جاسکتی۔ پولیس کی کارروائی دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے گائوں والوں پر اس کا کیا اثر ہوا ہی۔ جب ٹیم گائوں پہنچی تو کوئی بھی سچ بتانے کے لئے تیار نہیں تھا ہر کوئی بات کرنے سے کترا رہا تھا۔ لوگ کیمرہ دیکھ جمع تو ہوجاتے تھے لیکن خوف کا یہ عالم تھا کہ جیسے ہی پولیس مظالم اور فسادات کے بارے میں سوال کیا جاتا بات کرنے سے منع کردیتی۔ بہت کوششوں کے بعد کچھ لوگوں نے بات چیت ہوئی اس وقت ہوئی جب ٹیم نے کہا کہ وہ ان کے مسائل دنیا کے کونے کونے تک پہنچانے آئی ہی۔ آپ ہمیں صحیح صورت حال سے آگاہ کریں تاکہ ہم ڈاکیومنٹری فلم کے ذریعہ آپ پر بیتے مظالم کو دنیا کے سامنے پیش کرسکیں۔ سبھی گائوں میں اس ٹیم نے لوگوں کو خوف و ہراس میں مبتلا پایا۔ یہ ٹیم جلدفسادات کے حقائق پر مبنی ایک کتابچہ بھی شائع کرے گی اور ڈوکومنٹری فلم بھی ریلیز کرے گی۔ جس میں فساد زدگان کے دکھ درد کو دکھایا گیا ہی۔
ایک سوال جو ٹیم کے ذہن میں بار بار کوند رہی تھی کہ آخر گوجر اس قدر سفاکیت اور درندگی پر آمادہ کیسے ہوگئی۔ علاقوں کی تاریخ رہی ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ فسادات شاذو نادر ہی ہوتے ہیں۔ دو گروپوں میں لڑائی عام بات ہے جس میں دونوں ہندو اور مسلمان ہوتے ہیں لیکن یہ ایسا پہلا دردناک واقعہ ہے جس میں گوجروںنے ہزاروں سالوں کی تہذیب کو ملیامیٹ کرتے ہوئے حیوانیت کا مظاہرہ کیا۔دراصل اس کا سرا بھی ووٹ بینک اور پارلیمانی جمہوریت سے ملتا ہی۔ گوجروں کی ۸۰۰۲ اور ۰۱۰۲ کی ریزرویشن تحریک جس میں حکومت راجستھان نے گھٹنے ٹیک دئے تھی، سے کافی حوصلہ ملا ہی۔ انہوں نے سوچا کہ جب وہ (گوجر) حکومت کو ہلا سکتے ہیں تو مسلمان کیا چیز ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے کے تقریباً سات تھانوں میں گوجر پولیس والوں کی تعداد تقریباً ۰۸ (اسیّ) فیصد ہی۔اس سے گوجروں کو بربریت کا مظاہرہ کرنے کا مزید حوصلہ ملا۔ افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ابھی تک اس ضمن میں پولیس نے گوجروں کے خلاف نہ تو کوئی کارروائی کی ہے اور نہ ہی انہیں گرفتار کیا ہی۔ ایس پی وکاس کمارسے جب اس ٹیم نے اس ضمن میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ فی الحال امن بحال کرناان کی پہلی ترجیح ہی۔ کارروائی کرنے کے بارے میں انہوں نے کچھ نہیں کیا۔اس فساد اور ملک کے دیگر فسادت سے معاملہ ذرا مختلف ہی۔ اس فساد کی خاص بات یہ ہے کہ تمام فسادی کی شناخت کی جاچکی ہی۔ باشندے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور یہ بھی جانتے ہیں کہ کس نے گولی چلائی، کس نے پھرسا، بلم اور کلہاڑی سے حملہ کیا۔اگر تھوڑی سی بھی ایمانداری برتی گئی تو قصورواروں کو سزا ضرور ملے گی۔ جس کا امکان کم ہے کیوں کہ ہندوستانی عدل کی تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی بھی فسادی (اگر وہ مسلمان نہیں ہے ) آج تک انصاف کے شکنجے میں نہیں آیا۔
مجرم پر کسی طرح کا کوئی اثر نہیں پڑتا ۔ یہی حال وہاں کے وزیر داخلہ کا بھی ہے ۔کانگریس کی ٹیم نے بھی بھرت پور میں دو فرقوں کے درمیان ہوئی جھڑپ کے لئے براہ راست طور پر وزیر داخلہ کو شانتی لال دھاری وال کو ذمہ دار ٹھہرایا ہی۔ بھرت پور جاکر معاملے کی چھان بین کرنے والے کانگریس پینل نے یہ بھی صاف کیا کہ ریاست کے وزیر داخلہ حالات کو قابو میں کرنے میں ناکام رہی۔ وزیر داخلہ کا فیصلہ یکطرفہ تھا ان بیانات کے باوجود وزیر داخلہ کے سر جوں تک نہیں رینگی۔ انہوں نے ۷۲ ستمبر کو ایک بیان میں پولیس کی دیدہ دلیری کی تعریف کی اور پولیس کو والوں کو مظالم ڈھانے پر اکسایا۔ انہوں نے ایک پروگرام میں پولیس اہلکاروں سے کہا کہ کہیں سے بھی پٹ کر مت آئو، پیٹ کر آئو، اگر کہیں ایسا ہوجائے تو ٹرک بھر کر جائوں اور لوگوں کو پیٹ کر آئو اس میں اگر دو چار بے قصور وں کو زدوکوب کی زد میں آجائیں تو کوئی ہرج نہیں۔ کیا کسی جمہوری ملک میں جہاں آئین و قوانین کا نفاذ، تمام لوگوں کے لئے ضابطہ اخلاق ہو ایسے بیان کی توقع کی جاسکتی ہی۔ اس بیان سے وزیر داخلہ کی ذہنیت کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔ ہندوستان کی جمہوریت ترقی کر رہی ہے یا فسطائیت اور انارکی کی طرف قدم بڑھا رہی ہی۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335,
abidanwaruni@gmail.com

Comments