modi fast and gujrat riot by abid anwar


 مودی کا اپواس : ایک نئے چہرے کی تلاش
تیشَہ فکر عابد انور
کہا جاتا ہے کہ سیاست داں سے بڑا اداکار کوئی نہیں ہوسکتا۔ ایکٹنگ کرنے میں بڑے بڑے اداکاروں کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، ہفتوں انہیں مشق کرنی پڑتی ہی، دسیوں بار کے بعد شاٹ فائنل ہوتا ہے لیکن سیاست دانوں کو ایکٹنگ کرنے کے لئے کوئی مشق یا ریہرسل کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ان کی زبان، بیان، ہائو بھائو اور یہاں تک کے باڈی لنگویز ایکٹنگ سے بھرپور ہوتا ہی۔ عام آدمی کی سمجھ سے پرے کی چیز ہوتی ہے سیاست دانوں کو سمجھنا ۔ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے ریاست میں مسلمانوں کا َقتل عام کرواکر ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں ذلت کمائی ہے اور اس کاہمسری کوئی نہیں کرسکتا ۔اس کے بعد جس بے شرمی بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے اس میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہی۔یہی ایک چیز رہ گئی تھی کہ ہندوستانی سیاست دانوں میں اس سے بڑا ایکٹر کوئی ہے یا نہیںتو انہوں نے اسے بھی ثابت کردیا کہ اس معاملے میں بھی کوئی اس کا ہم پلہ نہیں ہی۔ ۷۱ سے ۹۱ ستمبر تک چلنے والا نریندر مودی کا فائیو اسٹار ’’اپواس‘‘ اسی دائرے میں فٹ بیٹھتا ہی۔ آج تک انہوں نے ہندوستانی آئین، ہندوستانی اقدار، ہندوستانی تہذیب اور ہندوستانی جمہوریت کا ہی مذاق اڑایا تھا اب انہوں نے اس چیز کا مذاق اڑایا ہے جو جنگ آزادی کے دوران چوٹی کے مجاہدین آزادی کا خاصہ رہا تھا۔مہاتما گاندھی اور دیگر رہنمائوں نے ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے نجات دلانے کے لئے ’’اپواس‘‘ کا سہارا لیاتھا لیکن نریندر مودی نے وزارت اعظمی کی کرسی تک پہنچنے کے لئے اپواس کا ڈرامہ رچا ہی۔ انہوںنے انا ہزارے کی بھوک ہڑتال کا بھی مذاق اڑا یا ہے جنہوں نے بدعنوانی کے خلاف بھوک ہڑتال کی۔ نریندر مودی نے ہر چیزکواس جمہوری طریقے کو انگوٹھا دکھایا ہے جس کے سہارے مظلوم انصاف کی منزل طے کرتے ہیں۔ صرف ایک ہی چیز رہ گئی تھی کہ بھوک ہڑتال اور اپواس ، اس کی بھی انہوں نے جم کر تذلیل کی اور یہاں کے ہندوتو کے علمبردار میڈیا نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں تھا جس پر ۴۲ گھنٹے کوریج نہ ہو۔ ہندوستانی عوام دیگر خبریں دیکھنے اور سننے کے لئے ترس گئے تھی۔ ایک ٹی وی چینل نے مودی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا۔ مودی نے یہ کردیا، مودی وہ کردیا، ترقی کا دوسرا نام نریندر مودی ہی۔ گجرات دیگر ریاستوں کے لئے ہی نہیں مرکز کے لئے بھی ایک ماڈل ہے وغیرہ وغیرہ،۔
گجرات ایک ایسی ریاست ہے جہاں کسی بدھو کو بھی بٹھادیا جائے تو وہ گرقی کرے گی۔ اس کے علاوہ گجرات کی ترقی کے لئے جو ڈھونڈرا پیٹا جارہا ہے وہ حقیقت سے پرے ہی۔ گجرات اوور ڈرافٹ لینے والوں ریاستوں میں شامل ہی۔اس کے علاوہ جب مرکزی کی جی ڈی پی تین چار فیصد کے آس پاس تھی اس وقت بھی گجرات کی جی ڈی پی آٹھ نو فیصد کے آس پاس تھی اس وقت مرکزی کی جی ڈی پی نو  فیصد کے آس پاس ہے جب کہ گجرات کی جی ڈی پی ۲۱ فیصد، مرکز کی جی ڈی پی میں دوگنا اضافہ ہوا ہے جب کہ گجرات کے جی ڈی پی آٹھ نو فیصد سے بڑھ کر ۲۱ تک ہی پہنچی جب کہ اسے ۶۱، ۷۱  فیصد کے درمیان ہونا چاہئی۔ گجرات میں تمام بڑی کمپنیاں پہلے سے موجود ہیں ایسا نہیں ہے کہ نریندر مودی کے دور حکومت میں ہی فیکٹریاں لگائی گئی ہیں ۔ دوائیں، کپڑے ہیرے جواہرات، آئل اور قدرتی گیس اور دیگر بڑی کمپنیاں گجرات میں ایک طویل عرصے سے کام کر رہی ہیں جس کا فائدہ گجرات کو ہوتا ہی۔ جس کے سہارے ریاست ترقی کی شاہراہ طے کررہی ہی۔ اس میں نریندر مودی کا کوئی کمال نہیں ہے بلکہ باہر کی بہت کمپنیاں اس لئے بھی نہیں آئیں کیوں کہ گجرات قتل عام کے بعد گجرات پوری دنیا میں بدنام ہوچکا تھا، یہاں کے امن و امان کی وجہ سے بہت سی کمپنیاں آنے سے گریز کرتی رہیں۔ اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہئے کہ اگر گجرات میں نریندر مودی کے بجائے کوئی صاف ستھرے امیج کا حامل، سیکولر مزاج، انصاف پسند ، بے داغ ا ور سبھوں کو لے کر چلنے والا وزیر ہوتا تو گجرات کتنی ترقی کرتا! اور آج گجرات کی جی ڈی پی جو نریندر مودی کے اقتدار میں آنے سے پہلے آٹھ نو فیصد تھی آج ۸۱، ۰۲ فیصد ہوتی اور یقینا گجرات ہندوستان کی تمام ریاستوں کے لئے ایک ماڈل ریاست کے طور پر ابھرکر سامنے آتا لیکن صرف ذاتی انا کی تسکین اورہندوتو کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے لئے نریندر مودی نے گجرات کو ایک خوف و حشت، دہشت اور امن و قانون کے لحاظ بدتر ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا بلکہ پورے گجراتی عوام کی تذلیل بھی کی۔ اگر نریندر مودی مسلمانوں کے قتل عام کو امن ، ترقی اور مسلمانوں کی خوش حالی تصور کرتے ہیں تو یہ الگ بات ہوگی۔
سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی شخص اپنے گناہ عظیم کو تین دن کے اپواس سے دھو سکتا ہی۔ پھر ہٹلر کو بھی خودکشی کرنے کے بجائے اپواس پر بیٹھ جانا چاہئے تھا۔ امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش کو جس پر تین لاکھ سے زائد مسلمانوں کے قتل عام کی ذمہ دار ہے بھوک ہڑتال پر بیٹھ کر اپنے بے گناہ ہونے کا اعلان کردینا چاہئی۔ اسی طرح ۴۸۹۱ کے سکھ فسادات میں سجن کمار پر الزام عائد ہے انہیں بھی اپواس رکھ کر اپنے الزام کو دھو لینا چاہئی۔ دراصل مودی کا یہ عظیم ڈرامہ تھا اس ڈرامہ کو پیش کرنے کا خیال انہیں جہاں امریکی کانگریس کی رپورٹ سے آیا وہیں سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ جس میں اس نے گلبرگہ سوسائٹی قتل عام سمیت دیگر معاملے کو گجرات کے نچلی عدالت کو منتقل کردیا ہے اور اپنی نگرانی میں قائم ایس آئی ٹی کو وہیں حتمی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہی،سے بھی تحریک حاصل ہوئی اور مودی راتوں رات وزیر اعظم کی کرسی کا خواب دیکھنے لگی۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو نریندری مودی اور ان کی پارٹی بی جے پی بے گناہی کاپروانہ تصور کرنے لگی اور میڈیا کا سہارا لے کر شور مچانے لگے کہ نریندر مودی کو بے گناہ قرار دے دیا گیا ہی۔ نریندر مودی آٹھ نو سال سے جس تکلیف میں مبتلا تھے اس سے چھٹکارا مل گیا ہی۔ جب کہ سپریم کورٹ نے معاملے کو صرف نچلی عدالت میں منتقل کیا ہے نہ کہ مودی کو بے گناہ قرار دیا ہی۔ممکن ہے کہ بی جے پی اور نریندر مودی کی سوچ میں بے گناہی اس لئے در آئی ہوگی کہ گجرات میں کوئی طاقت انہیں مجرم نہیں ٹھہرا سکتی۔ممکن ہے کہ نریندر مودی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے یہ کوئی بعید بھی نہیں ہے اس لئے ہندوستان اب فسطائیت کی طرف تیزی سے قدم بڑھا رہا ہے اور سیکولر زم کے بقا کی پوری ذمہ داری مسلمانوں کے سر پر آن پڑی ہے کیوں کہ کسی بھی علاقے میں اگر کوئی سیکولر امیدوار ہار جاتا ہے تو ساری ذمہ داری مسلمانوں کے سر ڈال دی جاتی ہے اور یہ کوئی نہیں پوچھتا اس علاقے کے سارے ہندوئوں نے فسطائی پارٹی کا ساتھ کیوں ساتھ دیا؟۔ کیا وہ فسطائی ہوگئے ہیں؟ وغیرہ وغیرہ لیکن نام صرف مسلمانوں کا آتا ہے کہ انہوں نے سیکولر امیدوار کو جتانے میں مدد نہیں کی یا وہ متحد ہوکر ان کا ساتھ نہیں دیا۔
امریکی پارلیمان کی ایک رپورٹ میں جہاں ہندوستان میں ہندو شدت پسندی کے بارے میں تشویش ظاہر کی گئی ہے وہیں گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کی تعریف بھی کی گئی ہے ۔اس رپورٹ میں گجرات انتظامیہ اور وزیر اعلی نریندر مودی کی تعریف کے پل بھی باندھے گئے ہیں اور لکھا ہے کہ وہ اگلے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم کے عہدے دعویدار ہوسکتے ہیں۔رپورٹ میں گجرات کو انتظامات کے معاملے میں سب سے بااثر ریاست تسلیم کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ 'تنازعات سے گھرے گجرات وزیر اعلی نریندر مودی نے گجرات کی اقتصادی عمل کو موثر بنایا ہے اور بدعنوانی پر روک لگائی ہے ، جس کی وجہ سے قومی اقتصادی ترقی میں ریاست کی اہم رول رہا 'نریندر مودی کی شخصیت کا تجزیہ کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد مودی نے اپنی تصویر بہتر بنانے کے لئے ریاست میں بھاری سرمایہ کاری کو دعوت دی ، جس سے ریاست نے 11 فیصد کی اقتصادی شرح نمو درج کی ہی۔4 صفحات کی یہ رپورٹ گانکریشنل ریسرچ سینٹر یعنی سی آر ایس نے تیار کی ہی۔ سی آ رایس امریکی پارلیمان کا ایک آزادباڈی ہے ، جو وقتاً فوقتاً مختلف موضوعات پر امریکی اراکین پارلیمنٹ کے لئے رپورٹ جاری کرتا ہی۔
نریندر مودی فسطائیت کا وہ چہرہ ہے جسے بھارتیہ جنتا پارٹی اب ملک کے وزیر اعظم کے عہدے کے لئے پیش کرنا چاہتی ہی۔ امریکی کانگریس نے اس جذبے کوزبردست حوصلہ بخشا ہے بلکہ مہمیز کا کام کیا ہی۔ امریکی کانگریس نے اپنی رپورٹ میں گجرات کی ترقی کے سبب جہاں نریندر مودی کی تعریف کی ہے وہیں انہیں ۴۱۰۲ میں راہل گاندھی کے مقابلہ میں لا کھڑا کیا ہی۔ اس سے بی جے پی کے لیڈر نے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس کے پاس کوئی ایسا لیڈر ہے جو نریندر مودی کے مقابلہ میدان میں قدم رکھ سکی۔ کل تک جہاں بی جے پی وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے لئے ترس رہی تھی آج وہ چیلنج کر رہی ہی۔ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کا گھر ٹھیک ٹھاک ہے وہاں بھی خلفشار اپنے عروج پر ہی۔ وزارت عظمی کی دوڑ میں جہاں لال کرشن اڈوانی ہیں وہیں ارون جیٹلی، سشما سوراج، نتن گڈکری بھی میدان سے پیچھے نہں ہٹے ہیں ۔ ایسے میں014 پارلیمانی انتخابات دلچسپی سے خالی نہیںہوگا اور بی جے پی میں جوتے میںدال ضرور بٹے گی۔
< مرکزی وزیر شکر سنگھ واگھیلاجنہوں نے نریندر مودی کے مقابلے میں گجرات میں سابرمتی آشرم کے باہر برت (بھوک ہڑتال) پر بیٹھے تھے نے کہا کہ نریندر مودی پہلے گجرات فسادات اور فرضی تصادم سے منسلک سوالات کا جواب دیں۔انہوں نے حکومت پر ساڑھے 26 ہزار کروڑ کی بدعنوانی کا الزام لگایا ۔گجرات فسادات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال 2002 فسادات کے متاثرین آج بھی معاوضے کے لئے بھٹک رہے ہیں اور حکومت جان بوجھ کر ان پر توجہ نہیں دے رہی ہے "گجرات میں کوئی نئی ترقی نہیں ہوئی ہے ۔گجرات میں ہمیشہ سے ہی ترقی رہی ہی۔ اس سے پہلے کیا کوئی حکومت نہیں تھی ۔
گجرات سندیش اور گجرات سماچار میں گزشتہ آٹھ مہینوں سے مودی کی بدعنوانی کی نئی کہانی روزانہ شائع ہورہی ہے لیکن قومی اور ہندی میڈیا نے اسے بالکل نظر انداز کردیا ہی۔نریندر مودی نے اگر یہ تصور کرلیا ہے کہ اپواس کرنے کے بعد ان کے تمام گناہ مٹ گئے تو یہ ان کی خام خیالی ہے کچھ ایسے جرائم ہیں جو زندگی بھر اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔مودی کے لئے اگر وزارت عظمی کی کرسی منتظر ہے تو انہیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ جیل کی سلاخیں بھی ان کے انتظار میں پلکیں پچھائے ہوئے ہیں۔
اپواس کے اختتام پر جس طرح خطاب کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کی نظر اب دہلی پر ہے اور جلد سے جلد وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان ہونا چاہتے ہیں۔ اپنے خطاب میں انہوں نے راج نیتی (سیاست) کی بات نہیں کی بلکہ کہا کہ وہ راشٹر نیتی (قومی پالیسی) پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹے موٹے کاموں، سڑکوں کی تعمیر، پلوں کی تعمیر وغیرہ سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ وہ بڑا کام کرنا چاہتے ہیں۔  پورے صحت کے شعبے کو کیسے بدلا جائی، تعلیم کے نظام کو کیسے تبدیل کیا جائی۔ ملک میں نئی سوچ کی ضرورت ہی۔نریندر مودی کی یہ تقریر بہت طویل تھی اسے واضح طور پر ایک انتخابی تقریر کہا جا سکتا تھا۔ اس میں ان کی ساری توجہ اپنی اہلیت اور حکومت کی کارکردگی کو اجاگر کرنے پر مرکوز تھی۔ گجرات میں آئندہ برس انتخاب ہونے والے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ملک میں اب تک صرف ووٹ بینک کی سیاست ہوتی رہی ہے جس سے ترقی کا کبھی ماحول ہی نہیں بن پایا۔ ’تمام جماعتیں صرف انتخاب جیتنے کے لیے ووٹ بینک کی سیاست کرتی رہی ہیں اسی لیے ملک میں ترقی نہیں ہو سکی۔ گزشتہ ساٹھ برس ضائع ہوئے ہیں۔‘ ان کی پوری تقریر ہندوستانی عوام کو سبز باغ دکھانے تک محدود تھی کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ سارے نیوز چینلز ان کی تقریر کو راست ٹیلی کاسٹ کررہے ہیںاس لئے اس میں اپنے سابقہ تقریر کے برخلاف کہیں بھی اپنی تقریر میں ہندوتو کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کسی متنازعہ مسئلہ کو چھیڑا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہر طبقے کے دل میںجگہ بنانا چاہتے ہیں کیوں کہ اس کے بغیر دہلی کا سفر نہ صرف دشوار گزار ہے بلکہ اس کے بغیر دہلی ہمیشہ ہنوز دور است ہی رہے گی۔
نریندر مودی نے اپنے اپواس کے دوران تمام فرقوں کو بلایا تھا۔مسلمانوں کو خصوصی طورپر کہاگیا تھا کہ وہ بغیر ٹوپی کے نہ آئیں۔ کچھ ،ضمیر فروش مسلمان آبھی گئے تھے اور انہوںنے نہ صرف مودی کے اپواس کی رونق بڑھائی بلکہ گجرات قتل عام کے متاثرین کے زخموں پر نمک بھی چھڑکا جو اب تک اپنے گھر واپس جانے کی ہمت نہیں کرپارہے ہیں۔ ان ضمیر فروش مسلمانوں اور مولویوں کو ان غیر مسلم بھائیوں کا بھی خیال نہ آیا کہ انہوںنے کس طرح002 سے اب تک ان کے حق کے لئے لڑ رہے ہیںاور احمدآباد سے دہلی تک کا چکر کاٹ رہے ہیں۔ اگر مسلمانوں اپنی ضمیر کو یوں ہی بیچتے رہے تو آئندہ کون ان کی حمایت کے لئے کھڑا ہوگا۔ گجرات کے جو حالات ہیں اور اگر مسلمان مودی کا ساتھ دینے پر مجبور ہیں تو اس کا سہرا بھی کانگریس کے سر جاتا ہے کیوں کہ مصیبت کے وقت کانگریس پارٹی نے مسلمانوں کا ساتھ نہیںدیا اور انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ شنکر سنگھ واگھیلا آج مودی کے اپواس کے مقابلے بھوک ہڑتال پر بیٹھے ہیں اس وقت وہ کہاں تھے جب مودی اینڈ کمپنی مسلمانوں کا جینا دوبھر رکرہی تھی۔
یہ بھی سچ ہے کہ ریل لائف اور رئیل لائف میں فرق ہوتا ہے یہ بات نریندر مودی نے یہ اس وقت ثابت کردی جب گجرات کے رستم پور گائوںکے امام صاحب نے اظہار یکجہتی کے لئے مودی سے ملنے آئے یابلائے گئے لیکن مودی کے چہرے سے نقاب اس وقت ہٹ گیا جب انہوں نے امام صاحب کی ٹوپی قبول کرنے سے انکار کردیااس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے دل میں مسلمانوں کی کتنی عزت ہی۔ سماجی ، سیاسی، معاشی، رضاکار تنظیموں نے ڈراما کرنے کا جو الزام نریندر مودی پر لگایا تھا انہوں نے اس کو سچ ثابت کردیا۔
D-64/10 Abul Fazal Enclave Jamia Nagar, New Delhi- 110025
Mob. 9810372335
abidanwaruni@gmail.co

Comments