سقوط لیبیا: ناٹو کی کارروائی مسلم ممالک تک ہی محدود کیوں؟
عابد انور
خون پینے کی عادت جب لگ جاتی ہے تو اس وقت تک اسے سکون میسر نہیں ہوتا جب تک وہ کسی کا خون نہ پی لی۔ یہی حال امریکہ اور مغربی ممالک کا ہے ۔ وہ جب مسلمانوں کا خون بہتے جب تک نہیں دیکھ لیتے اس وقت تک انہیں چین میسر نہیں ہوتا۔معاشی بدحالی سے دوچار امریکہ اور مغربی ممالک نے ایک طرح سے جنگ و جدال کو ایک تجارت میں تبدیل کردیا ہی۔امریکہ نے اپنی آزادی کے بعد اب تک ملینوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہی۔ انہیں تو بم برسانے اور قتل عام کرانے کا بہانہ چاہئی۔ وہ ہمیشہ اس فراق میں رہتے ہیں کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرایا جائی۔اگر یہی باتیں عیسائی ممالک میں وقوع پذیر ہوجائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی انہیں حقوق انسانی کی پامالی، مذہبی استحصال یا دیگر حقوق کی تلفی نظر آتا ہی۔ بلکہ یہ ممالک اس کے بھی روا دار نہیں ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کیوں مار رہا ہے کیوں کہ ان کے مطابق مار نے کا حق تو صرف انہیں ہی حاصل ہیں۔ وہ اس سے متاثرہ ملک میں شہریوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھاکر میدان میں کود پڑتے ہیں اور انسانوں کی حفاظت کے لئے انسانی بستیوں، بنیادی ڈھانچوں اور یہاں تک کہ انسانوں کا قتل عام کراتے ہیں۔عراق اور افغانستان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
امریکہ اور مغربی ممالک کے جرائم اتنے سنگین ہیں اگر ان ممالک کو سو بار بھی تخت و تاراج کردیا جائے تو ان ممالک کا گناہ کم نہیں ہوگا۔گزشتہ تین سو سالو ںکے دوران ان ممالک نے جس طرح مکرو فریب، چالبازی، دھوکہ دہی، احسان کا بدلہ غداری، ایک مسلم ملک کو دوسرے مسلم ملک کے خلاف جنگ میں جھونک کر اپنا الو سیدھا کرنے اور مختلف بہانوں نے مسلم ممالک کو تخت و تاراج کرنے کا جو کام کیا ہے دنیا کی تاریخ میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اساطیری دور میں ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں، جنگ و جدال بھی کیا ہے ، عام لوگوں کا قتل بھی ہوا ہے لیکن جو کچھ بھی کیا گیا وہ کسی آڑ میںنہیں بلکہ اعلانیہ اور کھلم کھلا طور پر کیا گیا لیکن امریکہ اور مغربی ممالک نے گزشتہ کئی صدیوں سے جس طرح کا کھیل کھیلا ہے اور ماورائے عدالت سزا دینے کی روش اختیار کی ہے اسے کسی طرح سے بھی شجاعت و بہادری ملک گیری کے طریقہ کار کا تابع قرار نہیں دیا جاسکتا ہی۔ ہمیشہ انہوںنے بزلانہ اور انسانیت کو شرمسار کرنے والی حرکتیں کی ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی رکھیل اقوام متحدہ کا قیام ۴۴۹۱ میں عمل میں آیا تھا لیکن اس کی تاریخ امریکہ اور مغربی ممالک کو ظلم و ستم کا جواز فراہم کرنے تک محدود ہے کبھی بھی اس نے نہتے اور کمزوروں کی مدد کے لئے سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کبھی انصاف کا پرچم بلند کرسکا۔ اقوام متحدہ کا گزشتہ چھ دہائیوں سے زائد کا ریکارڈ کی صرف ایک چابی والے کھلونے سے زیادہ کی حیثیت کا نہیں رہا۔اس کے کارنامے امریکی عزائم کی تکمیل تک محدود رہے ہیں۔ لیبیا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا خطہ عدم پرواز کا قرارداد پاس ہونا اور آناً فاناً اس پرحملہ کرنااور بالآخر قذافی حکومت کا خاتمہ کردینا اس کی اجازت کسی قانون میں نہیں ہی۔ حکومت کی تبدیلی مقامی عوام کا معاملہ ہوتا ہے اسے ہتھیار ، پیسہ اور دیگر ذرائع فراہم کرنا راست حملہ کرنے کو مترادف ہے ۔مغربی ممالک کی اتنی چستی کبھی نہیں دیکھی گئی ان کی نظر صرف پیٹرولیم پر ہی۔یوگوسلاویہ کے سلسلے میں اتنی تیزی کا مظاہرہ کیوں نہیں ہوا تھا۔طویل عرصہ تک یوگوسلاویہ میں قتل عام ہوتا رہا لیکن کسی ملک یا اقوام متحدہ نے کوئی کارروائی نہیں کی اور یہ ممالک اس وقت بیدار ہوئے جب یوگوسلاویہ کے حکمراں ملاڈچ میلو سیوچ ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام کراچکے تھی۔
مغربی ممالک کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ خود نہیں بدلتے بلکہ حالات کا رخ موڑدینے کی قوت رکھتے ہیں، وقت کو بدل کر اپنے مفاد کے سانچے میں ڈھال لینے کی صلاحیت رکھتے ہیں یہی خاصیت انہیں دخل اندازی، بالواسطہ حکومت کرنے اور اپنے ہر ظلم و جبر کو جائز ٹھہرانے کا موقع فراہم کرتا ہی۔ یہی حربہ اس نے عراق، افغانستان اور لیبیا میں آزمایا ہی۔ وہ پہلے پرتشدد ماحول پیدا کرتے ہیں اور اپنے زرخرید چمچوں سے فساد کرواتے ہیں جس میں انسانی جانوں کا زیاں ہوتا ہے اور اس بہانے وہ اس ملک میں دھاوال بول دیتے ہیں۔ لیبیا کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔پہلے تو انہوں نے اپنے زرخرید چند لوگوں سے احتجاج کروایا اورپھر ان لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کی آڑ میں لیبیا میں قتل عام کرنے کے لئے ہوائی حملہ شروع کردیا۔ مزے کی بات ہے کہ اگر قذافی کے ہوائی جہاز سے بمبار ہوتی تھی تو اس سے عام لوگ مرتے تھے اگر یہی کام امریکہ ،یورپ اور مغربی ممالک کرتے ہیں اس سے انسانی جان کی زیاں نہیں ہوتا بلکہ ہوائی جہاز سے گرنے والابم اور داغے جانے والے میزائل قذافی کی فوجوں پر توبم اور میزائل بن کر گرتے تھے لیکن وہاں کے عوام پر پھول بن کر برستے ہیں۔ یہی مغربی ممالک کی منطق ہی۔ یہ ممالک دوہرا معیار اور دوغلی پالیسی کی تھیلی ہر وقت اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ گزشتہ ۰۶ برسوں سے اسرائیل کو انہوں نے معصوم فلسطینیوں پر ظلم و ستم روا رکھنے کے لئے مکمل چھوٹ دے رکھی ہی۔حملہ کرنا تو دور کی بات ہے مذمت بھی نہیں کرسکتی۔انسانی جانوں کااتلاف اگرکسی ملک کے تخت و تاراج کا پیمانہ ہے تو اسرائیل کو تو اس کے لئے ہزاروں مرتبہ تباہ کیا جانا چاہئے تھا۔
۰۹۹۱ کی خلیجی جنگ اور پھر ۳۰۰۲ کو عراق پر حملہ کرکے جس طرح عراق کو کھنڈر میں تبدیل کیا گیا اس سے اہل دنیا واقف ہی۔ یہاں بھی امریکہ عراقی عوام کو بچانے آیا تھا لیکن اس نے بچاتے بچاتے تقریباً پانچ لاکھ سے زائد عراقیوں کو مار ڈالا تھا۔ ابوغریب جیل کی داستان عوام الناس کی زبان زد عام ہی۔ امریکی فوج کی انسانیت پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس پر امریکی تاریخ شرمسار ہی۔ لاکھوں بچے جو صدام کے دور میں اسکول جایا کرتے تھے وہ نہ صرف اسکول سے محروم ہوگئے بلکہ مغرب کے ہاتھوں ان بچوں کا جنسی استحصال کیا گیا۔ وہاں لاکھوں خواتین امریکی حملے کی وجہ سے جسم فروشی کے گندے دلدل میں پھنس چکی ہیں۔ مغرب میں خواتین کی کوئی عزت نہیں ہے اور جسم فروشی کوئی گناہ نہیں ہی۔ شادی شدہ ہوتے ہوئے وہ غیر مردوں کے جسمانی تعلق قائم کرسکتی ہیں اس لئے مغربی ممالک کے لئے کوئی بری بات نہیں ہوگی لیکن اسلامی ممالک اور جس میں تھوڑی بہت بھی اسلامی حمیت باقی ہے وہ کسی طرح بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ عراق میں ۰۲ فیصد بیوائیں نوری المالکی حکومت میں جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔ تین چوتھائی خواتین پنشن نہیں ملتی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خواتین اپنی گزربسر اوقات کے لئے کیا کرتی ہوں گی۔ امریکہ نے عراق کو کس طرح لوٹا ہے اور کس طرح قدیم اشیاء کو چوری کرکے لے گیا ہے یہ بھی کسی بھی ڈھکی چھپی نہیں ہی۔
طویل خانہ جنگی اور مسلسل بدامنی کے شکار ملک افغانستان میں بہت سی خواتین کو آج بھی اس حد تک نا امیدی اور احساس محرومی کا سامنا ہے کہ ان خواتین میں خود سوزی کے ذریعے خودکو ہلاک کرنے کے رجحان میں مسلسل اضافہ ہورہا ہی۔تاریخی اور ثقافتی اہمیت کے حامل افغان شہر ہرات کے صرف ایک ہسپتال میں ۰۱۰۲ کے نصف عرصہ کے دوران اب تک 67 ایسی خواتین علاج کے لئے لائی جا چکی ہیں، جنہوں نے اپنے حالات سے تنگ آ کر خودسوزی کی کوشش کی تھی۔ڈاکٹر عارف جلالی کہتے ہیںکہ 2002 سے خود سوزی کے بعد علاج کے لئے اس ہسپتال میں آنے والی خواتین کا ریکارڈ موجود ہی۔ ان کے مطابق ہر مہینے اوسطاً دس ایسی خواتین لائی جاتی ہیں۔ لیکن اس سال جون کے بعد سے یہ شرح یکدم قریب دوگنا ہو چکی ہی۔ ’’اب ہمارے شعبے میں ہر ماہ ایسی تقریباًبیس خواتین علاج کے لئے لائی جاتی ہیں۔‘‘ڈاکٹر جلالی نے بتایا کہ اس سال اب تک ان کے ہسپتال میں خودسوزی کرنے والی 67 خواتین علاج کے لئے لائی جا چکی ہیں۔ ان میں سے 20خواتین اتنی بری طرح جل چکی تھیں کہ ان کی زندگیاں نہ بچائی جا سکیں۔ پندرہ خواتین نے علاج مکمل ہونے سے پہلے ہی ذاتی طور پر ہسپتال سے رخصتی کا فیصلہ کیا اور آج تک واپس نہیں لوٹیں۔
اس کے علاوہ جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ مختلف رپورٹوں سے ظاہر ہیں۔ جنگ کا اثرسب زیادہ بچوں اور خواتین پر ہوتا ہی۔ کیوں کہ وحشیوں کا آسان نشانہ ہوتے ہیں۔ عراق، افغان، صومالیہ، کمبوڈیا کی جنگوں نے وہاں کی خواتین اور بچوں کی زندگی اجیرن بنادی ہی۔ بڑے کسی طرح اس کا سامنا کربھی لیتے ہیں لیکن نازک اندام خواتین اور بچے آسانی سے اس کا شکار بن جاتے ہیں اور بلاواسطہ یا بالواسطہ، مجبوری یاجبری طور اس جہنم میں چلے جاتے ہیں۔ اگر صحیح معنوں میں دیکھا جائے تو اس کا ذمہ دار مغربی ممالک، امریکہ اور اس کی داشتہ اقوام ہی ہے جو ان ممالک کے لئے جنگ کا جواز فراہم کرتی ہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد دو کروڑ ۵۷ لاکھ سے زائد ہی۔ صرف سوڈان میںپچاس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہیں۔ جینیوا کے انٹرنیشنل ڈسپلیسمنٹ مانیٹرنگ سینٹر کی رپورٹ کے مطابق ۰۲ ممالک میں تقریباً تیس لاکھ افراد حالیہ دنوں میں بے گھر ہوئے جن میں سے بارہ لاکھ افریقہ میں ہیں۔ مشرقِ وسطی میںحالات خراب ہونے کی وجہ سے گزشتہ دس سال کے دوران تین گنا زیادہ لوگ بے گھر ہوئے ہیں جن کی تعداد 2010 کے آخر تک چالیس لاکھ تھی۔عراق پر امریکی حملہ کے بعد اب تک تقریباً ۸۲ میلین افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں ۰۱۰۲ میں ہی بے گھر ہونے والے بچوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد ہی۔ اسرائیل کی دہشت گردی اور جنگ کی وجہ سے ہی گزشتہ چھ دہائیوں سے لاکھوں بے وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ایک رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (NHCR) نے کہا ہے کہ دنیا بھر میںبے گھر ہونے والے ہر پانچ افراد میں سے چار کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہی۔ اس سالانہ رپورٹ میں غیر قانونی طور پر سرحد عبور کر کے دوسرے ممالک جانے والے 15.4ملین افراد کو بھی شامل کیا گیا ہی۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک جانے والے 80 فیصد افراد کا تعلق بھی ترقی پذیر ممالک سے ہی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 27.5 ملین ہی۔ اس وقت بے گھر ہونے والے افغان باشدوں کی تعداد تین ملین ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہاجرین کا بوجھ اٹھانے کے لیے غریب ممالک کو تنہا چھوڑ دیا گیا ہی۔ سب سے زیادہ پناہ گزین پاکستان میں آباد ہی، جن کی تعداد 1.9 ملین بنتی ہی۔ دوسرے نمبر پر ایران ہی، جہاں 1.1ملین مہاجرین بستے ہیں، تیسرے نمبر پر شام آتا ہی، جہاں رہنے والے پناہ گزینوں کی تعداد ایک ملین ہی۔ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مہاجرین افغان باشندے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق اس وقت بے گھر ہونے والے افغان باشدوں کی تعداد تین ملین ہی۔ دوسرے نمبر پر عراقی مہاجرین ہیں، جن کی تعداد 1.6ملین ہی۔ اس کے بعد صومالیہ کا نمبر آتا ہی، جہاں کے مہاجرین کی تعداد تقریباً 77 ہزار ہی۔ اب لیبیا اس فہرست میں شامل ہوجائے گا۔کیوںکہ سقوط طرابلس کے بعد اس ملک میں طویل عرصہ تک خانہ جنگی جاری رہنے کا خدشہ ہی۔اس کی قیمت اقتدار کے بھوکے مغربی ممالک چمچے قسم کے رہنما نہیں بلکہ لیبیا کے عوام ادا کریں گی. صرف طرابلس کی ہی لڑائی تقریباََ ایک ہزار افراد جاں بحق ہوچکے ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں. جب تھوڑا امن قائم ہوگا اس وقت اندازہ لگایا جاسکے گا کہ اس بغاوت میں کتنی جانوں کا زیاں ہوا ہی.
لیبیا کے معاملے میں جہاں مغربی ممالک کی مستعدی قابل مذمت ہے اسی طرح عرب ممالک کو بھی اس سے مبرا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ عرب ممالک جمہوریت سے آخر خوف کیوں کھا رہے ہیں۔ کوئی بھی قوم اسی وقت ترقی کرتی ہے جب اسے سوچنی، سمجھنی، غور و فکر، تدبر،اور اظہار خیال کی آزادی حاصل ہو جس کا عرب ممالک میں فقدان ہی۔ یہ مسئلہ عرب عوام کو ہی حل کرنا چاہئے اور بیرونی مداخلت کا مطلب غلامی کے طوق کی تبدیلی سے زیادہ کچھ نہیں ہی۔پہلے عرب حکمراں کے غلام تھے اور اب مغرب کے غلام ہوں گے لیکن اس کی قیمت کتنی ادا ہوتی ہے عراق اور افغانستان کا معائنہ کرنے سے پتہ چل جاتا ہی۔ تنظیم اسلامی کانفرنس کا کردار صرف کاغذوں پر ہے اور وہ اپنا کارنامہ بیان جاری کرکے انجام دے دیتی ہی۔ دنیا میں اس سے زیادہ نکمی کوئی تنظیم نہیں ہوسکتی ۔ عرب ممالک میں بیشتر مسائل کے ذمہ داری یہی تنظیم ہے .یہ ان ممالک کی تنظیم کے جس کی دولت پر امریکہ اور مغربی ممالک عیش کر رہے ہیں۔
فرانس نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ مستعدی کا مظاہرہ کیا ہی۔جب سے نکولس سرکوزی نے اقتدار سنبھالا ہے اورسپر ماڈل کارلابرونی سے شادی کی ہے اس کے بعد انہیں اسلامی شناخت سے سخت چھڑ ہونے لگی ہی۔ لاکھوں مخالفت کے باوجود انہوں نے حجاب پر پابندی عائد کروائی اورلیبیا سے ماضی کا بدلہ لینے کے لئے لیبیا پر حملے میں پیش پیش رہا۔ سرکوزی کی فرانس میں مقبولیت میں کمی آرہی ہے اور اور فرانس میں آئندہ صدارتی انتخابات ہونے والے ہیںاور سرکوزی دوسری میعاد کے لئے میدان میں ہوں گے اس لئے انہوں نے لیبا پر حملہ کرکے وہ مسلم دشمنوں اور شدت پسندوں کی نظروں میں ہیرو بننا چاہتے ہیں۔ گرچہ فرانس میں مسلمانوں کی تعداد ۰۵ لاکھ سے زائد ہے اور وہ دوسری سب سے بڑی اکثریت ہیں۔ لیبیا نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۳۷۹۱ کے منظور ہونے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا لیکن اس کے باوجود مغربی ممالک نے حملہ کرنے میںزبردستی مستعدی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان کی چستی کہاں چلی جاتی ہے اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر ظلم ڈھاتا ہی، ہوائی حملے کرتا ہی، ٹینک سے فصل کو روندتا ہی، اوربلڈزور سے مکانات کو تباہ کرتا ہی۔ مغربی ممالک اپنی طاقت کے زعم خواہ بین الاقوامی قوانین کو کتنے ہی پامال کیوں نہ کریں اس کا خمیازہ ان کی آنے والی نسلوں کو بھگتا پڑے گا اس وقت اس کی داشتہ اقوام متحدہ بھی کسی کام کے قابل نہیں رہے گی۔ مغربی ممالک کے حملے میں لیبیا عراق کی طرح کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہی۔ اس حملے کے نتیجے میں کثیر تعداد میں شہریوں کی ہلاکت ہوچکی ہی۔امریکہ ، فرانس، برطانیہ کناڈا اور اٹلی نے اپنے نئے ہتھیاروں کے تجربہ کا مرکز اسلامی مملک کو بنالیا ہی۔ سینکڑوں طیاروں سے میزائل اور بم برسائے جارہے تھے جس کا راست اثر جہاں فصلوںاور انسانی زندگی پر پڑے گا۔ عرب لیگ کے سکریٹری جنرل عمروموسی نے حمایت کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے کہا تھاکہ اس حمایت کا مقصد خطہ عدم پرواز تھا ۔معمر قذافی کی فوج کے خلاف ناٹو افواج8 بحری جہازوں کے علاوہ 350 سے زائد جنگی ہوائی جہاز بھی سرگرم عمل تھیں۔عرب حکمرانوں کو ہوش ناخن لینے کا وقت آگیا ہے مغربی اور دیگر ممالک کو جنہیں وہ اپنا دوست سمجھتے ہیں اور ان کے ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں یا وہاں اپنا پیسہ جمع رکھتے ہیںہوشیار ہوجانا چاہئے کیوں کوئی ان کا کودوست نہیں ہے اور پوری تاریخ گواہ ہے اگر روس اور چین نے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی قراداد کا ویٹو کیا ہوتا تو امریکہ یا دیگر ممالک کو حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی جس طرح امریکہ اسرائیل کے ہر معاملے میں سلامتی کونسل کے قرارداد کو آنکھ بند کرکے ویٹو کردیتا ہے اسی طرح روس اور چین مسلم ممالک کے تئیں ایسا کیوں نہیں کرتی۔ چین کا سب سے بڑا مارکیٹ عرب ممالک ہیں وہ اس کا فائدہ اٹھاسکتے تھے لیکن عرب حکمرانوں کو عیاشی سے فرصت ہی کہاں ملتی ہے وہ اس سلسلے میں غور و فکر کریں۔ یہ بغاوت یہ بھی ثابت کرنے میں کامیاب رہی ہے کہ آمروں کا انجام برا ہی ہوتا ہی۔ معمر قذافی بھی ایک مملکت کا تختہ الٹ کر آئے تھے اور ان کا بھی یہی حشر ہوا۔ یہ عرب ممالک کے درس عبرت ہے اور جس قدر جلد وہ اس فلسفہ کو سمجھ جائیں گے ان کے حق میں بہتر ہوگا۔
, سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اب لیبیا کو کون سنبھالے گا اور متحد رکھنے میں وہ لوگ کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔ لیبیا کے انقلاب میں سب سے اہم رول ادا کرنے والا نمایاں چہرہ مصطفیٰ محمد عبدالجلیل کا ہے یہ معمر قذافی حکومت وزیر انصاف رہ چکے ہیں اور اس وقت یہ لیبیا کی قومی عبوری کونسل کے سربراہ ہیں۔ عبدالجلیل 2007 سے 2011 کے اوائل تک وزیر انصاف رہ چکے ہیں۔ اس دوران وہ قذافی کے وفادار ساتھی کی بجائے اپنے ذاتی سیاسی خیالات رکھنے والے شخص کے طور پر سامنے آئی۔ تقریباََ چار سال وزیر انصاف رہنے سے پہلے ایک طویل عرصے تک طرابلس میں ماہر قانون اور جج کی حیثیت سے کام کرتے رہے ہیں۔ لیبیا کی مشہور جیل ابو سلیم میں تین سو قیدی بغیر کسی قانونی کارروائی کے قید ہیں اس سوال کے تعلق سے معمر قذافی اور ان کے درمیان دوری بڑھی اور یہ دوری اس وقت نقطہ عروج پر پہنچ گئی جب انقلاب یاسمین اور مصر سے متاثر ہوکر لیبا کے کچھ نوجوانوں معمر قذافی کے خلا ف مظاہر کیا اس میں درجنوں نوجوان ہلاک ہوئے تھی۔اس کے بعد انہوں نے معمر قذافی حکومت کو خیرآباد کہہ کر انقلابیوں کی صف میں شامل ہوگئی۔ اس وقت حکومت چلانے میں سب سے زیادہ تجربہ کاریہی ہیں۔ یوروپ امریکہ اپنی پولیس اور اہلکار کو انتظام و انصرام سنبھالنے کے لئے پر تول رہے ہیں۔ امریکہ اور مغربی ممالک نے عراق والی غلطی دہرانے کی کوشش کی تو یہ ملک دوسرا عراق بن جائے گا اور خانہ جنگی طویل ہوجائے گی۔بہتر یہ ہوگا کہ موجودہ انتظامیہ پر اعتماد کرتے ہوئے اسے مکمل ختم نہ کرے بلکہ اس انتظام ٍو انصرام چلنے دے ورنہ یہی لوگ باغیوں کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اور معمر قذافی کو پھر ایک بار اپنا نجات دہندہ تصور کرنے لگیں گی۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment