Haren Pandya Verdict and Modi By Abid Anwar


ہرین پانڈیا قتل کیس:مسلم نوجوانوں کوجیل میں سڑانے کا سلسلہ کب بند ہوگا؟
تیشہ فکر عابد انور
بچپن میںاستاذنے سوال کیا تھا کہ اگر نمک کے کان میں گدھا گرجائے تو کیا ہوگا تو ہم سب طلباء نے جواب دیا تھا کہ گدھا ہی رہے گا کم عمری کی وجہ سے ہم طلباء نمک کی تاثیر سے ناواقف تھے لیکن حقیقی تاثیر اب سمجھ میں آرہی ہی۔ گجرات میں بھی ایک فرقہ پرست کا کان ہے جو بھی جاتا ہے وہ اسی کا حصہ بن جاتا ہی۔ خواہ سی بی آئی ہو یا ایس آئی ٹی یا انکوائری کمیشن سب کا حال یہی ہی۔ مسلمانوں کو انصاف دلانے کے لئے سپریم کورٹ نے سی بی آئی کے سابق سربراہ مادھون کی قیادت میں ایس آئی ٹی کی تشکیل کی لیکن گجرات جاکر وہ مودی کے رنگ میں سرابور ہوگئی۔ اس سے قبل بھی سپریم کورٹ اس سلسلے میں کئی خصوصی افسران کو متعین کرچکی ہے جیسے کہ گیتا جوہری لیکن منطقی انجام کے طور کوئی بھی افسر مودی کے تعفن سے پاک نہیں رہ سکا۔جتنے بھی افسران متعین کئے گئے وہ مودی کا حصہ بن گئے تھی۔ جب انصاف دلانے والی، انصاف کے لئے لڑنے والی، انصاف کرنے والے اور انصاف کے لئے وسائل مہیا کرنے والے جب مودی گردی کے شکار ہوجائیں گے تو مسلمانوں کے لئے حصول انصاف کیوں کر ممکن ہوگا خواہ اس کی نگرانی سپریم کورٹ ہی کیوں نہ کری۔
ہندوستان میں مسلم دشمن طاقتیں، انتظامیہ، میڈیا، مقننہ کا ایک نکاتی پروگرام ہے کہ مسلمانوں کو ہر حال میں انصاف سے دور رکھا جائے اور ان کی زندگی جہنم سے بھی بدتر بنادی جائے جس کا مظاہرہ مسلمان آئے دن اپنی زندگی میں کرتے رہتے ہیں۔جب بھی کسی کا قتل ہو ، کوئی حادثہ پیش آجائے ، یا کوئی واقعہ رونما ہو، یا دھماکہ ہو ایاکوئی اور اندوہناک سانحہ آنکھ بند کرکے پہلے ہی نظر میں مسلم نوجوان کو مجرم گردان کر ان کی تلاش شروع کردی جاتی ہی۔انہیں یہ معلوم ہے اس ضمن میں یہاں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا کہ اسے کیوں بند کیا گیا ہے اور اس کے خلاف ثبوت کیا ہی۔ پولیس کے بیان کو ہندوستان کا میڈیا ثبوت اور عدالت کا فیصلہ سمجھ کرکے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا شروع کردیتا ہی۔۲۰۰۲ کے گجرات فسادات کے بعد بھی جب گجرات حکومت کا دل نہیں بھرا تو اس نے مسلمانوں کو جیل میں بند کرنے کے لئے مختلف بہانے اور حیلے تلاش کرنی شروع کردی اور جب بھی گجرات میں کسی مسلم نوجوان کی گرفتاری عمل میں آتی اس کے بارے میں پورے زور و شور کے ساتھ یہ کہا جاتا ہے وہ نریندر مودی کو مارنے آیا تھا، اکشر دھام مندر ، یا سومناتھ مندر پر حملہ کرنے ،یا سچن تندولکر کا قتل کرنے آیا تھا۔ اس طرح کا شورمیڈیا میں گونجاتا رہتا تھا۔اس مقصد یہ تھا کہ مسلم نوجوان خوف و ہراس میں مبتلا رہیں اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر وہ خاموش رہیں اور ہوا بھی یہی۔ گجرات سمیت پورے ہندوستان میں مسلم نوجوانوں کا ناطقہ بند کیا جاتا رہا اور مختلف بہانوں سے اسے سلاخوں کے پیچھے ڈالتے رہی۔ سیمی سے وابستہ یا اس سے ادنی سا بھی تعلق رکھنے والے مسلم نوجوانوں کو پورے ملک میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر جیل میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ سب ابھی جیل میں ہیں ۔اس ضمن میں کوئی ریاست اس سے مبرا نہیں رہی البتہ بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں اس فارمولا پر سب سے زیادہ عمل کیا گیا۔ حالانکہ ابھی تک سیمی کے کارکنوں پر کسی بم دھماکہ میں ملوث ہونے کا الزام ثابت نہیں ہوا ہے لیکن اس کے باوجود سینکڑوں مسلم نوجوان جیل کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور یہاں کا انسانی حقوق کمیشن بالکل خاموش ہی۔انسانی حقوق سے وابستہ تنظیمیں خاموش ہیں۔ مسلمانوں کا معاملہ آتا ہے تو یہاں کاانسانی حقوق کمیشن پولیس کے بیانوں پر بھروسہ کرلیتا ہے اور متاثرہ فریق سے جا ننے کی بھی کوشش نہیں کرتا کہ ان پر کیا گزری ہے جیسا کہ بٹلہ ہائوس انکائونٹر کے معاملہ میں ہوا اور کمیشن نے دہلی پولیس کے بیان کو من و عن تسلیم کرلیا۔
گجرات میں جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی برسراقتدار آئی ہے مسلمانوں پر وہاں ہر طرح کا ظلم و ستم روا ہی۔ ہرین پانڈیا کے قتل کے معاملے بھی بغیر کسی ثبوت کے ۹۱ مسلم نوجوانو ں کو مسلم بنایا گیا تھا ان میں ۵۱ کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ان میں سے ۹ کو عمر قید کی سزا سنائی تھی جب کہ ۲ کو سات سال اور ایک کو پانچ سال کی سزا سنائی گئی تھی۔گجرات کے سابق وزیر داخلہ پانڈیا کو 26 مارچ 2003 کو گولی مار کر اس وقت قتل کر دیا گیا تھا جب وہ لاء گارڈن علاقہ میں صبح کی سیر کے لئے آئے تھی۔ یہ فیصلہ پوٹا عدالت نے سنایا تھا اور سماعت پوٹا کورٹ کی جج سونیا گوکانی نے کی تھی۔ سب سے پہلے اس کیس کی تفتیش سٹی کرائم برانچ کو سونپی گئی تھی لیکن بعد میں یہ معاملہ سی بی آئی کے حوالے کر دیا گیاتھا اس کیس میں بڑی کامیابی اس وقت ملی جب سی بی آئی نے یہ دعوی کیا کہ اس نے قتل میں استعمال کئے گئے ہتھیار برآمد کر لیے ہیں۔اس پر کافی مودی نے کافی خوشی ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ اب لوگوں کی زبان بند ہوجائے گی یہاں سی بی آئی بھی مودی کے فارمولے پر کام کرتی رہی ۔ اس وقت استغاثہ نے دلیل دی تھی کہ اہم ملزم نے گودھرا فساد کا بدلہ لینے کے لئے مسلمانوں کو قتل پر اکسا تھالیکن ہرین پانڈیا کے والد شروع سے ہی کہتے رہے کہ میرے بیٹے کو مسلم نوجوانوں نے نہیں نریندر مودی نے قتل کروایا ہے اور یہ سیاسی قتل ہی۔ ہرین پانڈیا کے وزیر نریندر مودی سے شدید اختلافات چل رہے تھے ہرین پانڈیا گجرات فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کے طریقے سے خفا تھی۔ پانڈیا نے کہا  تھا، "میں پارٹی کو کسی تنازعہ میں پڑنے دینا نہیں چاہتا، اس لئے استعفی دے رہا ہوں۔اس سے قبل ہی انہیں مبینہ پارٹی مخالف سرگرمیوں کے الزام میں بی جے پی کی ریاستی اکائی نے وجہ بتاو نوٹس دیا تھا۔ اس وقت کے ریاستی کابینہ کے ترجمان آئی کے جڈیجہ نے نامہ نگاروں سے کہا تھا کہ پانڈیا سے کہا گیا تھا کہ وہ مودی کی تنقید کے موضوع میں یا تو وضاحت کریں یا پھر مستعفی۔ انہوں نے صحافیوں سے کہا  تھاکہ وہ وزیر اعلی کو اپنا استعفی سونپنے جارہے ہیں اور فیصلے پر نظر ثانی کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ اس کے بعد پانڈیا نے صحافیوں سے مزید کہا تھا "اگر کوئی مجھے شخصیت کی پرستش کے لئے کہتا ہے ، تو میں نے نہ کبھی ایسا کیا ہے اور نہ میرے لئے ایسا کرنا ممکن ہو سکے گا۔
گجرات ہائی کورٹ نے ریاست کے سابق وزیر ہرین پانڈیا قتل کے الزام میں 12 ملزمان کو قتل کے الزام سے بری کر دیا ، جبکہ مجرمانہ سازش سمیت دیگر الزاما قائم رکھی۔ نچلی عدالت نے مذکورہ 12 ملزمان کو مجرم قرار دیا تھالیکن ملزمان کی اپیل پر سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے انہیں قتل کے الزام سے بری کر دیا۔جسٹس ڈی ایچ واگھیلا اور جسٹس جے سی اپادھیائے کی بینچ نے 12 اگست کو اس معاملے میں فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ہائی کورٹ نے حالانکہ ملزموں کے خلاف دہشت گردی مخالف قانون (پوٹا) ، تعزیرات ہند کی دفعہ 304 (قتل کی کوشش) اور سیکشن 120  بی (مجرمانہ سازش) کے تحت الزام برقرار رکھا ہی۔ہائی کورٹ نے نہ صرف سی بی آئی کی کارکردگی پر سوالیہ نشان کھڑے کئے ہیں بلکہ یہ بھی پوچھا ان لوگوں کی زندگی بربادی کا ذمہ دار کون ہی۔ہائی کورٹ نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہی۔ اس نے سی بی آئی کی سرزنش کرتے ہوئے قتل کے الزام سے بری کردیا۔ بینچ نے یہ بھی کہاکہ سی بی آئی کی جانب سے کی گئی تحقیقات غیر واضح ہے ، کچھ حقائق کو نظر انداز کیا گیا ہے اور اس میں بہت کچھ چھوٹ گیا ہے ۔ سی بی آئی نے مودی کی تھیوری کو آگے بڑھاتے ہوئے اس کیس کی تفتیش کی تھی اور کہا تھا کہ ملزمین نے گجرات فسادات کا بدلہ لینے کے لئے یہ قتل کیا تھا۔سی بی آئی کو آڑے ہاتھ لیتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تفتیشی افسر کو اس طرح کی غلطیوں کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیی۔ اس سے ملزمان کے خلاف ناانصافی ہوئی ہے اور سرکاری وسائل کا بھی نقصان ہوا ہی۔عدالت نے کہا کہ سی بی آئی قتل کے الزامات کو ثابت نہیں کر پائی ہے ، اس لیے نچلی عدالت کا وہ فیصلہ جس میں ان لوگوں کو قتل اور مجرمانہ سازش رچنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا ، درست نہیں ٹھہرتا۔ اس کے بعد ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے حکم کو مسترد کر دیا۔اس معاملے کی تحقیقات کر رہی مرکزی تفتیشی بیورو نے 19 لوگوں کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تھی۔سی بی آئی نے چارج شیٹ میں کہا تھا کہ چیف ملزم اصغر علی سمیت کئی دوسرے لوگوں نے بھی پاکستان میں اسلحہ کی تربیت حاصل کی تھی۔سرکاری وکیل کے مطابق 26 مارچ 2003 کو اصغر علی اور یونس کو ماچسوالا نے ریوالور اور پستول دستیاب کرایا تھا اس کے بعد یونس نے اصغر علی کو لاء گارڈن کے پاس چھوڑا تھا جہاں پانڈیا روزانہ صبح سیر کرنے کے لئے آیا کرتے تھی۔اس دن پانڈیا اپنی کار سے وہاں آئے تھے اور کار پارک کر جیسے ہی نکلے تھے کہ اصغر علی نے ان پر پانچ گولی داغ دی اور فرار ہوگئے ۔اس قتل میں دیگر ساتھیوں نے بھی کسی نہ کسی شکل میں مدد کی تھی۔ اہم ملزم علی کو عمر قید کا حکم دیا گیا تھاوہ حیدرآباد کا رہنے والا ہی۔
B گجرات کے سابق وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے وحشیانہ قتل کے معاملے میں کے معاملے میں بھلے ہی ہائی کورٹ نے ملزمان کو بری کر دیا ہو لیکن ابھی بھی سسپینس برقرار ہی۔ ہرین پانڈیا کی بیوہ جاگرتی بین نے اڈوانی اور مودی سے مدد کی اپیل کر کے مودی کے کردار پر اور شک کو مزید بڑھا دیا ہے کیونکہ کچھ سال پہلے تک یہی جاگرتی بین مودی کو ہرین کے قتل کا مجرم قرار دے رہی تھیں۔اس تاریخی فیصلے نے مودی کو کرارا جھٹکا دیا ہے کیونکہ اس فیصلے میں سی بی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سی بی آئی نے اس کیس کو لے کر ان کا بیکار ہی وقت ضائع کیا ، اس فیصلے سے حکومت کی جم کر فضیحت ہو رہی ہے کیونکہ ہرین پانڈیا گجرات کے عزیز لیڈر تھے اور وزیر اعلی کے عہدے کے مضبوط دعویدار تھی۔ اسمبلی انتخابات میں ہرین پانڈیا کو اسی لیے ٹکٹ نہیں دیا گیا تھا کیونکہ ہرین پانڈیا نے مودی کے لیے اپنی ایلس برج اسمبلی کی نشست مودی کے لئے چھوڑنے سے منع کر دیا تھا اور فسادات کے دوران سٹیزن ٹریبونل کے سامنے مودی کے کردار پر شک کا اظہار کیا تھا۔اس سے پہلے کہ یہ بات اور آگے بڑھتی ہرین پانڈیا کاقتل کر دیا گیا اور اس کا ٹھیکرا مسلم نوجوانوں کے سر پھوڑ دیا گیا۔ کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی اس پر ابھی بھی سسپینس برقرار ہے کہ ہرین پانڈیا کے قتل آخر کار کس نے کی؟ ہرین  پانڈیاکے والد وٹٹھل پانڈیا جب تک زندہ رہے سینہ ٹھوک اور ببانگ دہل یہ کہتے رہے کہ گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی نے ہی ان کے بیٹے کاقتل کروایا تھایہی نہیں ان کی اہلیہ جاگرتی پانڈیا نے اس قتل پر شک کا اظہار کرتے ہوئے اس کو سیاسی قتل قرار دیتے ہوئے گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی پر الزام لگائے تھے ، اس وقت این ڈی اے کی حکومت تھی اور اڈوانی وزیر داخلہ تھے اور مودی اڈوانی کے ہردل عزیز ۔اگرچہ اڈوانی نے اس قتل کو آئی ایس آئی کی سازش قرار دیا تھا۔
* گجرات ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہرین پانڈیا مرڈر کی بیوہ جاگرتی پانڈیا نے کیس کی دوبارہ جانچ کی مانگ کی ہے ۔انہوں نے کہا ، "آٹھ سال بعد میں نے اپنا صبر کھو دیا ہی۔ پیر کو عدالت کے فیصلے نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہرین کے اصل قاتل آج کھلے عام گھوم رہے ہیں جبکہ دوسرے لوگوں کو سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا اور غلطی سے قید کی سزا دی گئی۔ " جاگرتی اس قتل کے پورے آٹھ سال بعد میڈیا سے مخاطب ہوئی ہیں اگرچہ ایسی آس لگائی جارہی تھی کہ اس قتل سے پردہ اٹھے گا اور گجرات کی سیاست میں بھونچال آ جائے گالیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ کبھی بی جے پی کے وزیر داخلہ رہے لیکن اب بی جے پی سے نکالے گئے مہاگجرات جنتا دل کے صدر گوردھن جھڈافیا کی جاگرتی پانڈیا کے ساتھ چار گھنٹے میٹنگ بھی ہوئی تھی۔ تو کیا جاگرتی کو اپنا بیان بدلنے کے لیے دباؤ کی حکمت عملی اپنائی گئی؟ آخر کار جاگرتی نے عین وقت پر مودی یا اڈوانی سے مدد کیوں مانگ رہی ہی؟ سوال اس بات کا بھی ہے کہ کس کے اشارے پر اس کیس کو کمزور کیا گیا؟ لیکن ہرین پانڈیا کے قتل کی کئی پہلوؤں سے تحقیقات کرنے پر سوال کھڑا کرتی ہے ۔ان کے کپڑوں ، کار کی ڈرائیور سیٹ ، گلے ، سینے پر گولی کے نشان نہیں ہیں یہاں تک کہ جو گواہ کی گواہی ہے اس میں تضادات ہیں۔ان کے موبائل کی جانچ بھی صحیح نہیں ہوئی۔پوری جانچ میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی ہی۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ سچ کیا ہے ۔ گجرات حکومت نے جو سچ بیان کیا ہے اسے عدالت دروغ قرار دے چکی ہے ۔ دوسرا سچ رہ جاتا ہے ہرین پانڈیا کے والد وٹھل پانڈیا اور ان کی بیوہ جاگرتی بین کا بیان جنہوں نے نہ صرف ابتداء سے حکومت کے اقدامات پر سوالات کھڑے کئے بلکہ انہوں نے اس قتل کے لئے براہ راست مودی کو ذمہ دار قرار دیا ۔ہرین پانڈیا گجرات کے ایک ابھرتے ہوئے لیڈر تھے اور انہیں گجرات کے وزیر اعلی کے طور پر دیکھا جارہا تھا۔ظاہر سی بات ہے کہ خطرہ مسلمانوں کو نہیں تھا بلکہ مودی کو تھا کیوں کہ گجرات کااقتدار مسلمانوں کے ہاتھ میں نہیں آنے والا تھا اور نہ وہ ہرین پانڈیا کو روڑہ سمجھتے تھے کہ انہیں قتل کردیتی۔اس کے علاوہ جو اہم سوال اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ آخر مسلم نوجوانوں جھوٹے الزامات میں کب جیلوں میں سڑا یاجاتا رہے گا۔ گزشتہ فروری میں گودھرا واقعہ میں بھی یہی ہوا جن پر اہم ملزم ہونے کا دعوی کیا گیا تھا وہ اسے عدالت عالیہ نے بے قصور قرار دے دیا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان میں ایک ایسا میکانزم تیار کیا جائے جس میں ایسے افسران کے لئے سزا کا انتظام ہو جو مسلم نوجوانوں کو سازش کے تحت جیل میں بند کرکے ان کی زندگی برباد کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان خاطی افسران یا لیڈر کی تنخواہ سے ان متاثرہ نوجوانوں کی تلافی کی جائے اور ایسا میکانزم تیار کیا جائے  اور ایسی عبرتناک سزا دی جائے کہ جس سے افسران اس طرح کی حرکت دوبارہ نہ کرسکیں ۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.co

Comments