وقف ڈولپمنٹ اےجنسی کا قےام: کہےں وقف جائداد ہڑپنے کی سازش تو نہےں؟
تےشہ فکر عابد انورمسلمانوں کی کوئی بھی چےز ہو اسے ہندوستان مےں چوراہے پر پڑا ہوا سامان تصور کےا جاتا ہے جس کی مرضی ہو وہ لے جائے ، جس طرح چاہے سلوک کرے، کوئی اسے کہنے ، سننے اور دےکھنے والا نہےں ہوتااور نہ اس کے بارے مےں کوئی شنوائی ہوتی ہے۔ےہی حالت ہندوستان مےں وقف جائدادوں کی ہے۔ ان جائدادوں کے قابضےن مےں سبھی طبقہ کے لوگ شامل ہےں جہاں مسلم قائدےن کی مجرمانہ غفلت شامل ہے وہےں متولےوں اور وقف جائدادوں کی نگرانی کرنے والوںکی بدنےتی بھی قابضےن کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ابتداءہی سے وقف کے تعلق مسلم معاشرہ ، مسلم سےاست داں، حکومت کے وزراءاورافسران کا روےہ معاندانہ رہا ہے ۔ وقف بورڈ کی جائدادوں پر سب سے بڑا قابض مرکزی اور رےاست حکومت کی اےجنسےاں ،دہلی ڈےولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے)، وزارت دفاع اور رےاستوں کی ڈےولپمنٹ اتھارٹیز شامل ہےں۔ مہاراشٹر ہو ےا آندھرا پردےش، دہلی ےا ہو دےگر رےاستےں وہاں کی حکومتی اےجنسےوں نے سب سے زےادہ وقف بورڈ کی زمےنوں پر قبضہ کر رکھا ہے۔اس صورت © حال مےں مسلمان سات پشتوں تک ان جائدادوں کو وگزار نہےں کراسکتے جب تک کہ وہ حکومت ،وزرائے اورافسران کے انتخاب مےں اہم رول ادا نہےں کرنے والوں مےں شامل نہ ہوجائےں۔اس کے لئے جس چےز کی ضرورت ہے وہ اس وقت سردست مفقود ہے۔ حکومت اس شئی کوجو مسلمانوں کی خاصےت تھی پےدا نہ ہونے دےنے کے لئے سےکڑوں کروڑ روپے خرچ کر رہی ہے۔آج مسلمانوں مےں قومی و ملی تنظےموں کی بھرمار ہے لےکن ان مےں کوئی بھی اےک کام کی نہےں ہے اور نہ اب تک کسی تنظےم کے سرکسی سنہری کامےابی کا سہرا سج سکا ہے۔ اقتدار کے گلےاروں مےں مسلمانوں کی دلالی کرنے والوں کی فہرست اتنی طوےل ہے کئی دفتر درکار ہوں گے لےکن مسلمانوں کے لئے خلوص دل سے کام کرنے والے نہےں کے برابر ہےں۔ ہندو ہو ےا سکھ، جےن ےا بدھ کسی کی جائداد کے بارے مےں آپ نہےں سنےں گے کہ ان کی جائداد پر کسی نے قبضہ کرلےا ہے لےکن مسلمانوں کی مساجد و مقابرپر حکومت کی اےجنسےوں کا قبضہ ہے۔ اس کی بے حرمتی کی تو اجازت ہے لےکن اس مےں مسلمانوں کے لئے عبادت کی کوئی گنجائش نہےں۔ سےکڑوں مساجد آج مقفل ہےںلےکن اےک قرآن اور اےک اللہ اور اےک رسول کے ماننے والوں مےں وہ قوت نہےں کہ اس طرح کی آواز بلند کرسکےںکہ اےوان اقتدار مےں زلزلہ آجائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ کسی مسلم رہنما مےں رعد و برق کی کےفےت اسی وقت ہوگی جب وہ حکومت کے اےوان مےں سجدہ رےز نہےں ہوں گے آج تو ےہ حال ہے کہ ہرشخص نہ صرف سجدہ کرنے کے لئے تےار ہے بلکہ لےٹنے کے لئے اےک دوسرے پر سبقت حاصل کرتے ہےں۔
وقف کا تصور ابتداءاسلام سے موجود ہے ۔ جب مسلم حکمراں کوئی ادارہ قائم کرتے تھے اس کے تحت زمےن کا اےک حصہ بھی اس کے لئے وقف کردےتے تھے تاکہ اس زمےن کی آمدنی سے اس ادارے ، مساجد اور دےگر اداروں کا بسر اوقات ہوسکے۔ ہندوستان میں وقف کی شروعات اس وقت ہوئی جب انہوں نے ےہاں قدم رکھا۔ مسلم مذہبی مقامات کےا مندروں کو بھی بڑی تعداد جائدادےں عطا کی گئےں تاکہ وہ ان جائدادوں سے اپنے اخراجات پورے کرسکےں۔ جگہ جگہ جتنے بھی مذہبی مقامات ہےں خواہ وہ ہندو کے ہوں ےا مسلمان اس کے ساتھ جائداد بھی ہےں لےکن ہندوستان پرجب انگرےزوں نے قبضہ کےا توانہوںنے جس طرح مسلمانوں کو نشانہ بناےا اسی طرح مسلم جائدادوں کو جم کر لوٹا اور اسے کوڑےوں کے داموں مےں نےلام کردےا اور وقف جائدادوں کاحشر مسلمانوں کی طرح ہوگےا لےکن جےسے ہی حالات کچھ سازگار ہوئے تو وقف جائداد کے بارے مےں تھوڑی بہت توجہ دی جانے لگی اور ۰۲۹۱ کے بعد ریاستی و مرکزی قوانین کا مسودہ تیار ہوا تو اس مےں وقف کو بھی جگہ دی گئی اور وقف املاک کے رجسٹریشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیکن ناقص قوانین، قوانےن کے نفاذ مےں انتظامیہ کے عزم کا فقدان، مسلم سیاست دانوں کا غافلانہ رویہ، افسران کی مسلم دشمنی ، مسلم معاشرہ کی لاپرواہی، متولیوں کی بے حسی اور بے ایمانی ،ایسے بہت سے وجوہات تھے جس نے وقف املاک کو مسلسل نقصان پہنچانے اور خردبرد کرنے مےں اہم رول ادا کےا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف ریاستوں میں رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد 4.9 لاکھ سے زیادہ ہے۔ صرف مغربی بنگال میں سب سے زیادہ وقف املاک 148,200 ہےں۔ اس کے بعداترپردیش میں 122,839 وقف کی جائیدادہیں۔ اسی طرح دہلی، مہاراشٹر، کیرالہ، کرناٹک اور آندھرا پردیش جیسی ریاستوں میں بھی کافی بڑی تعداد میں وقف املاک ہیںجن کا مجموعی تخمینہ تقریبا ۶ لاکھ ہے۔ وقف املاک کی وسعت واہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد ہندوستان میںسب سے بڑی اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے۔ اگر ان اوقاف کا صحیح استعمال کیا جائے تو قوم و ملک کی حالت بدل سکتی ہے ۔
ہندوستان مےں وقف املاک کی صورت حال اورکےفےت اےسی سی ہے جس طرح مسلمانوں کی ہے۔ وقف املاک پر حکومت کی نظر بد ہمےشہ سے لگی رہی ہے۔ ورنہ کےا وجہ ہے کہ ۴۵۹۱ مےں وقف اےکٹ کی تشکےل کے بعد بھی آج تک وقف املاک واگزار نہےں کراےا جاسکا ہے۔ حکومت اور اس کی اےجنسےاں مختلف حےلوں اور بہانوں سے وقف جائداد ہڑپنے کے لئے کوشاں رہتی ہےں۔ وقف ڈےولپمنٹ اےجنسی کے شوشہ کو بھی اسی آئےنہ مےں دےکھنے کی ضرورت ہے۔ ےوں تو وقف بورڈ بےشتر رےاستوں مےں قائم ہے لےکن اس کی حالت لنگڑی لولی اور مکمل معذور کی طرح ہے ۔ اس کے اختےارکی ےہ حالت ہے کہ وہ اپنے بدن سے مکھی کو بھی نہےں بھگاسکتا ۔ دہلی مےں گزشتہ کئی سالوں سے حج کمےٹی اور وقف بورڈ تشکےل کے انتظار مےں ہے لےکن شےلا حکومت نے اس پر کوئی توجہ نہےں دی ۔ دہلی مےں مسلم ووٹوں کے دم پر حکومت کر نے والی کانگرےس پارٹی بی جے پی سے خوف زدہ کرکے مسلم ووٹ بٹور لےتی ہے لےکن جب کام کرنے کی باری آتی ہے تو مسلمانوں کوٹھےنگا دکھادےتی ہے۔ دہلی مےں ضمےر فروش اور ملت کے دلال مسلمانوں کی کمی نہےں ہے کسی کا بھی انتخاب کےا جاسکتا ہے۔ اس وقت وقف بورڈ کے اختےارات انتہائی محدود ہےںاس صورت مےں جب کہ مجوزہ وقف ڈےولپمنٹ اےجنسی کے۴۷ فےصد پرائےوےٹ سےکٹر کا ہوگا تو کےوں کر مسلمانوں کا فلاح کرےں گے۔ ےہی وجہ ہے مسلمانوں کا اےک بڑا طبقہ اور مسلم پرسنل لا بورڈ نے اس پر سخت اعتراض کےا ہے۔ بورڈ کا اعتراض ۵۹۹۱ کے وقف اےکٹ کی دفعہ ۷۸ کے سلسلے مےں ہے۔ اس کے مطابق جو وقف املاک رجسٹرڈ نہےں ہے اس کے بارے مےں کوئی مقدمہ عدالت مےں دائر نہےں کےا جاسکتا۔ حکومت کا خےال ہے کہ اس اےکٹ کے ذرےعہ سنٹرل وقف کونسل کو مضبوط بناےا جائے گا۔ وقف اےکٹ ۵۹۹۱ مےں ترمےم کے لئے بل راجےہ سبھا مےں زےر التوا ہے اور ےہ بل فی الحال راجےہ سبھا کی کمےٹی کے پاس ہے جس کے چےرمےن سےف الدےن سوز ہےں۔ ےہ بل لوک سبھا مےں گزشتہ سال ہی پاس ہوچکا ہے۔ ۶۰۰۲ مےں حکومت نے وقف جائدادوں کے تعلق سے اےک مشترکہ پارلےمانی کمےٹی تشکےل دی تھی جس کے چےرمےن کے رحمان خاں تھے۔ اس کمےٹی نے پورے ملک کادورہ کرکے وقف کی صورت حال کو جاننے کی کوشش کی تھی اور کمےٹی نے ۳۲ اکتوبر ۸۰۰۲ کو لوک سبھا اور راجےہ سبھا مےں پےش کردی تھی۔ اس رپورٹ مےں کہا گےا تھا کہ ملک مےں پھےلی ہوئی وقف جائدادوں مےں سے ۰۷ سے ۰۸ فےصد پر غاصبانہ قبضہ ہے ےا غےر قانونی تصرف مےں ہے۔ مشترکہ پارلےمانی کمےٹی نے اپنی رپورٹ مےں ےہ بھی کہا کہ اگرچہ وقف سے متعلق قانون ۴۵۹۱ سے نافذ ہے لےکن بدقسمتی سے ےہ قانون وقف جائدادوں کو واپس لےنے، قبضے ختم کرانے، خلاف قانون تصرف کو ختم کرانے مےں موثر ثابت نہےں ہوا ہے اور اسی طرح ۵۹۹۱ کا وقف اےکٹ بھی اسی طرح ناکام رہا ہے۔ مشترکہ پارلےمانی کمےٹی نے اپنے جائزہ مےں پاےا تھا کہ وقف بورڈ کے چےف اےگزی کےوٹےو افسر کے پاس اختےارات نہ ہونے کے سبب وہ وقف جائدادوں کو غاصبوں کے قبضہ سے آزاد کرانے مےں ناکام رہے ہےں اسی لئے اس کمےٹی نے اپنی تےسری رپورٹ مےں سفارش کی تھی کہ سےکشن ۴۵ مےں اےک نئے ذےلی سےکشن (۵) کا اضافہ کردےا جائے جس کی رو سے وقف بورڈ کے سی ای او کو وہی اختےارات دے دئے جائےں جو کلکٹر، اسسٹنٹ کلکٹر ، اےس ڈی اےم کے پاس ہےں لےکن حکومت نے اس سفارش کو اب تک نافذ نہےں کےا ہے۔ وقف بورڈ پر قبضہ کے معاملے مےں سب سے اعلی درجہ رےاست آندھرا پردےش کو حاصل ہے۔ آندھرا پردےش مےں تقرےباً اےک لاکھ ۵۴ ہزار ۴۴۵ اےکڑ وقف کی زمےن ہے جس مےں سے ۱۸ (اکےاسی) ہزار ۱۹۵ اےکڑ زمےنوں پرناجائز قبضہ ہے۔مہاراشٹر مےں وقف کی زمےن ۶۴ ہزار ۰۴۳ ہےکٹر ہے جس مےں سے ۰۷ فےصد زمےنوں پر ناجائز قبضہ ہے۔اسی طرح دےگر رےاستوں کا حال ہے جہاں حکومت ےا اس کی اےجنسےوں اور دےگر لوگوں نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔
اولاً کوئی مسلم افسر وقف جائداد کی بحالی کے لئے کوشش نہےں کرتا اگر کوئی کرتا بھی ہے اس کا تبادلہ اےسی جگہ کردےا جاتا ہے کہ آنے والاجانشےں اس ضمن سو بار سوچتا ہے اور مسلمانوں ےا وقف جائداد وگزار کے لئے کوئی کام نہےں کرتا۔ ےہی حال۸۰۰۲ مےں مہاراشٹر کے چےف اےگزی کےوٹےو افسر عبدالرﺅف شےخ کا ہوا تھا۔ انہوں نے مکےش امبانی کو ےتےم خانہ کی زمےن کو کوڑےوں کے بھاﺅ دےنے پر اعتراض کےا تھا جس کی وجہ سے ان کا تبادلہ کردےا گےا۔ اس گھپلے مےں سابق وزےر اعلی ولاس راﺅ دےش مکھ کا ہاتھ سمجھا جارہا ہے اور ےہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان کے اشارے پر سارا کام انجام دےاگےا۔ مہاراشٹر مےں وقف بورڈ کے ناجائز قبضہ کی وجہ سے مسلمانوں مےںشدےد ناراضگی پےدا ہوگئی تھی کہ وقف کی جائےداد پر مکےش امبانی کا محل تعمےر ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم تنظےموں نے احتجاج کےا کئی وفود نے وزےر اعلیٰ سے لےکر سونےا گاندھی تک کو بھی اس ضمن مےں آگاہ کےا لےکن کسی نے بھی اس پر کوئی توجہ نہےں دی ۔ واضح ر ہے کہ ۴۹۸۱ مےں حاجی کرےم اسماعےل ےوسف نے اپنی جائےداد مسلم ےتےم بچوں کےلئے وقف کی تھی پہلے انہوںنے ماٹونگا مےں مدرسہ شروع کےا تھا بعد مےں انہوںنے بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے ماٹونگا کی جگہ ۷۵۹۱ مےںفروخت کرکے پےڈر روڈ پر بڑی جگہ خرےد کر ےتےم خانہ شروع کےا تھا۔ ۷۵۹۱سے لےکر ۲۰۰۲تک سب ٹھےک طرےقے سے چل رہا تھا لےکن ۲۰۰۲ کے بعد کےسے مکےش امبانی نے اس جگہ کو اپنے قبضہ مےں لے لےا ہے جبکہ مرکزی وقف بورڈ نے اےک حکم جاری کےا تھا کہ کوئی بھی مسجد و مدرسہ ےتےم خانہ و قبرستان وقف بورڈ کی اجازت کے بغےر خرےد و فروخت نہےں کرسکتا ۔دہلی سے ممبئی آنے والی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے سامنے مہاراشٹر وقف بورڈ کے ذریعے کئی اراضیوں کی مبینہ خرید و فروخت اور زمینوں پر ناجائز قبضہ کی شکایات پیش کی گئی تھےں۔ امبانی کا محل تقرےباً تےار ہوچکا ہے اور لےکن اب تک ان کے خلاف کوئی کارورائی نہےں ہوئی ہے جب کہ آدرش گھپلے کا بہت شور ہے اور برق رفتار سے کارروائی جاری ہے لےکن وقف جائداد کے معاملے مےں مہاراشٹر حکومت کو سانپ سونگھ گےا ہے۔اس کا رقبہ 4,532 مربع فٹ ہے جسے ۱۲ کروڑ روپے مےں مکےش امبانی کو دےا گےا ہے جب کہ اس کی قےمت پانچ ہزار کروڑ روپے ہے۔
حکمراں ہونے کا احساس کس قدر انسان کو بے مروت ظالم و جابر اور ڈھےٹ بنا دےتا ہے اس کا اندازہ اب اترپردےش مےں لگاےا جاسکتا ہے۔ اب دلت بھی وقف جائدادوں پرقبضہ کرنے لگے ہےں۔ سہارنپور کے اےسے ہی ایک قبرستان پر اگےور پر ان دنوں دلت طبقہ کے لوگ اپنا قبضہ جمائے بےٹھے ہیں اور ضلع انظامیہ کو اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ وہ اس قبرستان سے دلتوں کا قبضہ ہٹاکر اسے مسلمانوں کے حوالے کرےں۔ جبکہ اس قبرستان پر ہائی کورٹ الہ آباد نے مسلمانوں کو اسٹے دے رکھا ہے۔ تب بھی ضلع انتظامیہ اس قبرستان کو مسلمانوں کے حوالے نہیں کررہی ہے۔ مشترکہ پارلےمانی کمیٹی کے ارکان کا کہنا تھا کہ آندھرا پردےش مےںایک مذہبی تعلیمی ادارے جامعہ نظامیہ کی 490 ایکڑ زمین پر حیدرآباد اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی نے قبضہ کرلیا ہے- اسی طرح درگاہ حسین شاہ ولی کی 1654 ایکڑ اراضی مختلف اداروں نے آپس میں بانٹ لی ہے۔ اس میں سے 250 ایکڑ زمین انڈین سکول آف بزنس کو ، 200 ایکڑ زمین مولانا آزاد یونیورسٹی اور 660 ایکڑ زمین ریاستی انڈسٹریل انفراسٹرکچر کارپوریشن کو دے دی گئی۔کمیٹی کے ارکان کا کہنا ہے کہ ان تمام جائیدادوں کے وقف املاک ہونے کا مکمل ثبوت اور ریکارڈ خود حکومت کے پاس موجود ہے۔وقف ایکٹ 1954میں ترمیم کے بعد ایک قانونی ادارہ کی حیثیت سے سینٹرل وقف کونسل کا قیام دسمبر 1964 میں عمل میں آیا۔ وقف ایکٹ 1954میں اوقاف کے سروے، سنٹرل وقف کونسل کی تشکیل اور ریاستی وقف بورڈوں کے قیام کی گنجائش پیدا کی گئی جس کے تحت ملک کی مختلف رےاستوں مےں وقف بورڈ کا قےام عمل مےں آےا تھا۔اب وقف ڈےولپمنٹ اےجنسی قائم کرکے وقف جائدادوں کو مکمل طور پر ہڑپنے کا منصوبہ بناےا گےا ہے۔ جس طرح اقلےتی مالےاتی کارپورےشن سے غےر مسلم اقلےتوں کا فلاح و بہبود راستہ ہموار کےا گےا اسی طرح اس طرح ےہ اےجنسی قائم کرکے مسلمانوں کو وقف جائدادوں بے دخل کرنے کی سازش رچی جارہی ہے جس مےں مسلم سےاست داں اورمسلم وزےر شامل ہےں۔ اگرحکومت وقف جائدادوںکا تحفظ اور اس سے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کرنا چاہتی ہے تو وقف بورڈ کو خودمختار بنانے کی سمت مےں قدم اٹھانا چاہئے جس مےں وقف بورڈ کو راست کارروائی کرنے کے اختےارات ©حاصل ہوں۔
عابد انور
ڈی۔۴۶، فلےٹ نمبر۔ ۰۱ ،ابوالفضل انکلےو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
E-mails
abidanwaruni@gmail.com
abid.anwar@yahoo.co.in
Comments
Post a Comment