مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بازار گرم کرنے میں ہندوستانی نظام بھی شامل




عابد انور

ہندوستان کی شناخت پوری دنیا میں کثیر جمہوری ملک، رنگارنگ تہذیب و ثقافت،کثیر مذہب و ملت، بہت سارے فرقے، مختلف زبانیں، مختلف نسل، مختلف عادات و اطوار، رہن سہن اور کثیرالجہات و کثیر النظریات کے حامل ملک کے طور پر ہے۔ جب لوگ یہاں آتے ہیں اور انہیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس طرح کے اتنے سارے لوگ رہتے ہیں تو انہیں تعجب ہوتا ہے اور وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہاں ایسے مذاہب کے لوگ بھی رہتے ہیں جن کے یہاں کسی جاندار کو مارنا گناہ عظیم ہے۔ اس مذہب کی بنیاد بھی یہی پڑی جس میں امن و شانتی کو خاص اہمیت حاصل ہے لیکن ان مذاہب کے بیشتر ماننے والوں کا رویہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جاندار کا قتل تو اس کے یہاں گناہ عظیم ہے لیکن مسلمانوں کا قتل یہ لوگ بہت شوق سے کرتے ہیں۔ امتیاز، تعصب، عدم مساوات بری چیز ہے لیکن یہ ہندوستانی سماج اور ہندوستانی حکومت خاصہ ہے۔ اگر یہاں میڈیا، مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کرے توان کے پیٹ میں درد ہونے لگتاہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کی آزادی کے بعد سے یہ شکایت رہی ہے جو شکایت نہیں بلکہ روز روشن اور چمکتے سورج کی مانند حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ہر شعبے میں امتیاز برتا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ کوئی بھی ناروا سلوک کرلے، مسلمانوں کے وقار سے کھیلے، ان کی عزت و آبرو کو سر ے بازار نیلام کرے، انہیں قتل کرے، ان کے مال و متاع پر قبضہ کرلے، سرکاری ایجنسی ان کے وقف املاک پر پولیس کی حفاظت میں ہتھیالے، تحفظ گاؤ کے نام پران کا جینا دو بھر دے اور زہریلی تقاریر اور نفرت پھیلانے والے نصاب تعلیم کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہندؤں میں زہر بھر دے لیکن آج تک کسی کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی۔ ششو مندر، سیوابھارت اور اس سیریز کے دوسرے اسکولوں میں مسلمانوں سے نفرت کرنے اور انہیں قتل کرنے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن پولیس، میڈیا، انتظامیہ مقننہ، عدلیہ کو کبھی کوئی قابل اعتراض چیز نظر آئی۔ سنگھ پریوار آرایس ایس کیمپ لگاکر کھلم کھلا اسلحہ چلانے کی تربیت دیتے ہیں، ہندو لڑکیوں (درگاہ واہنی)کو مسلمانوں کو قتل کرنے کے نام پر اسلحہ چلانے کی تربیت دی جاتی ہے جن کی تصاویر بھی اخبارات میں شائع ہوتی ہیں لیکن پولیس اور دیگر ایجنسی کو کبھی بھی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آتی۔ سنگھ پریوار کے گرگے پولیس کے سامنے دہشت گردانہ کارروائی انجام دیتے ہیں لیکن ہندوستان کے قانون میں وہ قوت نہیں کہ اس کا بال بھی باکا کرسکے۔ مسلمانوں پر مظالم اور ان کے خلاف کی گئی زہریلی تقریر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ اور یوٹیوب پر موجود ہے لیکن کسی کی نظر نہیں پڑتی اور نہ ہی کسی کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر بعض سنگھ پریوار سے وابستہ ا فراد ڈنکے کی چوٹ پر کھلم کھلا مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دینے اور ان پر ہر ظلم کو جائز قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔

نفرت انگیز تقریر کیا ہے اور کون سی چیزیں نفرت انگیز تقاریر، تفرقہ پھیلانے والے کلمات کے زمرے میں آتی ہیں۔ وکی پیڈیا کے مطابق وہ ایسی باتیں یا کلام کو کہتے ہیں جو کسی شخص یا گروہ کو نسل، رنگ، مذکر مونث، معذوری، جنسی سمت، قومیت، مذہب، یا کسی خواص کی بنا پر بدنام کرے۔قابل دراندازیِ قانونی تناظر میں نفرت انگیز باتیں ' ایسے ابلاغ، عمل یا مظاہر کو کہتے ہیں جو اس بنا پر غیر قانونی ہو کہ اس سے کسی فرد یا گروہ کے خلاف زیادتی پر اکسانے کا خدشہ ہو، یا یہ کسی کی تذلیل کرتا ہو یا انہیں دھمکاتا ڈراتا ہو۔ان الفاظ پر غور کریں تو ہندوستانی سیاسی پارٹیوں کا کوئی لیڈر نہیں بچے گا جو ان زمروں میں نہ آتاہو۔ خصوصاً بھارتیہ جنتا پارٹی، بجرنگ دل، مہاراشٹر نونرمان پارٹی اور دیگر پارٹیاں رات دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتی رہتی ہیں اور مسلمانوں کے نہ صرف مذہبی جذبات سے کھلواڑ کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں سے تمام حقوق چھین لینے کی بھی باتیں کرتی ہیں۔



ہندوستان میں آنے والا ہندوؤں کا ہر تہوار مسلمانوں کے لئے خوف و دہشت، مکانات کے انہدام، گرفتاری، مسلمانوں سے نفرت کے اظہارکی علامت اور وسیع پیمانے پر نفرت کی عبارت لکھتا ہے۔ گزشتہ 70برسوں سے گنگا جمنی تہذیب کے چکر میں مسلمان ان کو بھائی اور وہ مسلمانوں کو چارہ سمجھتے رہے۔ اب تو ہندوستان کا کوئی ایسا شعبہ نہیں بچا ہے جہاں پر اس فارمولہ پر عمل نہ ہوتا ہو۔ گزشتہ دنوں گزرنے والا دشہرہ کا تہوار مسلمانوں پر قہربن کر ٹوٹا، بجلی کے کھمبے سے باندھ کر مسلمانوں پر ڈنڈے برساتے پولیس انسپکٹر کی تصویر پوری دنیا نے دیکھ لی ہے۔اگر کسی کو نظر نہیں آیا تو وہ یہاں کا نظام اور عدالت ہے۔ جسے مسلمانوں کا ادنی سا قصور دنیا کا بڑا سب سے جرم نظر آتاہے۔ عمر خالد اور شرجیل امام کی بے ضرر تقریر دنیا کی خطرناک ترین نظر آتی ہے اور بی جے پی کے مرکزی وزراء ممبران پارلیمنٹ، اراکین اور اس کے لیڈران کی قتل عام کی دھمکی بھی اس کو جرم نہیں لگتا۔ دشہرہ اور اس کے آس پاس کے موقع پر کئے گئے اشتعال انگیز تقریر اور قتل عام کی دھمکی پر پولیس نے اب تک اپنی جانب سے ایف آئی آر تک درج کی ہے اگر اس کی جگہ کوئی مسلمان ہوتا ہے اب تک ان کا پورا خاندان حوالات کے پیچھے ہوتا ہے اور ان کا مکان منہدم کردیا گیا ہوتا۔ دشہرہ کے موقع پر پتھر بازی کے الزام میں مسلمانوں کے گھروں کو زمین بوس کردیا گیا۔ عدالت اس مکمل خاموش ہے۔ خاموشی کس چیز علامت ہے اس سے سب واقف ہیں۔ 

گزشتہ 22 اپریل  2022 کودہلی ہائی کورٹ نے دہلی فسادات سے متعلق سازش معاملہ کے ملزم عمر خالد کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) مخالف تحریک کے دوران اس کی تقریر کو جسٹس سدھارتھ مرڈول اور رجنیش بھٹناگر کی ڈویژن بنچ نے ناخوشگوار اور اشتعال انگیز قرار دیا۔عمر خالد کی 17 مارچ 2020 کی تقریر کے ایک خاص جملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ اظہار کی آزادی کے نام پر ایسی تقریر کرنا دنیا کے کسی کونے میں قابل قبول نہیں ہوگا۔ دہلی پولیس نے ستمبر 2020 میں عمر خالد (34) کو گرفتار کرکے اس پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت دفعات لگائی تھی۔ پولیس نے الزام لگایا تھاکہ دہلی فسادات ''پہلے سے منصوبہ بند، گہری سازش کا حصہ تھے جو عمر خالد اور دیگر نے رچی تھی۔عمر خالد کے دفاع میں اس کے وکیل نے کہا کہ وہ اس جرم کے لئے ان کے موکل کو سزا سنائی جا رہی ہے اس واقعہ کے وہ وقت دہلی میں بھی موجود نہیں تھے۔ پوری دہلی  میں تمام تشدد کی تقریباً 750ایف آئی آر درج کی گئیں۔ اچانک 6 مارچ کو یہ تازہ ایف آئی آر آتی ہے اور اس ایف آئی آر میں عمر خالد کا نام ظاہر ہوتا ہے۔ اس ایف آئی آر میں تین افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ' عدالت نے پوچھا چارج شیٹ داخل کر دی گئی ہے؟'  تو کون سی دفعات لگائی گئی ہیں جن کے ساتھ آپ پر الزام لگایا گیا ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ الزامات طے نہیں کئے گئے۔ جب دوبارہ الزامات سے متعلق سوال کیا گیا تو وکیل نے کہا کہ افواہ، مائی لارڈ۔عمر خالد کے وکیل نے بتایا کہ صرف ایک تقریر تھی۔ پولیس اس تقریر کے لئے درخواست کرنے والے ٹی وی چینلوں کے پاس گئی۔ چینلوں نے انہیں بتایا کہ انہیں یہ ایک سیاستدان سے ملا ہے۔ یہ تقریر امراوتی میں کی گئی تھی۔ انہوں نے کہا، ''اس کے علاوہ کوئی اور تقریر نہیں تھی۔تقریر ہندی میں ہے، خصوصی عدالت نے یہ نتیجہ بھی نہیں نکالا کہ تقریر اشتعال انگیز ہے۔'' اس کے بعد ڈویژن بنچ نے تقریر کا متن طلب کیا جسے عدالت کے سامنے ہندی میں پڑھا گیا۔



عمر خالد نے اپنی تقریر میں امراوتی کو اپنا گھر بتاتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں اس 'گھر واپسی' سے کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن انھیں دوسری 'گھر واپسی' سے مسئلہ ہے۔ان کے وکیل نے متن پڑھا اور بتایا کہ اپنی تقریر میں عمر خالد نے جدوجہد آزادی کے دوران برطانوی حکومت کے ساتھ آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا کے مبینہ روابط کا ذکر کیا تھا اور شاہین باغ میں ان تمام خواتین کا شکریہ ادا کیا جو ان کے خلاف پروپیگنڈے کے باوجود مظاہرہ پر بیٹھی تھیں۔وکیل نے تقریر کا اقتباس پڑھ کر سنایا جس میں لکھا تھا کہ ”دہشت کے اس دور میں اگر کسی نے باہر نکلنے کی جرات کی تو وہ شاہین باغ کی خواتین تھیں، انہوں نے شاہین باغ کو بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن شاہین باغ کو خاموش نہیں کرایا جاسکا۔ڈویژن بنچ یہاں بات روکتے ہوئے کہا کہ یہ جو تاثرات استعمال کیے جا رہے ہیں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس سے لوگوں کو اکسایا جا رہا ہے؟ کیا آپ کو یہ نہیں لگتا کہ 'جب آپ کے آباؤ اجداد انگریزوں کی دلالی کررہے تھے، اشتعال انگیز زبان ہے؟'' عدالت نے کہا کہ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ صرف ایک کمیونٹی انگریزوں کے خلاف لڑ رہی تھی۔ کیا گاندھی جی نے کبھی ایسی زبان استعمال کی تھی؟ کیا بھگت سنگھ نے کبھی اس کا استعمال کیا تھا؟ کیا گاندھی جی نے ہم سے یہی کہا تھا؟ ہمیں اظہار رائے کی آزادی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن یہ کیا زبان ہے؟ کیا آزادی اظہار ان بیانات کو وسعت دے سکتی ہے؟ کیا یہ 153A اور 153B کی دفعات سے میل کھاتا ہے؟اس جملے سے راست مطلب نہیں نکل رہا ہے تو عدالت بلاواسطہ مطلب نکال رہی ہے جب کپل مشرا کھلم کھلا دنگے کی دھمکی دیتا ہے اور اس پر عمل بھی ہوتا ہے اس کے باوجود عدالت کہتی ہے کہ انہوں نے ایسا ہنستے ہوئے کہا تھا۔ شرجیل امام اور عمر خالد کو اب تک ضمانت نہیں مل سکی ہے۔ عدالت ہر بار درخواست ضمانت مسترد کردیتی ہے۔کیا اسی طرح ہندوملزموں کے معاملے میں عدالت کا رویہ ہوتا ہے خواہ وہ کتنے بڑے خاطی کیوں نہ ہوں۔

دہلی پولیس نے 14 اپریل 2022کو سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ داخل کرتے ہوئے کہا تھا کہ گذشتہ سال دسمبر میں قومی راجدھانی میں منعقدہ ’دھرم سنسد‘  پروگرام میں مسلم برادری کے خلاف نسل کشی کی اپیل کرنے کا الزام بے بنیاد اور من گھڑت ہے۔ دہلی پولیس نے یہ بھی کہا تھا کہ شکایت بے بنیاد ہونے کے سبب اس کیس کو بند کر دیا گیا ہے۔حلف نامے میں دہلی پولیس نے کہا تھا کہ تقریر میں وہ الفاظ استعمال نہیں کیے گئے، جنھیں کسی مذہب، ذات یا نسل کے درمیان ماحول خراب کرنے کی کوشش سمجھا جائے۔دہلی میں دھرم سنسد کے دوران بیان بازی پر دہلی پولس کے جواب پر سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کی طرف سے دھرم سنسد کو دی گئی کلین چٹ پر سوالات اٹھائے گئے۔دہلی کے گووند پوری علاقے میں گزشتہ سال دسمبر میں منعقدہ دھرم سنسد میں کئی ہندو مذہبی رہنماؤں پر اشتعال انگیز تقریریں کرنے کا الزام ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے دہلی پولیس سے جواب طلب کیا تھا۔دہلی پولیس نے اپنے جواب میں کہا کہ تقریب کے دوران مسلم کمیونٹی کے خلاف کوئی قابل اعتراض بیان نہیں دیا گیااور یہ نفرت انگیز تقریر کے دائرے میں نہیں آتا۔دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں کہا کہ جو باتیں دھرم سنسدمیں کہی گئیں انہیں ایتھکس یعنی رسم ورواج اور اخلاقیات کہا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا کسی اعلیٰ افسر نے بھی یہ جواب دیکھا ہے! کیا اس نے اپنی صوابدید استعمال کی!دہلی پولیس کے وکیل نے کہا کہ ہم اس حلف نامہ کو دوبارہ دیکھیں گے اور نیا حلف نامہ داخل کریں گے۔یہاں بھی عدالت کی طرف سے صرف برہمی کا اظہار ہوتا ہے کارروائی نہیں ہوتی جب کہ مسلمانوں کے خلاف فوراً کارروائی کا حکم صادر جاتا ہے۔ سیکڑوں بے گناہ مسلم نوجوان کا سلاخوں کے پیچھے ہونا اور عدالت سے ضمانت نہ مل پاناعدالت کے دہرے رویے کا کھلم کھلا ثبوت ہے۔اشتعال انگیز تقریر کرنے والے اور قتل عام کی دھمکی دینے والوں کو عدالت فوراً ضمانت پر رہا کردیتی ہے۔ اسی طرح ہندو مہاسبھا کی قومی نائب صدر سادھوی دیوا ٹھاکر نے12 اپریل  میں 2015 ہندو مہاسبھا کے ایک لیڈر نے ایک متنازعہ بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر اس کمیونٹی کے لوگوں کو نس بندی سے گزرنا پڑے گا۔ ن لوگوں کی بڑھتی ہوئی آبادی ہندوؤں کے لیے خطرہ ہے۔، ”مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی دن بدن بڑھ رہی ہے۔ اس کو روکنے کے لیے مرکز کو ایمرجنسی نافذ کرنا ہوگی اور ان کی نس بندی کرنی ہوگی تاکہ ان کی آبادی میں اضافہ نہ ہو۔ ہندوؤں پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کریں تاکہ دنیا پر اس کا اثر پڑے۔ ایک اور متنازعہ بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ”مساجد اور گرجا گھروں میں دیوتاؤں کی مورتیاں نصب کی جانی چاہئیں۔“ انہوں نے ہریانہ میں ناتھورام گوڈسے کے مجسمے کی تنصیب کی بھرپور حمایت کی۔یہ بھی آزاد گھوم رہی ہیں۔ 


Comments

  1. بہت عمدہ اور جانباز صحافتی انداز کا مظاہرہ۔
    آپ نے موضوع کے تحت مکمل اور مدلل گفتگو لوگوں کے سامنے لائی ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کے خلاف نفرت انگیز بیانوں سلسلہ جاری ہے، اور اسکو ہر طرح کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس پر پر زور گفتگو ہونی چاہیے۔ بین الاقوامی سطح پر اس کے بارے میں کھل کر گفتگو کے لیے آپ کو مبارکباد۔ ساتھ ہی آپ نے عمر خالد اور شرجیل امام کی رہائی کے لیے بھی آواز اٹھائی اور اس سلسلے میں کورٹ کی سماعت ہمارے سامنے رکھی ۔ اس سلسلے میں کورٹ کا رویہ واقعی مایوس کن ہے۔ ک
    اللہ آپ کا اور ہم سب کا محافظ ہو۔ آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت بہت شکریہ، جزاک اللہ خیر، مزید موثر انداز میں آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔ خاموشی کسی مرض کا علاج نہیں

      Delete

Post a Comment