نریندر مودی ہندوستان کا کون سا قرض چکانا چاہتے ہیں؟

 



 عابد انور 

یہ مضمون 2013 میں لکھا گیا تھا۔

ہندوستان آزاد ی کے بعد سے ہی فرقہ پرستانہ سوچ رکھنے، امتیازی سلوک، تعصب برتنے اور انتہا پسندانہ نظریہ رکھنے والوں کے لئے زرخیز زمین ثابت ہوا ہے۔ جہاں کسی بھی طرح کی ناقض بیچ ڈالی جائے فصل لہلا اٹھتی ہے۔ ان کے حمایتی لاکھوں میں نہیں کڑوں میں ہوتے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف کوئی کچھ بھی بولے ان کی حمایت میں ان کے ارد گرد ایک ہجوم کھڑا ہوجاتا ہے۔ کل جسے کوئی جانتا تک نہیں تھا محض مسلم دشمنی کی وجہ سے راتوں رات ملک کا ہیرو بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ورون گاندھی پیلی بھیت سے اس لئے اپنا الیکشن جیتنے میں کامیاب ہوئے کہ انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں توڑ ڈالنے کی بات کہی تھی۔ قربان جائیے سیکولر پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو، نوجوان وزیر اعلی اکھلیش یادو کی حکومت اور پولیس پر کہ ان میں سکت نہیں تھی کہ وہ ورون گاندھی کی آواز کا نمونہ حاصل کرسکیں۔ اترپردیش کی حکومت ورون گاندھی سے اتنی ڈری سہمی ہوئی ہے کہ نہ صرف ان کی آواز کا نمونہ لینے سے قاصر رہی بلکہ نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل تک نہیں کی۔نچلی عدالت نے آواز کا نمونہ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ورون گاندھی کو اشتعال انگیز تقریر کے الزام سے بری کردیا ہے۔ اس طرح ایک دو نہیں کہ سیکڑوں کی تعداد میں رہنما ہیں جن کی روزی روٹی مسلم دشمنی سے چلتی ہے۔ ایسے رہنمانہ صرف یہاں کے ہیرو ہیں بلکہ میڈیا اور پولیس میں بھی انہیں احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ پولیس والے اگر کسی معاملے میں انہیں عدالت میں پیش کرتے بھی ہیں تو ایک مجرم کی طرح نہیں بلکہ ایک ہیرو کی طرح پیش کرتے ہیں اس کے برعکس اگر کسی مسلمان کو جھوٹے الزام میں حراست میں لیا جاتا ہے اور انہیں عدالت اس طرح پیش کیا جاتا ہے جیسے کہ ہندوستان میں اس سے بڑا خونخوار مجرم کوئی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کو عملی طور پر یہاں خلاف قانون نہیں سمجھا جاتا ہے ورنہ پروین توگڑیا، سادھوی رتھمبرا، اوما بھارتی، کلیان سنگھ، بی جے پی اورسنگھ پریوار کے سیکڑوں لیڈر جیل میں ہوتے۔ ہندوستان میں کوئی ایسا دن نہیں گزرتا جب یہاں مسلمانوں کی مذہبی عبادت گاہوں کو نقصان اور مقدس کتاب کی بے حرمتی نہ کی جاتی ہو۔ خصوصاً جب کوئی تہوار کاموقع آتاہے تومسلمانوں کے ساتھ خوشیاں بانٹنے سے زیادہ ان کی توجہ مسلمانوں کی عبادات گاہوں اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی کے طریقے ڈھونڈنے پر ہوتی ہے۔ہولی، رام نومی اور دیگر تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے کا خوف ستانے لگتا ہے۔اگر اس موقع پر کوئی سانحہ رونما ہوجائے توجانی و مالی نقصان تو مسلمانوں کا ہوتا ہی ہے ساتھ ہی گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہوتی ہیں۔ گزشتہ دنوں دھولیہ کے فسادات مارے بھی مسلمان گئے اور اب تک گرفتاریاں بھی مسلمانوں کی ہی ہورہی ہیں۔ قانون نافذکرنے والوں کوکیوں کہ کسی طرح کی کارروائی کا خوف نہیں ہوتا بلکہ پروموشن کا سنہرا موقع ملتا ہے جس طرح بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے خلاف فسادات میں اہم رول ادا کرنے والے پولیس افسران نہ صرف اعلی عہدوں پر پہنچے بلکہ ڈائرکٹر جنرل آف پولیس تک بنائے گئے۔ جہاں حکمرانوں کی یہ سوچ اور رویہ ہو وہاں پولیس والے مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم نہیں کریں گے تو کیا کریں گے۔ گزشتہ دس برسوں سے نریندر مودی کی ذہنیت کیفیت، رویہ، قانون کا احترام، مودی کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، بین الاقوامی سطحً پر مودی کی بے عزتی،کبھی موت کا سوداگر اور تو کبھی ’یمراج‘ (موت کا فرشتہ) جیسے مختلف وحشیانہ القاب سے نوازا گیا لیکن ان کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ اس سے انہیں ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں زبردست فائدہ ہوا اور وہ ہندوستان کے اسٹار سے سپراسٹار بنتے گئے اور گجرات میں مسلمانوں کا ناطقہ بند ہوتا گیا لیکن گجراتی اور ہندوستانی عوام میں مودی کے تئیں کسی طرح کی نفرت تو دور ناراضگی کا عنصر بھی نہیں پایا گیا انہیں ایک طرح سے بھگوان کا درجہ حاصل ہے۔ اب وہ گجرات کی خدمت کرنے کے بعد پورے ملک کی خدمت کرنے کے درپے ہیں۔ مودی کی خدمت کا مطلب کیا ہوتا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ اسی طرح جب گجرات فسادات کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے انہیں ’راج دھرم‘ نبھانے کی نصیحت کی تھی تو انہوں نے بے ساختہ  اور نہایت بے شرمی سے کہا تھا کہ ’میں راج دھرم ہی تو نبھا رہا ہوں‘ یعنی مسلمانوں کا قتل عام انجام دے کر راج دھرم ہی تو نبھایا ہے۔

نریندر مودی وزیر اعظم کے عہدے کی طرف چھلانگ لگاتے اور خود میاں مٹھو بنتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا گجرات کا قرض چکا دیاہے اور ہندوستان کا قرض چکانا ہے۔ گزشتہ چار اپریل کو گاندھی نگر میں نریندر مودی نے کہا، "لوگ کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی نے گجرات کا قرض چکا دیا ہے، اب ہندوستان کا قرض چکائیں گے۔یہ صرف مودی کی بات نہیں ہے، ملک کا ہر شہری ’بھارت ماتا‘کا مقروض ہے اور جب بھی موقع ملے، یہ قرض ادا کرنا اس کا فرض ہے۔(گویا وہ ہر ہندوستانی کو مسلمان کے قتل عام کی دعوت دے رہے ہیں)گجرات نے ہی ترقی کی سیاست پر قومی بحث کا ایجنڈا رکھا ہے اورآج ہمارے ملک میں اقتصادی مسائل پر بحث ہوتی ہے۔ گجرات کو اس پر فخر ہے۔اس سے پہلے پارٹی کے صدر راج ناتھ سنگھ نے نریندر مودی کوہندوستان کا سب سے مقبول لیڈر بتا چکے ہیں۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں جس طرح سے ہندو قوم پرست لیڈر نریندر مودی کو چوتھی بار کامیابی حاصل ہوئی ہے اس سے ان کی وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوار کے طور پر دعویداری تقریبا طے سی ہو گئی ہے۔ان کے سروے کے مطابق بہت بڑی تعداد میں لوگ راہل گاندھی کے مقابلے میں نریندر مودی کو پسند کرتے ہیں۔ بی جے پی کے 33 ویں یوم تاسیس پر احمد آباد میں پارٹی کے کارکنوں کی بڑی میٹنگ میں راہل گاندھی کے اس بیان کو آڑے ہاتھوں لیا جس میں انہوں نے ہندوستان کو مکھی کے چھتے کی طرح بتایا تھا۔بی جے پی صدر نے راہل گاندھی کے اس بیان پر بھی چٹکی لی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ گھوڑے پر سوار کوئی بھی شخص اقتدار میں آ کر ہندوستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتا۔ہندوستان وہم پھیلانے والوں کا بھی ملک ہے جہاں وہم کی دوکانداری بڑے پیمانے پر چلتی ہے اور یہاں باباؤں کا کاروبار اربوں روپے میں ہے۔ اسی لئے جب بھی کوئی حقیقت بیانی سے کام لیتا ہے۔ یہ توہم پرست ان کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ راہل گاندھی کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز کے ایک اجلاس میں حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے  یہ کہا  ”یہ سوچنا غلط ہوگا کہ سفید گھوڑے پر سوار کوئی شخص اس ملک کے مسائل کو حل کر دے گا...آپ کسی ایک شخص کو پوری طاقت دیں، لیکن وہ ایک ارب لوگوں کے مسائل کو نہیں سلجھا سکتے۔اگر آپ منموہن سنگھ یا کسی اور سے امید کرتے ہیں کہ وہ تمام مسائل کو سلجھا دے گا تو آپ توقع کرتے رہیے“۔ راہل گاندھی نے بے باک انداز میں کہا، "ہمیں اپنے بارے میں جتنا احساس ہے، ہم اس سے زیادہ طاقتورہیں..." چین ایک ڈریگن ہے، لوگ ہمیں ہاتھی کہہ کر پکارتے ہیں لیکن ہم شہد مکھی کا چھتہ ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہماری طاقت کہاں سے آتی ہے"۔ راہل گاندھی کا حقیقی چہرہ دکھانا نریندر مودی اینڈ پارٹی کو راس نہیں آیا۔ ہندوستان میں جو بھی آئینہ دکھائے گا بی جے پی اسے کاٹ کھائے گی۔ 

نریندر مودی کا یہ دعوی کہ انہوں نے گجرات کی بہت خدمت کرلی ہے اور اس کے صلے میں انہیں وزارت اعظمی کے تخت پر بٹھانا چاہئے۔جہاں تک گجرات کی ترقی بات سوال ہے وہ گیارہویں بارہویں صدی سے ہی تجارت کا مرکز رہا ہے اور اس وقت بھی مرکز ہے۔ اگر گجرات میں گدھے کو بھی وزارت اعلی کی کرسی پر بٹھادیاجائے تو گجرات ترقی کرے گا کیوں کہ تمام بنیادی ڈھانچے وہاں پہلے سے موجود ہیں۔ دوسری ریاستوں کی شرح ترقی سے موازانہ کیا جائے گا تو بات سمجھ میں آئے گی کہ گجرات میں کیا ترقی ہورہی ہے۔ بہار کی طرح گجرات میں بھی میڈیا کے سہارے ترقی ہورہی ہے۔ وہاں کی ترقی کی بات کی جائے گی تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ دس سال پہلے گجرات کہاں تھااور اس کے مقابلے میں اس وقت کہاں ہے اور دوسری ریاستیں دس سال پہلے کہاں کھڑی تھیں اور اس وقت کہاں کھڑی ہیں۔ یہ وقت اعداد و شمار پیش کرنے کا نہیں ہے اور اس پر کافی کچھ لکھا جاچکا ہے اس لئے صرف گجرات میں قرض کی صورت حال ایک رپورٹ پیش کی جارہی ہے۔ مودی نے گزشتہ 11 برسوں کے دوران گجرات کو بھاری قرض میں ڈبو دیا ہے۔ مودی نے 2001 میں جب پہلی بار وزیر اعلی کی کرسی سنبھالی تھی، اس وقت سے اب تک تک گجرات پر قرض کا بوجھ کئی گنا بڑھ چکا ہے۔گجرات پر قرض 2001-02 میں 45,301 کروڑ سے کئی گنا بڑھ کر 2013-14 میں 1.76 لاکھ کروڑ تک پہنچنے کا اندازہ ہے۔31 مارچ 2012 تک گجرات پر کل قرض 1,38,978 کروڑ تھا۔ اگرچہ گجرات کے مقابلے مغربی بنگال اور اترپردیش قرض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ مغربی بنگال پر 1,92,100 کروڑ، تو یوپی پر 1,58,400 کروڑ کا قرض ہے۔لیکن یہاں خاص بات یہ ہے کہ یہ دونوں ریاستیں خود کو 'مثالی ریاست' کی طرح پیش نہیں کرتی ہیں۔مودی اگر دہلی سفر کرتے ہیں، تو ہر گجراتی کے سر پر وہ قرض کا بھاری بوجھ چھوڑ جائیں گے۔ گجرات کی مکمل آبادی اگر 6 کروڑ مان لی جائے، تو ہر شخص کے سر پر تقریبا ً23،163 ہزار کا قرض ہوگا۔گجرات حکومت قرض پر 34.50 کروڑ یومیہ کے حساب سے بھاری   بھرکم سود چکا رہی ہے۔ گجرات حکومت کے بجٹ کے تخمینوں کے مطابق اس حساب سے 2015-16 تک ریاست پر قرض بڑھ کر 2,07,695 کروڑ ہو جائے گا۔خاص بات یہ ہے کہ یہ اس وقت ہے جب گجرات میں پیٹرول پر زیادہ ویٹ ہے اور گجرات ان چند گنے چنے ان ریاستوں میں سے ہے جو کھاد پر بھی ویٹ وصولتا ہے۔ اس رپورٹ سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ مودی کتنے عوامی اور فلاحی وزیر اعلی ہیں۔ صنعت کاروں کو ساری سہولتیں مہیا کردینے سے ریاست کی ترقی نہیں ہوتی بلکہ عوام کی ترقی سے ریاست کی ترقی ہوتی ہے۔ جہاں پیٹرول اور یہاں تک کھاد پر ویٹ ہو وہ ریاست فلاحی ریاست کیسے ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ لوک آیکت (محتسب) کی تقرری پر گزشتہ برسوں نریندر مودی کا جو رویہ سامنے آیا وہ آمریت والا ہے۔ نئے قانون کے تحت گورنر سے زیادہ طاقت وزیر اعلی کو حاصل ہے۔گجرات اسمبلی نے اس نئے احتسابی قانون کو منظوری دی ہے جس کے تحت اگر کوئی شخص اس کے تحت ہونے والی تفتیش کی خبر عام کرے گا تو اسے دو برس قید کی سزا ہوگی۔ریاست میں منظوری کئے جانے والے احتسابی کمیشن (لوک آیکت) کی تقتیش کے دوران اس سے متعلق کسی قسم کی معلومات میڈیا کو نہیں دی جائیں گی اور اگر کسی صحافی نے اس سے متعلق کوئی خبر شائع کی تو اسے دو برس تک کی سزا ہو سکتی ہے۔اس کمیٹی کے ذریعے منتخب کیے گئے افسران کے ناموں کو منظوری ریاستی گورنر دیں گے۔جو شخص لوک آیکت میں شکایت درج کرنا چاہتے ہیں انہیں اس کے لیے دو ہزار روپے فیس ادا کرنی ہوگی۔ اگر کسی شخص نے غلط شکایت کی تو اسے چھ ماہ قید اور پچیس ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔اس صورت میں کون شکایت کرنے کی ہمت کرے گا۔ 

اگر مودی ہندوستان کے وزیر اعظم بن گئے جس کا امکان یا خدشہ کم ہے تو ملک کا کیا حال ہوگا۔ پہلے تو صرف گجرات قتل عام کی وجہ سے ملک کے سابق وزیر اعظم چہرہ چھپا رہے تھے اس کے بعد ملک کے عوام کا کیا حال ہوگا۔ نریندر مودی کے اس کے بیان سے کہ میں گجرات کا قرض اتار دیا ہے اب ملک کا قرض اتار نا ہے اس پر ملک میں زبردست تشویش کن صورت حال ہے۔ اس پر اطلاعات اور نشریات کی وزیر منیش تیواری نے کہا تھاکہ مودی کی منشا ملک کے باقی حصوں میں گجرات میں 2002 میں ہوئے فسادات دہرانے کی لگتی ہے۔گجرات کے وزیر اعلی کے بیانات پر کبھی کبھی بہت فکر ہوتی ہے.. اور فکر اس بات کی ہے کہ شاید ہندوستان میں یا باقی حصوں میں ان کی وہی کرنے کی منشا نہ ہو جو انہوں نے گجرات میں 2002 میں کیا تھا۔ مودی کے اس بیان سے تشویش کا اظہار بجا ہے کیوں کہ اس نے گجرات عام کے خاطیوں کو ہمیشہ تحفظ فراہم کیا ہے اور انصاف پانے والوں کو پریشان کرنے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی جس پر سپریم کورٹ نے بار ہا تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مودی کو پھٹکار بھی لگائی لیکن فاسشٹ کی خوبی یہی ہوتی ہے کہ اس پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ اس سے خوش ہوتاہے۔ مودی نے کبھی بھی مسلمانوں کی ترقی کی بات نہیں کی۔ مودی نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ ایک ارب ہندوستانی کی فلاح چاہتے ہیں جب کہ ہندوستان کی آبادی 2011 کی مردم شماری کے مطابق  ایک ارب 21 کروڑ ہے۔ تو اس بار بھی انہوں نے اس میں مسلمانوں کو نظر انداز کرکے ہندوستان کی ترقی کی بات کی ہے۔ 

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مودی کو آگے بڑھانے کا مقصد جہاں ہندوتو کے ووٹ اکٹھا کرنا ہے وہیں یہ پیغام بھی دینا ہے کہ ملک کے سامنے صرف مودی ہی متبادل ہیں۔ جس کے پاس نئے آئیڈیاز ہیں، نئی سوچ اور نئی فکر ہے۔ نریندر مودی کی فکر کہاں سے شروع ہوتی ہے اور کہاں ختم ہوتی ہے یہ اہل رائے کو معلوم ہے۔ بی جے پی میں ایک بڑا طبقہ نریندر مودی کو وزیر اعظم کی کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتا کیوں کہ نریندر مودی کا تعلق او بی سی سے ہے اور برہمن طبقہ یہ کبھی نہیں چاہے گا کہ مودی ملک کے وزیر اعظم بنیں یہی وجہ ہے بی جے پی کے اندر سے بار بار کئی نام ابھرکر سامنے آتے رہتے ہیں اور بی جے پی کے یوم تاسیس پر ہی ایل کے اڈوانی کا نام ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا۔ کانگریس کی بھی خواہش ہے کہ نریندر مودی کے نام خوب اچھالاجائے تاکہ وہ سیکولر اور خصوصاً مسلم ووٹوں کو مودی کا خوف دکھاکر اپنی طرف کھینچ سکیں۔ ہندوستانی سیاست کا کھیل ہی نرالا ہے یہاں ترقی کے موضوع پر ذات پات، مذہب، ایک دوسرے کی تنزلی کے موضوع کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ملک کے عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ نریندر مودی کو ملک کا قرض کا ادا کرنے سے باز رکھیں ورنہ ہندوستان کی شناخت کثیر جمہوری اور سیکولر ملک کی نہیں فسطائی طورپر ہوگی۔

Comments