عابد انور
ملک میں حالیہ اختتام پذیرپانچ ریاستی اسمبلی انتخابات نے الیکشن کی اہمیت اور معنویت کو ختم کردیا ہے۔ یہ نظریہ بہار میں 2020میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کے نتیجے آنے کے بعد سے فروغ پانے لگا تھا۔ بہارمیں جس طرح الیکشن میں دھاندلی ہوئی تھی، کھلم کھلا فتحیاب امیدوار شکت خورد قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد لوگوں کی زبان میں یہ بات آنے لگی تھی کہ جب ایسا کرنا ہی تھا تو پھر الیکشن کا ڈھونگ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ حکومت کا اربوں روپے کیوں ضائع کئے گئے تھے۔ اس دھاندلی کا ساتھ یہاں کی گودی عدالت نے دیا تھا۔ جو امیدووار جیتے ہوئے تھے اور بعد میں شکست خوردہ قرار دیاگیا، ان لوگوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایالیکن عدالت کوئی فیصلہ نہیں دے سکی بلکہ اسے زیر التوا رکھ دیا۔ اس کے بعد اگر فیصلہ شکست خوردہ امیدوار کے حق آتا بھی ہے تو اس سے کیا فرق پڑے گا اورحکومت جس کی بننی تھی وہ بن گئی اور جو کام کرنا تھا وہ کام کرچکے۔ عدالت کی منشا کو سمجھنے کے لئے دفعہ 370کے خاتمہ کے خلاف عدالت عظمی میں دائر اپیل کا التوا، قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے) تبلیغی جماعت کے خلاف میڈیا کے زہرے پروپیگنڈہ کے خلاف عرضی کا زیر التوا ہونا، تین طلاق قانون پر کوئی فیصلہ نہ آنا، مسلمانوں کے خلاف امتیاز کے قانون کے خلاف عدالت میں دائر عرضی پر کوئی فیصلہ نہ آنا۔ یہ سب ثابت کرتا ہے کہ حکومت کے ہر غلط قدم کا عدالت کا ساتھ ہے۔ عدالت کا دفعہ 370کے خلاف عرضی پر کوئی روک نہ لگانا اور نہ ہی سماعت کرنا اور حکومت کو وہاں اپنی من مانی کرنے کی کھلی چھوٹ دے دینا یہ کیا ثابت کرتا ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ ہندوستانی عدالت اپنا وقار کھوچکی ہے اور عملی طور پر گودی عدالت میں تبدیل ہوگئی ہے اس لئے ملک میں مظلوم بلک رہے ہیں اور ظالم شیطانی قہقہے لگا رہے ہیں۔ کسان کو تھار سے روندنے والے کو چار ماہ میں ضمانت مل جاتی ہے اور بے قصور شرجیل امام، عمر خالد، گلشفاں، عشرت جہاں (اب ضمانت ہوچکی ہے)، خالد سیفی اور درجنوں مسلم نوجوان جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور ان کے بارے میں کئی بار عدالت نے پولیس کے کردارپر سخت تبصرہ بھی کیا ہے لیکن ان میں سے کسی کو ضمانت نہیں دی ہے کیوں کہ یہ حکومت کی منشا نہیں ہے۔ شرجیل امام کو جس معاملے میں ان کو گرفتار کیا گیا ہے اگر جرم ثابت ہوگا تو زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا ہوگی اور وہ دو سال سے زائد کی سزا کاٹ چکا ہے۔ آگے اگر عدلت بے قصور ثابت کردے گی تو اس سے کیا فرق پڑے گا وہ تو ناکردہ گناہوں کی سزا تو کاٹ چکا۔ یہ پہلا کیس نہیں ہے اس طرح معاملے آزادی کے بعد ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ جہاں عدالت نے 20,،20 سال تک جیل میں سڑانے کے بعد بری کردیا۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے وی وی پیٹ کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں دے سکا۔ جب کہ عرضی گزاروں نے بہت پہلے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے اپیل کی تھی کہ وی وی پیٹ کو ووٹ کے ساتھ شمارکیا جائے تاکہ ای وی ایم کی معتبریت برقرار رہے اور حکومت کو انتظام کرنے کے لئے کافی وقت مل جائے لیکن اس باربھی ایسا ہی ہوا۔ سپریم کورٹ 8مارچ 2022تک کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر رہا۔ اگر وی وی پیٹ کی شماری کا فیصلہ سپریم کورٹ دے دیتا تو آج اترپردیش کے نتائج کچھ اور ہوتے۔
ہندوستان میں گزشتہ سات آٹھ برسوں کے دوران سارے ادارے مرچکے ہیں، صرف بورڈ بچا ہے اور وہ صرف اور صرف بی جے پی کے لئے کام کرتے ہیں۔ خواہ ریزرو بینک ہو، یادیگر مالی ادارے، جانچ ایجنسیاں ہوں یا الیکشن کمیشن، تعلیمی ادارے ہوں یا سیکورٹی کے ادارے تمام اپنی موت مرکر صرف اور صرف بی جے پی منشا پوری کرنے کے لئے حالت نزع میں ہیں۔ کوئی ملک برباد اس لئے نہیں ہوتا وہاں کوئی آفت آجاتی ہے بلکہ اس لئے ہوتا کہ وہاں کے نظام ناکارہ ہوچکے ہوتے ہیں۔ناکارہ نظام کی بنیادپر ہی ملک تباہ وبرباد ہوتا ہے۔ یہاں کا تو یہ حال ہے کہ ہر شاخ پر الو بیٹھا ہے۔ یہاں کے عوام نے ہر شاخ سے الو بھگانے کے لئے کوئی کام نہیں کیا بلکہ یہ کوشش کی کہ ہر شاخ پر بیٹھے الو کو کوئی تکلیف نہ ہو بلکہ انہیں بھگوان کا درجہ دے دیا۔ ہر مصیبت کو بھگوان کی مرضی سمجھ لیا۔ آج صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری، تحفظ، خاص طور پر خواتین کا تحفظ،صحت اور تعلیم کوئی موضوع نہیں رہا۔ بلکہ بے روزگاری، مہنگائی، تحفظ اور خواتین کے تحفظ کی بات کرنے والوں کو آج گالیاں دی جارہی ہیں۔ انہیں بھلا برا کہا جارہا ہے اور ملک کو بربادی کے دہانے پر پہنچانے والوں کے سر پر تاج رکھا جارہا ہے، ان کی شان میں قصیدے پڑھے جارہے ہیں۔ جہاں اس طرح کے حالات ہوں وہاں حق کی بات کرنے والوں کا کیا انجام ہوگا یہ سمجھا جاسکتا ہے۔
الیکشن کے دوران جس طرح قانون کی دھجیاں وزیر اعظم سے لیکر وزیر داخلہ تک اڑائی ہیں انہیں دیکھ کر کوئی مہذب ملک شرمندہ ہوسکتا ہے لیکن جب ایسے گالی گلوج کرنے والے اور قانون کو انگوٹھا دکھانے والوں کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہو تو پھر قانون کی کون پرواہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پورے اسمبلی الیکشن کے دوران حکمراں ٹولے نے مسلمانوں کو گالی دینے، کاٹنے، مارنے، ان کی بہو بیٹوں کی عزت تار تار کرنے اور انہیں بھگانے تک کی دھمکیاں دیتے رہے اور الیکشن کمیشن خاموش تمشائی بنا رہا۔ بلکہ ایسا محسوس ہوا کہ ملک میں الیکشن کمیشن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ یا نظام نام کی کوئی شئی یہاں نہیں ہے۔ جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہے بھینس اسی کی ہے۔ قانون اسی کا ہے، عدالت اسی کی ہے۔ سارا نظام اسی کا ہے اس لئے اترپردیش اسمبلی انتخابات کے دوران کوئی نظام دیکھنے کو نہیں ملابلکہ سارے نظام بی جے پی کے لئے دل کھول کر کام کرتے نظرآئے۔ ایسی حالت میں جب جمہوریت کے چاروں ستون فسطائی طاقتوں کے ساتھ ہوں کس میں ہمت ہے کہ وہ مقابلہ کرے اور فتح حاصل کرے۔ ہندوستان میں ایک طبقہ کو کچھ بھی کہنے، کرنے، لکھنے اور بولنے کی مکمل آزادی ہے خواہ اس سے کسی کو تکلیف پہنچے، کسی کی دل آزاری ہو، کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچے اور یا کسی طبقہ کا اس کے اس بیان سے ناطقہ بند ہوجائے کوئی فرقہ نہیں پڑتا۔ اس طبقہ کے سامنے ہندوستان کا آئین ہمیشہ بوناثابت ہوا ہے۔یہ طبقہ کو ئی اور نہیں سنگھ پریوار کا گروہ ہے جس میں بی جے پی سمیت درجنوں تنظیمیں شامل ہیں۔ جن لوگوں کو جیل میں ہونا چاہئے کہ وہ آج دندناتے پھر رہے ہیں۔کیوں کہ ہندوستان کے99 فیصد افسران کے دلوں میں ان لوگوں کے لئے نرم گوشہ ہے یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کا بال بھی باکا نہیں ہوپاتا۔ ان کے گناہوں کو بھی ہندو سماج کو بیدار کرنے کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ یہاں کی ریاستی حکومتیں جس طرح چاہتی ہیں مسلمانوں کے خلاف قانون وضع کرلیتی ہیں۔ انسانوں کے قاتل آرام سے چھوٹ جاتے ہیں کیوں کہ ان کا تعلق سنگھ پریوار سے ہوتا ہے لیکن جانوروں کو مبینہ طور پر ذبح کرنے کے جرم میں مدھیہ پردیش میں مسلمانوں کے لئے سات سال کی سزا ہے۔دن کے اجالے میں 26 اگست 2006کو اے بی وی پی کے غنڈوں نے پروفیسر سبھروال کو قتل کردیا لیکن وہ سب کے سب بری ہوگئے کیوں کہ ریاستی حکومت نے ان غندوں کو بچانے کی انتھک کوشش کی۔ ایک بار پھربھارتیہ جنتا پارٹی نے یوپی اسمبلی انتخابات میں رام مندر کے معاملے کو اٹھایا ہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہوئے مسلمانوں کو دئے گئے ساڑھے چار فیصد ریزرویشن کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔نوکریوں کے بجائے ہندو نوجوانوں کو نفرت پھیلانے کے لئے بھیج دیا۔ آج وہ بھگوا گمچھا اوڑھے اور جے شرم رام کے نعرے لگاتے ہوئے مسلم نوجوانوں پر حملہ آور ہیں۔ مسلم لڑکیوں کی آبروریزی کرنا ان کا نصب العین ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) واضح اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آچکی ہے۔ای وی ایم کی مہربانی کہا جائے یا عوام کی حمایت دونوں کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے لیکن یہ بات تو طے ہے گزشتہ سات آٹھ برسوں میں نفرت اور جہالت کی جو کھیتی بی جے پی اور سنگھ پریوار نے کی ہے وہ لہلہارہی ہے۔ ان کے دماغ یہ بات بیٹھا دی گئی کہ اگر سماج وادی پارٹی کی حکومت آگئی تو مسلمانوں کا راج آجائے گا۔ 2017میں بھی سنگھ پریوار اور بی جے پی اترپردیش کے عوام کے دلوں میں یہی بات بیٹھا دی تھی کہ سماج وادی حکومت کے دوران مسلمانوں کا آتنک (دہشت) تھا جب کہ اعداد و شمار یہ کہتے ہیں کہ سماج وادی پارٹی کی حکومت کے دوران مسلمانوں کو ہر سطح پر ستایا گیا لیکن اکثریت کا مزاج منطقی نہیں ہوتا۔ مسلمانوں کے تعلق ان سے یہ کہا جائے گا کہ دو دو پانچ ہوتے ہیں تو اس پروہ اعتراض نہیں کریں گے اور نہ یہ کہیں گے کہ دو دو چار ہوتا ہے۔ کسی ملک میں جہالت کی کھیتی اس قدر نہیں لہلہاتی جس طرح ہندوستان میں لہلہاتی ہے۔ نفرت، تشدداور جہالت کے لئے ہندوستان کی زمین زرخیز ثابت ہوئی ہے۔اپنے محسنوں کو پیروں تلے روندنے میں یہاں کے عوام کا یقین پختہ ہے۔
ظاہر سی بات ہے کہ بی جے پی نے سماج وادی پارٹی کو شکست دینے کے لئے مختلف پارٹیوں کو میدان میں اتارا تھا جنہوں نے اپنا کام پوری ایمانداری سے کیا۔ بی جے پی کی کامیابی میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین، پیس پارٹی، عام آدمی پارٹی،بی ایس پی اور دیگر علاقائی پارٹیوں نے بہت تعاون کیا۔ پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات نتائج سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ٹی ایم سی اور عام آدمی پارٹی نے خاص طور پر کانگریس کی قبر کھود کر بی جے پی کی جیت کی راہ ہموار کی۔ ان پارٹیوں اور ان کے حامیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون جیتا کون ہارا لیکن مسلمانوں کو بہت فرق پڑتا ہے کہ کون جیتا۔ مسلمانوں کے پاس متبادل نہیں ہے۔ ان کے صرف ہی ایک متبادل ہے کہ بدترین دشمن میں سے بدتر دشمن کو منتخب کریں۔
مظلومین کا آخری سہارا عدالتیں ہوتی ہیں۔ لیکن اب یہ عدالتیں ایک خاص گروہ کے دباؤ میں ہیں انہیں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت، وطن عزیز بھارت ک لیے یہ بہت بڑا خطرہ ہے۔ روڑانہ اقلیتوں کے
ReplyDeleteحقوق کی پامالی ہوتی ہے، کوئی دیکھنے والا نہیں۔ پتہ نہیں اس ملک کا مستقبل کیا ہونے جارہا ہے؟ عدالتیں بی معنی، الیکشن ایک مزاق، عوامی مفاد
والے ادارے بے اثر،
بہت اہم مضمون پڑھنے کو ملا
عابد صاحب کا شکریہ۔
بہت عمدہ۔ ہمہ جائزہ۔
ReplyDeleteThat's great thought
ReplyDelete