عابد انور
عراق، شام، فلسطین، افغانستان جنگ میں سب سے زیادہ متاثر اور ہلاک خواتین اور بچے ہی ہوئے ہیں۔ اب روس اور یوکرین کے درمیان جنگ جاری ہے اور وہاں بھی سب سے زیادہ متاثر خواتین اور بچے ہی ہورہے ہیں۔ فلسطین اور شام کے بچوں کی ہلاکت کے بارے میں کافی خبریں شائع ہوئی ہیں لیکن دنیا نے خاطر خواہ اورقابل توجہ ردعمل کا اظہار نہیں کیا اور صرف مذمت کرنے تک ہی محدود رہی اب جب کہ یوکرین میں جنگ جاری ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہی پڑ رہا ہے اور دنیا بلبلا رہی ہے اور اسے اب انسانیت نظر آرہی ہے جب کہ عراق، شام، فلسطین اور افغانستان کے بارے میں ان کے اندر انسانیت دم توڑ چکی تھی۔ بہر حال جنگ کہیں بھی ہو یہ مسئلہ کا حل قطعی نہیں ہوسکتا اور اس کی ہر حال میں مذمت اور اسے ختم کرنے کے راستے اختیار کئے جانے چاہئے۔ گرچہ یہ مضمون پرانا ہے لیکن حالات کا پردہ چاک تو کرتا ہی ہے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں شاید خواتین اور بچوں کے درد کے کو سمجھ سکیں۔
ابھی حال ہی میں تشدد سے روک تھام سے متعلق خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔جس میں کئی اہم پہلو روشنی ڈالی گئی لیکن یہ بات طے ہے کہ کوئی بھی آفت آئے، وباآئے، کوئی مصیبت، نقل مکانی کا مسئلہ ہو یا ہجرت کا سب سے زیادہ متاثر خواتین ہی ہوتی ہیں۔ عالمی وبا کورونا وائرس کاسب سے خراب پہلو بھی خواتین سے متعلق ہے۔ اس دوران جہاں خواتین سے متعلق دیگر جرائم میں کمی واقع ہوئی وہیں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد اور جنسی میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ کورونا وائرس اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کے سبب خواتین کو سب سے زیادہ گھریلو تشدد سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ کورونا میں لاک ڈاؤن کے دوران فرانس میں گھریلو تشدد میں 32 فیصد کا دیکھا گیا جب کہ برطانیہ میں اس سے متعلق بنائے گئے ہاٹ لائن پر65 فیصد زیادہ شکایتیں در ج کی گئی تھیں۔اسی طرح کناڈہ میں خواتین کے ساتھ 20 سے لیکر 30فیصد گھریلو تشدد کے معاملات سامنے آئے ہیں۔ کناڈا کی جنسی امتیاز پر مبنی امور کی وزیر مریم منصف نے اعتراف کیا ہے کہ کورونا میں لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد کے معاملات بڑھے ہیں۔ اسی طرح امریکہ، ہندوستان، مشرق وسطی کے ممالک، یوروپ اور دنیا کے دیگر ممالک میں خواتین کے ساتھ گھریلو تشدداور جنسی زیادتی کے معاملات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
دنیا کے تقریباً تمام ممالک کاخواہ وہ ترقی یافتہ ہوں یا تیزی سے ترقی پذیر یا تیسری دنیا کے ممالک۔تشدد، استحصال، عدم مساوات، امتیاز ا ور صحت عامہ ایک ایسا سنگین مسئلہ ہے جس کی قیمت ان ممالک کے افراد کو بہر صورت چکانی پڑتی ہے۔ یہ ایسا جسمانی روحانی زخم چھوڑتا ہے جسے کبھی بھرا نہیں جاسکتا، تشدد کا شکار اکثر وبیشترغربت کے شکار افراد ہوتے ہیں۔ مبہم اقتصادی پالیسی، غیر یقینی سیاسی حالات، معاشرتی پیچ و خم، ثقافتی نظریات کی بناء پر پھیلی دنیا بھر میں ناراضگی، اور تشدد دوسروں کے مقابلے میں عورتوں اور بچوں پر زیادہ قہر برپا کرتے ہیں۔ یہ تشدد عورتوں کی زندگی کے ہر پہلو کو اور ہرمرحلہ پر زبردست نقصان پہنچاتاہے جس کی وجہ سے نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں پر اس کی مار کا خدشہ دوگنا زیادہ رہتا ہے۔ دنیا کے کچھ حصوں میں خاص کر جنوبی ایشیا میں لڑکیوں کو رحم مادر میں مار ڈالنا، نوزائیدہ بچیوں کا قتل تشدد کا منھ بولتا ثبوت ہے۔برطانوی طبی جریدے,,برٹش میڈیکل ریسرچ“ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مرنے والے بچوں میں سے بچیوں کی تعداد زیادہ تھیں جو اچانک اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر موت کا شکار ہوگئیں۔ جریدے کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی وجوہات میں سماجی ناہمواری، سہولتوں کا فقدان، معاشرتی محرومیاں ہیں۔ گزشتہ پانچ برس کے دوران لڑکیوں کے شرح اموات لڑکوں کے شرح اموات سے ایک تہائی زیادہ تھی۔
دوسرے شعبے میں تشدد بظاہر کم دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے اثرات کم نہیں ہوتے، غذا کی عدم دستیابی، طبی خدمات کا فقدان اور سہولتوں سے محرومی کی وجہ سے بے شمار چھوٹے بچے خاموشی کے ساتھ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔یہ چھوٹی بچیوں کے لئے اور بھی زیادہ خطرہ کی بات ہوتی ہے نوزائیدہ اور چھوٹے بچوں کو تشدد کا پہلا سامنا سب سے پہلے اپنے والدین سے ہوتا ہے۔عدم مساوات اور استحصال کی وجہ سے خواتین کی کمزور حیثیت (بے سہارا ہونا)بچوں کے لئے اور بھی خطرہ بن جاتی ہے۔ خواتین کی خراب صحت، ایام حمل میں مقوی غذا کی کمی، زچگی کے دوران صحیح دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے ہرسال 80 لاکھ مردہ بچے پیدا ہوتے ہیں یا پیدا ہوتے ہی مرجاتے ہیں۔ نگاراگوا میں ایک مطالعہ سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اپنے شریک حیات کے ہاتھوں جنسی تشدد کی شکار خواتین کے بچوں کی پانچ سال کی عمر سے پہلے موت کا اندیشہ دوسرے بچوں کے مقابلے میں چھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔جنسی تعلقات کے معاملے میں جبر کا شکار ہونے والی خواتین کے بچے نقص تغذیہ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری اور دیگر امراض کی زد میں ہوتے ہیں۔ ایسے بچوں کا بیماری سے لڑنے کے لئے لگائے جانے والے ٹیکے یا دست ہونے پر او آر ایس سے علاج کا امکان بھی کم رہتا ہے۔
گھریلوتشدد کا معاملہ، صحت، قانونی، اقتصادی، تعلیمی اور ترقی اور اس سے بھی زیادہ انسانی حقوق سے جڑا ہوا ہے۔یہ تہذیب، درجہ بندی، تعلیمی سطح، آمدنی، ذات پات اور عمر کی قید سے آزاد ہے۔ عام طور پر پردہ کے پیچھے نظرانداز کئے جانے کے باوجود سب سے بھیانک شکل نظر آہی جاتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق صرف امریکہ میں ہر سال 20 سے 40 لاکھ عورتیں اپنے شوہروں کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔دنیا میں تمام کلچر خواہ ترقی یافتہ یا غیر ترقی یافتہ، ترقی یافتہ ممالک ہوں یا ترقی پذیر، تمام مسابقے،تمام پیشے، تمام آمدنی سطح اور تمام عمر کے لوگوں کے درمیان ہر پندرہ (۵۱) سیکنڈ میں خواتین کو اس کے شوہر، اس کے دوست، عاشق اور پارٹنر کے ذریعہ تشدد، مار پیٹ اور دوسری اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
امریکہ میں ہر نو (9) سیکنڈ میں ایک عورت کے ساتھ جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، البانی کریک نامی ادارہ کے مطابق آسٹریلیا میں 60 فیصد لوگوں نے تسلیم کیا ہے کہ عورتوں پر تشدد کے موجودہ سطح میں 14 فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور32 فیصد خواتین کو کبھی نہ کبھی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ میں ہی ہر دن چار اور سالانہ1400 عورتیں گھریلو زدوکوب میں ہلاک ہوتی ہیں۔ان میں زیادہ تر ہاتھ ان کے شوہر یا بوائے فرینڈ کا ہوتا ہے۔ امریکہ جیسے کھلے معاشرہ میں جہاں کسی عورت کے ساتھ مرضی سے مباشرت جرم کے زمرہ میں داخل نہیں ہے، وہاں ہر سال ایک لاکھ 32 ہزار خواتین عصمت دری اور عصمت دری کی کوشش کا شکار ہوتی ہیں۔ عصمت دری کرنے والوں میں آدھے سے زیادہ آشنا ہوتے ہیں، بہت سی خواتین دو سے چھ بار اس استحصال کا شکار ہوتی ہیں لیکن اس کی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔ ہر سال 12 لاکھ خواتین جبری آبروریزی کی زد میں آتی ہیں، دست درازی کرنے والے یہاں بھی پرانے پہچان والے یا نئے دوست ہوتے ہیں۔ اس طرح کے تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں میں نوجوان، اکیلی رہنے والی، مطلقہ، کم آمدنی والی اور کنواری ہوتی ہیں۔ بیس سے چالیس لاکھ امریکی خواتین کو مار پیٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان میں سے ایک لاکھ ستر (70) ہزار سنگین زخمی ہوتی ہیں۔
گھر کے اندر تشدد بچے کی زندگی اور ان کی نشو ونما کے لئے بے حد خطرناک ہے۔ تشدد کا سامنا کرنے والے اور تشدد کا مشاہدہ کرنے والے بچے مختلف بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کی عادات و اطوار کے نشو و نما میں کئی طرح کے مسائل حائل ہوتے ہیں۔ وہ گھریلو تشدد کی وجہ سے اپنا سہارا گھر کے باہر تلاش کرتے ہیں۔ جن لوگوں کی پناہ میں بچے جاتے ہیں بالآخر وہی ان بچوں کا جنسی و جسمانی استحصال کرتے ہیں اور بچوں کے حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہیں،جنسی و جسمانی تشدد کے شکار یہ بچے اتنے خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہوتے ہیں کہ تاحیات وہ کسی پر بھروسہ نہیں کرپاتے اور نہ کسی سے ان کے گہرے تعلقات ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی کو اپنا جگری دوست نہیں بناتے ہیں۔ جب کہ صحت مند زندگی، جسمانی و دماغی نشو ونما کے لئے کسی کو دوست بنانا، ایک دوسرے کا دکھ درد باٹنا نہایت ضروری ہے ورنہ معمول کی زندگی نہیں رہتی۔
اسے سب سے زیادہ بدقسمتی اور افسوسناک صورت حال ہی کہاجائے گاکہ بچوں اور خواتین کے لئے جنہیں سب سے زیادہ محفوظ مقام اورپناہگاہ تصور کیاجاتاہے وہیں انہیں سب سے زیادہ خطرہ،استحصال،ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ جگہ ان کا گھر ہوتا ہے جہاں عورتیں بڑی شان و شوکت سے رہتی ہیں لیکن انہیں سب سے زیادہ جنسی استحصال کا شکار یہیں ہوناپڑتا ہے۔ کبھی دیور سے تو کبھی جیٹھ سے، کبھی خسر سے تو کبھی دوسرے قریبی رشتہ داروں تو کبھی شوہروں کے دوستوں سے،یہاں تک کے لڑکی اب اپنے باپ سے محفوظ نہیں رہی۔ ایسے درجنوں خبریں ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں جہاں سگا باپ یا سوتیلا باپ بیٹی کو اپنی ہوس کا شکار بناتا ہے۔
عورتوں کے تئیں تشدد کا موازانہ بچوں کے تئیں تشدد سے ہوتاہے کیوں کہ بڑے بچوں کے سامنے منفی رویہ اور بدسلوکی بچوں کے لئے نمونہ عمل بن جاتا ہے۔ گھریلو تشددسے متاثرہ خاندانوں میں بڑے بچے چھوٹے بچوں کو اسی طرح تشدد کا شکار بناتے ہیں جس طرح وہ بنتے ہیں۔ اس طرح تشدد کا سلسلہ نسل درنسل منتقل ہوتا رہتا ہے۔اس گردابی سلسلہ کو سمجھداری اور جنسی امتیاز کو ختم کرکے ہی توڑا جاسکتا ہے۔اس کاسب سے بہترطریقہ ہے کہ خواتین کو تعلیم یافتہ اور بااختیار بنایاجائے اور خاندان کے ہر فیصلے میں انہیں شریک کیا جائے۔ مرد و خواتین کے مابین اختیارات کا توازن برقرار رکھا جائے۔
امریکی خواتین کی ایک نیشنل آرگنازیشن فور وومین کے ایک جائزے کے مطابق جب یہ بچے یہ ہولناک تشدد ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان کی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ جو بچے بار بار اس طرح کے تشدد کو دیکھتے ہیں ان کا اثر ان کی جوانی میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ وہی جرم اوروہی تشدد کا ارتکاب وہ کرتے ہیں جو انہوں نے بچپن میں دیکھا ہے۔ تشدد زدہ خواتین کے بارے میں آرگنائزیشن نے اپنے تجزیہ میں کہا ہے کہ جو خواتین بار بار تشدد کا شکار ہوتی ہیں انہیں اپنی صحت کی دیکھ بھال ان عورتوں کے مقابلے میں زیادہ کرنی پڑتی ہیں جنہیں تشدد کا سامنا کم کرنا پڑتا ہے۔ ۷۱ فیصدحاملہ خواتین تشدد کی رپورٹ درج کراتی ہیں ان میں یا تو ان کا حمل ساقط ہوجاتا ہے یا مردہ بچے کو جنم دیتی ہیں یا کم وزن والے بچے کو جنم دیتی ہیں۔
غربت اور تشدد کے جال کو توڑنے کے لئے زندگی کے ابتدائی ایام میں جدوجہد شروع کردینی چاہئے اور جتنی جلد شروع کی جائے اسی قدر بہتر ہوگا۔ بچوں کو ابتدائی عمر میں جس طرح دیکھ بھال کریں گے وہ ملک و قوم کے لئے اتنا ہی مفید ثابت ہوں گے۔ ملک و قوم کی خوش آئند مستقبل کے لئے بچوں کوصحت مند ماحول ملنا از حد ضروری ہے۔ کوئی بھی ملک چاہے وہ کتنا ہی امیر اور ترقی یافتہ کیوں نہ ہو اگر عدم مساوات، مسموم فضا، مکدر حالات اور بچوں کے لئے ناسازگار ماحول ہو تو وہ ملک کھوکھلا ہوجاتا ہے۔ جس ملک میں چھوٹے بچوں کے ساتھ جتنی زیادتیاں ہوتی ہیں اس کا مستقبل اتنا ہی خراب ہوتا ہے۔ جو ملک بچوں کی ابتدائی زندگی سنوارتا ہے درحقیقت وہ ملک کی جڑیں مضبوط کر رہا ہوتا ہے۔
Very informative article.
ReplyDeleteبہت عمدہ اور قارئ کے لیے نہایت ہی مفید اور اہمیت کا حامل مضمون۔
ReplyDeleteبچے جو کل کے مستقبل ہیں اور مائیں جو کل کے مستقبل کا پالن و پوسن ہار ہیں، آج دونوں تشدد کا شکار ہیں۔ یہ ایک فکر کا لمحہ۔
بہت حساس موضوع پر جناب عابد انور صاحب نے ایک پر مغز تحریر سے ہمیں مستفید ہونے کا موقع عنایت کیا۔ آپ محفوظ رہیں ، آپ کے علم میں اضافہ در اضافہ ہو۔
آمین
Bahut bahut shukriya
Delete