عابد انور
اچاریہ وشنو گپت چانکیہ نے آج سے 2300 سے زائد برس قبل کہا تھا کہ کوئی بھی انقلاب اسی وقت آسکتا ہے اور کامیاب ہوسکتا ہے جب عوام کو اس کی ضرورت ہو۔ اگر عوام کو اس کی ضرورت نہیں ہے تو کوئی بھی تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ اچاریہ چانکیہ نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب نند خاندان کی حکومت کو مگدھ سے اکھاڑ پھینکنے اور چندر گپت موریہ کو راجہ بنانے کے لئے وہ ان کی تعلیم و تربیت کر رہے تھے اور انہوں نے اپنے شاگرد سے کہا تھا کہ اس انقلاب کوکامیاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ اسے عوام کی مکمل تائید و حمایت حاصل ہو اور عوام کو یہ محسوس ہوکہ یہ کامیابی اس کے حق میں مفید ثابت ہوگی۔ اس نظریہ کو موجودہ ہندوستانی تناظر اور ہندوستانی عوام کے نظریہ کے آئینہ میں دیکھا جائے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام میں اپنے حقوق، مہنگائی اور بدعنوانی کے تئیں حد درجہ بے حسی ہے۔ ہندوستانی عوام نے انتخابات میں کبھی بھی ان موضوعات پر ووٹ نہیں ڈالے اورہمیشہ دلکش اور اشتعال انگیز موضوع پر ووٹ دیتے آئے ہیں مذہبی اشتعال میں آکر لاکھوں کی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور اس قدر بھیڑ اکٹھاہوجاتی ہے کہ شہر کے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے لیکن اپنے حقوق کی دستیابی، مہنگائی اور بدعنوانی کے خلاف اتنی بڑی تعداد میں سڑکوں پر نہیں اترتے اگر کبھی جمع بھی ہوئے تو قابل ذکر مجمع نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی۔گزشتہ سات برسوں سے صورت حال اس قدر خراب ہے کہ ملک کی ہر بربادی کو مذہب کے ریپر میں لپیٹ پر پیش کردیا جاتا ہے۔ یہاں کے عوام کو یہ بات سمجھا دی جاتی ہے کہ مہنگائی ملک کے مفاد میں ہے اور یہاں کے عوام بلاچون چرا تسلیم کرلیتے ہیں۔ سڑکوں پر جان دے دیتے ہیں لیکن اف تک نہیں کرتے، نوٹ بندی کے دوران سیکڑوں لوگوں نے لائن میں لگ کر اپنی جان گنوادی لیکن اف تک نہیں کہا۔ جی ایس ٹی نے لوگوں کے کاروبار اور تجارت و صنعت کو تباہ کردیا لیکن لوگوں میں کوئی جنبش نہیں ہوئی۔ کورونا کی پہلی لہر اور لاک ڈاؤن کے دوران ہزاروں لوگوں نے سڑکوں پر دم توڑ دیا۔ درجنوں ریل کی پٹریوں پر کٹ کر مرگئے، سیکڑوں لوگ سڑک حادثے میں جاں بحق ہوگئے، 90سے زیادہ تو صرف ٹرینوں میں بھوک کے سبب ہلاک ہوگئے تھے لیکن ماتھے پر بل نہیں پڑا تھا۔ اب دوسری لہر کے دوران لاکھوں لوگوں نے آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ گئے۔ ہزاروں لوگ ایمبولینس میں اسپتال میں بستر نہ ملنے پرتڑپ تڑپ کر مرگئے پھر بھی لوگوں میں کوئی غصہ، یا نفرت پیدا نہیں ہوا۔ لوگوں کو آخری رسومات کے حق محروم کردیا گیا لیک پھر ماتھے پر کوئی شکن نمودار نہیں ہوا۔ لاشوں کی بے حرمتی کی گئی، لاشوں کو کورا گاڑی سے پھینک دیا گیا، گنگا اور یمنا کے کنارے آدھے مدفون لاشوں سے چنریاں اور کفن تک کھینچ لی گئی لیکن لوگوں میں کوئی ابال نہیں آیا۔ اس لئے کہ ایسے لوگوں میں کبھی ابال آئے گا بھی نہیں۔ کیوں کہ ان کو یہ سمجھا دیاگیا ہے کہ یہ ہندو کے ’ہت‘ (مفاد) میں بہتر ہے۔ اس لئے آج 35روپے کا پیٹرول سو سے زائد روپے میں خرید رہے ہیں۔ غذائی اشیاء کی قیمت آسمان چھورہی ہے۔ خوردنی تیل کی دوگنی تین ہوگئی ہے لیکن حکومت پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑ رہا ہے۔ حکومت پر اثر اس وقت پڑتا جب مہنگائی کا اثر عوام پر ہوتا لیکن یہاں بے حسی اس قدر تھوپ دی گئی ہے کہ ہر قتل، ہر مہنگائی، ہر آبرویزی، ہر ظلم و انصافی قوم و مذہب کے مفاد سے وابستہ کردیا گیا ہے اگر یہیاں کے اکثریتی عوام کایہ بتادیا جائے کہ ان کے کھال کو ادھیڑنا مذہب کے اور قوم کے مفاد میں ہے تو وہ بلاچون و چرا کھال ادھیڑوانے کے لئے تیار ہوجائیں گے۔ کسان تحریک کے دوران اڈانی اور امبانی کے سامانوں کے بائیکاٹ سے جو نقصان امبانی اڈانی کو ہوا تھا حکومت نے خوردنی تیل کی قیمت میں دوگنی اضافہ کرکے ان دونوں کی پھرپائی کردی ہے۔ تمام خوردنی اشیاء کی قیمت آسمان چھو رہی ہے لیکن یہاں کے عوام سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ مذہب، ہندوتوا، دیش بھگتی کا افیم چٹا دیا گیا ہے اور یہاں کی اکثریت اس کے نشے میں مست ہے اور وہ کہہ رہی ہے کہ پانچ سو روپے بھی پیٹرول ہوجائے پھر بھی مودی کو ووٹ دیں گے تو ایسی قوم سے کسی بہتری اور انقلاب کی امید کیسے جاسکتی ہے۔ اگر ہندوستان میں مسلمان نہیں ہوتے تو انگریزوں سے یہ ملک کبھی چھٹکارا حاصل نہیں کرپاتا۔ ملک میں آج تک کسی الیکشن میں بدعنوانی، بے روزگاری تعلیم، مہنگی تعلیم اور مہنگائی کبھی بھی اہم موضوع نہیں رہا۔
اہم بات یہ ہے پہلے بھی مہنگائی بڑھتی تھی، لوگوں سڑکوں پر نکلتے تھے۔ پوری دنیا میں اس پر بحث ہوتی تھی۔ ہندوستان اس پر زبردست بحث ہوتی تھی، عالمی برادری عالمی پلیٹ فارم پر مہنگائی پر اظہار خیال کرتے تھے۔ یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ رہی ہے اور ترقی یافتہ ممالک سمیت تمام ممالک کو افراط زر کے بے قابو ہونے کا سامنا ہے۔ سبھی ممالک اس پر تشویش کا اظہار بھی کررہے ہیں اور اس کے روک تھام کے لئے اپائے بھی لیکن اس وقت ہندوستان میں اس پر کوئی بحث نہیں ہورہی ہے۔ پوری دنیامیں مہنگائی کے خلاف حکومت نے جنگ چھیر رکھی ہے لیکن مہنگائی ہے کہ کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔ خاص کر ان ممالک میں جہاں کاشت کاری کم ہوتی ہے یا وہ ممالک جو اناج کے معاملے میں خود کفیل نہیں ہیں۔مگر ہندوستان نہ صرف اناج کے معاملے خود کفیل ہے بلکہ دوسروں ملکوں کو اناج بھی برآمد کرتا ہے۔اس کے باوجود یہاں بھکمری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ بہبت سارے معاملے میں خودکھیل ہونے کے باوجود ہندوستان کی حالت دیگر ہے یہاں روز اول سے ہی بیگاری کامعاملہ رہا ہے یہاں پسینے خشک ہونے سے پہلے مزدوروں کی مزدوری کی ادائیگی تو دور کی بات مزدوروں کا خون نچوڑ لینے میں یقین رکھتے ہیں۔یہاں کے مالکان مزدوروں کے خون اور پسینے پر عیش کرتے ہیں اور استحصال کرنا تو یہ اپنا پیدائشی حق گردانتے ہیں لاکھوں ٹن اناج سڑ جاتا ہے لیکن غریبوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کے استحصال کے سب سے زیادہ واقعات ہندوستان میں ہوتے ہیں اور نوکروں کے ہاتھوں مالکوں کا قتل بھی۔
مہنگائی سے جس طرح دامن بچانے کی کوشش کی جارہی ہے مہنگائی ہے کہ لپٹتی ہی جارہی ہے وجہ یہ ہے کہ یہاں کبھی بھی کسی فساد کی جڑ پر وار نہیں کیا گیا کہ بلکہ اس ٹہنی کاٹی گئی۔ مہنگائی کے معاملے میں بھی ہندوستانی حکومت کا یہی رویہ ہے۔ ہندوستان وہ ملک جو اناج کے معاملے میں خود کفیل ہے یہاں سے اناج اور دیگر غذائی اشیاء بیرون ملک کو برآمد کی جاتی ہیں۔یہاں زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے وہ نشیبی علاقے جہاں سالوں سال پانی لگا رہتا تھایا سال میں صرف ایک فصل ہوا کرتی تھی آج ان زمینوں میں سال میں تین فصلیں اگائی جارہی ہیں اگر پیداوار میں کہیں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی تو مہنگائی بڑھنے کی وجہ کیا ہے۔ مہنگائی بڑھنے کی واحد وجہ جمع خوری اور قیمتوں کا بے لگام ہونا ہے۔ مرکزی حکومت ہو یا ریاستی حکومت قیمت پر کوئی کنٹرول نہیں کرتی۔ دنیا کے تمام ممالک میں صنعتی گھرانے اقدار کے حامل ہوتے ہیں اولاً کوالٹی سے کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے، دوم پیداوار پر آنے والے اخراجات کے حساب سے قیمت کا تعین کرتے ہیں، سوم وزن کا خاص خیال رکھتے ہیں جو کے عین اسلام کے مطابق ہے۔ لیکن ہندوستان میں ہوتا کیا ہے جتنے صنعتی گھرانے ان میں تقریباً سب میں پیسے کمانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے چاہے وہ طریقہ جائز یا ناجائز، عوام کو چاہے کتنی ہی قیمت کیوں نہ ادا کرنا پڑے، ان کی تجوری لبالب ہونی چاہئے اور اس کے لئے نہ تو کوالٹی کا خیال رکھتے ہیں، نہ وزن کا اور نہ ہی قیمت کا۔ جن اشیاء پر دو روپے کے اخراجات آتے ہیں اس کی مارکیٹ میں قیمت دس روپے سے لے کر 25 روپے تک ہوتی ہے۔ کچھ سال قبل سابق مرکزی وزیر کمیکل اور فرٹیلائزر رم والاس پاسوان نے جب یہ دیکھا کہ جو دوائیاں بازار میں 25 روپے میں ملتی ہیں اس کے اخراجات پر بہ مشکل دو روپے خرچ ہوتے ہیں تو ان کی حیرانی کی انتہاء نہ رہی اور انہوں نے اس سمت میں قدم اٹھانے کااشارہ بھی دیا لیکن ہندوستان کے بنیوں کی بنیاگری کا کیا کہئیے وہ اچھے اچھوں کو خاموش کردیتے ہیں یہاں بھی یہی ہوا۔ ہندوستان کا انتخابی سسٹم تمام بدعنوانی کے لئے ذمہ دار ہے۔ یہاں انتخابی نظام نے ہندوستانی صنعت کاروں کو من مانی کرنے کا کھلا راستہ فراہم کیا ہے۔ جب صنعتی گھرانے اور بنئیے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کو خطیر رقم کا چندہ دیں گے تو حکومت ان صنعت کاروں اور بنیوں پر نکیل کیسے کس سکتی ہے اور صنعتی گھرانوں اور بنیوں کو ہندوستان میں من مانی کرنے کا موقع ملتا ہے اور جس طرح چاہتے ہیں وہ قیمت کا تعین کرتے ہیں کوئی دیکھنے والا نہیں ہوتا ایسا بھی نہیں ہے کہ کوئی دیکھنے والا نہیں ہے حکومت نے اس کے لئے شعبہ قائم کر رکھے ہیں لیکن یہاں بدعنوانی کا اژدھا ان افسران کو نگل لیتا ہے اور افسران میں بل میں ہوتے ہیں اور اژدہا آزاد گھومتا ہے۔
ان دنوں پورے ملک کے کسان کھاد کی قلت سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے مکا، گیہوں اور دوسرے اناج کی کھیتی تباہی کے دہانے پرپہنچ گئی ہے۔ کھاد نہ ملنے کی وجہ سے وہ کھیت میں فصل کی آبپاشی نہیں کرپارہے ہیں اورنہ ہی کھاد ڈال پارہے ہیں۔صبح ہوتے ہی کسان دکان کے سامنے لائن لگاکر کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن انہیں کھاد نہیں ملتا۔کھادکے لئے دوڑ رہے ہیں لیکن اب تک کھاد نہیں مل پایا ہے اور کھاد کے بغیر کھیتی برباد ہورہی ہے۔ کھاد کی کالابازاری عروج پر ہے۔ دو سو روپے کا کھاد چھ سو روپے میں مل رہا ہے لیکن عوام کا غصہ دوکاندار پر نکلتا ہے لیکن عوام حکومت کے تئیں خاموش ہوجاتے ہیں۔ عوام میں کسی طرح کا اشتعال نہیں ہے۔ ایک ہزار کے کھاد کی بوری کی قیمت 1800روپے ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ایسے عوام سے کسی طرح کے انقلاب کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔
پیٹرولیم کے اشیاء کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی کا سید ھا واسط ہے لیکن مہنگائی اسی طرح بڑھنے چاہئے جس طرح پیٹرول ڈیزل کی قیمت۔ ان اشیاء کی قیمت بڑھنے سے تمام ضروری خوردنی اشیاء پر فی کلو حساب سے لاگت ۵ پیسے سے ۰۱ پیسے صرفہ آتا ہے کیوں کہ مال ڈھلائی کا بھاڑا اس سے زیادہ نہیں ہوتا تو پھر یہاں ایک کلو پر20 روپے سے 30 روپے کیسے قیمت بڑھ جاتی ہے جب کہ حکومت نے امپورٹ ڈیوٹی میں کمی کے علاوہ تاجروں کو کئی ٹیکسوں کیں راحت دی ہے لیکن پھر قیمت آسمان کیوں چھورہی ہے۔ تھوک بازار میں جو چیزیں ۳۳ روپے فی کلو ہے وہ دکانوں میں آکر 50ن روپے کلو کیسے ہوجاتی ہیں۔ مہنگائی کی وجہ صرف جمع خوری اور بنیوں کی من مانی ہے اگر اس پرقدغن لگایا جائے تو مہنگائی خود بخود قابو میں آجائے گی۔ملک میں مہنگائی کبھی موضوع بحث نہیں ہوتی ہے اس لئے یہاں بنیوں کو عوام کا خون نچوڑنے کا سنہری موقع ملتا ہے اور جب عوام میں بے حسی، دماغ میں گوبر بھرا ہو، گوموتر پر ان کا ایقان ہو تو کسی بھی سنجیدہ موضوع بحث ممکن ہی نہیں ہے۔ ایسا اب یقین ہونے لگا ہے کہ ہندوستان اپنے قدیم رواج،طرز زندگی اور منو سمرتی کے دور میں واپس جارہاہے جہاں انسان کا زندہ رہنا ہی بڑی غنیمت اور احسان سمجھا جاتا تھا۔
9810372335
Comments
Post a Comment