عابد انور
ہندوستان میں صحیح معنوں میں سیاست وہی کرسکتا ہے جن کے پاس نہ ظرف ہو،نہ ضمیرہو، نہ اخلاق،نہ قدریں، نہ سماجی سروکار اور نہ ہی کسی طرح کی سیاسی قدریں ہوں۔ بے پیندے کا لوٹا بننا بدرجہ اتم آتا ہو۔ وہی یہاں کامیاب سیاست داں بن سکتا ہے۔ گزشتہ ستر سال کی سیاست پر ایک نظر ڈالیں تو پہلے اخلاقی قدریں پائی جاتی تھیں، ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، ان کے سامنے ملک پہلے ہوتا تھا اور اقتدار بعد میں لیکن جب سے نیو انڈیا کا چلن عام ہوا ہے اور علاقائی پارٹیوں کا عروج ہوا ہے اسی کے ساتھ اخلاقی اور سیاسی قدریں بھی مٹی میں مل گئی ہیں۔ کسی کو کسی کی فکر نہیں، حصول اقتدار ہی سب سے بڑی کامیابی رہ گئی ہے خواہ اس کے لاشوں کا انبار لگانا پڑے، خون کی ندیاں بہانی پڑے یا خون کی ہولی کھلینی پڑے، کسی پارٹی کو اس سے گریز نہیں ہے۔گزشتہ تین چار دہائیوں سے اس میں زبردست اضافہ ہوا ہے کیوں کہ یہاں کی عدالت اور سسٹم نے ایسے لوگوں کو سزا دینے کے بجائے اس کی پشت پناہی کی اور ان کے ہر گناہ کو ’پنیہ‘ (ثواب) گردانا۔ کبھی بھی کسی مجرم کو مجرم نہیں سمجھا بلکہ اسے ہیرو بناکر سر بٹھایا۔ ’لکشمی‘ ہی کوسب سے مقدم جانا۔یہی وجہ رہی ہے بدعنوانی خون میں سرایت ہوکر دوڑنے لگی۔بدعنوانی کے خلاف جتنا بھی سخت ترین قانون بنایااس نے بدعنوانی کو بڑھانے میں مددہی کی۔ تعفن زدہ اور بدعنوان معاشرہ سے کسی اچھی تخلیق نہیں کی جاسکتی۔ جہاں سیاست کی پہلی سیڑھی دلالی سے شروع ہوتی ہو وہاں اچھے سیاست داں کیسے بن سکتے ہیں۔ دلالی، چوری، بدعنوانی اور دوسروں کی زمین و جائداد کو ہڑپنے والے ہی ترقی کرکے سیاست میں داخل ہوتے ہیں۔ آج کل تو سب سے اچھا پیمانہ دنگا، فساد، قتل، لوٹ مار، ماب لنچنگ، اظہار رائے کی آزاد ی کو کچلنا، اقلیتوں کو تہ تیغ کرنے کی دھمکی دینا، ان کی مذہبی آزادی کو سلب کرلینا اور ان کے سارے حقوق کو عملاً چھین لینے کو ہی انتخاب جیتنے کی سب سے عمدہ کوالٹی سیاسی سمجھا جانے لگا ہے تو اچھے سیاست داں کیسے پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہی وجہ سے آج کل جہاں بھی سیاست داں کچھ مفاد دکھتا ہے وہ فوراً گی اس جانب بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ سیاسی وفاداری، عوام سے عہدو پیمان، ووٹ کس پارٹی کے نام پر حاصل کیا ہے، یہ سب سیاست دانوں کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ صرف اور صرف لکشمی اور اقتدار ہی سب سے مقدم ہوتا ہے۔ ممتابنرجی کی پارٹی ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) میں سیاسی لیڈروں کی ’اواگمن‘ (آمد و رفت) اسی سیاست کا مظہر ہے۔ آمد و رفت کرنے والے سیاست دانوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اسی قبیل سے آتے ہیں۔ ان کا مذہب ومسلک صرف اور صرف لکشمی اور اقتدار ہے۔ اس کے علاوہ وہ کسی کو کچھ نہیں سمجھتے۔ گرچہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ فرقہ پرستوں کو کمزور کرنے کے لئے ترنمول کانگریس میں شامل ہورہے ہیں۔ وہ ایک مضبوط اور متبادل پیش کرنے کے لئے ٹی ایم سی کا ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں۔ ان لیڈروں کے بیانات اور رویے سے انداز ہوتا ہے کہ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے بھی ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہے۔ جنوب سے لیکر شمال مشرقی ہندوستان تک کس نے بی جے پی کے ہاتھ مضبوط کئے ہیں۔ شمالی ہندووستان میں بی جے پی کا نام و نشان تک نہیں تھا لیکن بائیں بازو اور نام نہاد سیکولر پارٹیوں کے لوگوں نے ہی کھلے دل سے بی جے پی کا شمالی یہندوستان میں استقبال کیا ہے اور اقتدار کی مسند پر بیٹھایا ہے۔
اس وقت ممتا بنرجی ملک کی دوسری ریاستوں کا طوفانی دورہ کر رہی ہیں اور اہم سیاسی لیڈروں سے مل رہی ہیں۔ خاص طور پر ان ریاستوں کا دورہ کر رہی ہیں جہاں بی جے پی کمزور ہے یا کانگریس برسراقتدار ہے۔ یا بی جے پی کا مقابلہ کانگریس میں کرنے کی سکت ہے۔ ان جگہوں سے کانگریسی لیڈروں کو ٹی ایم سی میں شامل کر رہی ہیں۔ کانگریس کو سب سے بڑا جھٹکا ٹی ایم سی نے اس کے آسام سے سابق رکن پارلیمنٹ اور سابق آل انڈیا خواتین کانگریس کی صدر سشمتادیو کو پارٹی میں شامل کرکے دیا تھا۔ ٹی ایم سی نے صرف پارٹی میں ہی شامل نہیں کیا بلکہ محترمہ سشمتا دیو کو راجیہ سبھا کا رکن بھی بنایا اور ان کو ٹی ایم سی نے شمال مشرق کی ریاستوں میں کانگریس کی جڑ کھودنے کے لئے لگادیا ہے۔ گزشتہ ماہ 23نومبر کو کانگریس لیڈراورسابق رکن پارلیمنٹ کیرتی آزاد، ہریانہ کانگریس کے سابق صدراشوک تنور اور جنتا دل یونائیٹڈ (جے ڈی۔یو) کے سابق جنرل سکریٹری اور سابق رکن اسمبلی پون ورما ترنمول کانگریس میں شامل ہو گئے۔ان تینوں لیڈروں نے ترنمول کانگریس کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی بنرجی سے ملاقات کے بعد پارٹی کی رکنیت حاصل کی۔ مسٹر تنور نے ترنمول میں شامل ہونے کے بعد نامہ نگاروں کو بتایا کہ ملک کو بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی متکبر اور آمرانہ حکومت کو ہٹانے کے لیے محترمہ بنرجی کی قیادت کی ضرورت ہے۔ جس طرح ملک کی تمام کسان تنظیموں کے اتحاد کی وجہ سے حکومت زرعی قوانین کو واپس لینے پر مجبور ہوئی، اسی طرح ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ مل کر بی جے پی حکومت کو اکھاڑنے کے لئے اپنے ذاتی مفادات کو بھول کر ایک ساتھ آنا ہو گا۔قبل ازیں ترنمول میں شامل ہونے کے بعد مسٹر آزاد نے نامہ نگاروں سے کہا کہ آج ملک کو ایک ایسی شخصیت کی ضرورت ہے جو ملک کو صحیح اور نئی سمت دکھا سکے۔ محترمہ بنرجی میں یہ قائدانہ صلاحیت ہے۔ ان کی کوئی ذات یا مذہب نہیں ہے۔اسی طرح جے ڈی (یو) کے سابق جنرل سکریٹری اور سابق رکن پارلیمان مسٹر ورما نے ترنمول میں شامل ہونے کے بعدکہا کہ آج کی سیاسی صورتحال میں اپوزیشن کو مضبوط ہونے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات میں صرف محترمہ بنرجی ہی میں اپوزیشن کو صحیح قیادت دینے کی صلاحیت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم 2024 کے عام انتخابات کے بعد محترمہ بنرجی کو دہلی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ محترمہ ممتا بنرجی نے معروف گیت نگار اور سابق رکن پارلیمنٹ جاوید اختر اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے مشیر سدھیندرا کلکرنی سے بھی ملاقات کی تھی۔
اسی طرح کے سابق کانگریسی لیڈر اور گوا کے سابق وزیر اعلی لوئی زنہو فلیرو کو ٹی ایم سی میں شامل کرلیااور وہاں کا انچارج اپنی تیز طرار لیڈر اور رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کو بنایا ہے۔ میگھالیہ کے 12اراکین اسمبلی کو ٹی ایم سی شامل کرلیا ہے۔ اسی کے ساتھ اس امید کا اظہار کیا جارہاہے کہ وہ وارانسی کے دورے کے دوران وہاں کے دو لیڈروں، کملاپتی ترپاٹھیکے پوتے اور سابق ایم ایل سی راجیش پتی ترپاٹھی،ان کے بیٹے للتیش پتی ترپاٹھی کو شامل کرسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنی توسیع کے لئے وہ مصروف ہیں۔ ممتابنرجی نے مہاراشٹر کے دورہ کے دوران شردپوار اور شیو سینا کے لیڈروں سے ملاقات کی۔ ملاقات کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ان سب ملاقات کا ایک کی مقصد نظر آتا ہے کانگریس کو کمزور کرنا۔ جس طرح بی جے پی نے اپنی توسیع کیلئے شمال مشرقی سمیت متعدد ریاستوں کو طاقت کے بل پر لیڈروں کو اپنی پارٹی میں شامل کیا تھا اسی طرح ممتا بنرجی بھی کانگریس کے لیڈروں کو شامل کر رہی ہیں۔ اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے بی جے پی کو طاقت بخشنا۔کانگریس جتنا کمزور ہوگی بی جے پی کا اقتدار اتنا ہی طویل ہوگا۔
مہاراشٹر کے دورہ کے بعد شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ سنجے راوت نے دعویٰ کیا کہ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کانگریس کے بغیر اتحاد پر غور کر رہی ہیں۔ راوت نے شیو سینا کے ترجمان سامنا میں اپنے ہفتہ وار کالم ''روکھٹھوک'' میں یہ بھی دعوی کیا کہ بنرجی نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) مہاراشٹر میں سیاسی ٹرائل نہیں کرے گی۔ٹی ایم سی کی قیادت نے کہا تھا کہ وہ ایک متبادل محاذ کی تشکیل جاری رکھے گی کیونکہ کانگریس بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف ''لڑائی کی قیادت کرنے میں ناکام رہی''۔ ممتابنرجی نے ممبئی کے اپنے حالیہ دورہ کے دوران کہا تھا کہ ''اب کوئی یو پی اے (یو پی اے) نہیں ہے۔''جمعہ کو، ٹی ایم سی کے ترجمان 'جاگو بنگلہ' نے کانگریس پر ایک تازہ حملہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ''ڈیپ فریزر'' میں چلی گئی ہے۔ حال ہی میں 'جاگو بنگلہ' میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا تھا کہ کانگریس لیڈر راہل گاندھی نہیں بلکہ ممتا بنرجی وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف اپوزیشن کا چہرہ بن کر ابھری ہیں۔ مہاراشٹر میں این سی پی اور کانگریس کے ساتھ اقتدار میں شریک شیو سینا کے رکن پارلیمنٹ نے اتوار کو دعویٰ کیا کہ ''ایسا لگتا ہے کہ بنرجی کانگریس کو باہر رکھ کر کچھ نیا کرنے پر غور کر رہی ہیں ''۔انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ دن پہلے یہاں شیو سینا کے رہنما اور ریاستی وزیر آدتیہ ٹھاکرے سے ملاقات کے دوران بنرجی نے کہا تھا کہ ''ہم یہاں نہیں آئیں گے کیونکہ شیوسینا اور این سی پی مضبوط ہیں ''۔ راجیہ سبھا کے رکن نے کہا کہ ٹی ایم سی پڑوسی ریاست گوا میں آئندہ اسمبلی انتخابات لڑنے جا رہی ہے اور شمال مشرقی ریاستوں تریپورہ اور میگھالیہ میں بھی اپنے قدموں کے نشان کو پھیلا رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ممبئی کے اپنے دورے کے دوران بنرجی نے آدتیہ ٹھاکرے کے ساتھ دونوں ریاستوں کے درمیان سیاحت اور ثقافت کے تبادلے پر بات چیت کی تھی۔سامنا نے ہفتہ کے روز کہا کہ کانگریس کو قومی سیاست سے دور رکھنا اور اس کے بغیر متحدہ ترقی پسند اتحاد (یو پی اے) کے متوازی اپوزیشن اتحاد بنانا حکمراں بی جے پی اور ''فاشسٹ '' قوتوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔
لوک سبھا میں کانگریس پارلیمانی پارٹی کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی) کی سربراہ ممتا بنرجی کے اس بیان پر تنقید کی ہے کہ یو پی اے نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ عام انتخابات 2024 کے پیش نظر، ممتا فی الحال بی جے پی کو چیلنج پیش کرنے کے لیے اپوزیشن کو متحرک کر رہی ہیں اور اسی سلسلے میں اپنے حالیہ ممبئی دورے کے دوران انہوں نے این سی پی کے سربراہ شرد پوار اور شیوسینا کے رہنما سنجے راوت سے ملاقات کی۔ آدتیہ ٹھاکرے سے ملاقات کی تھی۔ پوار سے ملاقات کے بعد ہی، جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چاہتی ہیں کہ پوار کانگریس کی زیر قیادت یونائیٹڈ پروگریسو الائنس (یو پی اے) کا صدر بنیں، تو انہوں نے کہا کہ ''ابھی تک کوئی یو پی اے نہیں ہے۔'' ان پر طنز کرتے ہوئے ادھیر رنجن نے کہا، 'ممتا یہ سب کام مودی جی کو خوش کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے 4 فیصد ووٹ بینک پر کیا کریں گے؟,ممتا نے بدھ کو واضح طور پر کہا تھا کہ وہ 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن کے ایک نئے اتحاد کو دیکھ رہی ہیں۔ وہ اس وقت قومی سطح پر خود کو قائم کرنے کے لیے کانگریس کو نشانہ بنا رہی ہیں۔، 'یو پی اے کیا ہے؟ کوئی یو پی اے نہیں ہے۔کانگریس قائدین کے ٹی ایم سی میں شامل ہونے پر تبصرہ کرتے ہوئے ادھیر رنجن نے کہا تھا، 'ٹی ایم سی لالچ دے رہی ہے کہ آپ آئیں، راجیہ سبھا سیٹ کی تصدیق ہوگئی ہے۔ ممتا بنرجی کو نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کانگریس کو توڑنے کے لیے پی ایم مودی کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ مودی بھی کانگریس مکت بھارت چاہتے ہیں اور ممتا بنرجی بھی یہی سوچتی ہیں۔ مودی اور دیدی کے رویے میں کافی مماثلت ہے۔ اس نے کہا تھا، 'جس دن سے ابھیشیک کو ای ڈی نے بلایا، اس نے کانگریس کو گالی دینا شروع کر دی۔ ممتا بنرجی صرف کانگریس کو تباہ کر رہی ہیں۔ پوری اپوزیشن سونیا گاندھی کی قیادت میں چلے گی۔
کانگریس کے بغیر کسی بھی مضبوط اتحاد کا تصور ممکن نہیں۔ کانگریس کے بغیر بی جے پی کو تو مضبوط کیا جاسکتا ہے لیکن اسے ہرایا نہیں جاسکتا۔اس لئے کانگریس کے بغیر کوئی بھی قدم ملک کو فسطائیت کے مزید گہرے دلدل میں دھکیل دیگا۔ علاقائی پارٹیاں قومی پارٹی کا متبادل نہیں ہوسکتیں۔ حقیقی معنوں تمام ریاستوں میں اگر جڑیں پیوست ہیں تو صرف کانگریس کی ہیں۔ بی جے پی کی جڑیں بھی خریدی ہوئی ہیں۔وقت کے ساتھ اکھڑ جائیں گی۔ اس لئے ٹی ایم سی کا یہ قدم بی جے پی کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے اور بہت ممکن ہوکہ وہ فسطائی طاقتوں کے اسارے ہی سیکولر پارٹیوں کو ختم کرنے کے لئے کوشاں ہوں۔ممتاکی اڈانی سے ملاقات سے بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔
Comments
Post a Comment