مسلم ہونے کی وجہ سے ْرابعہ سیفی کے ساتھ امتیاز

 


 عابد انور 

رابعہ سیفی عرف سابعہ سیفی کے ساتھ جس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کیا گیا یہ سوچ کر ہی روح کانپ جاتی ہے، رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کسی بھی مہذب معاشرے میں اس کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس میں مذہب سے نفرت کا عنصر زیادہ نمایاں ہے جس میں گزشتہ سات برسوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس نفرت کو سینچنے سنوارنے میں جمہوریت کے چاروں ستونوں نے بہت ہی اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکمراں طبقے نے دن رات محنت کی ہے تب جاکر یہ ماحول بنانے میں وہ کامیاب ہوئے ہیں۔ اسی کا اثر ہے کہ 21 سالہ رابعہ سیفی کے معاملے میں جمہوریت کے چار ستون خاموش ہیں۔ رابعہ کے ساتھ جس طرح کی وحشیانہ حرکت کی گئی ہے وحشی جانور بھی اس طرح شکار کے ساتھ اس طرح کابرتاؤ نہیں کرتا۔ رابعہ سیفی کے جسم پر 50 سے زائد گہررے زخم کے نشانات تھے، خبروں کے مطابق پستان کو کاٹ دیا گیا تھا،دونوں شرمگاہ کوکاٹ ایک کردیا گیا تھا، اس کے علاوہ تمام حساس مقامات کو کاٹا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ رابعہ کے ساتھ اجتماعی آبروریزی کا گھناؤنا واقعہ انجام دیا گیا۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ جمہوریت کے سارے ستون اس کودبانے میں لگے ہوئے ہیں۔ جو لڑکی اور افسر اس میں ملوث ہیں، گرفتاری تو دور کی بات پولیس نے اس سے اب تک پوچھ گچھ تک نہیں کی ہے اور نہ انسانی حقوق کمیشن، خواتین کمیشن اور نہ کسی عدالت نے سوموٹو نوٹس لیا ہے اگر یہی واقعہ کسی ہندو لڑکی کے ساتھ پیش آیا ہوتا پورا خاندان پولیس کی گرفت میں ہوتااور پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ماحول بنانے میں میڈیا لگ جاتا۔ جس طرح کی وحشیانہ حرکت رابعہ کے ساتھ ہوئی ہے  اس طرح تو نربھیا کے ساتھ بھی نہیں ہوا تھا۔ نربھیا کے حق میں پورا ملک ابل رہا تھا کیوں کہ اس کا نام نربھیا تھا اور وہ ہندو اونچی ذات سے تعلق رکھتی تھی۔ دہلی میں 16دسمبر 2012 کی رات کو چلتی ہوئی بس میں ایک 23 سالہ پیرا میڈیکل کی طالبہ کی اجتماعی آبروریزی کی گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ جیسے ہی یہ لڑکی اپنے دوست کے ساتھ بس میں چڑھی تو حملہ آوروں نے اس پر پھبتی کسنا شروع کر دی کہ اتنی رات کو ایک آدمی کے ساتھ گھر سے باہر وہ کیا کر رہی ہے۔ لڑکے نے مداخلت کی تو انہوں نے اس کی پٹائی شروع کر دی۔ جب لڑکی نے اس کی مخالفت کی تو ان لوگوں نے لڑکی کو ’سبق‘سکھانے کا فیصلہ کیا۔ آبروریزی کے دوران اسے اور اس کے بوائے فرینڈ کو ملزموں نے لوہے کے سریہ سے حملہ کرکے سخت چوٹیں پہنچائیں جو طالبہ کی موت کا سبب بنیں۔ اس کا علاج پہلے صفدر جنگ میں کیاگیا پھر سنگاپور لے جایا گیا۔ جہاں اس نے 29دسمبر کی صبح دم توڑ دیا۔ ایر انڈیا کے ایک چارٹرڈ طیارہ کے ذریعہ دیر رات متاثرہ لڑکی کی نعش کو لایا گیا اور30 دسمبر کی صبح ہندو رسم و رواج کے مطابق آخری رسم ادا کردی گئی۔ اس کی موت کی خبر سنتے ہی پورا ملک صدمہ میں ڈوب گیا تھا۔ حالانکہ اجتماعی آبروریزی کے خاطی ملزموں کو گرفتار کرلیا گیا تھا لیکن احتجاج کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ سڑک سے لے کر پارلیمنٹ تک اس واقعہ کی مذمت ہو رہی تھی اور خواتین کی حفاظت کے پختہ انتظامات کرنے کی وکالت کی جا رہی تھی۔پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے بھی سخت قانون بنانے کا اشارہ دیاتھا اورنربھیا ایکٹ بنا بھی۔ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے دلی ہائی کورٹ نے بھی کہاتھا کہ وہ دہلی اس اجتماعی آبروریزی کی واردات سے ”حیران“ ہے۔ عدالت نے اس بارے میں خواتین وکلاء کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس "شرمناک" واقعہ پر توجہ دے رہی ہے۔ دہلی ہائی کورٹ نے اجتماعی آبروریزی کی اس واقعہ کا خود نوٹس لیتے ہوئے پانچ فاسٹ ٹریک عدالتیں بنانے کی تجویز پیش کی تھی تاکہ شہر میں عصمت دری کے معاملات سے فوری طور پر تصفیے کے کیا جا سکے۔اس واقعہ کی تحقیقات اور خواتین کے خلاف جرائم کے سدباب کے لئے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ورما کی قیادت میں تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی تھی۔اس کے باوجود انڈیا گیٹ، جنتر منتر، وجے چوک اور دیگر مقامات پر احتجاج و مظاہرہ کا زور کم نہیں ہوا۔ بالآخر پولیس اور نیم فوجی دستوں نے انڈیا گیٹ کو ہی سیل کردیا اور اس طرف جانے والے تمام راستوں کو بند کردیا۔ کئی میٹرو اسٹیشن بند کردئے گئے۔ اس کے باوجود اس واقعہ سے صدمے سے دوچار عوام نے جنتر منتر پر پہنچ کر لڑکی کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔مگر رابعہ سیفی کے معاملے میں ایسا کچھ نہیں ہورہا ہے بلکہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کوئی واقعہ ہوا ہی نہیں ہے۔ ٹی وی اور اخبارات سے خبریں غائب ہیں، البتہ یوٹیوپ اور سوشل میڈیا پر ایک چھوٹاساطبقہ سرگرم ہے۔  



خواتین کے ساتھ زیادتی ہندوستانی سماجی ایک اہم حصہ ہے اور یہاں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات بڑی حد تک عام ہیں۔ اس میں پڑھے لکھے یا جاہل کی قید نہیں ہے۔27 نومبر1973 کو اس پچیس سالہ خاتون کو اپنے ہی ہسپتال میں صفائی کرنے والے ایک ملازم سوہن لال بھارتہ نے اپنی ہوس کا شکار بنایا اور زنجیروں کی مدد سے ان کا گلا گھونٹ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا۔اس واقعے نے ارونا شانباگ کی جان تو نہ لی مگر ان کی زندگی ضرور چھن گئی تھی۔ 2003 میں ایک اٹھائیس سالہ سوئس سفارتکار کو دلی کے ایک خوشحال علاقے سری فورٹ میں دو مردوں نے ان کی گاڑی میں دھکیلا اور ان میں سے ایک سفارتکار کے ساتھ جنسی زیادتی کی۔جیلوں میں خواتین قیدی محفوظ نہیں ہیں۔ سوھنی سوری کو اکتوبر 2011 کوماؤنوازکی مدد کرنے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا تھا۔ حراست ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور ان کی بچہ دانی میں پتھر گھسائے گئے۔2004 میں آسام رائفلز کے فوجی منی پور میں بتیس سالہ منوراما کو ان کے گھر سے باغیوں کی مدد کرنے کے الزام میں لے گئے تھے۔ چند گھنٹے بعد ان کی تشدد زدہ لاش ایک سڑک کے کنارے ملی اور ان کے پیٹ کے نیچے کئی گولیاں ماری گئی تھیں۔گذشتہ سال چودہ سالہ سونم کو اتر پردیش کے ایک پولیس سٹیشن کے اندر ہی زیادتی کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔2002 میں گجرات میں ہونے والے فسادات کے دوران سیکڑوں مسلم خواتین کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی۔کشمیر میں کے سلسلے میں کئی تنظیم بار بار کہتی رہی ہیں کہ سکیورٹی اہکار خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔2007 شرواستی میں ایک مسلم گاؤں کی عورتوں کے ساتھ جس میں بچی سے بوڑھی تک شامل تھیں آبروریزی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ملک کے شمال مشرقی علاقوں میں خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کو اجتماعی سزا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔مگر حکومت کو یہاں کی عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی نظر نہیں آتی ہے۔ ہندوستان میں میں ہر اکیس منٹ کے بعد جنسی زیادتی کا کوئی واقعہ رپورٹ کیا جاتا ہے۔ یہ تعداد وہ جس کی رپورٹنگ ہوتی ہے اگر سارے جنسی زیادتی کے واقعات کی رپورٹنگ ہوگی تو ہر منٹ ایک یہ تعداد پچاس سے اوپر پہنچ جائے گی۔

پریشانی کی بات یہ ہے کہ ہندوستان میں ہر معاملے کوہندو مسلم کے عینک سے دیکھا جاتاہے قانون کی نظر سے نہیں۔ اس لئے واردات میں کمی نہیں آتی اور نہ ہی ملزموں کو خوف ہوتا۔ اگر اجتماعی آبروریزی کے شکار متوفی لڑکی اگر مسلمان ہوتی توکیا اسی طرح ہفتوں دہلی کی زندگی درہم برہم ہوتی۔منی پور میں وہاں کی خواتین کو آرمی ہیڈکوارٹر کے سامنے برہنہ مظاہرہ اس بینر کے ساتھ کرنا پڑا تھا کہ ’انڈین آرمی ریپ اس‘۔ یہ بینر امتیاز کامنہ بولتا ثبوت تھا۔سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ کو قومی اقلیتی کمیشن کے چیرمین وجاہت حبیب اللہ نے بہت اچھا جواب دیا ہے کہ اگر ان کو آبروریزی کے شکار متاثرہ لڑکی سے اتنی ہمدردی ہے تو اس وقت اس کی ہمدردی کہاں گئی تھی جب کشمیری خواتین کے ساتھ آبروریزی کی جارہی تھی۔ آج سبھی طبقے سے آواز سے اٹھ رہی ہے کہ زانی کو پھانسی کی سزا دی جانی چاہئے۔ بہت سی تنظیموں اور سماجی امور سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا بھی چھوٹی سزا ہے۔ اس واقعہ نے جہاں ایک طرف اس گھناؤنا جرم کے خلاف لوگوں میں بیداری پیدا کی ہے وہیں ان لوگوں کے منہ پر ایک طمانچہ بھی رسید کیا ہے جو اسلامی حدود کو بربریت اور وحشی قانون قرار دینے میں آسمان اور زمین ایک کرتے رہتے ہیں۔ اگر اسلامی قوانین کے مطابق زانیوں سے نمٹا جاتا تو اس طرح کے واقعات نہ ہوتے۔ جہاں جہاں اسلامی حدود کے قوانین نافذ ہیں وہاں آبروریزی کے واقعات کے کم ہوتے ہیں۔ آبروریزی کے واقعات پر قابو پانا ہے تو ملک کو تعصب اور امتیاز سے اوپر اٹھ کر کام کرنا ہوگا۔جہاں مردوں کو اپنا نظریا بدلنا ہوگا وہیں خواتین کو اپنے لباس رہن سہن اور خصوصاً جنسی بے راہ روی کے رویے کو ترک کرنا ہوگا۔ باپردہ خواتین کے ساتھ دست درازی کے واقعات کم ہوتے ہیں آخر کیوں۔لڑکیاں عام طور ایک بات بہت زور و شور سے کہتی ہیں کہ بھڑکیلے لباس اور غیر سائشتہ لباس اگر اس کیلئے ذمہ دار ہے تو پھر ساڑی میں ملبوس، اڈھیر عمر کی خواتین اور چھوٹے بچیوں کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے توا س کاسیدھا سا جواب یہ ہے کہ اس بھڑکیلے اور غیر سائشتہ لباس کی قیمت ساڑی میں ملبوس، اڈھیڑ عمر کی خواتین اور بچیوں کو چکانی پڑتی ہے۔جنسی زیاتی کے واقعات خواہ کشمیر میں ہوں یا کنیا کماری میں،نارتھ ایسٹ میں ہوں یا مغربی ہندوستان میں اسی طرح کی مذمت اور مخالفت ہونی چاہئے اور مجرموں کے تئیں اسی طرح نفرت ہونی چاہئے جس طرح اس وقت ہے۔ 

 ہندوستان کا دل کہلانے والی قومی راجدھانی دہلی کی بھی اس معاملے میں حالت خستہ ہے۔ یہاں عصمت دری کے واقعات،چھیڑ چھاڑ اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہورہاہے۔ گزشتہ سال دہلی میں خواتین کے تعلق سے ایک سروے کیاگیاتھا اس میں اسکول، کالج اور دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو بھی شامل کیاگیا تھا۔سروے میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تین میں سے دو خواتین کو یعنی 66 فیصد خواتین کو جنسی بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا اور ان خواتین کو دو سے پانچ بار اس طرح کے حالات کاسامنا کرنا پڑا۔اس سروے کی صداقت کی دلیل یہ ہے کہ اس میں دہلی حکومت اور اقوام متحدہ بھی شامل ہے۔ سیف سیٹیز بیس لائن سروے 2010 کایہ سروے دہلی حکومت کی بہبود خواتین و اطفال کی وزارت، رضاکار تنظیم جاگوری، اقوام متحدہ کی خواتین کے ترقیاتی فنڈ اور یو این ہیبیٹیٹ نے مشترکہ طور پر کروایا تھا۔ سروے میں کہا گیا تھا کہ سبھی عمر کی خواتین جنسی بدسلوکی کی شکار ہوتی ہیں لیکن سب سے زیادہ شکار ہونے والوں میں 15 سے 19 سال کی عمر کی اسکول اور کالج جانے والی لڑکیاں ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خواتین سب سے آسان نشانہ ہوتی ہیں جو غیر منظم سیکٹر میں کام کرتی ہیں۔ اس طرح کے واقعات صرف سنسان جگہ پر ہی نہیں ہوتے بلکہ بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر بھی پیش آتے ہیں۔ خواتین کو سب سے زیادہ جنسی بدسلوکی کا سامنا پبلک ٹرانسپورٹ میں اور سڑک کے کنارے کرنا پڑتا ہے۔ دہلی کی شان کہی جانے والی میٹرو میں بھی خواتین کو تحفظ حاصل نہیں ہے۔ میٹرو میں سفر کرنے والی بیشتر خواتین نے کہا ہے ان کے ساتھ جنسی بدسلوکی کے واقعات اکثر و بیشتر پیش آتے ہیں۔دہلی اور نواح دہلی میں گزشتہ کچھ عرصہ سے بچیوں، لڑکیوں اور عورتوں کے آبروریزی اوراجتماعی آبروریزی کے متعددواقعات سامنے آئے ہیں اور حکومت کی طرف سے جس قدر سختی کی جارہی ہے اس طرح کے واقعات اسی قدراضافہ ہوتا جارہا ہے۔



رابعہ کو انصاف ملنے کا امکان کم ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف اس وقت کیا جاتا ہے جب دوسرا فریق بھی مسلمان ہی ہو، اگر مدعی مسلمان ہے اور مدعی علیہ ہندو ہے تو سارا سسٹم اسے بچانے میں لگ جاتا ہے۔ اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو سارا سسٹم اسے گناہ گار ثابت کرنے میں لگ جاتا ہے۔ ہندوستان میں انصاف مسلمانوں کے لئے گولر کے پھول کی مانند ہے۔ رابعہ سیفی کے سانحہ نے ہندوستان کے ان تمام لبرل ہندوؤں کے چہرے سے نقاب الٹ دیا ہے، کچھ ہندو سماجی کارکن یقینا اس معاملے کواٹھا رہے ہیں لیکن یہ گنتی کے ہیں۔اب کوئی انڈیا، وجے چوک، جنتر منتر، پارلیمنٹ اور دیگر عوامی مقامات پر رابعہ کے انصاف کے لئے جمع کیوں نہیں ہوتا اور نہ ہی ملک گیر سطح پر مظاہرہ ہورہا ہے جس طرح نربھیا کے معاملے میں ہوا تھا۔ جس طرح ہریانہ پولیس کام کر رہی ہے اس سے کسی منصفانہ تفتیش کی امید نہیں ہے۔ ویسے بھی ہندوستانی پولیس پوری طرح فرقہ پرست ہوچکی ہے کچھ لوگ ہیں تو وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ جیور میں اجتماعی آبروریزی، ہریانہ میں کمسن لڑکیوں کی آبرویزی اور قتل، ٹڑین مسلم روزے دار خاتون کی آبروریزی اور ان جیسے سیکڑوں واقعات ہیں جس میں مسلم خواتین کو انصاف نہیں ملا ہے۔ رابعہ میں جس طرح اب تک پولیس کی تفتیش آگے بڑھی ہے اور اصل مجرموں سے پوچھ گچھ تک نہیں ہوئی ہے اس سے صاف لگتا ہے کہ انتظامیہ کا ارادہ اصل خاطی کو بچانے کا ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی کڑی میں ایک اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ مسلمان بھی متحد ہوکر رابعہ کے انصاف کے لئے سامنے نہیں آرہے ہیں، جہاں کہیں بھی ان کے حق میں مظاہرہ ہورہا ہے وہ جھوٹے جھوٹے مظاہرے ہیں جن میں کوئی بڑا لیڈر شامل نہیں ہوا ہے۔ اس طرح سے انصاف کا حصول ممکن نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ایک جھنڈے کے تلے متحد ہوکر اس ظلم کے خلاف اپنی آواز کو پہنچانی ہوگی۔ 

Comments

  1. Online Casino Site - Choose from 7 casino sites
    Online Casino 온카지노 USA - Choose from 7 casino sites for United States Players. Play Slots, choegocasino Blackjack, Roulette, Video Poker and More. 1xbet korean Play now!

    ReplyDelete

Post a Comment