مسلم قوم کو چکنے گھڑے سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔ یہ دنیا کی واحد قوم ہے جو ہر جگہ، ہر قدم پراور ہر لمحہ ٹھوکریں کھانے، جبروتشدد سے دوچار ہونے، پریشان کئے جانے، ایک کو دوسرے کے لئے استعمال ہونے اور ظلم و ستم کی چکی میں پسنے اور اس کے لئے انتشار کو ذمہ دار قرار دینے کے احساس کے باوجود اتحاد کا دامن نہیں تھامتی۔ جس مجلس میں جائیں، جس سے بات کریں،جس مسلک والے علمائے کے خیالات سنیں وہ سب یہی کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ سب اس لئے ہورہا ہے کہ ہم میں اتحاد کی کمی ہے۔ عرب ممالک کی تنظیم عرب لیگ ہو یا خلیج تعاون کونسل یا تنظیم اسلامی کانفرنس ہر پلیٹ فارم پر اتحاد پر زور دینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن جب یہ سارے مسلم حکمراں کانفرنسوں سے آتے ہی وہ سب بھول جاتے ہیں اور دانستہ یا نا دانستہ طور پر اسلام اور مسلمانوں کی قبر کھودنے والوں کو فائدہ پہنچانے میں ہمہ تن مصروف ہوجاتے ہیں۔ امریکہ یا یورپ کے ممالک مسلم حکمرانوں کی آپسی چپقلش سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ امریکہ کی اقتصادی محل مسمار ہوچکی ہوتی اگر سعودی عرب 60 بلین ڈالر کا اسلحہ کا معاہدہ نہ کیا ہوتا۔ اس کے علاوہ خلیجی کے دیگر ممالک اسلحہ امریکہ سے اسلحہ نہ خرید رہے ہوتے۔ مسلم ممالک امریکہ اور یوروپی ممالک کے خزانے کو مختلف طریقوں سے بھر رہے ہیں۔ قطر، بحرین، اردن اور دیگر خلیجی ممالک امریکہ سمیت دیگر یوروپی ممالک سے بے تحاشہ اسلحہ خرید رہے ہیں۔ اس روش میں اضافہ کرنے میں ایران بھی برابر کا شراکت دار ہے۔ایران جو بھی قدم اٹھاتا ہے اس کا بلاواسطہ یا بالواسطہ امریکہ اور مغربی ممالک کو فائدہ پہونچتاہے۔ ان ممالک نے امریکی دخل کو اپنے یہاں اس قدر رواج دے دیا ہے کہ امریکی اشارے کے بغیر حکمراں ٹولہ سانس بھی نہیں لے سکتا۔ خلیجی ممالک نے عوامی بیداری کے خوف سے اپنے عوام کو کسی میدان میں آگے نہیں بڑھنے دیا۔ اللہ نے خلیجی ممالک کو وسائل کی نعمت سے مالامال کیا ہے لیکن انہوں نے اپنے نکمے پن اور عیاشی کی وجہ سے تمام چیزوں کو اپنے دشمنوں کے حوالے کردیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ یہ ممالک تمام چیزیں مغربی ممالک سے برآمد کرتے ہیں۔ اتنے وسائل اور دولت کے باوجود اپنے یہاں انہوں نے نہ تو زراعت کو فروغ دیا اور نہ ہی صنعت و حرفت قائم کرنے میں کوئی دلچسپی لی اور نہ ٹکنالوجی کے میدان میں کوئی کام کرسکے صرف یوزرس بن کر اپنے دشمنوں کا خزانہ بھرتے رہے۔ اسی کا خمیازہ ہے کہ آج مغربی ممالک جس طرح چاہتے ہیں مسلمانوں کو ذلیل کرتے ہیں۔ ہر اصول کی اپنے مفاد کے حساب سے تشریح کرتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں کرنے پر مجبور کرنے کے لئے امریکہ اور برطانیہ نے اپنی ناجائز اولاد اسرائیل کو ہر طرح کے مظالم ڈھانے کی نہ صرف چھوٹ دے رکھی ہے بلکہ اسلحہ، فنڈ اور تمام چیزیں فراہم کر رہا ہے۔ مسلم ممالک یہ ذلت آج سے نہیں 1848 سے جھیل رہے ہیں۔ عرب قوم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت ہی غیرت مند قوم ہوتی ہے لیکن پے درپے جنگوں میں اسرائیل کے ہاتھوں شکست، امریکی غلامی اور عیاشی نے اسے بزدل قوم میں تبدیل کردیا ہے۔ اسی کا فائدہ اسرائیل اٹھارہاہے کہ وہ جب چاہتا ہے فلسطینی مسلمانوں کا قتل عام کردیتا ہے۔اگر خطے کے ممالک فلسطین کو فنڈ اور اسلحہ فراہم کرتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی اور فلسطینی جانباز اپنے دم پر ہی اسرائیل کا ناطقہ بندکردیتے۔ عرب ممالک نے ہمیشہ ضابطوں کا حوالہ دے کر فلسطینی کی مدد سے گریز کیا جب کہ امریکہ اور مغربی ممالک نے تمام ضابطوں کی دھجیاں اڑاکراسرائیل کو نہ صرف عرب ممالک سے بچایا ہے بلکہ اقوام متحدہ (امریکہ کا رکھیل) کو استعمال کرکے اسے تمام کارروائیوں سے محفوظ رکھا۔
فلسطین آج پھر کراہ رہا ہے۔2008 میں فلسطین کو اسرائیل تخت و تاراج کیا تھا جس میں غزہ کے تمام بنیادی ڈھانچوں، مکانات اور وسائل کو تباہ کرنے سمیت ایک ہزار سے زائد(1300) فلسطینی مسلمانوں کو شہید کردیا تھا آج پھر وہی کر رہا ہے اور دنیا خاموش ہے۔ صرف کچھ ممالک کے دبے سر میں مذمت کے چند الفاظ بہ مشکل نکل رہے ہیں۔ امریکہ تو کھلم کھلا اسرائیلی جارحیت کی حمایت کررہاہے اور اسرائیلی وحشی پن کو حق دفاع قرار دے رہا ہے۔ اس کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکہ میں حکومت خواہ گدھے کی ہو یا ہاتھی کی اسرائیل کے خلاف چوں چرا نہیں کرسکتا۔ اب تو پوری دنیا میں یہ بات عیاں ہے کہ دہشت گرد کون ہے، دہشت گردی یا بدی کا محور کون ہے۔اسرائیلی حملے میں اب تک سیکڑوں فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں اور اسرائیل ہلاکت خیز حملے پے درپے کرتا جارہا ہے۔ حملے میں عام عمارتوں، میڈیا کے دفاتر اور اور دیگر بنیادی سہولتوں کی عمارت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل فلسطین سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ اس نے اپنے ہزاروں ریزرو فوج کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان حالیہ کشیدگی اس وقت شروع ہوئی جب شیخ جراح کالونی سے فلسطینیوں کی بے دخلی کی کارروائی کا سلسلہ شروع ہوا۔رپورٹ کے مطابق رمضان المبارک کے آغاز سے ہی مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) میں اسرائیلیوں کی جانب سے فلسطینیوں پر حملوں اور دیگر پرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ اس دوران دنیا کے 3 بڑے مذاہب کے لیے انتہائی مقدس شہر میں کشیدگی میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔مقبوضہ بیت المقدس میں جمعہ (7 مئی) سے جاری پرتشدد کارروائیاں سال 2014 کے بعد بدترین ہیں جس میں یہودی آبادکاروں کی جانب سے مشرقی یروشلم میں شیخ جراح کے علاقے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کو بے دخل کرنے کی طویل عرصے سے جاری کوششوں نے مزید کشیدگی پیدا کی۔یہ ایک ایسا علاقہ ہے جہاں ایک طویل عرصے سے جاری قانونی کیس میں متعدد فلسطینی خاندان کو بے دخل کیا گیا ہے، اس کیس میں فلسطینیوں کی جانب سے دائر اپیل پر پیر (10 مئی) کو سماعت ہونی تھی جسے وزارت انصاف نے کشیدگی کے باعث مؤخر کردیا تھا۔اسرائیلی فورسز کی جانب سے فلسطینیوں پر حالیہ حملے 7 مئی کی شب سے جاری ہیں جب فلسطینی شہری مسجد الاقصیٰ میں رمضان المبارک کے آخری جمعے کی عبادات میں مصروف تھے اور اسرائیلی فورسز کے حملے میں 205 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔جس کے اگلے روز 8 مئی کو مسجدالاقصیٰ میں دوبارہ عبادت کی گئی لیکن فلسطینی ہلالِ احمر کے مطابق بیت المقدس کے مشرقی علاقے میں اسرائیلی فورسز نے پرتشدد کارروائیاں کیں، ان میں سے اکثر پر ربڑ کی گولیاں اور گرنیڈز برسائے گئے تھے۔بعدازاں 9 مئی کو بھی بیت المقدس میں مسجد الاقصٰی کے قریب ایک مرتبہ پھر اسرائیلی فورسز کی پُر تشدد کارروائیوں کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی زخمی ہوئے۔10 مئی کی صبح اسرائیلی فورسز نے ایک مرتبہ پھر مسجد الاقصیٰ کے قریب پرتشدد کارروائیاں کیں، جس کے نتیجے میں مزید 395 فلسطینی زخمی ہوئے تھے جن میں سے 200 سے زائد کو علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔اسرائیلی فوج کے مسجد اقصی خالی کرنے کے الٹی میٹم کے بعد حماس نے اسرائیل میں درجنوں راکٹس فائر کیے تھے جس میں ایک بیرج بھی شامل تھا جس نے بیت المقدس سے کہیں دور فضائی حملوں کے سائرن بند کردیے تھے۔اسرائیل نے راکٹ حملوں کو جواز بنا کر جنگی طیاروں سے غزہ پر حملہ کیا۔ اب تک اسرائیل ایک ہزار سے زائد حملے کرچکا ہے اور بڑی بڑی رہائشی عمارتوں سمیت میڈیا سنٹر کو تباہ کرچکا ہے۔ اس بڑی عمارت میں الجزیرہ سمیت، اے پی، بی بی سی اور دیگر میڈیا ادارے کے دفاتر تھے۔ حملہ سے قبل صرف آدھے گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا۔ اب تک 11 روز حملے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی جاں بحق ہوئے جبکہ 1900 کے قریب زخمی ہوئے۔دوسری جانب حماس کے راکٹس کے نتیجے میں اسرائیل میں ایک فوجی اور 2 بچوں سمیت 12 افراد ہلاک ہوئے جن میں ایک ہندوستانی اور 2 تھائی لینڈ کے شہری شامل تھے۔
حالیہ لڑائی کا آغاز شیخ جراح کالونی سے شروع ہوا ہے۔ العزبیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں سے فلسطین کے مشرقی بیت المقدس میں واقع الشیخ جراح کالونی عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ الشیخ جراح کی وجہ سے فلسطینیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان آئے روز خونی جھڑپیں ہو رہی ہیں۔ عرب ممالک کی طرف سے اسرائیلی فوج کی کارروائیوں اور الشیخ جراح میں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔بین الاقوامی میڈیا کی شہہ سرخیوں میں چھائے تاریخ الشیخ جراح میں اسرائیلی حکومت نے کئی دہائیوں سے وہاں قائم فلسطینیوں کے درجنوں مکانات مسمار کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان مکانات کی ملکیت السفردیم نامی یہودی تنظیم کو منتقل کی جا سکے۔اس پر فلسطینی شہری گھروں سے نکل آئے اور احتجاج کرنے لگے۔ اسرائیلی پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لیے طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا۔ الشیخ جراح کے باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی آبا واجداد کی زمین اور املاک صہیونیوں کو نہیں دیں گے۔ اس کالونی کے ساتھ ان کی میراث وابستہ ہے اور ان کے باب دادا کئی دہائیوں سے اسی کالونی میں آباد تھے۔دوسری طرف یہودی آباد کاروں کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے الشیخ جراح میں فلسطینیوں سے اراضی اور املاک خرید رکھی ہیں اور یہ املاک ایک یہودی تنظیم کی ملکیت ہیں۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک صدی قبل الشیخ جراح کی املاک اور زمین ایک یہودی تنظیم نے خرید کی تھی۔الشیخ جراح کا ایشو نیا نہیں بلکہ یہ فلسطینی اور اسرائیلی اصطلاحات میں بھی رچا بسا ہوا ہے۔ سنہ 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد یہاں سے کئی فلسطینی خاندان بے دخل کردیے گئے۔ سنہ 1972ء کو ایک یہودی تنظیم نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس الشیخ جراح کی اراضی کے ملکیتی ثبوت اور دستاویزات ہیں اور ان کی اراضی پر فلسطینیوں نے گھر تعمیر کررکھے ہیں۔ اشکنازی اور السفاردیم نامی یہودی کمیٹیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس الشیخ جراح کالونی کی زمین اور املاک کے مالکانہ حقوق کی دستاویزات ہیں جو 19 ویں صدی کے آخری دور کی ہیں۔
یہودی دنیا کی سب سے ہٹ دھرم، ظالم، نافرمان اور سب سے زیادہ عذات الہی جھیلنے والی قوم ہے۔ اگر یہودی اتنے ہی شریف ہوتے تو انہیں ہر جگہ سے کیوں نکالا گیا۔ مغرب کے تمام ممالک میں ان کا قتل عام کیا گیا یا وہاں سے انہیں کھڈیڑ کر نکالا گیا۔ یوروپ کے بھی بیشتر ممالک یہاں تک کہ روس سے بھی نکالا گیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہودی کی فطرت میں ہی نافرمانی ہے جو قوم اپنے پیغمبر کو اتنا پریشان کرسکتی ہے وہ عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرے گی۔ ہٹلر کو اس معاملے میں بہت کوسا جاتا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کے پر بے پناہ مظالم ڈھائے۔ طرح طرح کی ایذائیں دیکر انہیں ہلاک کیا۔ فیس بک پرکچھ عرصہ قبل ہٹلر کا قول گشت کر رہا تھا جو یہودی کی فطرت کی اشارہ کرتا ہے۔ ”میں چاہتا تودنیا کے سارے یہودیوں کو ختم کرسکتا تھا مگر کچھ یہودی میں نے اس لئے چھوڑ دیا تاکہ دنیا کو پتہ چل سکے میں نے یہودیوں کو کیوں قتل کیا“۔ ایڈولف ہٹلر کا یہ فرمان یہودیوں کی فطرت کو سمجھنے کے لئے کافی ہے اور اسرائیلی رویے کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آجاتی ہے ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا۔
تمام دنیا سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والا امریکہ آج دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد کے طور پر ابھرآیا ہے کیوں کہ اسرائیل کے ذریعہ فلسطینی مسلمانوں پر ظلم کا پہاڑ توڑ رہا ہے ان مکانا ت کو منہدم کئے جارہے ہیں جس میں فلسطینی رہ رہے تھے۔امریکہ کی زبان اور لب ولہجہ میں ایسی رعونت و خشونت درآئی کہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ پورے عالم کا واحد حکمراں ہو اور دنیا کی تمام حکومتیں اس کے باج گزار۔ کسی حکومت کی ان کے خلاف لب کشائی کی ہمت نہیں خاص کر مسلم ممالک کے حکمراں کی۔ ان حکمران پر خوف اور بزدلی کا لرزہ طاری ہے اور عرب حکمرانوں کی کارروائی صرف مذمتی بیان جاری کرنے کی حد تک محدود ہے۔ آج انسانی حقوق، حقوق اطفال کی انجمن،خواتین کے حقوق کی باتیں کرنے والے اورایک ناہنجار فرانسیسی کی ہلاکت پر ماتم کرنے والے کہاں ہیں۔ سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ ہندوستانی حکومت سے تو کوئی امید بھی نہیں ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو برباد کرنا ہووہ فلسطینیوں کے لئے آواز کیوں اٹھائے گا۔ رہی یہاں کے اکثریتی طبقہ کی بات تو جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہوگا وہ ظالم کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
Comments
Post a Comment