عالمی یوم خواتین: خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سدباب کب؟

   

Thumb


پوری دنیا میں آٹھ مارچ کو بین الاقوامی یوم خواتین دھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔سیمینار، مباحثے، مذاکرے، ورکشاپ دیگر پروگراموں کے ذریعہ خواتین کی صورت حال پیش کی جاتی ہے۔ خواتین کے حقوق کی باتیں زور و شور کی جاتی ہیں، ان کے وقار، ان کی عزت و آبرو اور احترام پر زور دیا جاتاہے۔ اس کے بعد پھرایک برس تک خواتین کے ساتھ نہ صرف نازیبا سلوک ہوتا ہے بلکہ ان کے تن سے کپڑے بھی اتارے جاتے ہیں، برہنہ پریڈ کرایاجاتا ہے اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچانے کیلئے طرح طرح کے بدترین سلوک کئے جاتے ہیں۔اس کے باوجود کہلانے والا مہذب معاشرہ خواتین کے تئیں حساس نہیں ہوتا۔ خواتین کے عالمی دن منانے کے ساتھ جب تک ہم اپنے نظریے میں تبدیلی نہیں لاتے یا اپنی ذہنیت نہیں بدلتے اس وقت تک اس سیمینار اور مباحثے اورمذاکرے سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ جہاں تمام سطحوں پر خواتین کی عزت و آبرو اور وقار کی ضمانت دی جائے وہیں خواتین پر زور دیا جائے کہ وہ تہذیب کے دامن اور خواتین کے وقار کے خلاف ایسا کوئی کام نہ کریں جس کی سزا دوسروں کوبھگتنی پڑے۔جب سے دنیا قائم ہے مرد کے ساتھ زن نے بھی اس دنیا کو سجانے سنوارنے میں یکساں کردار ادا کیا ہے۔ وہ تمام شعبہائے حیات میں اپنا کردار ادا کرتی آرہیں خواہ وہ پتھر کا زمانہ ہو یا لوہے کا یا مہذب دنیا۔آج خواتین نہ صرف حکمراں ہیں بلکہ سائنس، تکنالوجی، صنعت وتجارت اورسیاست ہر میدان میں اپنا پرچم بلند کر رکھا ہے۔ 8مارچ دنیا میں خواتین کے حقوق کے لئے جدوجہد کی علامت بن چکاہے۔ یہ1914سے اس دن کے منانے کی شروعات ہوئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق آٹھ مارچ 1907کو نیویارک کے ملبوسات کی صنعت سے وابستہ چندخواتین نے تنخواہوں میں اضافہ اوربہترحالات کیلئے یہ جدوجہدشروع کی تھی۔نیویارک کی ان خواتین نے مطالبہ کیاتھاکہ دس گھنٹے کے کام کے عوض انہیں اس کے مطابق زیادہ تنخواہیں دی جائیں۔ان عورتوں پرگھوڑسوارپولیس نے لاٹھی چارج کیااورا ن زخمی عورتوں کوگھوڑوں کے پیچھے باندکر گھسیٹاگیا۔اس کے بعدسوئی سازی کی صنعت سے وابستہ عورتوں نے اپنے ووٹ کے حق اوربچوں سے جبری مشقت لینے کے خلاف1908 میں مظاہرہ کیا۔ایک سماجی کارکن کلارازٹیکسن نے1910ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سفارش کی کہ1907 اور1908میں اپنے حقوق کیلئے جدوجہدکرنیوالی عورتوں کی آوازمیں دنیابھرکی عورتوں کی آوازکوشامل کرنے کیلئے8مارچ کوعورتوں کاعالمی دن قراردیاجائے اوریہ دن ہرسال دنیابھرمیں منایاجائے۔ 1956ء میں سیاہ فام مزدوروں پرپابندی کے خلاف جنوبی افریقہ کی20ہزارعورتوں نے پیری کوریامیں زبردست مظاہرہ کیاجسکے بعدعورتوں کی آوازمیں کچھ طاقت پیدا ہوئی۔جس کااثریہ ہواکہ8مارچ کو اقوام متحدہ نے بھی خواتیں کے عالمی دن کے طورپرتسلیم کرلیا۔اقوام متحدہ کے فنڈبرائے آبادی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہر15سیکنڈبعدایک عورت تشددکانشانہ بنتی ہے۔برطانیہ میں یہ شرح8.7فیصدفی لاکھ اورجنوبی افریقہ میں 129عورتیں فی لاکھ ہے جودنیابھرمیں سب سے زیادہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت دنیابھرمیں 20فیصدخواتین مردوں کے تشددوزیادتی کا شکار ہیں امریکہ، کینیڈا، سوئٹزرلینڈ کی عورتیں بدترین تشددمیں مبتلاہیں۔ہندوستان میں سالانہ6500سے7000خواتین کومحض اس لئے قتل کردیاجاتاہے کہ ان کے سسرال ان کو ملنے والے جہیزکوناکافی تصورکرتے ہیں۔ اس وقت دنیابھرمیں تقریباً4کروڑنوجوان خواتین کوفیملی پلاننگ کے محفوظ ذرائع دستیاب نہیں۔ ہرسال15سے 49سال تک کی عمرکی تقریباً6لاکھ خواتین زچگی کے دوران مرجاتی ہیں۔ہرسال پانچ کروڑعورتیں اسقاط حمل کے مرحلے سے گزرتے ہوئے 78ہزارعورتیں انتقال کرجاتی ہیں۔جبکہ 40لاکھ خواتین اورلڑکیوں کوہرسال دنیابھرمیں عصمت فروشی کے دھندے میں دھکیل دیاجاتاہے۔ دنیابھرمیں عورتوں کوکام کرنے کامعاوضہ بہت کم دیاجاتاہے۔دنیابھرمیں 7کروڑ سے زائدخواتین روزانہ بھوکی سوتی ہیں جس میں انتہائی پسماندہ ممالک شامل نہیں ہیں۔صرف امریکہ میں ایک کروڑخواتین روزانہ بھوکی سوتی ہیں۔ہرسال 80 لاکھ سے زائد عورتیں انسانوں کی خریدوفروخت کاشکارہوتی ہیں ان میں سے زیادہ ترکوکاروبار کے لئے عصمت فروشی کے لئے مجبورکیاجاتاہے۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین کے عالمی دن کا جشن 112 سال پہلے 1908 میں شروع ہوا تھا، جب امریکہ کے شہر نیو یارک میں تقریبا 15000 خواتین سڑکوں پر آئیں۔یہ خواتین کم گھنٹے کام، بہتر تنخواہ اور ووٹ کے حق کے مطالبہ کے لئے مظاہرہ کر رہی تھیں۔خواتین کے اس احتجاج کے ایک سال بعد، امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے خواتین کا پہلا قومی دن منانے کا اعلان کیا۔خواتین کے دن کو بین الاقوامی سطح پر منانے کا خیال ایک خاتون، کلارا زیٹکن کا تھا۔خواتین کا دن شروع کرنے والی خاتون کلارا زیٹکن۔ کلارا زیٹکن جس نے یوم خواتین کی بنیاد رکھی۔کلارا زیٹکن نے سال 1910 میں عالمی سطح پر یوم خواتین منانے کی تجویز پیش کی۔اس وقت، کلارا یورپی ملک ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ورکنگ ویمن کی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک تھیں۔اس وقت اس کانفرنس میں 100 خواتین شریک تھیں، جو 17 ممالک سے آئیں۔ ان سبھی خواتین نے کلارا کی تجویز کو متفقہ طور پر منظور کرلیا۔خواتین کا پہلا بین الاقوامی دن 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں منایا گیا۔اس کی صد سالہ تقریبات سال 2011 میں منائی گئیں۔ لہذا، تکنیکی طور پر اس سال ہم خواتین کا 109 واں عالمی دن منا رہے ہیں۔سال 1975 میں، جب اقوام متحدہ نے اس کا جشن منانا شروع کیا، تو خواتین کے عالمی دن کو باقاعدہ شناخت ملی۔خواتین کے بین الاقوامی دن کو پہلی بار ایک موضوع کے تحت 1996 میں منایا گیا تھا۔اس سال، اقوام متحدہ نے اپنا موضوع - 'ماضی کا جشن منانا، آئندہ کا لائحہ عمل' مرتب کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ان اعدادوشمار کے بارے میں، ایک نامور ادارہ، انڈیا اسپینڈ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کا معاشرہ صنفی امتیاز کے خاتمے سے متعلق انفرادی، سرکاری یا غیر سرکاری اقدامات کی حمایت کرنے کے بجائے اس کے خلاف رد عمل کا اظہار کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وراثت میں حاصل ہونے والی بیٹی کو مساوی حقوق دینے کی بات آتی ہے تو وہ بیٹی کے ساتھ تعلقات ختم کرتا ہے۔ جب کنبے کو مختصر کی بات آتی ہے تو، سوسائٹی ایک بیٹا پیدا کرنا چاہتی ہے اور ایسے معاملات میں اسقاط حمل کے معاملات بڑھ جاتے ہیں۔ یہی صورتحال لڑکی کی ملازمت، اس کے لباس اور صحت کی ترجیحات کے حوالے سے بھی دیکھی گئی ہے۔عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لوگ غربت کی وجہ سے لڑکیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں، لیکن انڈیا اسپینڈ کے تجزیے کے مطابق، جہاں پچھلے 65 سالوں میں ملک میں فی کس آمدنی میں 10 گنا اضافہ ہوا ہے، وہاں جنسی تناسب میں کمی واقع ہوئی ہے۔ 2015۔17 کے آبادیاتی سروے کے مطابق، ملک میں ہر 1000 لڑکوں کے لئے صرف 896 لڑکیاں ہیں، جبکہ 2014–16 کے سروے میں یہ تخمینہ 1000 کے مقابلے 898 تھا۔ اس صورتحال پر، انڈیاسپینڈ کا کہنا ہے کہ آمدنی بڑھنے کے ساتھ ہی، معلومات اور صنف انتخاب کے طریقہ کار تک رسائی لوگوں کے لئے آسانی ہے۔ ایسی صورتحال میں، وہ دنیا میں ناپسندیدہ خواتین کو نہ لانے کا فیصلہ کرتے ہیں، جو کم ہونے والے تناسب کی شکل میں آرہے ہیں۔اقوام متحدہ کے صنف سماجی اصولوں کی انڈیکس۔2020 کے مطابق، ہندوستان میں مرد کے ساتھ ساتھ خواتین بھی خواتین کے خلاف تعصب کا شکار ہیں۔ خواتین کے بارے میں تعصب نہ رکھنے والے 31 ممالک کی فہرست میں ہندوستان مردوں کے لحاظ سے نیچے سے چوتھے اور خواتین کے معاملے میں نیچے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ اس بنیاد پر، اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہندوستان اور دیگر ممالک کا معاشرہ تبدیلی کے خلاف رد عمل ظاہر کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنوبی ایشیا میں نیپال میں گھریلو تشدد کے خاتمے اور روزگار کی جگہوں پر خواتین کے لیے مساوی حقوق سے متعلق کی گئی قانون سازی کم از کم علاقائی سطح پر دیگر ریاستوں کے لیے بہترین مثال ہے۔ کٹھمنڈو سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بات عالمی ادارے کی ایک ایسی نئی رپورٹ میں کہی گئی ہے جس کا عنوان ہے، ’دنیا کی خواتین کے لیے ترقی: انصاف کی تلاش میں۔‘ اس رپورٹ کے مطابق ہمالیہ کی سابقہ ہندو بادشاہت اور نئی جمہوریہ نیپال اور جنوبی ایشیا کی ایک اور چھوٹی سی بادشاہت بھوٹان دو ایسے ملک ہیں، جو اپنے ہاں عام شہریوں کی طرف سے ان کی ازدواجی زندگی میں تشدد کو واضح طور پر باقاعدہ جرم قرار دے چکے ہیں۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا کی تنظیم برائے علاقائی تعاون یا سارک کی رکن ریاستوں کی تعداد یوں تو سات ہے، جن میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش بھی شامل ہیں، تاہم نیپال اور بھوٹان وہ واحد مثالیں ہیں، جہاں خواتین پر گھریلو تشدد کے خاتمے کے لیے اس بارے میں متاثر کن قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ابھی حال ہی میں نئی دہلی میں جاری کی گئی اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو انصاف کی فراہمی اور ان کی ملکی عدلیہ تک رسائی کی سب سے اہم بنیاد یہ ہے کہ متعلقہ ریاست انہیں ایک ایسا قانونی اور آئینی ڈھانچہ مہیا کرے، جو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہو۔ رپورٹ کے مطابق اس بارے میں نیپال کی مثال یہ واضح کرتی ہے کہ قوانین اگر مساوی بنیادوں پر تیار کیے جائیں، تو وہ معاشرے میں نئی اقدار کے ظہور میں آنے کے ضامن بننے کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر نئی تبدیلیوں کا سبب بھی بنتے ہیں۔
اس رپورٹ میں نیپال ہی میں ان قانونی ضمانتوں کو بھی سراہا گیا ہے، جن کے تحت پبلک سیکٹر میں نیپالی خواتین کو کم از کم بھی ایک تہائی نمائندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس سلسلے میں عالمی ادارے کی اس دستاویز میں نیپال کا موازنہ ہمسایہ ملک اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان سے کیا گیا ہے، جہاں نئی دہلی کی ملکی پارلیمان میں خواتین کو حاصل نمائندگی کا موجودہ تناسب صرف 11 فیصد بنتا ہے۔کچھ عرصے سے، ہر ایک کو یقین ہوگیا کہ اب اس ملک میں خواتین کی صورتحال بدلنے والی ہے۔ لیکن جب اگلے سال این سی آر بی نے دوبارہ اپنی رپورٹ جاری کی تو پتہ چلا کہ خواتین کے ساتھ تشدد اور عصمت دری کے واقعات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تب سے، یہ گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ صرف ملک کے دارالحکومت میں ہی 2016-17 میں خواتین کے خلاف تشدد میں 26.4 فیصد اضافہ ہوا تھا۔یہ سارے حقائق اور اعداد و شمار اسی حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ ہم اپنی خواتین کو محفوظ اور وقار بخش زندگی کی ضمانت دینے میں بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔ چھوٹے شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں ہی نہیں، میٹرو میں بھی، مجھ جیسی لڑکیاں اندھیرے کے بعد خالی، تنہا سڑک پر چلنے سے گھبراتی ہیں۔ ہم ہمیشہ اس حقیقت سے خوفزدہ رہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ کسی بھی وقت حادثہ پیش آسکتا ہے۔ ہماری بہت سی توانائی صرف اپنی حفاظت کے لئے صرف ہوتی ہے۔ اگر کسی ملک کی آدھی آبادی اس خوف میں مستقل طور پر زندگی بسر کرتی ہے کہ کسی بھی وقت اس کا کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے تو پھر اس ملک کے لئے یہ فخر کی بات نہیں ہے۔
اس سال، یوم خواتین کے عالمی دن کا موضوع مرتب کیا گیا ہے - 'ایک مضبوط دنیا میں مساوات پر مبنی دنیا'۔اس کے تحت لوگوں سے اپیل کی جارہی ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اور تمام شہری مل کر ایسی دنیا کی تشکیل کریں جہاں خواتین اور مردوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں۔یہ نعرہ بھی محض خواب ہی ثابت ہوا۔ عالمی وبا کورونا کے دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا خواتین کو ہی کرنا پڑا، جہاں گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا وہیں خواتین کے خلاف دیگر جرائم کے واقعات بھی بڑھے۔ ہندوستان میں خواتین کو ہندو مذہبی کتابوں میں دیوی کا درجہ حاصل ہے لیکن سب سے زیادہ خواتین کے ساتھ زیادتی یہیں ہوتی ہے،یہاں خواتین کے لئے ا نصاف مشکل ترین امر ہے خاص طور پر جب خواتین کا تعلق دلت، کمزور اور قلیتی طبقہ سے ہو تو انصاف گولر کا پھول بن جاتا ہے۔حالیہ برسوں میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ حیوانیت اور درندگی اور مجرموں کے حق میں حکمراں ٹولہ کا کھڑا ہوجانا انصاف کو کتنا ناممکن بنادیتا ہے۔ جہاں کی عدالتیں متعصب حکمرانوں کی منشا اور اشارے پر تھرکتی ہوں وہاں انصاف کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔

Comments