عابد انور
ہندوستان میں حالات کتنے بدل گئے ہیں، الفاظ و استعارات میں کتنی تبدیلی آگئی ہے، الفاظ کے معنی و مفاہیم اور اصطلاحات الٹ دئے گئے ہیں،سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کہا جانے لگا ہے، قانون کی حکمرانی کا مطلب کمزور اور سہارا کو ستانا رہ گیا ہے، دھاندلی کو جیت کہا جانے لگا ہے، ملک سے غداری کو دیش بھکتی کا نام دے دیاگیا ہے۔ غنڈہ گردی، بھگوا جھنڈا لہرانے کو نیشنلزم کا چولا پہنا دیا گیا ہے۔ماورائے عدالت قتل کو انصاف کہا جانے لگا ہے۔ بھیڑکے ہاتھوں قتل کو شجاعت و بہادری کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ چور لٹیروں، ذخیرہ اندوزوں، ملک کولوٹنے والوں کو عزت بخشی جارہی ہے۔ زانی کا ترنگا جھنڈالیکر دفاع کیا جارہا ہے۔ وکیلوں جنہیں قانون کا محافظ کہا جارہا تھا اب وہ انصاف کی راہ میں حائل ہورہے ہیں اور وہ عدالت کے باہر فیصلہ کرنے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔جمہوریت کا مطلب تکثیری جمہوریت رہ گیا ہے جس کے سہارے مسلمانوں پر ظلم و تشدد، فسادمیں قتل عام کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔سچ میں کتنی تبدیدلی آگئی ہے پردھان سیوک کے ان چھ برسوں میں، اس طرح کے وقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن ان کا گنگان نہیں کیا جاتا تھا۔ان کا استقبالیہ جلوس نکالا نہیں جاتا تھا اسے گناہ سمجھا جاتا تھا۔اس وقت جسے پہلے نفرت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اسے محبت کے ساتھ آج تخت پر بٹھایا جاتا ہے اور اقتدار کی کرسیاں سونپی جاتی ہیں،ا ن کی جے جے جے کار ہورہی ہے، قومی ہیرو کا درجہ دیا جار ہا ہے، بابائے قوم کے قاتل کو سرخروئی حاصل ہورہی ہے، ان کے مندر بنائے جارہے ہیں، ان کی برسی اور سالگرہ منائی دھوم دھام سے منائی جارہی ہے اور جو لوگ جدید ہندوستان کے معمار، آزادی کے علمبردار،اپنی جان کی قربانی پیش کرنے میں آگے آگے رہے تھے ان سے نفرت کی جارہی ہے اور ان کے بارے میں طرح طرح کے مفروضات کو سچ کا جامہ پہناکر ان کی کردارکشی کی جارہی ہے۔ شیطان اور بدی کی پیروی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ ایمانداری، سچ بولنا، سچ کہنا اور حق کی حمایت کرنا گناہ عظیم ہوگیا ہے۔ پہلے بے ایمانی، بدعنوانی اور مجرموں کے ساتھ کوئی کھڑاہونا پسند نہیں کرتا تھا لیکن مودی حکومت کے برسراقتدارآنے کے بعد صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ ایسے لوگ اب فخر محسوس کرتے ہیں۔ان کو اہم اہم عہدوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ جتنے غنڈے، چور لٹیرے،زانی اور قاتل تھے انہوں نے ہندوؤں کی کوئی نہ کوئی تنظیم بناکر غنڈہ گردی کی قانونی شکل دے دی ہے۔جو وہ کچھ رہے ہیں وہی سچ ہے باقی سب جھوٹ۔ اور کتنی تبدیلی چاہئے۔’وکاس‘ قابو سے باہر ہوکر جس کی چاہتا ہے آبروریزی کرتا ہے، جب چاہتا ہے کسی کی زمین پر قبضہ کرلیتا ہے، کسی کی دکان و مکان میں آگ لگا دیتا ہے، کسی کا مال لوٹ لیتا ہے، سڑکوں پر غنڈہ گردی کرتا ہے اور لڑکیوں کو چھیڑتا ہے۔ پھر بھی کہہ رہے ہیں کہ چھ سال میں کوئی کام نہیں ہوا۔
پردھان سیوک نے حکومت کے چھ سال اور دوسری میعاد کے پہلے سال مکمل ہونے پر پہلے کے دوران فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا”اتحاد-سالمیت کے لئے آرٹیکل 370 کی بات ہو، صدیوں پرانی جدوجہد کے خوشگوار نتائج - رام مندر کی تعمیر کی بات ہو، جدید سماجی نظام میں رکاوٹ بنا طلاق ثلاثہ ہو، یا پھر ہندوستان کی تمناؤں کی علامت شہریت ترمیمی قانون ہو، یہ ساری کامیابیاں آپ سب کو یاد ہیں۔ یکے بعد دیگرے ہوئے ان تاریخی فیصلوں کے درمیان کئی فیصلے، کئی تبدیلیاں ایسی بھی ہیں جنہوں نے ہندوستان کی ترقی کی سفر کو نئی رفتار دی ہے، نئے اہداف دیئے ہیں، لوگوں کی توقعات کو پورا کیا ہے“۔مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے گزشتہ چھ برسوں کے میعادکار میں تاریخی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے ساتھ ساتھ خودانحصاری ہندوستان کی بنیاد رکھی ہے۔یہ چھ برسوں کی مدت ’غریبوں کی فلاح وبہبود اور اصلاحات‘ کی متوازی رابطہ کی ایک غیر معمولی مثال ہے۔ ایماندار قیادت اور غیر معمولی محنت کے عکاس وزیراعظم مودی پر ہندوستان کی عوام کو جو غیر معمولی اعتماد ہے ویسا ملک کی عوام کا اپنے قیادت پر یقین دنیا میں بہت کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔بی جے پی صدر نے کہا کہ مودی حکومت کے چھ سال کی مدت میں سات دہائی کے عرصے میں چھوٹی کمیوں کو پورا کرنے کا کام کیا گیا۔ بنیادی ڈھانچہ کی ترقی اور تیز رفتار سماجی اور اقتصادی بحالی کے اقدامات اٹھائے گئے۔ غریبوں کو فائدہ پہنچایا گیا۔ مسٹر مودی پوری طاقت کے ساتھ جیسی خدمت انہوں نے گزشتہ چھ سال میں ملک کی وزیر اعظم کے طور پر کی ہے، اسی طاقت کے ساتھ ملک کی خدمت میں لگے رہیں۔ 20 لاکھ کروڑ روپے کا ’آتم نربھر بھارت‘ پیکیج دیا گیا۔ دوسری مدت کے پہلے سال میں کئی فیصلہ کن اقدامات کئے گئے ہیں۔ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا۔
مسٹر سرجے والا نے کہاکہ چھوٹے، مائیکروں اور متوسط درجے کی صنعتیں بربادہوگئی ہیں، جی ڈی پی یعنی مجموعی گھریلو پیداوار کی شرح مسلسل کم ہورہی ہے، معیشت برباد ہوگئی ہے اور معاشی بحران میں مسلل اضافہ ہورہا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی ان منفی حالات میں بھی خودانحصاری کی بات کررہے ہیں۔مودی حکومت کی ان چھ برسوں کی کامیابیوں پر انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران صرف لوگوں کو بہکانے کی کوشش کی گئی ہے اور لوٹ کھسوٹ ہوتی رہے۔بینکوں سے چھ لاکھ 66 ہزار کروڑ روپے کی گھپلہ بازی کی گئی اور روپے مسلسل کمزور ہورہا ہے۔ کورونا سے نمٹنے کے لئے حکومت نے بیس لاکھ کروڑ روپے کی معاشی امداد دینے کا اعلان کیا لیکن وہ بھی جملہ ہی ثابت ہوا ہے۔ اس کا ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ صرف بی جے پی کا وکاس بن کر رہ گیا ہے۔اس دوران کانگریس لیڈروں نے مودی حکومت کے میعاد کار پرایک کتاب ’بے بس سرکار بے بس لوگ‘ کا اجراء کیا جس میں اس کی ناکامیابیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔اس حکومت نے اس دوران نہ صرف اپوزیشن کے مشوروں کونظرانداز کیا ہے بلکہ وہ آئینی اداروں کو بھی نظرانداز کرتی رہی ہے اور ان کو مسلسل کچلنے کا کام کیاگیا ہے۔اس حکوت کی کوئی پالیسی نہیں ہے اس لئے ترقی گزشتہ چھ برسوں کے دوران مذاق بن کر رہ گئی ہے۔ اس دوران ملک میں بے روزگاری عروج پر پہنچ گئی ہے اور بے روزگاری 45 برس کی اس مدت میں سب سے زیادہ درج کی گئی۔
یہ پردھان سیوک، امت شاہ اور جے پی نڈا کی خوش فہمی کی حد تو دیکھئے، کورونا، مزدورں کی پریشانی، بھکمری، لاچاری، سڑکوں پر پیدل چلتے، پاؤں میں چھالے، ٹرینوں میں موت، سڑکوں پر خواتین کی ولادت، حاملہ عورت کا سینکڑوں میل پیدل چلنا، اسپتال میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے درجنوں خواتین کی درد زہ کی حالت میں موت، پٹریوں پر مزدورں کا ریل سے کٹ کر مر جانا، بھوک و پیاس سے سیکڑوں مزدوروں کی موت، اس عالمی وبا کے دوران مزدورں اور عوام پر پولیس کا لاٹھی برسانا، بے گناہوں اور سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر یو اے پی اے خلاف مقدمہ درج کرکے جیل میں ڈالنا، کورونا میں انتظام کرنے اور اس عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے کام کرنے کے بجائے اس حکومت کی ساری توجہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری، کشمیر میں ڈومیسائل میں تبدیلی اور وہاں کے لوگوں کی زندگی اجیرن بنانے تک محدود رہی۔
پورا ملک بے حال ہے، روزگار نہیں ہے، انسان محفوظ نہیں ہے، امن و قانون تباہ و برباد ہوگیا ہے، بینک کا دیوالیہ نکل گیا ہے، خواتین کی آبرو محفوظ نہیں ہے۔بیٹیاں آج انہی کے کارندوں کے ہاتھوں مسلی اور روندی جارہی ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے اور اس توجہ ہٹانے کے لئے نوجوانوں کو مختلف سینا بناکر غنڈہ گردی کرنے کا لائسنس دے دیا گیا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق بہار میں ہی گزشتہ چھ برسوں کے دوران ہندو ؤں کے80 سے زائدسینا، گؤررکشک، گؤبھکت اور اسی طرح کے ملتے جلتے ناموں سے وجود میں آچکے ہیں جو صوبائی سطح سے لیکر بلاک سطح کے بے روزگار نوجوانوں کا گروہ ہے جو آئے دن کسی نہ کسی کے نام پر انسانیت اور عورتوں کی عزت تار تار کرتا رہتا ہے۔ پورے ملک میں امن و قانون کا نام و نشان نہیں ہے اور رام نومی کے علاوہ دیگر مواقع پر ملک بھر میں سیکڑوں جگہ فسادات ہوئے ہیں اور یکطرفہ کارروائی کرتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ نے فسادی کو چھوڑ کر مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کی متبادل حکومت چل رہی ہے۔ اسی کو ملک کے وقار کی بلندی سمجھ لیا گیا ہے۔ملک کے وقار بلند کرنے کا دعوی امت شاہ اورپردھان سیوک نے کیا ہے۔ اس کا مذاق ورلڈبینک سمیت دنیا کی ایجنسیوں نے اڑا یا ہے۔ورلڈ بینک نے ہندوستان کو ترقی پذیر ممالک فہرست سے نکال کر ’لور مڈل انکم کٹیگری‘ میں ڈال دیا ہے۔ پریس آزادی میں ہم سب سے نچلی سطح پر ہیں اور دعوی ہے کہ سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا، بھوک کے معاملے میں ہمارا مقام نیپال، بنگلہ دیش اور پاکستان سے بھی اوپر ہے اور بات کرتے ہیں ایک منٹ میں ملیا میٹ کرنے کی۔ ملک کے وقار سے متعلق جتنے بھی سروے آئے ہیں ان میں ہندوستان اپنے سابقہ مقام سے بہت نیچے پھسل گیا ہے۔ اس ملک کے وقار کی بات کی جارہی ہے جہاں بھات بھات کہہ کر بچہ دم توڑ دیتا ہے۔ جہاں سرے عام لڑکیوں کی چھیڑ خانی کرکے ویڈیو گرافی کی جاتی ہے اور ایک طرح کے مہذب سماج کو چیلنج کیا جاتا ہے کہ کچھ ہوسکے تو کرلو۔ گائے نام پر انسانوں کو بے رحمی سے پیٹ پیٹ ہلاک کردیا جاتا ہے اور خاطی کی ہمت افزائی کی جاتی ہے اور ان کو ہیرو بنایا جاتا ہے۔ افرازل کے قاتل شمبھو لال کی شان میں جلوس نکالا جاتا ہے اور جودھ پور کورٹ پر قبضہ کرلیا جاتا ہے اور خاطی کے خلاف پولیس، جج، وکیل سب تماشہ دیکھتے ہیں اور کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور اپنے آپ کو سول سوسائٹی اور مہذب معاشرہ کہتے ہیں؟
گھپلے سے پاک حکومت کا دعوی کرنے والی مودی حکومت کے چھ سال کے دور میں سب سے بڑا گھپلہ تو کورونا کا ہوگا،جس کی اس کی پرت در پرت کھلے گی۔جو پیسہ مزدوروں، کسانوں، کمزوروں کو جانا چاہئے تھا وہ کہاں گیا۔ ملک کے بینکوں سے 90,000 کروڑ روپے سے زائد کے گھپلے ہوئے ہیں اور بینک کا غیر فعال سرمایہ (این پی اے) تقریباً آٹھ لاکھ کروڑ ہوگیا ہے۔ان میں صرف بپلک سیکٹر کے بینک ہی شامل نہیں ہیں بلکہ پرائیویٹ بینک کا این پی اے بھی بڑھ رہا ہے قرض لینے والے ارب پتی کھرب پتی ہیں جن کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا نے آر ٹی آئی کے جواب میں کہا ہے کہ گزشتہ 4 سال کے دوران ملک کے بینکوں سے 90,000 کروڑ روپے سے زیادہ کے گھپلے ہوئے ہیں۔ اس دوران ملک کے مختلف بینکوں سے 19000 سے زیادہ گھپلے ہوئے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں کے دوران ملک کے مختلف بینکوں میں ایک لاکھ کروڑ روپے کے 23ہزار سے زیادہ بینک گھپلوں کا پتہ چلا ہے۔ ریزرو بینک کے مطابق اپریل 2017 سے مارچ 2018 کے درمیان بینک دھوکہ دہی کے 5152 معاملے اجاگر ہوئے ہیں۔ دھوکہ دہی کے ان معاملوں میں 28,459 کروڑ روپے شامل ہیں۔ وہیں سال 17-2016 میں 5076 بینک گھپلے ہوئے ہیں جن میں 23,933 کروڑ روپے کا گھپلہ ہوا ہے۔ کل ملاکر سال2013 مارچ سے سال 2018 مارچ تک کی پانچ سالہ مدت کے دوران ایک لاکھ یا اس سے زیادہ کے بینک فریب دہی کے 23,866 معاملے سامنے آئے ہیں جن میں ایک لاکھ 718 کروڑ روپے کی رقم کا گھپلہ ہوا ہے۔اسی طرح حکومت بننے کے بعد اسکینڈل تھم نہیں رہے ہیں، ایک کے بعد ایک گھپلے مرکز کی مودی حکومت کے اور ریاست کی بی جے پی حکومت میں سامنے آئے ہیں۔ فرضی ڈگری ہو یا گھپلہ ہو بی جے پی کے دیگر گھپلے۔ چھتیس گڑھ PDC گھپلہ 36000 کروڑ کا سامنے آیا تھا، ویسے ہی ویاپم کا میگا گھپلہ جس میں 50 سے زائد لوگو کی جان بھی گئی تھی اور راجستھان کا 46000 کروڑ کا کوئلہ گھپلہ کیگ نے پکڑا ہے۔امریکی ٹی وی کے مطابق ہندوستان میں قتصادی نمو کی شرح 2018کے اپریل سے جون کے دوران کم ہو کر 5.7 فیصد پر آ گئی جو گزشتہ تین برس کے دوران سب سے کم شرح نمو ہے۔ اس وقت جی ڈی پی منفی میں ہے۔ایک تو مودی سرکار کی طرف سے گزشتہ نومبر میں 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں کی منسوخی کا فیصلہ ہے۔ اس وقت کہا گیا کہ اس کا مقصد ملک میں غیر قانونی رقوم کا خاتمہ کرنا تھا لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ملک میں کاروبار سکڑ کر رہ گیا ہے اور مالی وسائل میں شدید قلت پیدا ہوئی ہے جس سے مالی وسائل پر انحصار کرنے والی معیشت کو دھچکا پہنچا ہے۔اس کے علاوہ اس سال جولائی میں حکومت نے ٹیکسوں میں اصلاحات کا اعلان کیا جس میں جی ایس ٹی میں ردو بدل کیا گیا۔ تاہم معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس پر عملدرآمد میں سنگین غلطیاں ہوئی ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹیکسوں کے کئی ریٹ سامنے آنے سے کاروباری حلقوں میں افراتفری پھیلی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی بھلے ہی دعوی کریں کہ ان کی حکومت نے روزگار کے مواقع پیدا کئے ہیں، لیکن حقیقت کچھ اور تصویر پیش کر رہی ہے۔ 45سال میں بے روزگاری اعلی ترین سطح پر ہے۔ مرکزی حکومت نے راجیہ سبھا میں قبول کیا تھاکہ ملک میں بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر پسماندہ طبقے میں۔ ایک سروے کے مطابق، دس گریجویٹوں میں سے ایک بیروزگار ہے.۔گاؤں میں نوجوانوں کی بے روزگاری تقریبا 87 فیصد ہے۔ جبکہ شہر میں یہ 28 فیصد ہے۔ جب ہم روزگار کے بارے میں بات کرتے ہیں، کل ملازمت کا صرف 20 فیصدمعیار کے ملازمت کا حصہ ہے۔کوالٹی ملازمت کا مطلب روزگار کا ذریعہ ہے جس میں نوجوانوں کو کم از کم اجرت اور نوکری کی حفاظت کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ فراہم کرتا ہے نوجوانوں کے باقی آٹھ فیصد غیر منظم سیکٹر میں مصروف ہیں، جہاں ملازمت کی سلامتی نہیں ہوتی ہے۔ منموہن سنگھ نے ہندوستان کی معیشت کی تباہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے 2018 میں کہا تھا ”یو پی اے حکومت کے دوران شرح ترقی 7.8 فیصد تھی جس میں سماج کے ہر طبقہ کی شمولیت تھی۔ مودی حکومت جب اقتدار میں آئی تو اس نے عوام سے بے شمار وعدے کئے۔ لیکن کوئی وعدہ پورا نہیں کیا“۔ ”شرح ترقی گزشتہ 4 سالوں میں سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی۔مودی نے وعدے تو خوب کئے اور کہا کہ 6 سالوں میں آمدنی کو دوگنا کیا جائے گا۔ لیکن اس ہدف پر پہنچنے کے لئے ہمیں سالانہ 12 فیصد ترقی کی شرح درکار ہے جو ممکن نہیں۔ اس لئے یہ جملہ کے سوائے اور کچھ نہیں۔“ منموہن سنگھ نے ملک میں بڑھ رہی بے روزگاری کے حوالے سے کہا کہ”مودی نے 2 کروڑ ملازمتیں سالانہ دینے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن 2 لاکھ روزگار سالانہ بھی نہیں دئے گئے۔ اس کے علاوہ نوٹ بندی اور غلط طریقہ سے لاگو کئے گئے جی ایس ٹی نے بھی روزگار کو بری طرح متاثر کیا۔“
ایک شخص کے خواب کو پورا کرنے کے لئے ہندوستانی جمہوریت کو جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوری سمجھی جاتی تھی جمہورا بنادیا گیا ہے۔ ہماری جمہوریت ایک شخص کے خواب کو پورا کرنے یا سیر سپاٹا کرنے کے لئے نہیں ہے۔ یہ عوام کی خواہشات پورا کرنے اور خواہشات پیدا کرنے کے لئے ہے لیکن ان چار برسوں میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔یہی حصولیابی اس حکومت کی ہے۔
9810372335
abidanwaruni@gmail.com
Comments
Post a Comment