مسلمانوں کومضبوط بین الاقوامی میڈیا کی سخت ضرورت

عابد انور

Thumb

میڈیا ہمیشہ سے کسی نہ کسی صورت میں موجود رہا ہے اورہر دور میں مثبت اوراہم اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے خصوصاً سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں تو اس میں انقلاب آگیا اور اس نے کئی انقلاب کی آمد میں زبردست کرداربھی ادا کیا۔ جس قوم نے اس پر توجہ دی وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں کامیاب رہا جن لوگوں نے اسے نظر انداز کیا وہ تباہی کے دلدل میں پھنستا چلا گیا اور اس پستی پر کوئی چیخنے والا بھی نہیں رہا۔ پوری دنیا میں مسلم قوم کی بھی یہی صورت حال ہے خواہ وہ مسلم ممالک ہوں یا دیگر ممالک۔جہاں مسلم ممالک نے آزاد میڈیا کوکبھی ابھرنے نہیں دیا وہیں غیر مسلم ممالک میں میڈیانے مسلمانوں کی آواز کو اس قدر دبائے رکھا وہ جہاں بھی رہے وہ نان شبینہ کے محتاج رہے اور ان کی خیرو خبر لینے والا کوئی نہیں رہا۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں نے قوم کی دولت کو اپنے عیش و آرام پر فراخ دلی سے خرچ کیا اور اپنی عیاشی کے لئے جگہ جگہ آشیا نے بنوائے لیکن انہوں نے ایک طاقتور میڈیا کو فروغ دینے کی کبھی کوشش نہیں کی کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ ان کے کالے کرتوتوں کو میڈیا اجاگر کردے گا۔ مسلم ممالک خصوصاً عرب ممالک میں میڈیا کا کام صرف حکمرانوں کی قصیدہ خوانی تک محدود رہ گیاہے۔ کوئی بھی صحافی ان کے یا ان کے اہل خاندان کے بارے میں لب کشائی نہیں کرسکتااور نہ ہی ایسی چیزوں کو ضبط تحریر میں لا سکتا ہے جو حکمرانوں کے عیش پرستی، مغرب پرستی اور ان کے سیاہ کارناموں کو جگ ظاہر کرنے میں کسی طرح کا رول ادا کرے۔ مغربی اقوام نے اس لئے ترقی کی کہ انہوں نے ایک آزاد میڈیا کو پنپنے دیا اور میڈیا نے بھی اس کے تئیں اپنی بھرپور ایمانداری کا مظاہرہ کیا (مسلم مفادات کو چھوڑ کر) اور حکمرانوں کی گوشمالی سے بھی وہ کبھی باز نہیں آیا اور حکمرانوں کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے اپنے قدم پھونک پھونک کر بڑھائے۔حقیقت میں میڈیا کا کام بھی یہی ہے کہ وہ غلط چیزوں کی طرف نشان دہی کرے اور اچھے کاموں کی تعریف کرے۔اس میں بہت حد تک مغربی میڈیا کامیابی سے ہم کنار ہوا ہے لیکن مغربی حکومت میڈیا کی حق گوئی اب اتنے کھلے دل سے برداشت نہیں کررہی ہے جیسا کہ پہلے کیا کرتی تھی۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے وہائٹ میں طویل ترین عرصہ تک خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو محض اس بناء پر رخصت کردیا کہ انہوں نے حق کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اسرائیل کو برا بھلا کہا تھا۔ مغرب میں اسرائیلی کی درندگی، وحشیت و بربریت اور اس کی من مانی پر لکھنے کا حق مغرب کے صحافیوں کو حاصل نہیں ہے۔ 
تنظیم اسلامی کانفرنس کہنے کو تو  57رکنی اسلامی ممالک کی تنظیم ہے جسے اللہ تعالی نے تمام نعمتوں اور قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے مگر نتیجے کے طور اس کی حصولیابی صفر رہی ہے قیام سے لے کر اب تک اس کا کوئی ایسا کارنامہ نہیں ہے جسے یاد رکھا جاسکے یا ان ممالک کی شان میں اضافہ کرتا ہو۔ اس کا کام محض میٹنگ بلانا، قراردادیں پاس کرنے تک محدود ہے۔ 1967میں عرب اسرائیل جنگ میں مسجد اقصی پر اسرائیلی حملے کے بعدمراقش کے شہر رباط میں 25 ستمبر1969کو اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس کے مقاصد میں مسلم امہ کے سیاسی، معاشی اور سماجی مشترکہ مفادات کا تحفظ تھا۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم مسلم امہ کی فلاح بہبود کے لئے وقتاً فوقتاً ادارے، کمیٹی اور قراردادیں منظور کرتی رہی ہے۔ اس کے کندھے پر ایک ارب 20 کروڑ مسلمانوں کی فلاح کی ذمہ داری ہے۔ اس کے درجنوں ادارے کام کر رہے ہیں جن میں ”کیروڈیلی گیشن آن ہیومن رائٹ ان اسلام“،  ”پارلیمنٹری یونین آف دی او آئی سی ممبر اسٹیٹ“ اور”انٹرنیشنل زکوۃ آرگنائزیشن“ قابل ذکر ہیں جن کے مقاصد بھی بہت بڑے ہیں۔
دیر سے ہی سہی گزشتہ برس اس تنظیم نے ایک طاقتور اور مضبوط میڈیا کی ضرورت و اہمیت کو محسوس کیا تھا۔ اسلامی دنیا میں کوئی میڈیا طاقت ور شکل میں نہیں ابھر سکا۔ قطر کا الجزیرہ ضرور سرخیوں میں رہا لیکن اس نے اسامہ بن لادن کا ٹیپ (جعلی یا حقیقی) جاری کرنے کے علاوہ کوئی بھی اہم کام انجام نہیں دیا اور نہ ہی وہ مغربی میڈیا کے پروپگینڈہ کا مقابلہ کرسکا۔ گزشتہ سال جدہ میں منعقدہ جنرل اسمبلی آف دی اسلامک براڈکاسٹنگ یونین کے اجلاس میں مسلم لیڈروں نے مضبوط اسلامی میڈیا کے قیام کی ضرورت پر زور دیاتھااور او آئی سی کے تحت قائم کئے گئے میڈیا کے ادارے کو نئی توانائی کے ساتھ میدان عمل میں لانے پر متفق ہوئے۔ اسلامی کانفرنس کی (او آئی سی) کے سکریٹری جنرل پروفیسر اکمل الدین احسان اوغلو نے ایک مضبوط اسلامی میڈیا کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی مہم کا موَثر طریقے سے مقابلہ کیا جاسکے۔انہوں نے او آئی سی سے منسلک اسلامک براڈ کاسٹنگ یونین (آئی بی یو) کی جنرل اسمبلی سے کہا کہ ’میڈیا دنیا میں تیزی سے ہونے والی پیش رفت کے تئیں اسلامی میڈیا کے ادارے کافی لاپروائی برت رہے ہیں‘۔
پروفیسراحسان اوغلو نے کہا کہ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ کی پہل پر مکہ میں 2005 میں ہوئی او آئی سی کی ایک اہم کانفرنس میں آئی بی یو اور بین الاقوامی اسلامی نیوز ایجنسی (آئی آئی این اے) جیسی او آئی سی کی میڈیا ایجنسیوں کو مضبوط کرنے کی بات کہی گئی تھی۔ سعودی وزیر ثقافت و اطلاعات عبدالعزیز خوجہ نے ملت اسلامیہ کی امیدوں اور خواہشات کی تکمیل کے لئے آبی یو کو مضبوط بنانے کی ضرورت پر زور دیا۔ اس اجلاس میں سعودی وزیر نے عالمی معیار کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پروگرام تیار کرنے کے لئے او آئی سی کے رکن ممالک کے مابین وسیع تر تعاون کی بات کہی تھی اور ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں پیشہ ورانہ طریقے سے اپنے اپنے ممالک میں ہورہے ترقیاتی کاموں کو نمایاں کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ‘آئی بی یو کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو یہ بتانے کے لئے اس طرح کی کوششوں کو نمایاں کرے کہ ملت اسلامیہ امن عالم اور استحکام کے لئے کام کرتی ہے۔ اس ادارے کو فعال بنانے کے لئے یونین کے نئے سکریری جنرل کی حیثیت سے ملیشیا کے زین العابدین ابراہیم کی تقرری کی منظوری دی گئی تاکہ وہ نئی آب و تاب کے ساتھ اس کو ایک تحریک کی شکل دے سکیں اور اس میدان میں ایسے افراد کا تقرر کرسکیں جو اسلامی میڈیا کو نئی جہت عطا کرنے میں خلوص کے ساتھ فتنہ سے احتراز کرتے ہوئے کام انجام دے سکے۔ حیرانی بات یہ ہے کہ اس میٹنگ کو ایک سال کا وقفہ گزر چکا ہے لیکن اس سمت میں اب تک اسلامی ممالک نے کوئی پیش رفت نہیں کی ہے جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ ان ممالک اور ان اسلامی تنظیموں کا کام صرف قرارداد منظور کرنے منصوبے اور خاکے بنانے تک محدود ہے ان تنظیموں نے کبھی خاکے رنگ بھرنے کی کوشش نہیں کی۔
میڈیا کاتیز ترین حملہ اس وقت مسلم ممالک پر ہی ہے۔ مغربی اور عالمی میڈیا جس میں صیہونی اور ہندوتو میڈیا بھی شامل ہے مسلمانوں کے مثبت پہلو کو منفی پہلو میں تبدیل کرکے پیش کرتا ہے۔ خواتین اور انسانی حقوق کے تعلق سے مسلم ممالک میڈیا کے نشانے پر ہیں۔ عالمی میڈیا مسلمانوں کے تئیں نہایت غیر ذمہ دار، بددیانت اور بے تکی خبروں کو شائع کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ کوئی بھی واقعہ کو کسی کے ساتھ منسلک کرکے مسلمانوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنے میں نمایاں رول ادا کرتاہے۔ امریکہ کے نیویارک میں ٹریڈ ٹاورپر 11 ستمبر2001 کو ہونے والے حملہ کے بعد مغربی میڈیا نے فلسطینیوں کا ایک فوٹیج دکھایا تھاکہ وہ 11/9 کے سانحہ پر خوشیاں منارہے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم کر رہے ہیں جب کہ یہ فوٹیج دو سال پرانا تھا اور وہ کسی خاص موقع پر خوشیاں منارہے تھے اور آپس میں ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلارہے تھے۔ اسی طرح ہندوستان میں جب بھی بم دھماکے ہوتے ہیں مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کی تربیت لیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور ایسا محسوس کرایا جاتا ہے کہ سارے مسلم نوجوان دہشت گردی کی ٹریننگ لے رہے ہیں لیکن اسی میڈیا کو آر ایس ایس کی شاکھاؤں کی اسلحہ کی ٹریننگ لیتے آر ایس ایس ورکردکھائی نہیں دیتے۔ وہ کھلے عام دسہر کے موقع ہتھیاروں کی نمائش کرتے ہیں لیکن ہندوستان کی کسی بھی سیکورٹی اور خفیہ ایجنسی کو ان لوگوں یہ دہشت گردانہ حرکت بری نہیں لگتی۔ ہر موقع پرتمام ہندی اور انگریزی نیوز چینلز پر ایک ہی طرح کا فوٹیج ہوتا ہے۔ ایک نیوز ریڈر اور اینکر کی زبان سے زہریلے الفاظ وارد ہوتے ہیں تو دوسری طرف فوٹیج مسلمانوں کے خلاف فضا کو مسموم کرنے میں نمایاں رول ادا کرتاہے۔
لندن کے انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹیجک ڈائیلاگ اور ووڈا فون ٹرسٹ کے تحت جرمنی، فرانس اور انگلینڈ میں کرائے گئے ایک جائزے میں مسلمانوں نے اس احساس کا اظہار کیا کہ یوروپی ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں سے متعلق پیش کی جانے والی باتیں متوازن نہیں ہوتیں۔ جائزہ کار نے مسلمانوں سے اس طرح کے سوالات کئے تھے، کیا ان ممالک میں رہنے والے مسلمان میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے دی جانے والی معلومات سے مطمئن ہیں؟ اور اپنے آپ کو آگاہ رکھنے کے لئے کس طرح کے ذرائع ابلاغ کا استعمال کرتے ہیں؟ کیا وہ یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کے بارے میں کی جانے والی رپورٹنگ صحیح اور منصفانہ ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔جرمنی، فرانس اور انگلینڈ میں مسلمانوں کی اکثریت کا خیال تھا کہ ان ممالک کے ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے بارے میں متوازن طریقے سے معلومات فراہم نہیں کرتے۔ اس جائزے پر ”مسلمان اورذرائع ابلاغ“ کے عنوان سے جرمنی کے شہر پوٹمل ڈام میں منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں بحث بھی ہوئی تھی۔ اس بین الاقوامی کانفرنس میں شرکاء کا خیال تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لئے ضروری ہے کہ ان ممالک کے ذرائع ابلاغ میں مسلم صح افیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی  حالت ابتر اس لئے بھی ہے اور ان کے مسائل کا حل کبھی اس لئے نہیں نکل نہیں پاتا کہ میڈیا میں ان کی موجودگی قابل ذکرنہیں ہے۔ ہندوستان میں خبروں کی اشاعت، کون سی خبر کس صفحے پر شائع ہوگی، کتنی جگہ دی جائے گی اور کتنی جلی سرخیاں لگائی جائیں گی اس کا فیصلہ ایک خاص طبقہ کرتا ہے جسے یہاں کا اعلی ذات کا کہا جاتا ہے جو آبادی کے اعتبار سے تومحض16  فیصد ہے لیکن حکومت کے تمام شعبوں میں ان کا دبدبہ ہے۔ سنٹر فار اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز کے سینئر فیلو یوگیندر یادو، آزاد صحافی انل چمڑیا اور میڈیا اسٹڈی گروپ کے جتندر کمار کی طرف سے کئے گئے مشترکہ سروے نے ان باتوں پر اپنی توجہ مرکوز کی تھی اور اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی کہ اعلی ذات کے علاوہ دیگر پسماندہ قوم کے مسائل میڈیا میں کیوں نہیں اٹھائے جاتے اور ان کی آواز صدا بصحرا کیوں ثابت ہوتی ہے۔ سروے میں حیران کن نتائج سامنے آئے تھے۔ سروے میں پتہ چلا کہ88  فیصد اعلی ذات کے ہندومیڈیا میں فیصلہ ساز عہدوں پر فائز ہیں جو یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کون سی خبر کتنی اور کہاں چھپے گی یا اسے کتنی جگہ نہیں دی جائے گی۔ اس شعبہ میں صرف برہمن ہی 49فیصد جگہوں پر قابض ہیں۔ ہندوستان کے نیشنل میڈیامیں اس طرح کے عہدوں پر مسلمانوں کی موجودگی صرف 4 فیصد ہے جب کہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 13.4د ہے۔ اس کے مقابلے ہندی میڈیا میں مسلمانوں کا تناسب قدرے بہتر6 فیصد ہے۔ پسماندہ ذات سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کی فیصد بھی صرف چار ہے۔
ہندوستان کی مسلم تنظیموں نے میڈیا کی اہمیت کو کبھی بھی سمجھنے کی کوشش کی نہیں، حصول زر کے لئے تو سب پاس کے پاس میڈیا سیل ہے لیکن عملاً اس کا کام اپنی خبروں کی کلپنگ جمع کرنے تک محدود ہے۔ میڈیا کی طاقت کو سب نے ہی تسلیم کیا ہے مشہور شاعر اکبر الہ آبادی نے اس کی افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ”جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو“۔ کئی حکمرانوں نے میڈیا کی طاقت پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ میرا بس چلے تومیں اسے تہہ تیغ کردوں۔ وقت کے ساتھ ساتھ حکومت کرنے کا طریقہ کار بھی بدل جاتاہے۔ آج ان کی ہی طوطی بولتی ہے جس کی مٹھی میں میڈیا ہے۔ میڈیا کے ذریعہ فضا کو اپنے حق میں ہموار کیا جاسکتا ہے۔ بدترین دور کو بھی بہتردور قرار دیا جاسکتا ہے جیسا کہ اس وقت بہار میں ہورہا ہے اور فاربس پولیس فائرنگ معاملے میں دبانے کے لئے بہار حکومت نے میڈیا کو خرید لیا اور جس میں اردو میڈیا بھی شامل ہے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ وہی مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم پر آواز اٹھاتا ہے بہار میں اس وقت کچھ بھی اچھا نہیں ہے اور ایک طرح دوسرا گجرات بننے جارہا ہے۔اس کے علاوہ اس کے ذریعہ اپنے اوپر لگنے والے کسی الزام کو دھویا جاسکتا ہے اور لوگوں کے رخ اور سوچ کو منتشر کرنے کے لئے کوئی بھی شوشہ چھوڑا جاسکتا ہے جیسا کہ گاہے بگاہے گجرات اور ممبئی میں لشکر طیبہ کے دہشت گردوں کی دراندازی کا سامنے آتا ہے۔
مسلمانوں کو اپنی آواز دنیا اور ایوان تک پہچانی ہے تو انگریزی میڈیا کی اس وقت سخت ضرورت ہوگی حالانکہ اس ضمن میں گاہے بگاہے کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ جمعےۃ علماء ہند نے بھی اس سلسلے میں کوشش کی تھی اور انگریزی اخبار نکالنے کے لئے چندہ ابھی اکٹھا کیا تھا اس کے علاوہ سید حامد نے بھی اس سلسلے میں کوشش کی اور چندہ اکٹھا کیا تھا لیکن یہ تمام کوششیں چندہ اکٹھا کرنے تک محدود ہوکر رہ گئیں اور انگریزی اخبار نکالنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ مسلمانوں کی اورمسلم لیڈران کی جہاں تک بات ہے کہ و ہ خود ہی گالی دیتے ہیں اور خودہی سنتے بھی ہیں۔جس میں وہ بات کر رہے ہیں اس کو پڑھنے والے اور اس پر دھیان دینے والا کوئی نہیں ہوتا کیوں کہ جس زبان وہ بات کہہ رہے ہوتے ہیں بیشتر لوگ اور حکومت اس زبان سے ناواقف ہے۔
یہ مضمون 2012 میں لکھا گیا تھا۔
ڈی۔۴۶، فلیٹ نمبر۔ ۰۱،ابوالفضل انکلیو، جامعہ نگر، اوکھلا، نئی دہلی۔ ۵۲
9810372335
abidanwaruni@gmail.com

Comments