مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم اور مودی کی خاموشی

عابد انور

Thumb

حکومت، میڈیا اور فسطائی طاقتوں کی  سوشل میڈیا پر پھلائی گئی نفرت اور مسلم مخالف جذبات کا نتیجہ بڑے پیمانے پر پورے ملک سے آنا شروع ہوگیا ہے۔ جہاں گلی محلے میں مسلمانوں پر حملے بڑھ گئے ہیں وہیں تمام شعبہائے حیات میں امتیازی سلوک کا دور دورہ شروع ہوگیا ہے۔ اس کی گونج اب ملک سے نکل کر عرب ممالک میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ کالونی میں مسلم سبزی اور پھل فروش، ریڑی پٹری والے اور دیگر گھوم کر سامان بیچنے والوں پر حملہ شروع ہوگیا ہے وہیں جسے سب سے زیادہ مقدس شعبہ سمجھا جاتا ہے اورہندو جسے بھگوان کہتے ہیں یعنی ڈاکٹروں کا رویہ بھی مسلمانوں کے تئیں نفرت انگیز ہوگیا ہے۔ ڈاکٹروں کے علاج نہ کرنے کی وجہ سے متعدد جگہ مسلمانوں نے دم توڑ دیا یا صحت کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔حالیہ واقعہ سلطان پوری کورنٹائن (گوشہ تنہائی) کا جہاں علاج نہ ہونے کے سبب ایک تبلیغی کارکن کا انتقال ہوگیا۔ان لوگوں نے کھانے پینے کی دقت علاج نہ ہونے کی شکایت کی ہے۔  میرٹھ کے ویلنٹس ہاسپٹل نے انسانیت کے تمام حدود کو لانگتے ہوئے مسلم مخالف اخبار دینک جاگرن میں یہ اشتہار دے ڈالا کہ جو بھی مسلمان علاج کے لئے آئے وہ پہلے کورونا ٹسٹ کی نیگیٹو رپورٹ لیکر آئیں۔ یہ ایسا جرم ہے اگر یہ حرکت کسی مسلمان اور مسلم ہاسپٹل نے کی ہوتی تو فوری طور پر لائسنس رد ہوتا اور ان کے مالکان اور انتظامیہ کے لوگوں کو مختلف سخت دفعات کے تحت گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا ہوتا۔ پولیس نے صرف معاملہ درج کیا ہے، سی ایم او نے کہا کہ وہ معاملہ کو دیکھ رہے ہیں۔ سی ایم او کیا دیکھ رہے ہیں، ایک بڑے اخبار میں اشتہار شائع ہوا ہے، سب کچھ روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ یہ تو ذہنیت کی صرف ایک مثال ہے جس کا اظہار پورے ملک میں ہورہا ہے۔ پورے ملک میں کورونا کے نام پر مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں لیکن ہمارے پردھان سیوک نے کبھی یہ نہیں کہا کہ نفرت نہ پھیلائیں اور نفرت کے واقعات پر ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے۔ حکومت کی طرف سے کورونا کے سلسلے میں تبلیغی جماعت کو بدم کرنے کی کوشش جاری ہے۔ یومیہ بلیٹین میں تبلیغی جماعت والوں کی تعداد الگ سے بتائی جاتی ہے جب کہ ستر سے زائد معاملوں کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں۔ اگر 25 فیصد مسلمان کورورنا سے متاثر ہیں تو حکومت یہ بھی بتانا چاہئے کہ 75 فیصد میں کتنے ہندو ہیں، کتنے عیسائی ہیں، کتنے جین ہیں، کتنے پارسی ہیں اور کتنے بدھسٹ ہیں۔ مگر حکومت نے ایسا نہیں کیااور صرف مسلمانوں کے تعلق سے اعداد و شمار جاری کئے۔ اس کے بعد بی جے پی کی آئی ٹی سیل اور ہندوؤں نے واٹسپ یونیورسٹی کے ذریعہ پورے ملک میں یہ گمراہی پھیلائی کہ کورونا وائرس صرف مسلمان کی وجہ سے ملک میں آیا ہے اور پورے ملک میں کورونا وائرس مسلمان ایک سازش کے تحت پھیلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا، ہندی نیوز چینلوں اور دیگر ذرائع ابلاغ کے توسط سے یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ مسلمان کوروناپھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کی افواہ کا بازار گرم رہا لیکن ملک کی سائبر پولیس، سائبر کرائم سیل اور میڈیا پر نظر رکھنے والے اہلکار سوتے رہے کیوں کہ ان کو غیر معلنہ طور پر یہ ہدایت ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال پھیلانے والے اور نفرت کا بازار گرم کرنے والوں کو گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ کوئی مسلمان یوگی یا مودی کا کوئی غلط فوٹو پوسٹ کرتا ہے تو فوراً اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کیا جاتا ہے لیکن پولیس، سائبرکرائم سیل، سائبر سیل اور میڈیا پر نگرانی رکھنے والے اداروں کے سر پر جوں تک نہیں رینکتی۔ 
اسی نفرت کا انگیز کا نتیجہ ہے کہ بھوپال میں ایک مسلم ڈاکٹر کا اسپتالوں نے علاج کرنے سے انکار کردیا۔ جمشید پور میں رضوانہ خاتون کوایم جی ایم ہسپتال نے علاج نہیں کیا جس کی وجہ سے اس کا بچہ ہلاک ہوگیا۔ اسی طرح واقعہ راجستھان میں بھی پیش آچکا ہے۔ اس طرح کے واقعات پورے ملک میں ہر شہر میں پیش آرہے ہیں۔رضوانہ خاتون پر سمیع اللہ خاں کے شکریہ کے ساتھ ان کی رپورٹ پیش ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ رضوانہ خاتون حاملہ تھیں جمعرات 16 اپریل کو رضوانہ کو خون بہنا شروع ہوا اور تکلیف میں اضافہ ہوا، رضوانہ اپنے بھائی کے ساتھ MGM ہاسپیٹل جمشید پور پہنچیں، اس کے بعد رضوانہ کے ساتھ جو کچھ اسلام دشمنی پر مبنی حیوانیت کا سلوک ہوا اسے رضوانہ کی زبانی ہی پڑھیے:
”میں ایک بجے ہسپتال پہنچی، وہاں بھی میرا خون بہہ رہا تھا، یہ دیکھ کر وہاں کھڑی ہوئی ایک خاتون نرس / ڈاکٹر نے مجھے میرے نام اور مذہب کی بنیاد پر گندی گندی گالیاں دیں اور مجھے کہا کہ جو خون زمین پر گرا ہے اسے صاف کرو، کہاں کہاں کرواتی ہو اور کرونا پھیلاتی ہو، میری حالت خراب تھی اسلئے مجھے خون صاف کرنے میں دیر لگی، میرا پورا بدن کپکپا رہاتھا، اسی دوران ہاسپیٹل کی اس خاتون نے مجھے چپل نکال کر بری طرح سے پیٹا، میں ہکا بکا رہ گئی، میرے بھائی نے اس کی مخالفت کی، پھر میں فوراً TKhan نرسنگ ہوم پہنچی جہاں ڈاکٹروں نے ہماری جانچ کی اور پیٹ میں پل رہے میرے بچے کی موت کی خبر دی“
 رضوانہ پر گزری ہوئی یہ وحشتناک واردات سرکاری مراحل سے گزار کر جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ تک پہنچی ہے، اسے انڈیا کے معروف میڈیا ہاؤز انڈین ایکسپریس نے کور کیا ہے۔ ابھی کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے جب راجستھان میں بھی اسی مسلم دشمن متعصبانہ ذہنیت نے ایک مسلم خاتون کا حمل ضائع کروا دیا تھا۔
کورونا وایرس کو مسلمانوں کے خلاف تشدد اور نفرت بھڑکانے کے لئے سیاسی سطح پر پروموٹ کیاگیا لاکڈاون کو مسلم مخالف کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اسلام دشمنی پر مبنی ذہنیت کھل کر ننگا ناچ کھیل رہی ہے لیکن مسلمانوں کو صبر سے کام لیتے ہوئے انسانیت کی خدمت کرنا ہے کیونکہ موجودہ بھارت کی دوغلی دانشوری کہتی ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں حب الوطنی، دیش بھگتی اور انسانیت دوستی کے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا زیادہ اہم ہے، جب یہ سرٹیفکیٹ مل جائیں گے تو مسائل حل ہوجائیں گے، لیکن یاد رہے کہ آج جو کچھ کل کے نام پر قربان کیا جارہاہے وہ سب یاد رکھا جائیگا ان سب کا حساب ہوگا، امت کی جانیں اور عزتیں پامال کرواکے انہیں مظلومیت میں غرق کرکے ترقیوں اور تبدیلیوں کے خواب دیکھنے والے تاریخ میں غلامی کی سانسیں خریدنے والے شمار ہوتے ہیں، زندگی جینے اور دنیا کو متاثر کرنے کے لیے دنیا کے کسی بھی کونے میں ایک بھی مؤمن کو کفر کے ہاتھوں اذیت کے حوالے کرنا سراسر ایمان اسلام اور محمد کے راستہء عروج سے انحراف ہے، چہ جائیکہ بھارت میں آئے دن ایسے دردناک مناظر سامنے آرہے ہیں …… رضوانہ کے حاملہ بچے کا قتل مجھ پر ہے، آپ سب پر ہے، پوری امت پر ہے اگر اس کو انصاف نہیں ملتا ہے تو اللہ کی زمین پر ہم بوجھ ہیں، اگر ہم اب بھی آئندہ کے لیے اپنے مسلمانوں کو ظلم و نفرت کی کارروائیوں سے محفوظ نہیں کرسکتے تو یقینًا " ابابیلیں نہیں آئیں گی " البتہ اللہ کا قانون ہم اور آپ کو بدل کر حقیقی روح کے لوگوں کو لانے پر قادر ہے“۔
کورونا وائرس کا پہلا معاملہ 30جنوری کا ہے جو کرناٹک کے ضلع ترشور کا ہے،ایک طالبہ جو کہ ووہان سے آئی تھی اور کورونا پوزیٹو پائی گئی تھی۔ اس کا علاج کیا گیا وہ صحت مند ہوکر اپنے گھر واپس چلی گئی ہے۔ اس کے بعد15لاکھ لوگ بیرون ملک سے آئے۔ڈاکٹروں اور طبی عملے پر حملہ کے خلاف حکومت آرڈی نینس لائی ہے۔ کورونا وائرس کووڈ۔19' کی وبا سے لڑنے میں فرشتہ کا کردار ادا کر نے والے صحت اہلکاروں پر حملوں کے لئے سخت سزا کا التزام والے آرڈیننس کو آج صدر رام ناتھ کووند کی منظوری مل گئی اور اس کے ساتھ ہی یہ قانون پورے ملک میں نافذ ہو گیا۔حکومت نے اس آرڈیننس کے ذریعے وبائی ایکٹ، 1897 میں ترمیم کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ کی بدھ کی صبح ہوئی میٹنگ میں اس کی منظوری دی گئی تھی۔ مسٹر کووند نے دیر رات وبا (ترمیمی) آرڈیننس، 2020 پر دستخط کردئے۔اس میں سات سال تک کی سزا کا التزام ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جو ہسپتال یا ڈاکٹر علاج کرنے سے منع کر رہے ہیں یا مذہب کی بنیاد پر علاج کرنے سے منع کر رہے ہیں اس پر بھی تو قتل کا معاملہ درج ہونا چاہئے۔ یہ حکومت کی یکطرفہ کارروائی ہے اور اس کا مقصد ایک خاص طبقہ کو نشانہ بنانا ہے۔ڈاکٹر کفیل کے معاملے میں انڈین میڈیکل ایسوسی ایشن کی کیا موت ہوگئی ہے۔یا ہندوستانی ڈاکٹر بھی ہندومسلم خانے میں بٹ گئے ہیں۔ 
مسلمانوں کا یہاں کے سارے نظام سے اعتماد اٹھ گیا ہے کیوں کہ ان لوگو ں کے رویے کی وجہ سے اعتماد اٹھا ہے۔ ان لوگوں کا رویہ کبھی بھی منصفانہ، عادلانہ، مشفقانہ اور انسانیت والا رویہ نہیں رہا ہے۔ان کا مقصدمسلمانوں کو نقصان پہنچانے تک محدود رہا ہے۔ پولیس سے لیکر عدالت تک اور اسپتال سے لیکر ڈاکٹر کا رویہ مسلمانوں کے تئیں کیا ہے وہ کسی بھی پوشیدہ نہیں ہے۔ اس لئے مسلمانوں کا کورنٹنائن پر شکوک و شبہات کا اظہار بلاسبب نہیں ہے۔انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ وہ مسلمانوں کا اعتماد بحال کرتے،ان کے شکوک و شبہات دور کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور سیدھے ان پر درجنوں مقدمات لاد دئے گئے۔ ایسی صورت میں مسلمان کسی پر بھروسہ کیسے کریں گے۔ اب یہ سوال اٹھنے لگے ہیں کورنٹائن کیا مسلمانوں کے لئے قتل گاہ بننے جارہا ہے؟ سلطان پوری میں کورنٹائن کے دوران علاج نہ ہونے کی وجہ تبلیغی جماعت کے ایک شخص کی موت ہوگئی ہے۔ تبلیغی جماعت والے ڈاکٹروں کو بلاتے رہے، ان کے سامنے گڑگڑاتے رہے لیکن ڈاکٹروں نے ان کو دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔ تو تبلیغی والے یا مسلمان ڈاکٹروں پر بھروسہ کیسے کریں گے۔نفرت کا جو ماحول اس وقت ملک میں ہے وہ ہمارے پردھان سیوک کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کے اشارے تالی، تھالی، موم بتی، دیا پٹاکے پھوڑ سکتے ہیں۔ اگر وہ امن کا پیغام دیتے اور نفرت پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا پیغام دیتے تو ملک سے نفرت ختم نہیں تو کم ضرور ہوجاتی لیکن وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں کیوں کہ نفرت ہی ان کی خوراک ہے،ان کی پارٹی نفرت کی بنیاد پر ہی برسراقتدار آئی ہے۔نفرت نے ملک کو کھوکھلا کردیا ہے۔ پوری دنیا میں ناک کٹ رہی ہے لیکن فسطائی طاقتوں کو صرف اقتدار چاہئے خواہ وہ ملک کو بیچ کر ہی کیوں حاصل ہو۔ عوام کو ملک کو بچانے کے لئے آگے آنا ہوگا۔
9810372335

Comments