کورونا:مسلمانوں کے تعلق سے انتظامیہ کے اقدامات شبہات کے دائرے میں

عابد انور

Thumb

ملک میں کس قدر اندھ بھکتی، جہالت، گمراہی،وہم کی حکومت،جھوٹ بولنے کی آزادی، گالی گلوج پرچھوٹ، سچ بولنے پر قدغن، فرقہ پرستوں اوردلالوں کی چاندی، نفرت کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی حکومت کی طرف سے آزادی اور امن کے علمبرداروں کی زندگی جس طرح دوبھر کی جارہی ہے، اس کی نظیر جدید دور میں نہیں ملتی۔ ہندوستان کو یہاں کی بسنے والی قوموں نے جس طرح سے سینچا تھا اسی طرح یہاں گزشتہ چار دہائیوں میں اسے بربادی کے راستے پر ڈال دیا گیا ہے۔ جو ہندو یہ سوچ رہے ہیں نقصان تو صرف مسلمانوں کا ہوگاو ہ احمقوں کی جنت میں ہیں۔ دیومالائی دیکھنے میں اچھا لگتا ہے لیکن عملاً نہیں، گائے کے پیشاب کو امرت، گوبر کو سونا اور کوہ نور ہیرا سے بھی زیادہ قیمتی قرار دینے والوں کو سمجھنا ہوگا کہ ملک میں آپ اگر کسی کا ناطقہ بند کریں گے تو آپ کا بھی دوسری جگہ ناطقہ بند ہوگا۔ بند ہونے میں وقت لگ سکتا ہے  لیکن یہ طے ہے کہ ناطقہ بند ہوگا۔ نفرت کی تجارت سے محبت، ہمدردی، نوکری، ترقی اور بھائی چارگی نہیں خریدی جاسکتی۔ نفرت لوٹ کر آتی ہے، شدت سے آتی ہے اور تمام چیزوں کو جلاکر راکھ کردیتی ہے۔ ہٹلر، مسولینی اور ان کے معاونین کا حشر اور حالیہ یوگوسلاویہ کے حکمراں اس کی تازہ مثال ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا، ہندو لیڈروں کو اپنا لیڈر مانا، مسلمانوں کے پیچھے چلنے کے بجائے ہندوؤں کے پیچھے چلے، جب تک وہ سیاسی طور پر مضبوط رہے تب تک ملک میں سیکولر ازم اور جمہوریت کاڈنکا ڈبجتا رہا۔ ہندوستان کو کثیر جمہوری ملکوں میں شمار کیا جاتا رہا۔ مذہبی آزادی، گوناگوں تہذیب و ثقافت،زبان، متنوع رہن سہن کی مثال اگر پوری دنیا دی جاتی ہے تو اس لئے کہ یہاں مسلمان رہتے ہیں اور ان کو ہر طرح کی آزادی حاصل ہے۔جمہوریت، آزادی اور دیگر رینکنگ میں ہندوستان آگے تھا وہ مسلمانوں کی وجہ سے تھا اور مسلمانوں کے ساتھ زیادتی ہونے لگی ہے اور ان کے حقوق پر سیاسی، سماجی، معاشی اور تعلیمی طور پر ڈاکہ ڈالا جانے لگا تو تمام سطحوں پرہندوستان نیچے آگیا ہے۔ مسلمان ہندوستان کی نیک نامی کی علامت بن کر ابھرے تھے، یہاں تک کے ہندوستان نے تنظیم اسلامی کانفرنس (او آئی سی) میں رکنیت کا دعوی اس لئے کیا کیوں کہ انڈونیشیا کے بعد سب سے زیادہ مسلمان ہندوستان میں ہی رہتے ہیں۔جب جب اقوام متحدہ میں ان کا سامنا پاکستان سے ہوا تو ہندوستان نے مسلمانوں کا سہارا لیا۔ اس کے باوجود ان کو زندگی کے تمام شعبہ حیات میں مکمل طور پر الگ تھلگ کرنے کی ہر سطحً پر کوشش کی جارہی ہے اور اس کوشش میں جمہوریت کے چاروں ستون شامل ہیں۔ حالیہ دنوں میں نچلی عدالت سے لیکر سپریم کورٹ کا رویہ افسوسناک رہا ہے۔مسلمانوں کی کسی بھی تکلیف کو سننے کے بجائے اسے ٹالنے کی کوشش کی گئی۔ تین طلاق، بابری مسجد کا معاملہ سب کے سامنے ہے۔ سپریم کورٹ سی اے اے،ا ین آر سی اور این پی آر کے خلاف دائر تقریباً ڈیڑھ سو سے زائد عرضیوں پر سننے کے لئے وقت نہیں تھا لیکن مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت بنانے کے لئے عرضی کی سماعت کے لئے وقت ہی وقت تھا۔ شاہین باغ راستے کے معاملے میں مذاکرات کار بھیجنے اور مذاکرات کار کی رپورٹ سپرد کرنے کے بجائے اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا اور معاملہ کورٹ میں ہونے کے باوجود پولیس نے کورونا کا بہانہ بناکر جبراًدھرنا ختم کردیا جب کہ شاہین باغ خاتون مظاہرین نے ؑحکومت کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے مظاہرین کی تعداد پانچ تک کردی تھی۔ مظاہرین کی خواہش تھی کہ علامتی طور پر یہ دھرنا جاری رہے۔اسی طرح جمعےۃ علمائے ہند نے فیک نیوز، اشتعال انگیز، من گھڑت اور مسلمانوں کو نشانہ ناکر جھوٹی خبریں چلانے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی تھی اور میڈیا کے خلاف سارے ثبوت پیش کئے تھے لیکن سپریم کورٹ نے کوئی حکم یا میڈیا پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کردیا اور خود حکومت اور پریس کونسل آف انڈیا (پی سی آئی) کو نوٹس جاری کرنے کے بجائے عرضی گزار سے کہا کہ پی سی آئی کو فریق بنائیے۔ یہ معاملہ کتنا خطرناک ہے اس کا اندازہ ہر کسی کو ہے۔ پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا طوفان مچا ہوا ہے۔ سماجی، اقتصادی اور دیگر طرح کے بائیکاٹ کی اپیل کی جارہی ہے اور پولیس ان لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کررہی ہے۔ اس نفرت انگیز مہم کی وجہ سے کئی لوگوں پر حملہ ہوچکا ہے۔ کئی لوگوں کے جان کے لالے پڑ گئے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ذمہ داری تھی کہ اس حساس مسئلہ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ کرتا یا حکم جاری کرتا۔ 
ہندوستانی حکومت، ہندوستانی پولیس اور ہندوستانی عدالت کا رویہ کس قدر غیر انسانیت والا ہے اس کو چند مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا کورونا جیسے موذی اور متعدی بیماری سے لڑ رہی ہے اور اس کی ساری توجہ کورونا کو شکست دینے پر مرکوز ہے لیکن ہندوستان میں کورونا سے لڑنے کے بجائے یہاں کی حکومت، پولیس، طبی عملہ، میڈیا اور عدالت مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑرہی ہے۔ ہندوستانی پولیس   کورونا وائرس کو مسلمانوں کو گرفتار کرنے اور جیل میں سڑانے کے لئے موقع کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ شرجیل امام، خالد سیفی،ایڈووکیٹ عشرت جہاں، میران حیدر، صفورہ، آشو خاں اور ان جیسے درجنوں افراد کو سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے کے الزام میں گرفتار کیا ہے اور ان پر دہلی میں فساد پربا کرنے کا بھی الزام مڑھ دیا ہے۔ جب معاملہ عدالت میں پیش کیا جاتا ہوگا تو عدالت میں پوچھا جاتا ہوگا کہ کس جرم میں گرفتار کیا ہے اور کیوں گرفتار کیا ہے۔ پولیس کا کیا ہے وہ درجن بھر سے زیادہ دفعات لگادیتی ہے اور یہاں کی عدالت پولیس کے بیان پرگیتاکی طرح ایمان لاتے ہوئے جیل بھیج دیتی ہے۔ انہی عدالتوں کے بھیجے گئے سیکڑوں مسلمان دس سال سے لیکر بیس سال تک جیل میں گزار کر باعزت بری ہوئے ہیں۔ اس وقت پولیس پورے ملک میں سی اے اے کے خلاف احتجاج میں حصہ لینے والوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر گرفتار کر رہی ہے۔ جب کہ احتجاج کرنا جمہوری حق ہے اور سپریم کورٹ نے اسے بار بار تسلیم کیا ہے۔ اس کے علاوہ آئین نے بھی اس کی اجازت دی ہے۔ اس کے باوجود پولیس مسلم نوجوانوں کو رات کے اندھیرے میں اٹھاکر لے جارہی ہے۔ کیوں کہ ان کو معلوم ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سب لوگ اپنے گھروں میں قید ہیں۔ کسی کچھ پتہ نہیں چلے گا اور ہوبھی یہی رہا ہے۔ لوگوں کو دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ فلاں کو گرفتار کیا گیاہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہی دہلی پولیس نے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کوفساد کے الزام میں گرفتار کیا ہے۔ شاید ہندوستان دنیا کا پہلا ملک ہوگا یا ہندوستانی پولیس دنیا کی پہلی پولیس ہوگی جو متعدی اور موذی بیماری کو بھی موقٖع کے طور پر استعمال کرتی ہے۔
مسلمان اگر پولیس پر حملہ کرتے ہیں تو قومی سلامتی ایکٹ سمیت سخت سے سخت دفعات کے تحت مقدمہ قائم کرکے جیل بھیج دیا جاتا ہے لیکن یہی اگر ہندو کرتا ہے تو اس کا بال بھی باکا نہیں ہوتا۔جس دن مراد آباد میں طبی عملے پر حملہ ہوا اسی دن یوپی کے فیروز آباد،بہار سمیت متعدد جگہ پر حملہ ہوا لیکن خبر صرف مرادآباد کی بنی کیوں کہ حملہ کرنے والا مسلمان تھااور میڈیا نے یکطرفہ طور پرمسلمانوں کو بدنام کیا۔ مرادآباد میں اصل صورت حال جانے کے بغیر میڈیا نے یہاں تک کے مسلمانوں نے بھی مسلمانوں پر لعن طعن شروع کردی۔ میں طبی عملہ پر حملہ کرنے والے مسلمانوں کا دفاع ہرگز نہیں کر رہا ہوں لیکن صحافت کا تقٖاضہ ہے کہ صحیح صورت حال اور حقائق کو بھی سامنے لایا جائے۔ جن لوگوں پر حملہ کرنے کا الزام ہے وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم لوگوں کا ٹسٹ کرلیجئے اور جن لوگوں میں کچھ نظر آئے اور شبہ ہو اسے لے جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گھر میں جوان لڑکیاں ہیں، ان کو کہاں لے جائیں گے، کہا ں رکھیں گے، اس کے لئے قرنطینہ میں رکھے جانے پر بارے میں ان کے دل میں شکوک شبہات تھے جیسا کہ زخمی ڈاکٹر نے این ڈی ٹی وی کو دئے گئے بیان میں کہا ہے۔ پولیس نے ان پر این ایس اے سمیت 19 سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ 15لوگوں میں سات خواتین ہیں جس میں عدت گزارنے والی خاتون بھی شامل ہے۔اس لئے ان کے موقف کو یکسر مسترد نہیں کرسکتے۔مسلمان پاگل نہیں ہیں بلاسبب کسی پر پتھراؤ کریں کوئی بات تو ضرور ہوئی ہوگی جس کی وجہ سے وہ پتھراؤ کرنے پر مجبور ہوئے۔ مسلمانوں میں شہبات بلاوجہ بھی نہیں ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے مسلمانوں کا یہاں کے نظام سے پوری طرح بھروسہ اٹھ گیا ہے کیوں کہ یہاں کا نظام ہندو مسلم آئینے سے کارروائی کرتا ہے، من گھڑت باتو ں پر یقین کرتا ہے۔ خاص طور پر تبلیغی جماعت کے بارے میں حکومت، پولیس انتظامیہ اوردیگر عملے نے جس طرح دروغ گوئی اور بہتان تراشی سے کام لیا ہے اس کی وجہ سے کسی مسلمان کو پہلی نظر میں حکومت،پولیس اور انتظامیہ کا بیان جھوٹا نظر آتا ہے۔ تبلیغی جماعت والوں نے متعدد ویڈیو جاری کرکے کہا ہے کہ ہماری ساری رپورٹ نیگیٹو آئی ہے جب کہ میڈیا اور حکومت نے اسے پوزیٹو بتایا ہے۔ ابھی حال میں ٹیلی فونک بات چیت میں بدرپور میں کورنٹائن کئے گئے جماعت والوں نے بتایا کہ ہم یہاں 157لوگ ہیں اور ہماری مدت پوری ہوگئی ہے اس کے باوجود ہمیں جانے نہیں دے رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 157میں سے پہلے کہا گیا ہے کہ 30 معاملے پوزیٹیو ہیں لیکن 30میں سے صرف چھ کو علاج کے لئے لے گئے اور پھر اسی دن ان چھ لوگوں کو بغیر کسی علاج واپس لے آئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر 30پوزیٹو تھے تو ان کو سب کے ساتھ کیوں رکھا گیا ہے اور صرف چھ کو کیوں لے جایا گیا اور پھر بغیر علاج کے واپس پھر وہیں کیوں پہنچادیا گیا۔ اس کا مقصد کیا ہے۔ اگر واقعی وہ لوگ کورورنا متاثر ہیں تو انتظامیہ کا مقصد سب کوکورونا سے ہلاک کرنا ہے اور وہ لوگ سب نیگیٹو ہیں تووہ پھر 30کو پوزیٹیو کیوں کہا گیا۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ حکومت، پولیس، انتظامیہ اور طبی عملے کا مقصد کیا ہے اور تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے کے لئے سب کو روکے ہوئے ہیں اور نیگیٹو کو بھی پوزیٹیو بتارہے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد اضلاع جماعت والوں کے کورورنا سے متاثرین کی فہرست منگوائی جارہی ہے جن میں تبلیغی جماعت کے ساتھ ہندوؤں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں اور سب کو تبلیغی جماعت سے وابستہ بتاکر مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضاء قائم کی گئی ہے۔ یہ بڑی سازش کا حصہ ہیں۔ پورے ملک سے اس طرح کی رپورٹ آئی ہے کہ وہ لوگ نیگیٹیو ہیں اور ان کو پوزیٹیو بتایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ تبلیغی جماعت کو بدنام کیا جاسکے۔ 
ان سب کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کردیا جائے۔ ان کاپوری طرح سماجی سطح پر اور اقتصادی سطح بائیکاٹ کیا جائے۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں میں نفرت اس قدر بھر دی جائے وہ ہر جرم کے لئے مسلمانوں کوذمہ دار ٹھہرائیں۔ حکومت کی مشنری اور میڈیا نے اس قدر افواہ پھیلائی ہے یہاں کا ہر ہندو یہ سمجھتا ہے کہ کورونا تبلیغی جماعت کی وجہ سے آیا ہے۔ جب کہ کوورنا کا پہلا واقعہ 30جنوری کا ہے اور تبلیغی جماعت کا معاملہ 28 مارچ سے آنا شروع ہوا ہے۔ جماعت والوں نے انتظامیہ سے کچھ نہیں چھپایا تھا سارے حالات سے آگاہ کردیا تھا لیکن انتظامیہ کا نشانہ کچھ اور تھا اس لئے وہ اس نے معاملے کو آگے بڑھنے دیا۔انتظامیہ اور میڈیا نے مل کر پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنادیا ہے کہ کوئی مسلمان سے نہ ملے اور، نہ ان سے کوئی خریداری کرے، نہ کوئی لین دین کرے۔ گجرات میں مسلم ڈرائیوروں کا ہندوؤں کے علاقے میں داخلہ ممنوع ہے اور مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر نوکریوں سے نکالنے کی تیاری شروع ہوگئی ہے۔ مسلمانوں کو اس نفرت انگیز مہم کے خلاف لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اس طوفان کا مقابلہ کیسے کریں۔ کس طرح حکومت، میڈیا اور فسطائی طاقتوں کی نفرت انگیز مہم کو ختم کریں۔
9810372335

Comments