بھارت میں لاک ڈائون کیا کسی نئے انقلاب کا پیش خیمہ تو نہیں؟

دانش ریاض،معیشت،ممبئی

Thumb

میں نے کچھ روز پہلے ہی نیٹ فلکس پر دیپا مہتہ کے ڈائریکشن میں بنی ویب سیریزلیلیٰ  اور انوراگ کشیپ کے ڈائریکشن میں بنی سیکرڈ گیمز دیکھی ہے ۔میں اس سیریز پر کچھ لکھنا ہی چاہ رہا تھا کہ وبائی مرض ’’کروناوائرس ‘‘کا ہنگامہ شروع ہوگیا۔ اور پھر ’’جنتا کرفیو ‘‘کی گہار لگا دی گئی۔میں نے جہاں اپنے دوستوں کو اس بات کی تلقین کی کہ اب حالات خراب ہونے والے ہیں وہیں خطبہ جمعہ میں بھی ’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘کے حوالہ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی بنیاد کی طرف لوٹ جانے کا مشورہ دیا اور ضروریات زندگی سے متعلق تمام سامان کو یکجا کرلینے کی اپیل کی۔لوگوں نےمشورے پر کتنا عمل کیا ہو معلوم نہیں لیکن ملک گیر لاک ڈائون کے بعد جب دوستوں کا فون آنا شروع ہوا تو محسوس ہوا کہ ہمارے لوگ آج بھی ہر معاملے کو محض مذاق ہی تصور کرتے ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ مودی حکومت نے درست فیصلہ بھی جتنی دیر سے لیا ہے یہ خود ان کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتا ہےاور اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ آخر وہ کس کے اشارے پر تجاہل عارفانہ کا شکارہورہے ہیں۔دراصل اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جہاں پورا ملک بلکہ پوری دنیا کرونا وائرس سے پریشان ہے وہیں لاک ڈائون کے بیچ ہی منسٹری آف ہائوسنگ اینڈاربن افیئرس کا متنازعہ سینٹرل وسٹا پروجیکٹ کے لئے نوٹیفکیشن جا ری کرنا اور بیس ہزار کروڑ کا سرمایہ مختص کرتے ہوئے وزیر اعظم کے گھر کی تعمیر کے ساتھ نئے پارلیمنٹ ہائوس کے عمارت کی تعمیرپر زور ڈالناکسی سنجیدہ بحث کی دعوت ضرور دیتا ہے۔ اسی دوران ایودھیا میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ رام مندر کی تعمیر کا آغاز کیا جانا جبکہ ایک طرف اتر پردیش پولس گھر سے باہر نکلنے پر غریبوں پر لاٹھی ڈنڈے برسا رہی ہو ان شہریوں کو بے چین کئے ہوئے ہے جو مستقبل شناسی کی شدھ بدھ رکھتے ہیں۔
افغانستان میں گرودوارے پر حملہ اور مسلمانوں کے خلاف سکھوں کو لاکھڑا کرنے کی کوشش کسی آنے والے طوفان کا پتہ ضرور دیتی ہے۔یہ بات زبان زد عام ہے کہ اس وقت بھارت کا افغانستان میں عمل دخل بڑھا ہوا ہے لہذا آئی ایس آئی ایس نے جس ذلیل حرکت کا ثبوت پیش کیا ہے اسے انٹر نیشنل مافیا بھی خوب سمجھتی ہے۔مذکورہ لاک ڈائون کو میں محض قدرتی آفت کہتے ہوئے خدا کے حضور سجدہ ریز ہونے کی تلقین کرتے ہوئے گذرجاتا اگر اسرائیلی وزیر صحت کا یہ بیان نظروں سے نہ گذرتا کہ ’’کورونا سے نجات ہمارے مسیحا دلائیں گے‘‘۔دراصل اسرائیلی وزیر صحت یعقوب لٹزمان کے مطابق کورونا وائرس کا بحران اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دنیا اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہے اور وہ دن قریب ہیں جب ”مسیحا“ زمین پر اترے گا اور یہودی برادری کی فریاد رسی کرے گا۔اپنے انٹرویو میں یعقوب لٹزمان نے کہا ہے کہ ”ہم دعا اور امید کر رہے ہیں کہ مسیحا فسح (جو یہودیوں کا آمد بہارکا تہوار ہے ) کے موقع پر پہنچے گا، جو ہماری نجات کا وقت ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مسیحا آئے گا اور جس طرح خدا ہمیں مصر سے نکال لایا تھا اسی طرح ہمیں باہر لے آئے گا۔ “ یعقوب لٹزمان کا مزید کہنا ہے کہ، ”جلد ہی ہم آزادی کے ساتھ نکلیں گے اور مسیحا ہمیں دنیا کی دیگر تمام پریشانیوں سے نجات دلائے گا۔ “لٹزمان، جو الٹرا آرتھوڈوکس یونائیٹڈ تورہ یہودی پارٹی کے سربراہ ہیں، اسرائیل میں بنجامن نیتن یاہو حکومت کے ایک اہم رکن مانے جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہودی عقیدے کے مطابق، مسیحا داؤدی نسل سے تعلق رکھنے والا مستقبل کا یہودی بادشاہ ہو گاجو اسرائیل کو کسی بڑی تباہی سے بچائے گا۔ یہودی عقیدے کے تحت یہ مسیحا ”ایک نجات دہندہ ہے جو اختتام پر ظاہر ہو گا اور خدا کی بادشاہی میں داخل ہوگا“۔ یہودیوں کا ماننا ہے کہ مسیحاکی آمد قیامت سے پہلے ہی دنیا کو آخری مرحلے کی طرف لے جائے گی۔اسرائیل کے وزیر صحت کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیل میں کوروناوائرس سے متاثرہ افراد کی تعدادمیں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے اوراسرائیل میں کم سے کم 8 اپریل تک لاک ڈاؤن کے اعلان کے باوجود اموات بڑھتی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ عبرانی کیلنڈر کے مطابق آمد بہار کا تہوار فسح اس سال آٹھ اپریل سے سولہ اپریل تک جاری رہے گا۔فسح کا تہوار یہودیوں کے کیلنڈر میں سب سے اہم تہواروں میں سے ایک ہے۔ یوں تو بہت سی مختلف روایات اس تہوار سے منسوب ہیں اور یہ یہودیوں کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے تاہم اس کا نام دسویں صدی سے چلا آرہا ہے اور یہ واقعہ عبرانی بائبل میں ملتا ہے۔
تقریباً اس سے ملتے جلتے خیالات ہی راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ کے کارکنان کے مابین بھی زیر بحث ہیں۔ایب سولیوٹ انڈیا کے قومی بیوروچیف جنہیں سنگھی ہونے پر فخر ہے جبکہ انہوں نے اکنامک ٹائمس کے ساتھ سہارا ٹائمس میں بھی کام کیا ہے اپنے ایک فیس بک پوسٹ میں لکھتے ہیں ’’ دھاوی سے موسوم سنوتسر ختم ہوچکا ہے اور پری دھاوی کے بعد پرمادی کا سنوتسرشروع ہورہا ہے جو ہمارے لئے خوشیاں لائے گا‘‘ ۔راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ اس گھڑی میں بھی جس اطمینان سے بیٹھا ہے اور بی جے پی لیڈران جس اطمینان کے ساتھ رامائن دیکھ رہے ہیں سوشل میڈیا پر یہ تصویریں وائرل ہورہی ہیں۔
اب معاملہ اس امت کا ہے جس کے پاس سب کچھ ہوتے ہوئے بھی خواب غفلت کا شکار ہوئے بیٹھی ہے۔میڈیا اسکین کے احباب نے ایک پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’’کرونا وائرس کے بعد والی دنیا موجودہ دنیا سے بالکل مختلف ہو گی کیونکہ کرونا وائرس کے ذریعے ہمیں ایک نئے دور میں دھکیل دیا جائے گا۔یہ دنیا کیسی ہو گی آیئے دیکھتے ہیں۔
1۔لوگوں کو کنٹرول میں رکھنے اور باہر نکلنے سے روکنے کے لئے قرنطینہ میں رکھا جانا۔
2۔5G ٹیکنالوجی کی آمد۔
3۔معاشی تباہی۔
4۔انسانوں پر سرویلنس یعنی نظر رکھنا۔
5۔جبری ویکسی نیشن۔
6۔ڈیجیٹل کرنسی کا آغاز۔
8۔RFID چپ لازمی شرط۔
9۔خوف کے زیر اثر لوگوں کے رویے کو جانچنا۔
ان میں سے کچھ مقاصد حاصل کر لیے جائیں گے باقی آنے والے چند سال میں بہت جلد حاصل کیے جائیں گے۔لوگوں کو آفات کے وقت گھروں اور کیمپوں میں بند رکھا جائے گا۔اس وائرس کی وجہ سے کرنسی نوٹ ختم کیے جائیں گے تاکہ وائرس نہ پھیل سکے۔نہ چاہتے ہوئے بھی حکومتیں مجبور ہوںگی۔یہ سب کیسے ممکن ہوگا؟اس کو کامیاب کرنے کیلئے 5G ٹیکنالوجی ضروری ہے جو انتہائی تیز رفتار ہے۔اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔اس لئے اس کو اسکے نقصانات کے باوجود لایا جائے گا۔اگر یہ وائرس زیادہ دیر چلتا ہے تو دنیا کی معیشت کا بیڑہ غرق ہو جائے گا اور ایک نئے معاشی نظام کی ضرورت ہو گی۔5G کے ساتھ انسانوں کی سرویلنس کی جائے گی۔یعنی ہر انسان پہ نظر رکھی جائے گی۔لوگوں کو زبردستی ویکسین دی جائے گی جو مزید بیماریاں لائے گی اور دوائیوں کا کاروبار مزید پھیلے گا۔کرنسی نوٹوں سے یہ وائرس پھیلتا ہے تو لازمی طور پہ انکو ختم کرنا پڑے گا۔اسکے لیے ڈیجیٹل کرنسی لانچ کی جائے گی۔یعنی آپ اپنے پیسوں کے مالک تو رہیں گے لیکن اپنی جیب میں نہیں رکھ سکیں گے۔اس طرح حکومتوں کے لئے آپ کو کنٹرول کرنا اور بھی آسان ہوگا جب چاہیں آپ کو آپ کے پیسوں سے محروم کر دیں۔سب سے خوفناک بات کہ مائکروچپ لگوانی لازمی قرار دی جائے گی جس کے بغیر آپ کوئی خریداری نہیں کر سکیں گے۔یاد رہے یہ چپ ہی آپ کا سب کچھ ہو گی لیکن یہ صرف چپ ہی نہیں ہےاس کے ذریعے آپکا دماغ کنٹرول کیا جائے گا۔خوف کے زیر سایہ لوگ کیسے رویہ اپناتے ہیں اس لحاظ سے قوانین بنائے جائیں گے۔یہ دور جو بس آیا ہی چاہتا ہے اس قدر بھیانک ہے کہ انسان کی سوچ بھی وہاں تک نہیں جاتی۔انسان کو انسان کی غلامی میں دینے اور پھر دجال کی غلامی اور دجال کے ذریعے شیطان کی غلامی میں دھکیل دینے کا پورا پورا انتظام۔یہ وائرس تو ختم ہو ہی جائے گا لیکن اسکے بعد جو قوانین بنیں گے وہ غلامی کا ایک تاریک دور ہو گا۔شاید اس حدیث کے پورا ہونے کا وقت آیا چاہتا ہے جب مسلمان قبر کو دیکھ کر کہے گا کہ کاش میں اسکی جگہ قبر میں ہوتا۔حدیث میں ہے کہ مسلمانوں پہ بھی ضرور پہلی امتوں جیسے حالات پیش آئیں گے۔اب جو پچھلی امتوں پہ حالات آئے ان سے ہم سب واقف ہیں۔یہ ہو کر رہے گا۔حدیث کا پورا ہونا لازم ہے۔‘‘
دانش ریاض معیشت میڈیا کے منیجنگ ایڈیٹر اور معیشت اکیڈمی کے ڈائریکٹر ہیں۔

Comments