غلام غوث، بنگلور
ہم مسلمانوں کی یہ عادت ہے کہ ہم لوہے پر اس وقت ہتھوڑا نہیں چلاتے جب وہ گرم رہتا ہے مگر ٹھنڈے لوہے پر ہزاروں ہتھوڑے چلاتے ہیں۔نتیجہ یہ کہ لوہا ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ دھلی کا شاہین باغ، بنگلور کا بلال باغ اور دیگر ریاستوں کے ایسے ہی باغ میرے خیال میں ٹھنڈے لوہے پر ہتھوڑے چلانے جیسا ہے۔جو عورتیں، بوڑھے اور بچے دھوپ اور ٹھنڈ میں اپنے گھر بار چھوڑ کر بھوکی پیاسی اس ملک کے دستور کو بچانے، ملک کی سالمیت کو برقرار رکھنے اور عوام کو پریشانیوں سے بچانے کے لئے ین پی آر، ین آر سی اور سی یے یے کے خلاف جد و جہد کر رہی ہیں وہ ضرور قابل تعریف ہے مگر سوچنا یہ ہے کہ ہم ایسا کر نے پر کیوں مجبور ہوے؟ 1947 سے لے کر آج تک ہماری عورتیں کبھی اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایسا احتجاج نہیں کیا جو وہ آج کر رہے ہیں۔ہر ایک کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ ین پی آر، ین آر سی اور سی یے یے جیسے قانون جو حکومت نافذ کر نا چاہتی ہے اس سے ہر کسی کو اور خصوصاًمسلمانوں، دلتوں، عیسائیوں، سکھوں اور بچھڑے طبقات کو کتنی پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔پچھلے تین مہینوں سے یہ موضوع ہر اخبار، ہر ٹی وی چینل اور ہر جلسے اور ہر تقریر کا خاص موضوع بن چکا ہے۔ہر کوئی پریشان ہے۔ہم آزاد ہندوستان میں ایسی جد و جہد کرنے کا اندازہ بھی نہیں کر تے تھے اور نہ ہی ہمیں اس کی عادت تھی۔ کبھی کبھی شرم سی محسوس ہو تی ہے کہ ہماری بہنیں تو سردی اور گرمی میں اپنے گھروں سے دور احتجاج کر رہی ہیں مگر ہم کیا کر رہے ہیں۔ہم خواب و خیال میں بھی سوچ نہیں سکتے تھے کہ ہزاروں سال سے اس ملک میں رہنے کے باوجود ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ ہمیں یہ بتانا پڑے گا کہ ہم اس ملک کے شہری ہیں کہ نہیں اور یہ بھی ثابت کر نا ہو گا کہ ہم اس ملک کے وفادار ہیں بھی یا نہیں۔اور ثابت بھی اْن لوگوں کے سامنے کر نا ہو گا جنہوں نے اس ملک کی آزادی کے لئے ایک قطرہ خون تو کیا ایک قطرہ پسینا بھی نہیں بہایا۔ یہ لوگ صرف لفاظی کر رہے ہیں اور دوسروں پر وہ الزام لگا رہے ہیں جو خود ان پر لگنے چاہیے تھے۔یہ لوگ پتھر دل ہو چکے ہیں اور اب یہ بدلنے والے نہیں ہیں اور ان کی دشمنی کم ہونے والی نہیں ہے۔ اقتدار کا نشہ اتنا زیادہ چڑھ چکا ہے کہ بی جے پی کسی بھی مشورے کو سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔ ایسے لوگ جو ہر بات میں شری رام کی دھائی دیتے ہیں وہ اگر شری رام کے سچے بھگت ہو تے تو اس ملک میں رام راج قائم کر تے جہاں چاروں طرف امن و امان ہو تا، محبت اور انصاف ہو تا،بدلے کی ذہنیت نہ ہو تی، لنچنگ اور گولی مارنے کی بات نہ ہو تی اور ایسے قوانین نہ نافذ ہو تے۔ اب سوچنا یہ ہے کہ کیا سیکولر ازم کی مخالفت کر نے والے سچ مچ رام کے بھگت ہیں یا سب کچھ دکھاوا ہے اور اقتدار میں رہنے کی کوشش ہے۔مجھے امید ہے کہ یہ لوگ جو صرف سیاسی اقتدار حاصل کر نا چاہتے ہیں تو وہ ضرور ایک نہ ایک دن نفرت اور بدلہ کی بھاونہ کو چھوڑ کر شری رام کے سچے بھگت بننے کی کوشش کریں گے اور ملک میں رام راج قائم کریں گے۔ آج کل کے حالات کو دیکھ کر یہ کہنا پڑے گا کہ 2014سے پہلے جو حکومتیں تھیں وہی رام راج تھیں۔ اگر کسی ملک یا ریاست میں حاکم کوئی اللہ والا یا یوگی یا مٹھ کا سوامی ہو جائیں تو وہاں امن و اما ن اور انصاف کو قائم ہو نا یقینی سمجھا جا تا ہے مگر یہ کئسے اللہ والے ہیں جو خون خرابہ، بدلے اور انتقام کی باتیں کر تے ہیں۔ آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے مدھیا پردیش کے لیڈر مسٹر پانڈے صاحب کا کہنا ہے "ہمارے کاری کرتا ہندوستان کے ہر شہر اور اور قریہ میں موجود ہیں اور ہندوں کو ہندتوا کے نام پر متحد کر تے ہیں مگر کبھی ووٹوں کے بٹوارے کی نہیں سوچتے۔ مگر چونکہ بی جے پی اس سلسلہ میں آگے تھی ہم نے اس کا ساتھ دیا اور خاموشی اختیار کر لی۔ مگر اب ہم نے محسوس کیا کہ ان کا ہندتوا راج نیتی سے شرو ع ہو کو راج نیتی پر ختم ہو جاتا ہے تو ایسے میں ہمیں لگا کہ اگر ہم اب خاموش ہوے تو سچ مچ کا جو ہندتوا ہے وہ ختم ہو جائے گا۔اس لئے ہم نے سوچا کہ ہمارا مقصد راشٹرواد ہے اور ہندوتوا ہے۔ بھارت ہے تو دھرم ہے اور دھرم ہے تو بھارت ہے اور اب ہم اسی مقصد کو لے کر آگے بڑھیں گے۔جب کشمیر سے دفعہ 370 ہٹا لی گئی تو ہم نی اس کی خوب تعریف کی مگر رام جنم بھومی پر عدالت کا فیصلہ آیا تو اس کا سہرا بی جے پی نہیں لے سکتی کیونکہ یہ مقدمہ 1948 میں ہندو مہا سبھا لڑ رہی تھی۔ مگر بعد میں مسٹر اڈوانی اور دوسرے بی جے پی اور آر یس یس کے لیڈروں نے ہم سے مل کر کہا کہ آپ تو رام جنم بھومی کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ایسے میں اگر ہم اس مدعے کا راج کرن کر دیں گے تو ہماری حکومت قائم ہو جائے گی اور جیت کر رام مندر بنا دیں گے۔اس پر ہم خاموش ہو گئے اور انہیں اپنی چھاتی پر بٹھا کر رتھ یاترا نکلوائی اور اس میں 15کروڑ روپیے بھی ملے جو ہم نے انہیں دے دیا۔ مگر آج تک ان لوگوں نے ہمیں ان روپیوں کا حساب نہیں دیا۔اصل میں ان کے دو چہرے ہیں اور ہندوتوا ان کا مقصد نہیں ہے۔ اس خطرے سے ہندوتوا کو بچانے کے لئے ہم ہندو مہا سبھا کے تمام سادھو سنت اور نوجوانوں نے طئے کر لیا ہے اور ایک ابھیان شروع کر دیا ہے جو اب رکنے والا نہیں ہے۔ " یہ بات نہ کسی اخبار میں آئی اور نہ ہی کسی ٹی وی چینل پر۔ بھلا ہو سوشیل میڈیا کا جس کے ذریع یہ بات پھیل گئی۔اب ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ کیا ہم شاہین باغ جیسے احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں تو کیا وہ ہماری پچھلی غلطیوں اور کاہلی اور آپسی افرا تفری کی سزا ہے جو ہمارا اللہ ہمیں دے رہا ہے اور ہمیں تکلیف دے کر سمجھا رہا ہے؟ آج لوک سبھا میں فرقہ پرستوں کے 340یم پی ہیں اور صرف بی جے پی کے 303 ہیں۔حالانکہ 2019 کے الیکشن سے پہلے تمام سیکولر پاڑٹیوں کا گٹھ بندھن بن چکا تھامگربی جے پی نے عین الیکشن کے قریب پلواما اور سرجیکل اسٹرئیک اور نیشنل ازم جیسے جذباتی مدعے اْٹھا دیے اور ووٹوں کا polarization ہو گیا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمانوں کا ووٹ balancing ووٹ ہے مگر 2014 اور 2019کے الیکشن نے ثابت کر دیا کہ یہ بات سچ نہیں ہے۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ قریباً 82سیٹوں پر فرقہ پرستوں نے پانچ سے دس ہزار ووٹوں کی بڑھت سے جیت درج کی ہے۔ اس جیت کے لئے ہم مسلمان بھی ذمہ دار لگ رہے ہیں ہر ریاست میں ہم مسلمانوں کا ووٹنگ فیصد 40سے 50 رہا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہم 100 میں سے صرف 40 یا 50 مسلمانوں نے ووٹ ڈالا ہے۔ باقی سب اپنے گھروں میں بیٹھے رہے۔ پچھلے 70 سالوں سے ہماری یہی کوتاہی رہی ہے۔ یا تو ہم ووٹ ڈالنے کے لئے نہیں جاتے یا ہم کچھ ووٹ آزاد امید واروں یا دوست امید واروں کو دے کر ہمارے دو سے دس ہزار ووٹ بیکار کر دیتے ہیں۔ 40 فیصد ووٹوں میں دس فیصد ووٹ نہ جیتنے والے امیدواروں کو دے کر ووٹ ضائع کر دیتے ہیں۔ اگر ہر الیکشن میں سب کے سب باہر نکل کر ووٹ کر تے تو ہمارے ووٹ دگنے ہو جاتے اور ہم جسے ووٹ دیتے وہ کامیاب ہو جاتے۔جن لوگوں نے کچھ روپیے لے کر ووٹ ڈالے اور فرقہ پرستوں کو جتا یا وہ آج کئی گنا مصیبت میں مبتلا ہیں۔اگر 2019 کے الیکشن میں ہم باہر نکل کر گٹھ بندھن کے سیکولر امید واروں کو ووٹ ڈالتے تو بی جے پی کے 210 امیدواروں سے زیادہ کامیاب نہ ہو تے اور آج ہم اس مصیبت میں مبتلا نہ ہوتے۔ نہ بارش، سردی اور گرمی میں ہماری عورتیں، بوڑھے اور بچے بیٹھنے پر مجبور ہو تے، نہ احتجاج ہو تے، نہ نعرے بازی ہو تی اور نہ ہی جذباتی تقریریں ہوتیں۔ آج جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ہماری بھی غلطی اور کوتاہی ہے۔ اگر سب باہر نکل کر ووٹ ڈالتے تو بی جے پی کامیاب نہ ہو تی، سی یے یے اور ین سی آر نہ ہو تا اور شاہین باغ جیسا احتجاج بھی نہ ہو تا۔ ایک طریقہ سے ایسا کر کے اللہ نے ہمیں متحد ہونے اور ہوشیار ہونے کے راستے کھول دیے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے الیکشنوں میں ہم 100 فیصد ووٹنگ کر تے ہیں یا دوبارہ تکلیف اٹھا تے ہیں۔ شاہین باغ جیسے احتجاج آج ختم ہو جائیں گے اگر حکومت کے ذمہ دار آکر ان سے بات چیت کریں اور ان کے مطالبات پورے کریں۔وارث پٹھان جیسے جذباتی اور کم عقل لوگوں کو اسٹیج پرآنے نہیں دینا چاہیے۔ آج کل جو کچھ دھلی میں ہو رہا ہے وہ برہمن واد اور سیکولرواد کی لڑائی ہے جس کا فائیدہ غنڈے اور موالی اٹھا کر سیکولر وادیوں کو لوٹ رہے ہیں اور ان کا جانی اور مالی نقصان کر رہے ہیں۔ ان غنڈوں کو روکنے کے لئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا ہو گا اور پولیس کے آنے تک مدافعت کر نا ہو گا اور خود کو بچانا ہو گا۔ دلت جو ان غنڈوں کے اشاروں پر کام کرتے ہیں انہیں یقین دلانا ہو گا کہ دوسرا نمبر انہیں کا ہے
فون:9980827221
Comments
Post a Comment