کشمیری مسلمانوں کا درد اور مسلمانوں کی بے حسی

عابد انور

Thumb

  اگست 2019 کالکھا گیا مضمون ہے جب کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا گیا تھا
کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے وہ نہ صرف ملک کے لئے بلکہ پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے کیوں کہ وہاں کے مسلمان کس صورت حال سے دوچار ہیں، ان پر کیا گزر رہی ہے، کتنے لوگ مرچکے ہیں، کتنے زخمی ہیں، کتنے بیمار ہیں، کتنی مسلم خواتین اور بچیوں کی آبرو لٹ چکی ہے ہمیں کچھ نہیں معلوم۔ صرف اندازہ لگاجاسکتے ہیں، تصور کرسکتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے اور کس طرح کے حالات سے کشمیری مسلمان دوچار ہورہے ہوں گے۔ جب بھی فوج کسی جگہ تعینات کی جاتی ہے، یا دھاوا بولتی ہے خاص طور پر جب اسے خصوصی اختیارات حاصل ہوتو وہ کیا کرتی ہے، لوگوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے، مردوں کے ساتھ کس طرح بے رحمی سے پیش آتی ہے عورتوں کی آبروریزی کرتی ہے، لڑکیوں کی عصمتوں کو پامال کرتی ہے یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ کیا یہ سب کشمیر میں نہیں ہورہا ہوگا؟ ہمیں نہیں معلوم، اللہ کرے ایسا وہاں کچھ نہ ہورہا ہو، وہاں کے مسلمان پر ایسا کچھ نہ گزرے جس کے تصور سے ہی روح کانپ جاتی ہے۔ہر مسلمان کی خبر خیری ہر مسلمان کے لئے لازم ہے اور کوئی بھی مسلمان اس وقت تک کامل مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک یہ چیزیں ان کے اندر نہ ہو۔ مسلمانوں کو جسم کے اعضا سے تشبیہ دی گئی ہے جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا عضو تکلیف محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح جب ایک مسلمان کو تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف کو دوسرا مسلمان محسوس کرتا ہے۔اسی درد کو اموی خلیفہ نے محسوس کیا تھا اور راجہ داہر کی مملکت سے اپنے قیدی مسلمانوں کو آزاد کرانے کے لئے محمدبن قاسم کو سندھ بھیجا تھا۔ اس طرح کی سیکڑوں مثالین ہماری مسلم تاریخ کا حصہ ہیں اور اسی پر فخر کرتے ہوئے ہم اپنے شاندار ماضی کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں لیکن کیا اس طرح کے حذبات، احساسات، خیالات اور سلوک مسلمانوں میں پائے جاتے ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نہیں پائے جاتے تو ہم پھر کیسے مسلمان ہیں، فلسطین، میانمار، کشمیر، شام، عراق اور دیگر ممالک میں مسلم بیٹیوں کی عزت لٹتی رہی اور ہم آرام سے مرغ بریانی کھاکر صرف مذمت کرتے رہے، کیا ہم سچ مچ مسلمان ہیں، کیا ہمارے اندر اسلام نام کی کوئی چیز ہے۔ کیا اسلامی اقدار کا ذرہ برابر بھی رمق ہم میں بچا ہے۔ اگر بچا ہے تو ہم نے (ہندوستانی، عرب اورمسلم  ممالک کے مسلمانوں) مسلم بیٹیوں کی عزت اور ناموس کو بچانے کے لئے کیا کیا ہے۔ہندوستان میں مسلم خواتین کی آبروریزی کی جارہی ہے، مردوں کو کبھی گائے نام پر، کبھی لو جہاد کے نام پر، کبھی گھر واپسی کے نام اور اب جے شری رام کے نعرے نہ لگانے کے نام پر قتل کیا جارہاہے، کیا ہم نے کبھی اس کے سدباب کے لئے کچھ کیا، کیا حکومت وقت کے پاس اپنی آواز شدت، وزن اور ویژن کے ساتھ پہنچائی۔ اگر اس کا جائزہ لیتے ہیں تو ان سب کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ تو ہم کس طرح کے مسلمان ہیں یا عرب ممالک میں مسلمان رہتے بھی ہیں یا نہیں ہیں کیوں کہ کبھی ان کو مسلمانوں کے تئیں دردمحسوس کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ان کو تو عیاشی سے فرصت ہی نہیں ہے، لڑکی سپلائی کرکے ان سے کوئی بھی اسلام دشمن کام کرایا جاسکتا ہے، وہ مسلمانوں کا قتل عام بھی کرسکتے ہیں، مسلم دشمن اور مسلمانوں کے قتل عام کرنے والوں کو اعزاز بھی دے سکتے ہیں یہ کیسے مسلمان ہیں۔ ہمیں یہ سنجیدگی سے سوچنا چاہئے کہ عرب ممالک میں مسلمان بستے بھی ہیں یا نہیں۔ مسلمانوں کی شکل میں یہودی نصاری ہیں، صیہونی ہیں۔ اگر وہ مسلمان ہوتے تو مسلمانوں کی مدد ضرور کرتے، مسلمانوں کا درد ضرور محسوس کرتے۔اس لئے کشمیر کے مسلمانوں پر خاموشی ان کے مسلمان ہونے کی نفی کررہی ہے۔ 
کشمیر میں گزشتہ پانچ اگست سے پہلے کشمیر میں بڑی تعداد میں فوجیوں اور نیم فوجی دستوں کی تعیناتی، کرفیو کے حالات، دفعہ 144کا نفاذ، تمام لوگوں کو گھر میں قید کردینا، وہاں رہنے والے دوسرے لوگوں کو نکال لینا،تمام سیاسی، سماجی اور دیگر رہنماؤں کو قید کردینا، رابطے کی تمام چیزیں لوگوں کی آمد ورفت، لینڈ لائن فون، موبائل انٹرنیٹ خدمات کو پوری طرح بند کردینا یہ سب دکھاتا ہے کہ وہاں کچھ اچھا نہیں ہورہا ہے اور حکومت عوام سے اور دنیا سے سب کچھ چھپانا چاہتی ہے اور چھپاتی وہی ہے جو دکھانے کے لائق نہیں ہوتی، جس سے ذلیل و خوار ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ بقول حکومت کے وہاں کے لوگ جشن منارہے ہیں تو سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی انسان کرفیو اور سنگینوں کے سائے میں کیوں کر جشن مناسکتا ہے۔ جشن تو آزاد فضا میں منایا جاتا ہے۔ جو کشمیر میں جانا چاہتے ہیں اسے کشمیر میں جانے نہیں دیا جارہا ہے، رابطے کی کوئی چیز باقی نہیں رکھی گئی ہے اور تمام خدمات بند ہیں۔ وہاں کے بارے کوئی کیسے جان سکتا ہے۔وہاں کے اخبارات بند ہیں۔ اخبارات میں کام کرنے والے صحافی بند ہیں یا ان کو عضو معطل بناکر رکھ دیا گیا ہے۔ ایسی صورت میں امید تھی کہ مسلم ممالک کے مسلمان کشمیری مسلمانوں کی خبرگیری ضرور کریں گے۔ اس بے حسی پر ڈوبچے ویلے نے ایک مبسوط رپورٹ ”مسئلہ کشمیر: اہم مسلم ممالک کس کے ساتھ کھڑے ہیں؟“ شائع کی ہے اسے ہم ان کے شکریہ کے ساتھ پیش کر رہے ہیں۔ ”سعودی عرب، ایران، ترکی، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور عمان کو اسلامی دنیا کے اہم ممالک تصور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کون سا ملک اس وقت کس کے ساتھ کھڑا ہے؟ جانیے کون سا مسلمان ملک بھارت کا کیوں ساتھ دے رہا ہے؟کشمیر کی صورت حال کے حوالے سے خلیج کے تقریبا سبھی عرب ممالک خاموش ہیں۔ اس خاموشی کی سب سے بڑی وجہ ان مسلمان ملکوں کے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط ہیں۔ بھارت جزیرہ نما عرب کا انتہائی اہم اقتصادی پارٹنر ہے اور ان ممالک کے ساتھ سالانہ ایک سو ارب ڈالر سے زیادہ کی تجارت کرتا ہے۔علاقائی حوالے سے سب سے اہم اسلامی ملک سعودی عرب نے صرف اتنا کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو تحمل سے حل کیا جائے اور وہ اس حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔ جبکہ کویت، قطر، بحرین اور عمان جیسے دیگر خلیجی ممالک نے ابھی تک کوئی ایک بھی بیان جاری نہیں کیا۔متحدہ عرب امارات نے تو ان ممالک سے بھی ایک قدم آگے جاتے ہوئے بظاہر بھارت کا ساتھ دیا۔ متحدہ عرب امارات کے مطابق کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی بھارت کا اندرونی معاملہ ہے۔ کشمیر کی صورتحال کے حوالے سے پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے حالیہ دنوں میں نہ صرف سعودی عرب بلکہ بحرین کے رہنماؤں سے بھی رابطہ کرتے ہوئے مدد کی اپیل کی تھی لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ان ممالک نے عمران خان کو کیا جواب دیا تھا۔دریں اثناء سعودی عرب نے ابھی تک کشمیر میں فوجی کرفیو یا کمیونیکیشن بلیک آوٹ کے حوالے سے کوئی براہ راست بیان جاری نہیں کیا۔ صرف یہ کہا گیا ہے، ''سعودی عرب موجودہ صورتحال پر نگاہ رکھے ہوئے ہے اور بین الاقوامی قراردادوں کے مطابق اس کا پرامن حل چاہتا ہے۔“خلیجی ممالک کی خاموشی کی ایک وجہ ان ممالک میں کام کرنے والے بھارتی شہری بھی ہیں۔ ان ممالک میں سات ملین سے زیادہ بھارتی شہری ملازمت کرتے ہیں، جن میں ڈاکٹر، انجنئیرز، اساتذہ، ڈرائیور اور مزدور شامل ہیں۔ سب سے زیادہ بھارتی متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ سن دو ہزار اٹھارہ میں یو اے ای اور بھارت کے درمیان 50 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی اور اس طرح بھارت اس مسلمان ملک کا دوسرا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔متحدہ عرب امارات میں بھارت کی سرمایہ کاری تقریبا 55 ارب ڈالر ہے اور دبئی رئیل اسٹیٹ مارکیٹ میں سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری بھی بھارتی شہریوں کی ہی ہے۔ دبئی کا عالمی پورٹ آپریٹر ادارہ ڈی پی ورلڈ بھارتی زیرانتظام کشمیر میں لاجسٹک حب کا قیام بھی چاہتا ہے۔بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سفیر احمد البنا کا مقامی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ''کشمیر میں تبدیلی سے سماجی انصاف اور سکیورٹی میں بہتری پیدا ہو گی۔“انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ 'گلف-انڈین تعلقات‘ کے ماہر حسن الحسن کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کشمیر میں ویسے تو سعودی عرب، ترکی اور ایران تینوں ہی اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتے ہیں لیکن صرف ترکی ہی ابھی تک کشمیریوں کی کھل کر حمایت کرتا آیا ہے۔ترکی کی بھارت کے ساتھ سالانہ تجارت کا حجم سات ارب ڈالر ہے لیکن اس نے اپنا سارا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ عمران خان اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے درمیان ہونے والی گفتگو میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی کھل کر حمایت کی گئی ہے۔ایران نے اپنے ملک میں صرف ایک علامتی سے احتجاج کی اجازت دی۔ تہران میں بھارتی سفارت خانے کے باہر احتجاج میں تقریبا ساٹھ طالب علم شریک تھے۔پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی سے اتوار گیارہ اگست کے روز ٹیلی فون پر بات کی۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور اسے سفارتی طریقوں ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ 'کشمیر کے متنازعہ علاقے کے شہریوں کو قانونی حقوق اور پر امن زندگی کا حق حاصل ہونا چاہیے‘۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایران کی طرف سے اتنا بیان بھی شاید اسی وجہ سے دیا گیا ہے کیوں کہ بھارت نے امریکی دباؤ کی وجہ سے ایرانی تیل خریدنا کم کر دیا ہے۔ایران کے برعکس سعودی عرب میں تقریبا ستائیس لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں اور سعودی عرب عراق کے بعد بھارت کو خام تیل سپلائی کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے۔کشمیری نڑاد امریکی پروفیسر اور جنوبی ایشیائی امور کی ماہر حفصہ کنجوال کے مطابق خلیجی ممالک اس وجہ سے بھی کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چپ ہیں کہ ان ممالک میں خود انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''کشمیر حق خود ارادیت کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور جمہوریت سے منسلک ہے۔ خلیجی ممالک اور اسرائیل نہ صرف اس کے بہت زیادہ خلاف ہیں بلکہ اس حوالے سے محتاط بھی ہیں۔“

Comments