ہمیں کورونا کا خوف نہیں پولیس کی دہشت گردی کا خوف ہے

عابد انور

Thumb

نئی دہلی،19مارچ (عابد انور) طرح طرح کی دھمکی، فائرنگ، گالی گلوج، مقدمہ، اٹھالینے کی دھمکی اور طرح طرح کے حربے کو آزمانے کے بعد اب قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف شاہین باغ خاتون مظاہرین کے ہمدردو ں کو پولیس نے طرح طرح سے پریشان کرنا شروع کردیا ہے اور اسی ضمن میں متعدد لوگوں کو تھانے بلاکر پریشان کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ شاہین باغ خاتون مظاہرین اور اس کے ہمدردوں کو مظاہرہ گاہ سے دوررکھا جائے اور خوف کی وجہ سے خواتین اور مرد مظاہرہ سے دور ہوجائیں اور پھر آرام سے مظاہرہ کو اکھاڑ پھینکا جاسکے۔
لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں خواتین اور ان کے گھر والوں پر تشدد اور شاہین باغ خاتون مظاہرین کے ہمدردوں کو پولیس کے ذریعہ پریشان کرنا یہ ظاہر کرتا ہے ہندوستان میں مسلمانوں کو مظاہرہ کرنے کا جمہوری حق بھی انتظامیہ چھین لینا چاہتی ہے۔ 

کیا ہندوستان میں کوئی قانون نہیں ہے، سپریم کورٹ بھی کمبھ کرن کی نیند سورہا ہے یا صرف بی جے پی کے مفادات کی تکمیل کے لئے ہے، انسانی حقوق کمیشن نام کا کوئی ادارہ ہندوستان میں ہے؟ محکمہ بہبود خواتین و اطفال نام کی کوئی چڑیا اس ملک میں ہے؟،وزارت انصاف جیسا نمونے کا کوئی وجود ہے۔ جس طرح پورا ملک پولیس اسٹیٹ میں بدل گیا ہے، قانون اور امن نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ اترپردیش میں جب سے یوگی کی حکومت آئی ہے اس وقت سے قانون و امن کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے۔ اترپردیش میں ہی 22 لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے اور قاتلوں کو سزا دینے کے بجائے مقتولوں سے ہرجانہ وصول کرنے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ 
گھنٹہ گھر میں خاتون مظاہرین کس قدر پولیس کی بربریت اور ظلم و تشدد اذیت رسانی سے تنگ آچکی ہیں اس کا اندازہ خواتین کے مظاہرے میں کفن باندھ کر  آنے سے لگایا جاسکتا ہے۔ وہاں مسلم خواتین  کفن باندھ کرمظاہرہ میں شامل ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مرنا تو ہے ہی چاہے گھر میں مرے یا حراستی کیمپ (ڈیٹنشن سنٹر میں)۔ اگر ہم نے کفن نہیں باندھا تو اور لڑائی نہیں لڑی تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ کیوں کہ اس قانون کا اثر سب سے زیادہ خواتین پر ہی ہوگا۔ خواہ وہ مسلم ہوں یا دیگر مذاہب کی خواتین ہوں۔
گھنٹہ گھر میں ہر دو سرے تیسرے دن پولیس کی وحشیت و بربریت کا معاملہ سامنے آتا ہے۔ گزشتہ 17اور 18  مارچ کو بھی پولیس نے خواتین پر دھاوا بول دیا۔ خاتون پولیس کے بجائے مرد پولیس نے خواتین پر حملہ کیا اور لاٹھی چارج کرکے متعدد خواتین کو زخمی کردیا۔ ایک حاملہ خاتون کے پیٹھ پر لاٹھی ماری جسے درد سے بلبلاتی ہوئی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ متعدد خواتین بے ہوش ہوگئی ہیں۔ ان خواتین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پولیس نے ہمیں لاتوں اور جوتوں سے مارا۔ یہاں تک کے خواتین کے پیٹ پر بھی لاتوں اور جوتوں سے مارا۔ ان خواتین کا الزام ہے کہ پولیس یوگی کے اشارے پر ہم پر ظلم کر رہی ہے اور اسے کسی قانون کا خوف اور نہ ہی لحاظ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یوگی حکومت تمام قانون سے اوپر اٹھ چکی ہے اور اس کا ہر قدم ہی قانون ہے۔ اس کی تازہ مثال الہ آباد ہائی کورٹ کا ہورڈنگ ہٹانے حکم ہے اور جس پر یوگی حکومت نے اب تک عمل نہیں کیا ہے۔
ان خاتون مظاہرین نے اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہاکہ سخت سردی کے موسم اور بارش کے دوران بھی یوپی نے ٹینٹ لگانے نہیں دیا۔ موسلا دھار بارش کے دوران خواتین بھیگتی رہیں اوربھیگنے کی وجہ سے  خاتون مظاین میں سے ایک 55  فریدہ خاتون کا انتقال ہوگیا لیکن کوئی سائبان لگانے نہیں دیا۔ ایک خاتون کو پولیس نے گالی دیتے ہوئے اس کے بچے کی طرف اشارہ رکرتے ہوئے کہاکہ یہ جہاں سے نکلا ہے وہیں اسے گھسیڑ دوں گا۔ ایک داروغہ نے خواتین کو دھمکی دیتے ہوئے کہاکہ اگر یہا ں سے (گھنٹہ گھر احتجاج سے) نہیں ہٹوگی تو تمہارے بچوں کو اٹھالیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں کورورنا کا خوف نہیں بلکہ پولیس کی دہشت گردی کا خوف ہے۔جس ہم مسلسل شکار ہورہے ہیں۔ 

لکھنؤ کے گھنٹہ گھر میں گزشتہ دو ماہ سے کھلے آسمان، سخت سردی، بارش، موسم کی مار اور اولے کے ساتھ یوگی پولیس کی بربریت کا سامنا کرنے والی ہم اپنی ماؤں بہنوں کو سلام کرتے ہیں۔ آپ کی قربانی ضائع نہیں جائے گی اور جب بھی احتجاج کی تاریخ لکھی جائے گی آپ لوگوں کا نام سہرے حروف سے لکھا جائے گا۔ آپ ماؤں بہنوں نے جتنی اذیت برداشت کی ہے وہ تمام مسلمانوں پر قرض ہے۔ ہم آپ کا قرض کبھی نہیں اتار سکتے۔آپ نے جس جرات اور ہمت کا مظاہرہ کیا ور جس طرح یوگی اور اس کی پولیس کی اذیت کو ہنستے ہوئے برداشت کیا ہے اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ آپ کا نام حضرت سمیہ، کے ساتھ لکھا جائے گا اور اللہ تعالی ظالموں اور اس کی حکومت کو نیست نابود کرے گااور اس قوم کو بھی نیست نابود کرے گا جو لوگ اس ظالم حکومت کا ساتھ دے رہے ہیں۔ جو ان کے بال و پر بنے ہوئے ہیں۔آج یوگی پولیس نے پھر مسلم خواتین پر حملہ کردیا جس میں پانچ خواتین زخمی ہوگئی اور دیگر بے ہوش ہوگئیں۔مرد پولیس نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے۔پولیس مسلم خواتین کے ساتھ فحش کلمات، بدتمیزی اور بدسلوکی کر رہی ہے۔یہ ہندوستان کی اصلی تہذیب ہے جو  اب نکل کر باہر آرہی ہے۔
انتظامیہ اور پولیس کیبربریت بڑھتی جارہی ہے اسی طرح نئے جوش اور عزم کے ساتھ خواتین اس سیاہ قانون کے خلاف مظاہرہ کر رہی ہیں اور بہار ضلع کٹیہار کے چودھری محلہ  ناصر گنج میں خواتین مسلسل رات و دن مظاہرہ کر رہی ہیں۔ ان کا یہ مظاہرہ گزشتہ 55دن سے جاری ہے اور بہار میں ہی ضلع شیوہر میں شاہین باغ بن گیا ہے وہاں گزشتہ سات دنوں سے مظاہرہ جاری ہے۔ اسی کے ساتھ عمر کھیڑا شاہین باغ میں خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔ چھتیس گڑھ کے بلاسپور میں بھی بڑے پیمانے پر احتجاج جاری ہے۔

 مشرقی دہلی میں سی اے اے کے خلاف مظاہرہ بند ہے لیکن سیلم پور جعفرآباد م میں  شروع ہے۔بہار کے سہسرام میں شاہین باغ بناکر خواتین احتجاج کر رہی ہیں۔اس کے علاوہ اڑیسہ کے بھدرک میں ’شاہین باغ بھدرک‘ بناکر خواتین قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اسی کے ساتھ حضرت نظام میں میں خواتین کا احتجاج  26جنوری سے احتجاج شروع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری احتجاج کررہے ہیں اور 24گھنٹے کا مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ قومی شہریت (ترمیمی) قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف دہلی میں ہی متعدد جگہ پر خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ تغلق آباد میں خاتون نے مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پولیس نے ناکام کردیا۔ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر، ترکمان گیٹ،بلی ماران، لال کنواں، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، بیری والا باغ، آزاد مارکیٹ،جامع مسجدمیں مظاہرہ جاری ہے۔
راجستھان کے میوات میں امروکا باغ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلا ف جاری مظاہرہ جاری ہے۔ اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری، کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور،اودن پور اور ٹونک کے موتی باغ میں خواتین کا احتجاج جاری ہے۔اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہورہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے اور یہاں خواتین بہت ہی عزم کے ساتھ مظاہرہ کر رہی ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال،اجین، دیواس، مندسورکے نیلم باغ، کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔
اترپردیش قومی شہریت(ترمیمی) قانون، این آر سی، این پی آر کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کے لئے سب سے مخدوش جگہ بن کر ابھری ہے جہاں بھی خواتین مظاہرہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں وہاں پولیس طاقت کا استعمال کرتے ہوئے انہیں ہٹادیا جاتا ہے۔ یہاں پہلے الہ آباد میں چند خواتین نے احتجاج شروع کیا تھااب ہزاروں میں ہیں۔خواتین نے روشن باغ کے منصور علی پارک میں مورچہ سنبھالا اور اپنی آواز بلند کر رہی ہیں۔ اس کے بعد کانپور کے چمن گنج میں محمد علی پارک میں خواتین مظاہرہ کررہی ہیں۔ اترپردیش کے ہی سنبھل میں پکا باغ، دیوبند عیدگاہ،سہارنپور، مبارک پور اعظم گڑھ،اسلامیہ انٹر کالج بریلی، شاہ جمال علی گڑھ، اور اترپردیش کے دیگر مقامات پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں۔
abidanwaruni@gmail.com
09810372335

Comments